امام حسین کی شہادت کے بعد شمر اور عمر و سعد لعین اپنے چند سواروں کو لے کر پاک دامن بیبیوں کے خیموں میں جا گھسے جن کے گھرانے کا مقام اور رتبہ اس قدر ہے کہ جبرائیل امین بھی ان کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لیتا ہے جب شمر لائن خیموں کے قریب پہنچا تو سیدہ زینب علیہ السلام نے اس لائن سے کہا اب کیا چاہتے ہو اس نے کہا میں مال و اسباب لوٹنے کے لیے ایا ہوں حضرت زینب نے کہا افسوس اے شمر تجھے دولت کی محبت نے اندھا کر دیا ہم نے نہ پہلے دولت سے محبت کی ہے نہ اب کریں گے جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ تو سب لے لے چنانچہ شمرلین نے خیموں میں گھس گھس کر لوٹ مار شروع کر دی جو کچھ ہاتھ لگا اسے لے لیا ایک تنکا بھی نہ چھوڑا خواتین اہل بیت سے زیور بھی لے لیا یہاں تک کہ بے رحمی کی کہ حضرت سکینہ کے کانوں میں چاندی کی بالیاں تھی وہ بھی اتار لی اس پر یہ وحشانہ پن کیا کہ تمام عورتوں اور لڑکیوں کے سروں سے چادریں بھی اتار لیں اس وقت وہ سب ننگے سر ہو گئی افسوسناک امر یہ ہے کہ کسی غیر نے نہیں بلکہ ان کے قریبی رشتہ داروں نے ہی انہیں لوٹا اور ننگے سر کیا عمر سعد نے اپنے لشکر کو اواز دی کہ جلد خیموں کی تنابیں گرا دو اور حسین علیہ السلام کے خیموں میں اگ لگا دو تاکہ امام حسین علیہ السلام کے سب بچے اور عورتیں جل کر مر جائیں سیدہ زینب فرماتی ہیں کہ میں اس مصیبت پر کھڑی رو رہی تھی کہ ایک ملعون میری طرف ایا اور میرے کانوں کی طرف دیکھا وہ میرے کانوں سے گوشوارے اتار رہا تھا اور رو بھی رہا تھا میں نے اس لائن سے کہا تجھ پر تعجب ہے تو میرا زیور اور میری چادر تو لوٹتا ہے اور روتا جاتا ہے اسے شکی نے جواب دیا کہ میں تم اہل بیت کی بے کسی مصیبت پر روتا ہوں وہ فرماتی ہیں کہ اس وقت میں نے کہا اے ظالم حق تعالی تیرے دونوں ہاتھ پاؤں قطع کرے اور تجھے اتش جہنم سے پہلے اتش دنیا میں جلائے اس کے بعد وہ ملعون اگے بڑھا اور امام زین العابدین کے سرہانے ا کر کھڑا ہو گیا حضرت زین العابدین شدت مرض سے چمڑے کے فرش پر تھے اس بے رحم نے اسے فرش کو بھی اس زور سے کھینچا کہ وہ امام مظلوم منہ کے بل خاک پر گر پڑے اس وقت عمر و سعد ملعون اپنے ساتھیوں سمیت نہایت غرور کے ساتھ خیام حسین میں داخل ہوا جب ان بے کسوں نے اس بے رحم کو دیکھا تو با اواز بلند فریادیں کرنے لگے کہ ہم سب رسول اللہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور ہمارا کوئی وارث باقی نہیں رہا ہمیں بے وارث سمجھ کر تیری فوج نے ہمارے سروں سے چادریں چھین لی ہیں خدا اور رسول کے واسطے ان ظالموں سے کہہ کر ہماری چادریں د** دے کہ ہم غیرت کے مارے مر رہے ہیں پاس عمر و سعد نے ان معزمات کی گرہ زاری دیکھ کر اپنی فوج کو حکم دیا کہ چادریں واپس کر دو حمید کہتا ہے کہ خدا کی قسم عمر و سعد کے کہنے کے باوجود کسی نے چادریں واپس نہ کی اس کے بعد عمر سعد عابد بیمار کی طرف دیکھ کر کہنے لگا اے ظالم و حسین کی اس نشانی کو کیوں زندہ رکھا ہوا ہے اب اس بیمار کو جلد قتل کرو راوی کہتا ہے کہ جب سیدہ زینب نے اس ملعون کا یہ کلام سنا تو تڑپ اٹھی اور دوڑ کر جناب سیدہ زین العابدین سے لپٹ گئیں اور فرمایا اے عمر سعد افسوس تجھ پر کیا ابھی تک تیرا دل ظلم سے بھرا نہیں کہ تو اس بیمار زین العابدین کو بھی قتل کرنا چاہتا ہے اگر تیرا مقصد اس مریض کے قتل کا ہے تو اس سے پہلے مجھے قتل کر کہ میں اس بیمار بھتیجے کا قتل ہوتا نہ دیکھوں عمر سعد خستہ جگر زینب کا حال سن کر شرمندہ ہوا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس بیمار کو کوئی قتل نہ کرے راوی کہتا ہے کہ جب یزید کے لشکروں نے خیموں کو اگ لگائی اور قناعتیں جلنے لگی تو جس طرف قناعت جلتی تھی تو اس طرف سے سب بیبیاں اپنے بچوں کو لے کر دوسری جانب جاتی تھی یہاں تک کہ سب خیمے جل گئے اور کہیں جائے امان نہ ملی ایک عجیب قیامت کا سماں تھا حمید بن مسلم کہتا ہے کہ میں نے ایک بچی کو کہ تین یا چار سال کی ہوگی دیکھا خیمے سے یا اماں یا اقا کی فریاد کرتی ہوئی نکلی اور ایک جانب دوڑی جاتی ہے کانوں سے خون جاری ہے کرتے کے دامن کو اگ لگی ہوئی ہے اور وہ معصوم کمسنی کے باعث اس کو بجا نہیں سکتی بے قرار چاروں طرف دوڑتی ہے وہ اگ اور بھڑکتی ہے یہ حال دیکھ کر کہ میں برداشت نہ کر سکا اور پوچھا اے بچی تو کون ہے اس صاحبزادی نے رو کر فرمایا کہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیٹی سکینہ ہو امام حسین علیہ السلام نے جناب زینب علیہ السلام سے ودا ہوتے ہوئے یہ وصیت کی تھی کہ بہن زینب میری شہادت کے بعد ہمارے بچوں کا بہت خیال رکھنا اور میرے یتیموں پر ماں کی طرح شفقت کرنا جناب زینب فرماتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خیموں کے جلنے اور اسباب کے لٹنے کے وقت ہمارے بھائی کے بچے صحرا میں بکھر گئے میں نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق چاہا کہ ان معصوم بچوں کو ایک جگہ جمع کروں غرض میں نے ہر طرف تلاش کر کے ان بچوں کو ایک جگہ بٹھایا لیکن دو بچوں کا کہیں نشان نہ پایا میں نے پریشان ہو کر اپنی بہن ام کلثوم کو اواز دی کہ اے بہن دو بچے نہیں مل رہے جلدی جاؤ میں اپنی بہن کے ساتھ مقتل میں اس خیال سے پہنچی کہ شاید اپنے باپ کی لاش سے لپٹے ہوں گے مگر وہاں بھی نہ تھے پریشان ہو کر فرات کی طرف گئی وہاں بھی سراغ نہ ملا ہم دونوں بہنیں بیاں باں کی طرف روتی ہوئی اور ان یتیموں کو پکارتی ہوئی چلی جاتی تھی اور کہتی تھی ایسا نہ ہو کہ دونوں معصوم گھوڑوں کے سموں میں ا کر مر گئے ہوں اسی اثنا میں ہم دونوں بہنیں ایک گڑے کے قریب پہنچی تو ایک سیاہی نمودار ہوئی جب میں اس سیاہی کی طرف چلی تو دیکھا کہ وہ دونوں گرم ریت پر پڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈالے خاک میں چھپے ہوئے ہیں میں نے اپنی بہن ام کلثوم سے کہا اے بہن اہستہ قدم اٹھاؤ کہ یہ دونوں یتیم سو رہے ہیں ایسا نہ ہو قدم کی اواز سے چونک پڑے جب قریب پہنچی تو دیکھا کہ ان کے پھول سے رخسار زرد ہو گئے ہیں اور کچھ خاک اڑ کر ان کے منہ میں بھر گئی ہے اور انکھوں میں ہلکے پڑ گئے ہیں میں نے چاہا کہ انہیں خیمے کی طرف لے چلوں جب میں نے ان کے شانوں کو حرکت دی تو دیکھا کہ ان کی روحیں جسم سے نکل گئی تھیں اور پیاس کی شدت سے ان کی زبانیں باہر نکل ائی ہیں میں اس وقت یہ حال دیکھ کر با اواز بلند رونے لگی اور کہا اے بہن ام کلثوم یہ دونوں معصوم تو مر چکے ہیں ہم دونوں بہنوں نے ان معصوموں کو گود میں اٹھا کر منتقل میں لا کر لٹا دیا فاطمہ دختر سید الشہدا سے منقول ہے کہ اس بی بی نے فرمایا جب امام عالی مقام علیہ السلام اور چچا اور بھائی شہید ہو چکے اس وقت در خیمہ پر کھڑی تھی اس وقت میری نگاہ قتلگاہ پر پڑی میں نے دیکھا کہ میرے والد اور سب اکربہ کی لاشیں اس گرم ریگستان میں خاک و خون پڑی ہیں یہ عظیم مصیبت دیکھ کر میں رونے لگی میں اس فکر میں تھی کہ ناگاہ ایک سوار ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے نمودار ہوا اور اس نے اتے ہی اہل بیت اطہار کو نوک نیزہ سے مارنا شروع کیا اس مشکل وقت میں ایک بی بی دوسری بی بی کے پیچھے تھی اور یہ کہتی تھی ایا ہے کوئی فریاد درس کے ہماری فریاد کو پہنچے اور ہم بے وارثوں کی مدد کریں اور ہمیں پناہ دے اور کوئی بی بی چلاتی تھی کہ اے نانا محمد مصطفی اے بابا علی مرتضی اے بھائی حسن مجتبی اور حسین شہید راہ خدا افسوس ہے کہ اج تم زندہ نہیں ہو کہ ان ظالموں کے ہاتھوں سے بچاتے ہم اس جنگل میں تباہ و برباد ہو رہے ہیں جناب فاطمہ فرماتی ہیں جب میں نے اپنی ماں اور پھوپھیوں کا یہ حال دیکھا تو میرے ہوش و حواس بجا نہ رہے اور میرا تمام بدن خوف سے کانپنے لگا اور اس وقت میں دائیں بائیں اپنی پھوپھی زینب خاتون کو دیکھنے لگی کہ اگر وہ میرے قریب ہوں تو میں ان کے پاس جا کر چھپ جاؤں اور اس ظالم کے ظلم سے بچ جاؤں میں اس فکر میں تھی کہ ایک ملعون کو اپنی طرف اتے دیکھا اسے دیکھ کر میں جنگل کی طرف باغی کے شاید اس کے ظلم سے بچ جاؤں مگر اس بے رحم نے میرا تعاقب کیا اور میں ناتوانی کے باعث تھک کر رک گئی وہ ملعون میرے قریب ایا اور میری پشت پر نوک نیزہ اس زور سے ماری کہ میں منہ کے بل زمین پر گر پڑی اور اس ملعون نے میرے کانوں سے اس بے رحمی سے گوشوارے کھینچے کہ میرے کان زخمی ہو گئے اور ان سے خون جاری ہوا اور تمام منہ لہو سے تر ہو گیا اس کے بعد اس بے دین نے میرے سر سے چادر اور مکنہ اتار لیا اور پھر خیمہ گاہ کی طرف چلا گیا میں اس صدمے سے غش کھا کر زمین پر گر پڑی تھوڑی دیر کے بعد جب مجھے غش سے افاقہ ہوا تو دیکھا کہ پھپی زینب میرے سرہانے بیٹھی رو رہی ہیں مجھ سے فرما رہی ہیں کہ اے بیٹی اٹھو اور چلو دیکھیں کہ تمہاری بہنوں اور بھائی زین العابدین پر کیا گزری کہ پھپی اماں میں کیا اٹھوں کہ ایک ملعون میرے سر سے چادر اور مخنہ اتار کر لیے گیا ہے اور مجھے شرم اتی ہے کہ میں ان نامحرموں کے سامنے برہنہ پھروں اگر اپ کے پاس کوئی چادر ہو تو وہ تو عنایت کیجئے کہ میں ان نامحرموں سے سر اور منہ چھپا لوں یہ سن کر وہ بی بی بہت روئی اور فرمایا اے بیٹی تو اپنے سر برہنگی کی مجھ سے شکایت کرتی ہے تیری پھپی بھی تیری طرح سر برہنہ اور بے مکنا اور چادر ہے میرے سر سے بھی ایک ملعون چادر چھین کا لے گیا ہے اس مصیبت عظمی کی خبر سن کر میں خاتون محشر کی بیٹی کے سر کو دیکھنے لگی جب میں نے ان کی حالت کو دیکھا تو بہت روئی ان کی بے کسی پر خوب روئی اور بی بی کے ہمراہ خیام اہل بیت میں پہنچی جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارا تمام اسباب لٹ گیا ہے اور سب بیبیاں بے مکنا چادر سر برہنہ ماتم کر رہی ہیں اور ہر طرف سے رونے اور پیٹنے کی اواز بلند ہو رہی ہے میرے بھائی امام زین العابدین شدت مرض کے باعث منہ کے بل زمین پر پڑے ہیں اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں ہے ہم اس مظلوم کے سرہانے بیٹھ گئے اور ان کی بیماری لاچاری اور یتیمی پر رونے لگے کربلا کے میدان میں شام ہو گئی یہ شام کیسی اندھو ناک شام ہے جو ال رسول کے خون سے رنگین ہیں اہل بیت کے گنے چنے افراد جن میں عورتیں بچے اور ایک مرد زین العابدین ہیں ان پر تشدد جاری ہے ان کے خیموں میں اگ لگنے اور ان کا ساز و سامان لوٹنے کی شام ہے یہ بے بسی اور غریب الوطنی کی شام ہے یہ شام اسلام ہی کی نہیں انسانیت کی تاریخ میں بھی رہتی دنیا تک وہ شام کہلائے گی جو ظلم و جفا اور صبر و رضا کی داستان سناتی رہے گی یزیدیت کی تاریکی میں حسینیت کا اجالا کرنے والی یہ شام صفحہ دہر پہ حق و باطل میں فرق واضح کرتی رہے گی اگرچہ یہ شام غریباں ہے مگر اس دندلائی شام میں حسین کا نام سدا جگمگاتا رہے گا