ایک غیر مسلم کی بیٹی نے رکھا روزہ درخت خود بخود زمین سے اُگ آیا اور دودھ کی ندی ہو گئی جاری اور کس طرح دودھ سے کیا سب نے افطار ایک اور نیا انوکھا واقعہ ہم آپ کے لیے لے کر آئے ہیں یہ واقعہ آپ نے کہیں نہیں سنا ہوگا تو آپ نے برائے مہربانی اسے لائک اور شیئر کرنا ہےکسی جگہ غیر مسلم رہا کرتا تھا اس کی ایک ہی بیٹی تھی جو جوان ہو چکی تھی وہ اپنی بیٹی سے کہا کرتا کہ ہر چیز انسان کے ہاتھ میں ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے کیونکہ وہ کسی خدا کو نہیں مانتا تھا وہ اپنی بیٹی سے کہتا تھا کہ یہ دنیا بھی خود بن گئی ہے اس کی بیٹی سوال کرتی تو ہم کیسے اس دنیا میں آئے یعنی کیا خود ہی پیدا ہو گئے اس نے کہا کوئی تو بنانے والا ہوگا اس کے باپ نے کہانہیں ہمیں کوئی بنانے والا نہیں ہمارا کوئی خدا نہیں کوئی خالق نہیں کوئی مالک نہیں ہمارے ماں باپ تھے جن کی وجہ سے ہم اس دنیا میں آئے یعنی انسان ہی انسان کو لانے کی وجہ بنا وہ روز اپنی بیٹی کو یہی پارٹ پڑھایا کرتا تھا اور اس نے اس جگہ کے رہنے والوں کو یہی بات بتائی تھی اس لیے وہ لوگ یہی سمجھتے کہ ہم انسان ہی اس دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور ہیں وہ لوگ لکڑی کاٹنے کے لیے پاس کے جنگل میں جایا کرتے تھے اس نے اپنی بیٹی کو یہ کام سکھا دیا تھا تو وہ لڑکی اکیلے اس جنگل میں چلی جایا کرتی تھی ایک دن اس کا دل چاہا کہ وہ جنگل کے اگے بھی جا کر دنیا دیکھے وہ یوں ہی چلتی جا رہی تھی کہ اسے ایک بستی نظر ائی کہ جہاں پر بہت روشنی تھی روشنی دیکھ کر وہ خود بخود اس بستی کے اندر جانے لگی اندر داخل ہوئی تو وہاں پر سب بہت مسکرا رہے تھے اور خوش تھے یہ مغرب کا وقت تھا ان سب کے ہاتھوں میں کھانوں کے برتن تھے ایک دسترخوان بچا ہوا تھا جس پر کھانے رکھے گئے تھے پھر سب اس دستخان پر بیٹھ گئے سب نے دعا پڑھی اور کھانا شروع کر دیا ایک عورت نے اس لڑکی کو دیکھا تو کہا ادھر اؤ بیٹا تم بھی ہمارے ساتھ افطار کر لو بات تو سمجھ میں نہیں ائی لیکن اسے بھوک لگی تھی اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ کھانے بیٹھ گئی کھانا کھانے کے بعد وہ سب اٹھے اور ایک مرد کے پیچھے کھڑے ہو کر سب نماز پڑھنے لگے اس کو سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیا کر رہے ہیں یہ لوگ وہ بس دیکھے جا رہی تھی نماز پڑھنے کے بعد وہی عورت اس کے پاس ائی اور کہا تم کون ہو اور کہاں سے ائی ہو کہنے لگی یہاں سے کچھ دور ایک بستی ہے وہاں پر رہتی ہوں جنگل میں لکڑیاں کاٹنے ائی تھی تو اپ کی بستی میں اتنی روشنی دیکھی پھر یہاں اگئی تم نے بہت اچھا کیا تم جانتی ہو یہ کون سا مہینہ ہے یہ رمضان کا مہینہ ہے اس کو کیا پتہ تھا کون سا مہینہ ہے رمضان عورت کہنے لگی رمضان کا مہینہ بہت برکتوں والا ہوتا ہے اس میں ہم روزہ رکھتے ہیں یعنی ہم سارا دن بھوکا پیاسا رہ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں برائیوں سے بچتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور ابھی جو تم نے کھانا کھایا تھا اس کھانے کو افطار کہتے ہیں وہ اس کے اچھے رویے اور اخلاق سے بہت خوش ہوئی تھی اس نے کہا جو بھی ہے مجھے اچھا لگا اپ کے پاس ا کر عورت کہنے لگی تم ہمارے پاس جب چاہے ا سکتی ہو اس عورت سے مل کر وہ اپنے گھر واپس اگئی اج اس کے دل کی دنیا بدل گئی تھی وہ جو دیکھ کر ائی تھی اس نے اج تک ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا اس کی ماں تو تھی نہیں اس عورت کی شکل میں اسے ایک مامتا نظر ائی تھی اپنے باپ سے یہ بات نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ جانتی تھی اس کا باپ اسے بہت مارے گا اور کہے گا تم کہاں گئی تھی اور کیوں گئی تھی کیا کر کے ائی ہو اب اس کا دل روز ہونے لگا کہ وہ اس گاؤں میں جائے وہ جنگل میں جانے کے بہانے اس گاؤں میں چلی جاتی اور ان کے ساتھ افطار کرتی ایک دن اس عورت نے کہا تم کو پتہ ہے ہم سحری بھی کرتے ہیں اور یہ سحری سورج نکلنے سے پہلے کی جاتی ہے اس دن اس سے باتیں سن کر اس کا دل جھکنے لگا یعنی جھکنے لگا ایک رب کے حضور ابھی پتہ نہیں تھا رب کون ہے خدا کون ہے کیونکہ باپ نے تو پہچان بھلائی ہی دی تھی ایک دن اس کا دل بہت گھبرا رہا تھا اس کا باپ گھر پر نہیں تھا اس نے سوچا کہ میں بستی چلی جاتی ہوں جب میرا باپ پوچھے گا تو میں اسے بتا دوں گی کہ لکڑیاں کاٹنے گئی تھی وہ جنگل سے ہوتی ہوئی اس بستی میں ائی تو وہاں پر کوئی بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جو ان سب لوگوں کو کچھ کی طرح پڑھا رہے تھے وہ بھی ان کے پاس ا کر بیٹھ گئی ان بزرگ کو اس نے اج تک نہیں دیکھا تھا دراصل وہ اللہ والے تھے جو اس گاؤں کے سب سے بڑے بزرگ تھے ان کی شخصیت میں کچھ ایسی خاص بات تھی کہ اس پر ایک سحر سا طاری ہونے لگا یعنی ایک جادو چھا گیا وہ وہیں بیٹھ کر غور و فکر کے ساتھ اپ کی باتیں سننے لگی اپ کی باتوں میں اس کا دل بہت ہی زیادہ خوش ہو رہا تھا اس کا دل نہیں چاہا کہ وہ وہاں سے اٹھے اور پھر ایک دم اس کو جھٹکا لگا کہ میں نے تو اپنے باپ کو بتایا ہی نہیں وہ بہت ناراض ہوگا وہ جلدی سے وہاں سے اٹھ کر جانے لگی اللہ والے نے اواز دی بیٹی ٹھہرو تم کہاں سے ائی ہو اسی عورت نے جس نے اس کو پہلے دیکھا تھا کہا اللہ والے یہ بچے ہمارے پاس اتی ہے دو تین دن سے ا رہی ہے اللہ والے نے کہا تم کہاں جا رہی ہو وہ میرے بابا کو نہیں پتہ ہے وہ بہت ناراض ہوں گے اچھا میں چلتی ہوں پھر وہ وہاں سے چلی گئی پھر اسے خیال ایا کہ اس عورت نے مجھ سے سحری کی بات کی تھی اور وہ صبح روشنی نکلنے سے پہلے کی جاتی ہے یعنی رات میں تو کیا میں رات میں وہاں جاؤں لیکن میرا باپ مجھے ڈانٹے گا ارے جب وہ سو جائے گا تو میں چپکے سے اس گاؤں میں چلی جاؤں گی اس کا دل بہت مچلنے لگا باپ کے سونے کے بعد وہ اپنے گھر سے نکلی اج اسے کچھ ڈر نہیں لگ رہا تھا جب کہ جنگل بہت گھنا اور خطرناک تھا درندے بھرے پڑے تھے لیکن اسے کوئی بھی خوف نہیں تھا ایسا لگ رہا تھا کوئی اسے راستہ دکھا رہا ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہا ہے وہ اس گاؤں میں پہنچ گئی وہاں پر سب کے چہروں پر عورت تھی سحری کی تیاری کی جا رہی تھی وہ اللہ والے کے پاس ا کر بیٹھ گئی اس کو دیکھ کر اللہ والے مسکرائے اور کہا ا گئی تم کیا تم ہمارے ساتھ روزہ رکھنے ائی ہو اس نے کہا روزہ کیا ہوتا ہے اللہ والے نے کہا روزہ جسم کی پاکی ہے یعنی ہم روزہ رکھ کر اپنے جسم کو تمام برائیوں سے بچاتے ہیں وہ برائیاں جو ہمیں برباد بھی کر سکتی ہیں دنیا اور اخرت میں اور یہ مہینہ ہے رمضان کریم کا جس پہ ہم روزے رکھتے ہیں اور یہ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ہم صبح سے لے کر شام تک بھوکے بیا سے رہتے ہیں اللہ پاک کی عبادت کرتے ہیں اپنے اپ کو گناہوں سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اللہ ہمیں وہ انعام دیتا ہے جو کبھی کسی اور کو نہیں ملا اس نے کہا اللہ کون ہے میرا باپ کہتا ہے ہمارا کوئی خدا نہیں ہم سب یوں ہی بنے ہیں اللہ والے نے کہا ہرگز نہیں ایسا بالکل نہیں ہو سکتا اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ہاں وہ ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے لیکن وہ ہمارا باپ نہیں وہ پاک ہے ہر کمی سے ہر عیب سے ہر برائی سے اور توجہ سے میری بات سنو کہ تمہارا خدا ایک ہے وہ خدا جو میرا بھی ہے اور جس وقت کا ہے کوئی مانے یا نہ مانے وہ بڑے پیار سے اپ کی باتیں سن رہی تھی اس وقت صبر سحری کا اعلان کیا تو وہ اللہ والے کے ساتھ بیٹھ کر سحری کرنے لگی اس کو اپ کی صحبت میں اتنا اچھا لگ رہا تھا کہ وہ وہاں سے اٹھنا ہی نہیں جاتی تھی سحری کرنے کے بعد اللہ والے نے کہا کیا تم مسلمان ہونا چاہتی ہو کیونکہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اپنے دین میں شامل نہیں کیا جا سکتا وہ بولی جی ہاں میں تو خود پریشان تھی کہ میرا کوئی مذہب نہیں میرا کوئی خدا نہیں ایسے کیسے خود کو ہم نے بنا لیا جس طرح اپ لوگ کرتے ہیں عبادت اپ کے چہروں پر کتنا سکون ہے کتنا اطمینان ہے مجھے اس بات نے بہت خوش کیا ہے اللہ والے نے کہا تو پھر کلمہ پڑھو گی جی ہاں میں دل و جان سے کلمہ پڑھنا چاہتی ہوں اللہ والے نے اسے کلمہ شہادت پڑھا دیا وہ مسلمان ہو گئی تھی اس نے روزہ رکھ لیا ان کے ساتھ پہلی بار زندگی میں نماز پڑھی اس کے دل کو بہت قرار ایا پھر اس نے اللہ والے سے قران پاک پڑھا اور اپنے گھر واپس اگئی اس کا باپ تک سو رہا تھا کچھ دن تو اس کے باپ کو پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کرتی ہے کہاں جاتی ہے وہ تو بس چپ چاپ روزہ رکھ لیتی جب اپ گھر پر نہیں ہوتا تو وہ بستی میں چلی جاتی قران پاک پڑھتی اس طرح اس نے رمضان پاک کے روزے گزارنے شروع کر دیے اس کے دل کو چین و سکون مل رہا تھا وہ کیا کہتی وہ شخص جب کام سے واپس اتا تو کھانے کے لیے اسے بلاتا اور کچھ دنوں سے وہ کھانے کے لیے اسے بلا رہا تھا تو وہ کہتی مجھے بھوک نہیں جب میں نے کھا لیا ہے وہ روزے سے ہوتی تھی تو کیا کہتی جھوٹ بھی یوں ہی کہنا پڑ رہا تھا ایک دن دو دن کی بات نہیں یہ ہر دن ہونے لگا تو اس نے بیٹی سے پوچھا کہیں بھی مار تو نہیں ہو تم کھانا کیوں نہیں کھاتی ہو اس نے کہا اپ کے انے سے پہلے کھا لیتی ہوں پہلے تو باپ کا انتظار کیا کرتی تھی اور اب اپ کے انے سے پہلے کھانا کھا لیتی ہے اس کو کچھ عجیب تو لگا وہ چپکے سے سحری کرتی اور روزہ کھولتی تھی باپ کو یہ بات نہیں معلوم ہونے دیتی تھی جب اپ گھر پر نہ ہوتا تو جو قران پاک اللہ والے نے اسے دیا تھا اس کو پڑھتی رہتی اس پاس کوئی نہ ہوتا تو مسلمانوں کی بستی بھی چلی جاتی اب ایک دن اس کے باپ کے کسی ساتھی نے اس کو جنگل سے دور جاتے دیکھا تو وہ اس کا پیچھا کرنے لگا وہ تو اللہ والے کی بستی کے اندر جا رہی تھی خدا کو نہ ماننے والی اس بستی میں کیوں جا رہی تھی ادمی نے اس کے باپ سے شکایت کر دی اور کہا تمہاری بیٹی جنگل سے گزر کر مسلمانوں کی بستی کی طرف جاتی لکھی ہے ذرا پتہ تو لگاؤ کیا کرتی پھر رہی ہے باپ جو بیٹی سے پہلے ہی سوال کر رہا تھا جس کا وہ کوئی تسلی بغض جواب نہیں دے رہی تھی ایک دن وہ باہر سے ایا اور کہا بیٹی میرے لیے ٹھنڈا شربت بنا کر لاؤ وہ اس کے لیے شربت بنا کر لائی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا یہ لو میرے ہاتھ سے شربت پیو کتنے دنوں سے ٹھیک طرح سے کھا پی نہیں رہی ہو وہ ایک کار کرنے لگی تو باپ نے زبردستی کی اور کہا شربت پیو میرے ہاتھ سے اس کا تو روزہ تھا وہ کیسے وہ شربت پی سکتی تھی بولی میں نہیں پی سکتی کیوں وہ اس کو ڈانٹیں لگا اور پھر اس پر ہاتھ اٹھا دیا کہ مجھ سے چھپ کر ان مسلمانوں کی بستی میں جاتی ہے بتا کیا پٹی پڑھائی ہے اور لوگوں نے تو اس نے کہا وہ لوگ کوئی پٹی نہیں پڑھا رہے ہیں بلکہ انہوں نے مجھے سیدھا سچا راستہ دکھایا ہے مجھے بتایا ہے یہ دنیا یوں ہی اپنے اپ نہیں بنی ہے نہ ہی ہم نے خود کو پیدا کیا ہے بلکہ کوئی خدا ہے جو سب کچھ چلا رہا ہے اس غیر مسلم کو مسلم بیٹی کی بات پر بہت غصہ ایا اس نے کہا تو کیسی بے مطلب کی باتیں کرتی ہے تیرے دماغ میں زہر بھر دیا ہے ان لوگوں نے اب تجھے اس کی سزا ملے گی نہ جانے کیا کر کے بیٹھی ہے سب سے پہلے یہ شربت پی پرونے لگی نہیں نہیں پی سکتی روزہ ہے میرا رمضان کا مہینہ ہے میں روزہ نہیں توڑ سکتی مارنا ہے تو مجھے جان سے مار دو لیکن میں روزہ نہیں توڑوں گی کسی حال میں بھی نہیں توڑوں گی وہ چیخا اس نے کہا تو مسلمان تو نہیں ہو گئی ہاں میں مسلمان ہو چکی ہوں میں نے کل دماغ پر چڑھ گیا اس نے ایک عورت کو بلایا اور کہا اس کو نہلاؤ یہ تو ہمارے دشمنوں کے کھانے کھا کر ائی ہے وہ منع کرتی رہ گئی لیکن اس کا روزہ تڑوا دیا گیا وہ بہت روئی بہت چیخیں چلائی اس نے ان کے اگے ہاتھ جوڑ اور کہا ایسا نہ کرو میں نے دل سے اس مذہب کو اپنایا ہے لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی اسے غسل دے دیا گیا کہ جیسے وہ ناپاک ہو پھر اس کو ایک کال کوٹلی میں بند کر دیا گیا وہ تو دل سے مسلمان ہوئی تھی چاہے اس کا باپ گلا کیوں نہ گھوڑ دیتا وہ اس کو کھانے کے لیے کچھ نہ دیتا جان بوجھ کر ویسا کر رہا تھا تاکہ وہ روزہ نہ رکھے پر وہ ارادے کی پکی تھی بغیر سحری کا روزہ رکھتی نماز پڑھتی جو کچھ قران پاک اسے سکھایا گیا تھا وہ صورتیں دہراتی رہتی دل سے دعا کرتی اے رب ذوالجلال اے اللہ پاک تو میری مدد کے لیے کسی کو بھیج دے میں تجھے مانتی ہوں تیری عبادت کرتی ہوں تیرے سوا کسی کو نہیں مان سکتی چاہے تیری راہ میں قربان کیوں نہ ہونا پڑے اب اتنے دنوں سے اللہ والے اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے وہ نہیں ائی ہے اپ جان گئے کہ وہ بہت بڑی مصیبت میں ہے تو اپ نے اسی عورت کو بلا کر کہا کہ وہ جو بھلی لڑکی یہاں اتی تھی وہ کافی دنوں سے یہاں نہیں ارہی ہے جی حضرت میں بھی دیکھتی ہوں کہ نہ سحر میں اتی ہے نہ افطاری میں جبکہ ہم کو تو اس کی عادت سی ہو گئی ہے اللہ جانے اس کے ساتھ کیا معاملات ہیں اللہ والےنے کہا پتہ تو لگانا پڑے گا کہ بچی کسی بڑی مشکل میں تو نہیں ہے اپ نے دعا کی اے اللہ پاک مجھے اس کا حال بتا دے اپ نے یہ دعا کی تھی کہ اپ کو نظر ایا کہ وہ ایک اندھیری کوٹھی پہ پڑی ہے جہاں کوئی روشنی نہیں بھوکی پیاسی ہے روزہ رکھا ہے اس نے نہ پانی ہے نہ کھانے کے لیے کچھ اپ کو بڑا دکھ ہوا اپ کی انکھوں میں انسو اگئے کہ یہ تو سچی مومنہ کی نشانی ہے اپستی والوں کے پاس ائے اور کہا اس بچی کو بہت بڑی سزا مل رہی ہے ہمیں اس کی مدد کے لیے جانا ہوگا انہوں نے کہا ہاں ہاں اپ کے ساتھ چلتے ہیں اس کے بعد اللہ والے نے کچھ بہادر لوگوں کو جن میں عورتیں بھی شامل تھی اپنے ساتھ لیا اور اس لڑکی کی بستی میں جان نکلے تیار ہو گئے سب روزے داروں کا قافلہ اللہ کو نہ ماننے والے لوگوں کے گاؤں پہنچ گیا اس لڑکی کے باپ نے جب اتنے سارے لوگوں کو اپنے گاؤں میں اتا دیکھا تو اپنے ساتھیوں سے کہا حملہ کرو اللہ والے نے ہاتھ کا اشارہ کیا کہ حملہ نہیں کرنا کیونکہ ہم یہاں پر لڑنے نہیں ائے ہیں ہم روزے دار ہیں روزے کی حالت میں جھگڑنا تو دور کی بات ہم بحث بھی کرنا نہیں چاہتے ہیں لیکن یہ بات ایسی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے گریبان میں نہیں پکڑیں گے بلکہ سمجھائیں گے کون غلط ہے اس لڑکی کا باپ تکبر سے کہنے لگا غلط تم لوگ ہو تم لوگوں نے میری بیٹی کے ساتھ بہت برا کیا اس کو تم نے کلمہ پڑھانے کی جرات کیسے کی یہ تو اس کی خوش قسمتی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک لہ نے اس کو مسلمان کیا ورنہ یہ تو ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں کہ وہ کلمہ پڑھ لے اور سچے دل سے مسلمان ہو کر نماز روزے کی پابندی بھی کرے تمہاری بیٹی ایک نیک لڑکی ہے تمہاری خوش نصیبی ہے وہ کہنے لگا میں نے اپنی بیٹی کو کبھی نہیں کہا اے خدا ہے بلکہ تم نے اس کو بتایا خدا ہے جس نے ہم سب کو بنایا ہے ہاں تو میں نے سچ کہا تم نے میری بیٹی کے دماغ کو بدلا ہے میں تمہیں جان سے مار دوں گا اللہ والے نے کہا کیوں تم خود سے اس دنیا میں اگئے تمہارا کوئی ماں باپ نہیں ہے ان کے کوئی ماں باپ نہیں تھے جب کوئی اپنے ماں باپ کے ذریعے ہی اس دنیا میں ا سکتا ہے تو سوچو جس نے ذریعہ بنایا ہے وہ کون ہوگا کیا تم نے اپنے اپ کو بنایا ہے یا اپنے ہاتھوں سے کسی انسان یا جانور کو پیدا کر سکتے ہو کیا تمہیں لگتا ہے کہ یہ سب کسی انسانی ہاتھ کا کمال ہے وہ ادمی غصے سے بولا ہاں انسان اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے پہاڑوں کو بھی اکھاڑ سکتا ہے اللہ والے نے کہا اگر ایسا ہے تو چلو میرے سامنے کچھ ایسا کر کے دکھاؤ کہ میں مان جاؤں چلو ایک درخت زمین سے اگا کر دکھاؤ میں مان لوں گا تم خود ہی اس دنیا میں اگئے اور تمہیں کسی خالق یعنی خدا نے نہیں بنایا معاذ اللہ کہنے لگا یہ کیسی باتیں کرتے ہو میں کسی درخت کو زمین سے کیسے نکال سکتا ہوں تم خود تو کہہ رہے تھے انسان بہت طاقتور ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے ہاں اس کے ہاتھ میں ہے اس کے ہاتھ میں اختیار ہے تو چلو نا ایک پودا ہی پیدا کر کے دکھا دو اس کو کوئی سمجھ نہیں ارہا تھا وہ کیا جواب دے اللہ تعالی نے کہا کہ سوچ میں گم ہو میرے دوست تم سوچ رہے ہو نا کہ میں بیج لاؤں گا زمین میں اس بیج کو گاڑوں گا پھر وہ سارا عمل کروں گا جس سے کوئی پودا بنتا ہے پھر پودے کے بعد وہ درخت بنتا ہے جس پر پھل لگتے ہیں تو یہ تو کافی دنوں کے بعد ہوگا تم نے کیا کہا اپنی بیٹی کو تم نے کیا تعلیم دی ہم سب کو دنیا میں اگئے یہ دنیا خود بخود بن گئی اس کو بنانے والا کوئی خالق و مالک نہیں اپنی بیٹی کو قید خانے سے باہر نکالو اج دیکھتے ہیں تم سچے ہو یا ہمارا قران پاک اللہ والے کے کہنے پر اس نے اپنی بیٹی کو قید خانے سے باہر نکلوا دیا وہ لڑکی بہت بری حالت میں تھی اس کا روزہ تھا اللہ والے نے اس پر قرانی ایت پڑھ کر دم کی تو اس کی حالت کچھ بہتر ہو گئی اللہ والے نے کہا تمہاری بیٹی ابھی کچھ دنوں پہلے مسلمان ہوئی ہے تم نے اس کا تین دن سے کھانا پینا بند کیا ہوا ہے لیکن اس کی تم اللہ سے محبت دیکھو کہ بغیر سحری کا روزہ رکھا افطار نہیں کیا اس نے تین دن کا روزہ بغیر کھائے پیے رکھا اللہ سے محبت کا یہ عالم اس لڑکی سے پوچھو تم نے اس کو مارنے میں کوئی بھی قدر نہیں چھوڑی چلو بیٹی اپنے باپ کو بتاؤ کون ہے وہ اللہ اللہ وہ ہے جس نے مجھے تمہیں سب کو پیدا کیا اور اسے کوئی پیدا نہیں کر سکتا اسے کوئی نہیں بنا سکتا یہ دنیا خود سے وجود میں نہیں ائی ہے وہ ادمی کہنے لگا میں مانتا ہی نہیں ہوں چاہے تم ساری دلیل سارے ثبوت دے دو انسان کو دنیا میں لانے کا ایک راستہ بنتا ہے جیسے ہمارے ماں باپ اور ان کے بغیر کوئی بھی بچہ اس دنیا میں نہیں ا سکتا اور یہ کام کسی خدا کے بغیر ہی ہوتا ہے معاذ اللہ اللہ والے نے گاؤں والوں کی طرف دیکھ کر کہا تم لوگ بھی اس بات کو مانتے ہو ان لوگوں نے کہا ہاں ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں اللہ والے کہنے لگے چلو کہتے ہو کہ یہ کام کسی خدا کا نہیں سب کچھ صرف انسان کا ہے سب کو صرف انسان کے بس میں ہے انسان کے سب غلام ہیں چاہے جانور ہو چاہے پرندے ہوں چاہے وہ پیڑ پودے کیوں نہ ہو اللہ والے نے کہا تو ایک پیڑ ایک ننھا سا پودا تو زمین سے نہیں نکال سکا بڑے بڑے دعوے کرتا ہے اب تو جاننا چاہتا ہے خدا کون ہے اپ نے دعا کی اے رب رحمان اے رب کائنات تجھے اس عظیم مقدس مہینے کا واسطہ کہ جس میں قران پاک نازل ہوا ہے جو تیرے پیغمبر اخر الزماں سر اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کا مہینہ ہے یہ کہتا ہے کوئی خدا راہی تو بتا دے خدا تو ہے خدا تو ایک ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ سب کچھ تو نہیں بنایا ہے تو چاہے تو ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے اب اس بستی میں جو کچھ انہوں نے نہیں دیکھا وہ تو ان کو کر کے دکھا دی ان اندھوں کو تو دیکھنے والا بنا دے اپ نے دعا کی تھی کہ زمین ہلنا شروع ہو گئی اور ایک بڑے قد کا درخت زمین سے باہر نکل گیا نہ کوئی بیج نہ کوئی پانی وہ درخت سب کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا اس ادمی کا تو وہ کھلا کا کھلا رہ گیا اللہ والے نے کہا کیا دیکھتے ہو تم کس نے کیا ہے یہ کام اس نے اپنے اپ پر قابو پایا اور کہا اگر تمہارا اللہ اس درخت کو زمین کے اندر سے نکال سکتا ہے تو چلو اس درخت سے کہو کہ یہ دودھ دے کر دکھائے دودھ تو جانور دیتے ہیں بکریاں دیتی ہیں گائے دیتی ہے یہ درخت تو دودھ دے ہی نہیں سکتا تمہارا رب اگر اتنا بڑا قادر ہے تو اس سے کہو کہ اس درخت سے دودھ کی ندی بہا کر دکھا دے تو میں مار لوں گا اللہ کو کسی کو ثبوت دینے کی حاجت نہیں بلکہ ہم اس کے اگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم اللہ پاک کو حکم نہیں دیتے وہ ہمیں حکم دیتا ہے اس نے کہا اے بوڑھے انسان درخت کو تم نے اگا کر دکھا دیا چلو ٹھیک ہے لیکن اب اس نے وہ کام کر کے دکھاؤ جو یہ کر ہی نہیں سکتا اللہ نے جس کو جس کام پر لگایا ہے وہ اس کا کام ہے اس درخت سے دور نکال کر تجھے کیا ثبوت چاہیے تم بات کو ٹال رہے ہو تم یہ کام کر نہیں سکتے اس لیے جاؤ یہاں سے جس کی عبادت کرنی ہے کرو میری بیٹی تمہارے خدا کی عبادت نہیں کرے گی اس کی بیٹی کے اندر ہمت اگر اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا میں نے اس خدا کو مانا ہے میں تمہارے کہنے پر اپنا مذہب نہیں بدلوں گی میں تمہارا باپ ہوں تمہارا پیدا کرنے والا تم نے مجھے نہیں پیدا کیا تم صرف ذریعہ ہو بنانے والا تو وہ ہے جو سب سے بڑا ہے وہ پاک ہے اے انسان تو نے میری بیٹی کو میرے خلاف کر کے اچھا نہیں کیا اللہ والے نے کہا ہمارا مذہب کبھی بھی ایسی تعلیم نہیں دیتا کہ چھوٹے بڑوں کا ادب نہ کرے لیکن تو نے اس کے رب کو للکارا ہے اپنے رب کی شان میں گستاخی تو ہم مسلمان برداشت نہیں کر سکتے چل اگر تیری یہی خواہش ہے تو دیکھنا چاہتا ہے اس اللہ کی طاقت تو اے اللہ تو اس بے دین کو دین والا بنانے کے لیے اس درخت سے دودھ کی ندی جاری کر دے کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کسی کے خیال میں بات نہیں تھی ایسا ہو بھی سکتا ہے بھلا ایک درخت سے دودھ کیسے نکلے گا وہ تو جانور دیتے ہیں ان کا کام ہے لیکن اللہ والے کی زبانی جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے اللہ تعالی نے ان کی دعا کو قبول کر کے اس درخت سے دودھ کی ندی بہا دی دودھ بہتا جا رہا تھا اللہ والے نے کہا بستی والوں اپنے پیالے لے کر اؤ اور اس درخت سے دودھ بھرتے جاؤ تم کو ایسا دودھ کہیں نہیں ملے گا سب نے اپنے برتن بھرنے شروع کر دیے پورے بستی والوں کے دودھ کے برتن بھر گئے لیکن وہ دودھ رکا نہیں اس وقت اللہ والے نے کہا چلو افطار کا وقت ہو گیا ہے میرے بستی والوں تم سب بھی دودھ کے برتن بھر لو اس لڑکی نے سب کو برتن لا کر دیا سب نے دودھ سے برتنوں کو بھر لیا پھر اللہ والے نے دعا مانگی افطار کا وقت ہو گیا انہوں نے اذان دی جیسے ہی اذان دی سب نے روزہ افطار کیا تین دن کے بعد اس لڑکی نے دودھ سے روزہ افطار کیا افطار کرنے کے بعد اللہ والے نے کہا چلو نماز پڑھ لی جائے اس کے بعد اپ نے امامت کی اور سب نے اپ کے پیچھے نماز پڑھی بستی والے تو بس اپ کو دیکھ رہے تھے کیونکہ ان کو اب بھی اپنی انکھوں پہ یقین نہیں ا رہا تھا کہ یہ کیا ہم نے دیکھ لیا ہے ہماری انکھوں کے سامنے کبھی ہم نے سوچا نہیں ایسا ہوگا مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد اللہ والے نے کہا اب کیا کہتے ہو تم لوگ کیا تم لوگ کلمہ پڑھنا چاہو گے اے خدا کو مانو گے یا اب بھی اپنی وہی زندگی گزارو گے اکڑ کر اندھیرے میں رہ کر لڑکی کے باپ نے کہا میں بہت شرمندہ ہوں میں ہی ان سب کو بھٹکانے والا ہوں جب میرے پاس ہی علم نہیں تھا تو میں ان کو کیا علم بانٹتا اج مجھے اپ نے روشنی دکھا دی مجھے یقین ہو گیا اللہ ہے جو سب کر سکتا ہے میں اس بات پر گھمنڈ کرتا تھا کہ ایک انسان کو بہت طاقت ملی ہے اور اس کے بس میں سب کچھ ہے اور یہ طاقت خود اس کی اپنی وجہ سے ہے پر ایسا نہیں انسان کو انسان بنانے والا تو وہ ایک ہی رب ہے جس کو اپ نے مانا اور جس کو میری بیٹی نے مانا پھر اس نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا اور اللہ والے نے ان سب بستی والوں کو کلمہ پڑھا دیا اس طرح ایک لڑکی کی وجہ سے پرا گاؤں مسلمان ہو گیا