دوستو اج ہم اپ کو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سنائیں گے کہ کیسے ایک مولوی نے یتیم معصوم بچی کے ساتھ زنا کیا پھر اللہ پاک نے اس بستی اور اس مولوی پر کیسا عذاب نازل کیا بستی والے دیکھ کر توبہ توبہ کرنے لگے پیارے ناظرین اس واقعہ کو اخر تک ضرور دیکھیے گا ایک بستی میں ایک بیوہ عورت رہا کرتی تھی اس کی ایک سات سال کی بچی تھی وہ بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ کر اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ بڑی مشکل سے پال رہی تھی وہ بیوہ عورت بہت نیک تھی تھی قران پاک کی تعلیم حاصل تو نہیں کی تھی شوہر کی وفات کے بعد وہ اپنی بیٹی کو سکول کی تعلیم تو نہیں دے سکتی تھی مگر وہ قران پاک کی تعلیم دینے کے لیے اس کو مسجد کے مولوی کے پاس لے کر گئی اور کہنے لگی مولوی صاحب میری بیٹی کو قران پاک پڑھا دیں میری خواہش ہے کہ میری بیٹی قران پاک کو حفظ کرے مولوی صاحب کے پاس اور بھی بچے قران پڑھنے اتے تھے وہ بیوہ عورت اپنی یتیم بچی کو مولوی کے پاس چھوڑ کر خود لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے چلی جاتی شام کو گھر واپس اتی تو دیکھتی کہ اس کی بیٹی گھر واپس ا چکی ہوتی بیوہ عورت محنت کر کے بہت زیادہ تھکی ہوئی ہوتی اس لیے اپنی بیٹی سے زیادہ بات چیت بھی نہ کرتی اور اپنی بیٹی کو کہتی کہ جلدی سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو میں تھک چکی ہوں کافی دن اسی طرح گزر گئے صبح ہوئی اس نے اپنی بیٹی کو کہا کہ جلدی سے اٹھو اور قران پاک پڑھنے کے لیے چلی جاؤ تاکہ تم لیٹ نہ ہو جاؤ اور مولوی صاحب تمہیں مارے نہ صبح صبح وہ بچی ضد کرنے لگی اماں مجھے نہیں جانا پڑنے میں مسجد میں نہیں جانا چاہتی یہ سن کر اس کی ماں کو غصہ اگیا کہنے لگی کیوں نہیں پڑھنا تیری خاطر میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں برتن مانچتی ہوں مگر پھر بھی تجھے سکول کی تعلیم نہیں دے سکتی اگر مفت میں مولوی صاحب تمہیں قران پڑھا رہے ہیں تو کیوں نہیں پڑھنا چاہتی وہ بچی کہنے لگی ماں میں تیرے ساتھ لوگوں کے گھروں میں جا کر برتن مانجھ لیا کروں گی مگر مجھے مسجد میں مولوی کے پاس قران پڑھنے نہیں جانا اس کی ماں نے اس کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ مارا اور کہنے لگی تجھے حافظ قران بنانا چاہتی ہوں تجھے اسمان پر چمکتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں اور تو زمین کے خواب دیکھ رہی ہے خبردار اج کے بعد اگر ایسی بات اپنے منہ سے نکالی اس کی ماں اس کا ہاتھ پکڑ کر اتنی مسجد میں چھوڑنے کے لیے چلی گئی وہ بیوہ عورت اپنی بیٹی کو لے کر تیز تیز قدموں کے ساتھ مسجد کی طرف جا رہی تھی اور ساتھ میں اپنی بیٹی کو ڈانٹ رہی تھی کہہ رہی تھی اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیا کرو خبردار اگر میں نے مولوی صاحب کے منہ سے تمہاری کوئی بھی شکایت سنی میری تو خواہش ہے کہ تم حافظ قران بنو اور تو ہے کہ تجھے اپنی ماں کی خواہش کا ذرا بھی احساس نہیں اس کی بیٹی مسلسل روئے جا رہی تھی مسجد کا دروازہ بھی اگیا بیٹی نے ماں کا ہاتھ چھڑوانا چاہا ماں مجھے نہیں پڑنا مولوی صاحب اچھے انسان نہیں ہیں مگر اس کی ماں اپنی بیٹی کی بات کو ذرا بھی غور سے نہیں سن رہی تھی نہ ہی اس بات کی تہہ تک جا رہی تھی وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ بچی نہ پڑھنے کی وجہ سے بہانے کر رہی ہے ماں اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے مسجد کے اندر لے گئی اس گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جہاں گاؤں کا مولوی بچوں کو قران پڑھانے کے لیے ایا کرتا تھا مولوی صاحب اس یتیم بچی کو روتے ہوئے دیکھ کر بری طرح گھورنے لگا وہ بچی مولوی کی انکھیں دیکھ کر ڈر گئی سہم گئی اس کی انکھوں سے انسو جاری تھے بچی کی ماں نے مولوی صاحب کو کہا مولوی صاحب اپ میری بیٹی کو سمجھائیے کہ قران پڑھنا انسان کے لیے کتنا ضروری ہے میں تو اس کی روز روز کی ضد سے تنگ ا چکی ہوں مولوی صاحب نے ایک نظر اس بچی پر ڈالی اور ایک اس کی ماں پر ڈالی اور کہنے لگا میں اج بچوں کو قران پڑھانے کے بعد ایک گھنٹہ مسجد میں اس کو رکھوں گا اور اس کو سمجھاؤں گا کہ قران پاک پڑھنے کی کتنی اہمیت ہے یہ سن کر اس بچی کا رنگ فق ہو گیا کہ ماں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ مولوی کے ہاتھ میں دیا اور خود مسجد سے باہر نکل گئی وہ بیوہ عورت لوگوں کے گھروں میں جھوٹے برتن ماجہ کٹتی تھی اس کے بعد یتیم بچی گھوم زم رہنے لگی ذرا ذرا سی اہٹ پر ڈر جاتی وہ اپنی ماں کے ساتھ سویا کرتی تھی اکثر نیند میں بڑبڑایا کرتی تھی کہ مولوی صاحب میرے ساتھ ایسا نہ کریں خدا کے لیے میرے ساتھ ایسا نہ کریں یہی سمجھ رہی تھی کہ مولوی صاحب اس کو ڈانٹتے ہوں گے اس لیے ایسااس لیے ایسا کرتی ہے لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ قصہ تو کچھ اور ہی تھا جب بھی وہ اپنی بچی کو اپنے گھر اتے دیکھتی وہ بچی ہمیشہ ڈری سہمی رہتی اور خاموش رہتی اس کا چہرہ بھی زرد رہتا مگر اس کی ماں نے کبھی بھی یہ جاننے کی کوشش نہ کی کہ اخر میری بیٹی اتنی خوف زدہ کیوں رہتی ہے پھر قران پڑھنے کے لیے کیوں نہیں جاتی شاید اس کی ماں گاؤں کی سادہ عورتوں کی طرح تھی اسے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کی بیٹی کی مسجد میں نہ جانے کی ضد اخر کیوں ہے کیا مولوی صاحب کی نازیبہ حرکتیں ہیں ایک مرتبہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا اس کی بیٹی مسجد سے واپس نہ ائی اس کی ماں یہی سمجھ رہی تھی کہ شاید مولوی صاحب اس کو یہ سمجھا رہے ہیں قران پڑھنا انسان کے لیے کتنا ضروری ہے اس لیے دیر ہو گئی ہوگی اب وہ بچی ہمیشہ مسجد سے لیٹ اتی اور جب گھر اتی کمرے میں چلی جاتی اور رونا شروع ہو جاتی اور اس کی ماں اس لیے اس سے نہیں پوچھتی کہ مولوی صاحب اس کو ڈانٹتے ہوں گے اور اس لیے یہ رو رہی ہے الٹا اس کی ماں پریشان ہو جاتی اور اللہ سے دعا کرتی یا اللہ میری بیٹی کے دل میں قران پڑھنے کا شوق پیدا کر دے لیکن اج تو دو گھنٹے ہو چکے تھے ابھی تک وہ مسجد سے واپس نہیں ائی تھی اس نے سوچا کہ میں خود جا کر دیکھتی ہوں کہ اخر میری بیٹی ابھی تک کیوں نہیں ائی جیسے ہی مسجد کے دروازے پر وہ پہنچی تو ایک ادمی مسجد کا دروازہ بند کر رہا تھا اس عورت نے اس شخص سے پوچھا میری بیٹی ابھی تک گھر واپس کیوں نہیں ائی اس شخص کا رنگ اڑا ہوا تھا اس کو کہنے لگا اپ کی بیٹی میرے سامنے ہی تو گئی تھی ابھی تک وہ گھر کیوں نہیں پہنچی اتنی بات سن کر اس کی ماں کا دل کانپ کر رہ گیا اخر میری بیٹی ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچی اس شخص کو کہنے لگی نہیں تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ہمیشہ مولوی صاحب میری بیٹی کو دیر تک سمجھاتے رہتے ہیں تاکہ اس کے دل میں قران پڑھنے کا ایک شوق پیدا ہو تو مسجد میں جا کر اندر دیکھ مولوی صاحب سے پوچھو کہ میری بیٹی کہاں ہے اس شخص کے چہرے کی تو ہمائیاں اڑی ہوئی تھیں بار بار اپنے چہرے سے پسینہ صاف کر رہا تھا اس نے کہا دیکھو مسجد میں کوئی نہیں ہے تم ایسا کرو مولوی صاحب کے گھر چلی جاؤ اور وہاں جا کر ان سے ہی پوچھ لو وہ بیوہ عورت اپنی بیٹی کے لیے بہت زیادہ پریشان تھی مولوی صاحب کے گھر گئی مولوی صاحب کی بیوی نے دروازہ کھولا اور کہنے لگی مولوی صاحب تو ابھی تک گھر نہیں ائے وہ ہمیشہ لیٹ اتے ہیں مسجد میں بچوں کو پڑھانے کے بعد وہ گاؤں کے سردار کے بچوں کو قران پڑھانے کے لیے چلے جاتے ہیں اتنی بات سن کر اس غریب عورت کا دل تو جیسے دھڑکنا ہی بند ہو گیا وہ بہت زیادہ پریشان تھی جیسے ہی گھر پہنچی سامنے جو منظر تھا وہ ناقابل برداشت تھا اس نے دیکھا اس کی بیٹی سامنے چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اس کی بکھری ہوئی اجڑی ہوئی حالت دیکھ کر اس کی ماں نے اس کو جلدی سے اپنے سینے سے لگایا اور جب دیکھا کہ اس کی بیٹی تو اخری سانسیں لے رہی تھی اس کے بال سارے بکھرے ہوئے تھے چہرے پر زخموں کے نشان تھے اسے دیکھ کر اس کے دل میں برے برے خیالات انے شروع ہو گئے وہ کہنے لگی بیٹی اخر تجھے کیا ہوا تجھے کس نے مارا ہے میں بڑی مشکل سے نفی میں سر ہلایا اور کہا مولوی صاحب نے میرے ساتھ یہ کہہ کر اس کی انکھوں میں انسو بہنے لگے وہ اخری سسکیاں لے رہی تھی اس کی ماں کو بیٹی کے مسجد میں نہ جانے کی وجہ اب سمجھ میں ائی وہ اپنی بیٹی کو گود میں ڈال کر رونے لگی کہنے لگی کہ بیٹا تو نے مجھے کیوں نہیں بتایا اس وقت اس کی بیٹی اس کی باہوں میں دم توڑ چکی تھی یہ دیکھ کر وہ ماں پاگلوں کی طرح رونے لگی اس کے رونے کی اواز اتنی بلند تھی کہ پاس کے ہمسائے مرد عورتیں سب گھر میں جمع ہو گئے کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ہستی کھیلتی بچی موت کے منہ میں چلی جائے گی ہر کوئی کبھی بچی کو دیکھتا کبھی اس کی ماں کو دیکھتا اس کی ماں تو اپنے ہوش کھو چکی تھی کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ اس کی بیٹی کے ساتھ بہت غلط ہوا ہے معصوم بچی کفن میں لپٹی پڑی تھی پورا گاؤں اس بیوہ عورت کے گھر میں جمع تھا اور لوگ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ بیچاری معصوم بچی مسجد میں قران پڑھنے کے لیے گئی تھی راستے میں کسی نے اس کے ساتھ غلط حرکت کی اور یہ وہی دم توڑ گئی جب بیوہ عورت روتی ہوئی کچھ سنبھلی اس نے لوگوں کی باتیں سنی تو کہنے لگی کہ کوئی اور نہیں میں جانتی ہوں کہ میری بیٹی کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے اور میں ہر حال میں اس کو اس کے انجام تک پہنچا کر ہی رہوں گی میں اپنی بچی کو انصاف ضرور دلاؤں گی وہ انسان نہیںپیڑیا ہے بھیڑیا جو لوگوں کے سامنے نیک انسان بنا ہوا ہے وہاں موجود تمام لوگ اس کو دیکھ رہے تھے اور حیرت میں تھے کہ مگر وہ کون ہے جس نے یہ حرکت کی تاکہ وہ اپنی اولاد کو بھی اس بیڑیے انسان سے بچا سکے تبھی مسجد کے مولوی صاحب اس کے گھر میں داخل ہوئے مولوی صاحب کو دیکھتے ہی اس عورت کی انکھوں میں خون اتر ایا اور بھاگ کر اس کا گریبان پکڑ لیا جیسے ہی لوگوں نے اس کو مولوی صاحب کا گریبان پکڑتے ہوئے دیکھا لوگ اس کو پیچھے کرنے لگے کہنے لگے کہ یہ تو کیا کر رہی ہے اخر تو مولوی صاحب کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے وہ بیوہ عورت رو رو کر چیر سب کچھ بول رہی تھی وہ یہی کہہ رہی تھی جس نے میری بیٹی کو مار دیا اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر مرنے کے لیے چھوڑ دیا اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ ایسا بھیڑیا ہے جو میری بیٹی کو نوچ نوچ کر مار ڈالے گا تو میں اپنی بیٹی کو کبھی بھی اس کے پاس قران پڑھنے کے لیے نہ بھیجتی وہاں موجود لوگ مولوی صاحب کی طرف بھی دیکھتے اور کبھی اس بیوہ عورت کی باتیں سنتے مولوی صاحب بہت نیک انسان مانے جاتے تھے کبھی کوئی خواب میں بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ مولوی صاحب ایسا کریں گے پورے گاؤں میں ان کی ہر کوئی بہت زیادہ عزت کرتا تھا مولوی صاحب تو ایک دم پریشان ہو گئے اتنی جلدی میرا راز کھل جائے گا وہ اسی طرح بیوہ عورت کو بولتے ہوئے دیکھ کر لوگوں سے کہنے لگے میں تو اپنی طالب علم کے جنازے پر ایا تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے ساتھ یہ سلوک ہوگا وہ تو بڑی اچھی بچی تھی مجھے نہیں پتہ تھا مجھ پر یہ الزام لگ جائے گا مولوی صاحب نے یہ بات اس انداز میں کہی کہ لوگوں کو وہ بیوہ عورت غلط اور مولوی صاحب ٹھیک لگ رہے تھے مولوی صاحب وہاں سے چلے گئے اسی تین بچی کی تدفین کر دی گئی گاؤں کی عورتیں اس بیوہ عورت کو کہنے لگی تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ہم مانتے ہیں تمہاری بیٹی کے ساتھ بہت برا ہوا مگر مولوی صاحب جیسا نیک انسان تو ایک فرشتہ ہے وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے مگر وہ بیوہ عورت اپنی ضد پر اڑی رہی کہ مرتے وقت میری بیٹی نے مولوی صاحب کا نام لیا تھا لوگ کہنے لگے مولوی صاحب تو سالوں سے بچوں کو قران پڑھا رہے ہیں مگر اج تک ایسی کوئی بھی شکایت نہیں لگی کہ میری بیٹی کے ساتھ انہوں نے یہ سلوک کیا ہے ایک عورت تو یہ سن کر بڑے غصے سے کہنے لگی میری بھی بیٹیاں مولوی صاحب کے پاس پڑھتی ہیں ابھی بھی میری بیٹیاں انہی کے پاس پڑھ رہی ہیں اور اج تک ایسا ہم لوگوں نے کچھ نہیں سنا مجبورا وہ عورت خاموش ہو گئی کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا شاید کہ وہ برتن مانجنے والی تھی اس کے سر پر نہ کوئی والی وارث تھا وہ عورت اگلے ہی روز اٹھی اور روتے ہوئے وہاں کے سردار کے گھر چلی گئی کافی دیر انتظار کرنے کے بعد اخر کار سردار نے اس کو اپنے پاس بلایا اس نے پوری بات سردار کو بتائی اس کی بات سردار سن کر کہنے لگا میرے بس کی بات نہیں ہے تم گاؤں کے قاضی کے پاس جاؤ وہی فیصلہ سنا سکتا ہے وہ عورت یہ بات سن کر پریشان ہو گئی کن سب باتوں کو تو میں جانتی ہی نہیں وہ سردار کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگی رونے لگی خدا کے لیے میری مدد کریں میری بیٹی کو انصاف دلائیں ان سب معاملات کا مجھے نہیں پتہ سردار نے اس کو قاضی کا پتہ دیا اور اس کے پاس وہ چلی گئی اور جا کر پوری بات بتائی قاضی کہنے لگا معاملے کی تہ تک جانے کے لیے تمہیں کچھ پیسے دینے پڑیں گے اور وہ عورت کہنے لگی پیسوں کی اگ فکر نہ کریں اپ کو جتنے چاہیے ہوں گے اتنے ہی پیسے لا کر دوں گی میں کچھ بھی کروں اپ میری بیٹی کو انصاف ضرور دلائیے گا ظالم مولوی نے میری بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کے بعد اس عورت نے سب سے پہلے اپنے شوہر کی اخری نشانی سونے کا لاکٹ اور بالیاں بیچی اس کی ساری رقم قاضی کو لا کر دے دی قاضی نے اس مولوی کو عدالت میں بلایا تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ بیوہ عورت اسے یہاں تک لا سکتی ہے مولوی کو بہت ہی بڑا جھٹکا لگا کہ ایک حقیر اور برتن مانجنے والی عورت بھی اس کو اس عدالت میں پہنچا سکتی ہے پورا گاؤں اس بیوہ عورت پر تھو کر رہا تھا وہ نیک مولوی کو عدالت تک کیوں لے کر چلی گئی کہنے لگے بیٹی تو مر چکی اس کے ایصال ثواب کے لیے نہیں کر رہی اتنے نیک اور اچھے مولوی صاحب کے اوپر اتنا بڑا کیس کر دیا سب لوگ حیران تھے کہ کیس کرنے کے لیے اس کے پاس پیسے کہاں سے ائے لوگ کہنے لگے یہ پیسے اس کے پاس کہاں سے ائے چوری بھی کرتی ہوگی جن گھروں میںمیں کام کرتی ہے انہی گھروں میں چوری کرتی ہے وہ بیوہ عورت یوں ہی لوگوں کی باتیں سنتی رہی اور ان کو نظر انداز کرتی رہی وہ تو صرف انصاف چاہتی تھی اپنی بیٹی کے لیے ہر بار وہ قاضی کی عدالت میں جاتی اور مولوی صاحب نہ اتے ہر بار عدالت اگلی تاریخ پر ڈال دی جاتی یوں ہی چھ مہینے گزر گئے ہار مہینے اس قاضی کو منہ مانگی رقم مل جاتی تھی یہاں تک کہ اس کی ہر چیز بک چکی تھی اب اس کے پاس کوئی چیز نہیں بچی تھی ساری رات وہ رو کر اللہ سے دعائیں مانگتی جا رہی تھی اور اپنے پروردگار سے باتیں کرتی کہنے لگی اے اللہ کاش کہ میرا ذہن اتنا روشن ہوتا میں اس مولوی کا بھیانک چہرہ پہچان لیتی اے میرے اللہ کاش کہ میں اتنی عقلمند ہوتی اپنی بیٹی کی حرکتوں کو اپنی نظر میں رکھتی اور اج میری بیٹی میرے پاس ہوتی اسی طرح مجھے اپنی بیٹی کو کھونا نہ پڑتا میری تو دنیا ہی اجڑ چکی ہے اب یہ دنیا والے نہ جانے مجھے کبھی انصاف دلائیں گے یا نہیں اگلے روز وہ بیوہ عورت قاضی کے پاس گئی قاضی کہنے لگا اب وہ وقت ا چکا ہے اس مولوی کو سزا دلواؤں گا مگر تمہیں اس پر رقم دینا ہوگی تھوڑی دیر کے لیے تو وہ بیوہ عورت سوچ میں پڑ گئی کیونکہ اب اس کے پاس سوائے گھر کے کچھ نہیں تھا وہ قاضی کہنے لگا اب ہر حال میں وہ پھانسی پر چڑھ جائے گا اس قاضی نے بہت زیادہ یقین دلایا اور کہا ہاں اس کے لیے مجھے ڈبل رقم کی ضرورت پڑے گی اور دیکھنا فیصلہ کیسے چٹکیوں میں ہوتا ہے تم دیکھ لینا کس طرح لوگ اس مولوی کو گھسیٹ کر اس عدالت میں لے کر ائیں گے اور تمہارے قدموں میں اس مولوی کا سر رکھیں گے یہ سن کر اس بیوہ عورت کو بہت زیادہ تسکین مل رہی تھی وہ کہنے لگی ٹھیک ہے میں صبح اپ کو رقم لا کر دوں گی وہ قاضی دل میں بہت خوش ہوا وہ جانتا تھا یہ سادہ سی عورت ہے اور میری باتوں میں ا جائے گی اگلے ہی روز وہ بیوہ عورت سردار کے گھر گئی وہاں مولوی صاحب سردار کے بچوں کو قران پاک پڑھا رہے تھے اور بیوہ عورت کو دیکھ کر تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ہنسنے لگے اور دیکھنے لگے اس بیوہ عورت کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس مولوی صاحب کا منہ نوچ لیتی اور وہیں اس کو جان سے مار دیتی مگر انکھوں میں انسو لیے اسمان کی طرف دیکھنے لگی اس نے اپنا گھر سردار کو بیچ دیا اور پیسے لے کر سیدھا قاضی کے پاس چلی گئی قاضی نے پیسے لے کر اس کو کہا بس اب تم صبح ہونے کا انتظار کرو تم بہت بڑی خوشخبری سنو گی یہ سن کر وہ بیوہ عورت سکون سے اپنے گھر واپس چلی گئی اور سوچنے لگی کل وہ درندہ نما شخص پھانسی کے تختے پر لٹک جائے گا مگر اگلا دن یوں ہی خاموشی سے گزر گیا اور ایسے ہی دو تین دن اور گزر گئے وہ مجبورا قاضی کے گھر گئی اور وہاں جا کر راستے میں چونکیدار نے روک لیا کہنے لگا بی بی کازی صاحب یہاں موجود نہیں ہے وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ دوسرے علاقے گھومنے کے لیے گئے ہیں اور دو مہینے تک ان کے انے کا کوئی پروگرام نہیں یہ سن کر اس بیوہ عورت کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا اور کہنے لگی میری بچی کا کیس چل رہا تھا اور پرسوں اس کیس کی سنوائی تھی ایسے کیسے ہو سکتا ہے وہاں سے دوڑتی ہوئی سیدھا سردار کے پاس گئی اس کو جا کر پوری بات بتائی سردار بڑی ہی عجیب نظروں سے اس بیوہ عورت کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا تم نے تو کب سے اس کیس کو بند کروا دیا یہ خود ہی دیکھ لو تمہارے دستک بھی موجود ہیں ہم نے تو غلطی سے مولوی صاحب کے اوپر الزام لگایا تھا اس کے بعد تم نے کیس واپس لے لیا اس لیے اب تمہارا کیس بند ہو چکا ہے یہ سن کر اس بیوہ عورت کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اچانک ایک ملازم ایا اور اس کو دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا کتنی دیر تک وہ زمین پر دھاڑے مار مار کر روتی رہی وہ ایسے قانون کا جنازہ نکال رہی تھی یہ قانون تو صرف امیر لوگوں کے لیے ہوتا ہے غریبوں کے لیے تو سارے اصول بنائے جاتے ہیں جنہیں انہیں پورا کرنا ہوتا ہے رو رو کر وہ سب کا برا حال کر رہی تھی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور کہنے لگی تم لوگوں نے تو میرے ساتھ انصاف نہیں کیا مگر اپنی بچی کو میں خود ہی اب انصاف دلواؤں گی یہ کہہ کر سیدھا اپنے گھر گئی چاکو کو اٹھایا مولوی صاحب کے گھر چلی گئی مولوی صاحب کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا وہ بہت زیادہ غصے سے مولوی صاحب کے گھر گئی مولوی صاحب کی بیوی گھر میں موجود نہیں تھی مولوی صاحب اس عورت کو دیکھ کر گھبرا گئے کیونکہ وہ بہت زیادہ غصے میں تھی اس کے ہاتھ میں چاکو بھی تھا وہ ایک شیرنی بنی ہوئی تھی جیسے ہی اس نے مولوی صاحب کے اوپر حملہ کیا مولویمولوی صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا مگر اس نے ہمت نہ ہاری وہ یوہی مولوی صاحب کے ساتھ لڑتی رہی ان کو کہتی رہی کہ تو نے ہی میری بیٹی کو مارا ہے تو ایک انسان نہیں تو ایک درندہ ہے لوگوں کے سامنے تو فرشتہ بنا پھرتا ہے مگر اللہ پاک نے تجھے اولاد جیسی نعمت سے نہیں نوازا تو بے اولاد ہے اور بے اولاد ہی رہے گا اتنا کہہ کر اس بیوہ عورت نے مولوی صاحب کے بازو پر چاکو مار دیا ان کے بازو سے خون نکلنا شروع ہو گیا یہ دیکھ کر مولوی بہت زیادہ غصے میں اگیا انہوں نے پوری طاقت اور قوت سے بیوہ عورت کو تھپڑ مارنے شروع کر دیے وہیں چاکو اس سے پکڑ کر اس کے سر پر ضربیں لگانی شروع کر دی وہ ساری خون سے بھر چکی تھی اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا وہ کمزور اور بیوہ عورت اپنے اپ کو بچانے کے لیے مولوی کو نوچ رہی تھی مگر اس مولوی درندے نے اس بیوہ اور کمزور عورت کو بے بس کرنے کے لیے وہی سب کچھ اس کے ساتھ کیا جو اس کی بیٹی کے ساتھ کیا تھا اس مولوی نے اس بیوہ عورت کو بھی زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر کسی فضول چیز کی طرح گھر سے باہر پھینک دیا وہ بے ہوش ہو چکی تھی جب ہوش میں ائی تو اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا دنیا کی کوئی ہوش نہیں تھی اسے پہلے بیٹی کی موت کا غم غربت کی ستائی ہوئی بیوہ عورت اور قاضی کی عدالتوں کے چکر لگا کر ذلیل ہو چکی تھی اس کی ہر چیز بک چکی تھی مگر اب وہ پاگل ہو چکی تھی ماری ماری گلیوں میں پھرتی رہتی لوگوں کے گھروں کے دروازے بجا بجا کر ان کو کہتی دیکھنا تم لوگوں نے مجھے انصاف نہیں دلایا میری مدد نہیں کی میری بچی مر گئی تم لوگوں نے مجھے انصاف نہیں دلایا اب اللہ ہی میرا انصاف کرے گا تم لوگوں نے تو میرا ساتھ ہی نہیں دیا پہلے تو لوگ اس کی باتیں سن کر شرمندگی محسوس کرتے اور دکھ کرتے لوگ اس کو کھانا بھی دے دیا کرتے تھے مگر اہستہ اہستہ جب اس کی یہ اہ اور بددعائیں بڑھتی گئی تو لوگوں کو اس پر غصہ انا شروع ہو گیا انہوں نے اس کو تھپڑ مارنے شروع کر دیے وہ بھوکی پیاسی دردر بھٹکتی رہی اور ایک روز وہ بیوہ عورت کچرے کے اوپر مری ہوئی ملی لوگوں نے طرز کھا کر اس کو دفنا دیا مولوی صاحب کو تو اس کی موت کا ذرا بھی دکھ نہ ہوا جس روز اس بیوہ عورت کو دفنا دیا گیا اس کو دفن کرنے کے بعد اس گاؤں میں بہت شدید قسم کا زلزلہ ایا جسے لوگ کانپ کر رہ گئے اس زلزلے سے زمین پر بہت گہری دراریں پڑ رہی تھی لوگ استغفراللہ استغفراللہ کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلے مگر تبھی انہوں نے مولوی صاحب کے گھر سے چیخ و پکار کی اواز سنی ان کی بیوی چیخ رہی تھی چلا رہی تھی لوگ دوڑتے ہوئے اس کے گھر پہنچے جب لوگوں نے دیکھا تو لوگوں کی روح لرز گئی لوگ کانپ اٹھے توبہ توبہ کرنے لگے مولوی صاحب کے گھر میں ایک بہت بڑی درار بن چکی تھی اس میں مولوی صاحب ڈسے ہوئے تھے ان کا پورا جسم زلزلے سے پھٹنے والی زمین میں دس چکا تھا اور صرف ان کا چہرہ نظر ارہا تھا اور وہ چہرہ ایک بدنما جانور کی شکل کا بن چکا تھا یہ دیکھ کر لوگوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا لوگوں نے بہت زیادہ ہمت کی کہ اس مولوی کو زمین سے باہر نکالیں زمین ایک مرتبہ پھر ہی لی اور وہ درار تنگ ہو گئی خون اس درار سے باہر نکلتا ہوا ا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے مولوی صاحب اس درار میں غائب ہو گئے اس منظر کو دیکھ کر لوگ اور ڈر گئے اور سہم چکے تھے یہ واقعہ اخبار میں بھی چھاپا گیا اور مختلف کتابوں میں بھی لکھا گیا یہ منظر دیکھ کر لوگ سمجھ چکے تھے کہ یہ اس بیوہ عورت کی بددعائیں تھیں اور مولوی صاحب پر اللہ کا عذاب تھا نہ ضرور اس معصوم یتیم بچی کے ساتھ زنا کیا تھا جس کی وجہ سے اللہ کا ان پر عذاب ایا مولوی صاحب لوگوں کے سامنے ایک فرشتہ بنے ہوئے تھے مگر وہ اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے استغفراللہ پیارے دوستو اپنے بچوں کا خیال رکھا کریں وہ کہاں جاتے ہیں اور ان کو پڑھانے والے قاری کیسے ہیں میں ہر قاری کی بات نہیں کر رہی کچھ قاری ایسے ہوتے ہیں جن کی حرکتوں کو بچے محسوس کرتے ہیں اپ کا بچہ اپ سے شاید کچھ کہنا چاہتا ہو جو اپنی زبان سے بیان نہیں کرنا چاہتا میں امید کرتی ہوں کہ اس ویڈیو سے اپ کو ضرور کوئی نہ کوئی سبق حاصل ہوا ہوگا اج ہم سب مل کر اپنے بچوں کی عزت کی حفاظت کی دعا کریں گے کہ اے میرے پروردگار ہمارے بچوں کی حفاظت فرما اور ان کی عزتوں کو اپنی امان میں رکھ امین یا رب العالمین پیارے دوستو اج کا یہ عبرتعبرت ناک واقعہ اپ کو یقینا پسند ایا ہوگا مزید ایسی ہی ویڈیوز حاصل کرنے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کر کے ہماری فیملی کا حصہ ضرور بنیے گا شکریہ