میرےسامنے اماں کی میت پڑی تھی اور میں سرہانے بیٹھ کر رونے والی اکیلی تھی اماں کے مرنے کے بعد محلے والوں کو خبر ہو چکی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی میرے گھر نہیں آیا وجہ یہ تھی کہ میری ماں ایک طوائف تھی اور یہاں پر سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ اللہ تعالی تو شاید میری ماں کا وہ گناہ معاف کر ہی دیتا لیکن انسان نہیں بھلاتے وہ تو مرنے کے بعد بھی سزا دیتے رہتے ہیں یہی وجہ تھی کہ میری ماں کے مر جانے کے باوجود ابھی تک ان کی میت پہ کوئی نہیں آیا میں اکیلی سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی تھی اور اماں کی طرف دیکھتی جا رہی تھی مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اکیلی اماں کی تدفین کے انتظام کیسے کروں میں کس طرح اماں کو قبر تک لے جاؤں میرا تو کوئی رشتہ دار بھی نہیں تھا اور نہ ہی میں کسی کو جانتی تھی پھر اخر یہ کیسے ممکن ہوگا کس سے مدد مانگو اماں نے تو کبھی مجھے زمانے کی گرم سرد ہوا نہیں لگنے دی تھی اور نہ ہی مجھے کبھی گھر سے باہر نکلنے دیا تھا پھر اب جب اماں مر چکی اور مجھے یہ سارے انتظامات دیکھنے تھے تو سمجھ نہیں ارہی تھی کہ کیسے گھر سے باہر نکلوں اور کسی نہ کسی طریقے سے تو اماں کی تدفین کا انتظام کرنا ہی تھا لیکن یہ سب کیسے ممکن تھا سوچ نے مجھے اٹھنے پر مجبور کر دیا اور میں ہمت کر کے باہر ائی اور اپنے ساتھ والے ہمسایوں کا جا کر دروازہ کھٹکھٹایا اور ان سے مدد کی اپیل کی لیکن انہوں نے صاف کہہ کر منع کر دیا اور کہا کہ ہم تمہارے ناپاک گھر میں نہیں ا سکتے اسی لیے تم یہاں سے جاؤ باری باری کر کے میں نے ساری گلی کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن کسی نے بھی میری مدد کرنے کی حامی نہیں بھری بے بسی کے مارے میری انکھوں میں انسو اگئے اور میں مدد طلب نظروں سے اوپر اسمان کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اب اللہ کی طرف سے ہی کسی مدد کا اسرہ ہوگا کیونکہ انسانوں نے تو مجھے دھتکار دیا تھا اور میری مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا پھر اب یہ کیسے ممکن ہوتا کہ میں اپنی ماں کی تدفین کے انتظامات کرتی مجھے اپنی ماں کی بات یاد ائی تو میں سوچ میں پڑ گئی ماں نے جو کہا تھا مجھے وہی کرنا تھا لیکن وہ کرنے کے لیے بھی مجھے کسی کا ساتھ چاہیے تھا اور میں اسی ذات کو ڈھونڈ رہی تھی ماں کی میت اس وقت اکیلے گھر پر پڑی تھی اور میں گلی میں گھڑی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اپنی مدد کے لیے کس کو لے کر جاؤں جبکہ یہاں پر کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں تھا ہر ایک کو خدا بھلا ہوا تھا ہر ایک کو اپنا مرنا بھلا ہوا تھا اسی اسنا میں مجھے سامنے ایک فقیر نظر ایا وہ فقیر چلتا ہوا جگہ جگہ سے مانگ رہا تھا اس نے مجھے یوں ہر دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دیکھا مدد مانگتے دیکھا تو مجھ سے پوچھنے لگا اخر کیا بات ہے تم کس سے مدد مانگ رہی ہو اور کیوں مانگ رہی ہو میں اس وقت بے بسی کی انتہا پر تھی اور دل کو گہرا صدمہ لگا ہوا تھا میں نے اس کے پوچھنے پر اسے سب کچھ سچ سچ بتا دیا وہ سن کر افسوس کا اظہار کرنے لگا اور کہنے لگا اگر تم برا نہ مانو تو میں تمہاری مدد کے لیے تیار ہوں میرے لیے اتنا ہی غنیمت تھا کہ اماں کی چارپائی کوئی قبرستان تک لے جانے میں راضی ہو گیا اور پھر اس فقیر کی مدد سے میں اماں کو قبرستان لانے میں کامیاب ہو گئی لیکن ابھی مجھے کچھ دیر یہاں پر انتظار کرنا تھا کیونکہ ابھی وہ وقت نہیں ہوا تھا جس کے بارے میں اماں نے کہا تھا اور جب تک وہ وقت نہ ہو جاتا میں تب تک یہاں سے ہل بھی نہیں سکتی تھی مجھے انتظار کرتے ہوئے کافی وقت ہو گیا میں اکیلے ماں کی میت کو لے کر قبرستان میں بیٹھی ہوئی تھی یہاں پر مجھے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا اور میں ارد گرد دیکھ ہی رہی تھی سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیا کروں ایک پل میں تو دل کیا کہ واپس چلی جاؤں لیکن ماں کو اس طرح نہیں چھوڑ کر جا سکتی تھی مجھے تو انتظار ہی کرنا تھا اور پھر جیسے ہی 12 بجے تو ایک دم سے ایک طرف سے کوئی شور سا بلند ہوا اور جب میں نے وہاں سے دیکھا تو ایک ہجوم چلتا ہوا نظر ارہا تھا میرے قریب اتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ وہ سب تو میرا نام مریم ہے اور میں ایک 21 سال کی جوان لڑکی ہوں میں اپنی ماں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں اکیلی رہتی تھی بچپن سے ہی میں ماں کو دیکھتی ا رہی تھی کہ وہ ہمیشہ نماز اور قران کی بہت زیادہ پابندی کرتی تھی ہمیشہ سر کو ڈھک کر رکھتی اور جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا اذان سنتے ہی وہ اذان کا جواب دے کر اٹھ جاتی اور وضو کر کے بڑے دل سے نماز ادا کرتی اور نماز کے دوران ان کا چہرہ انسوؤں سے تر ہوتا وہ روتی رہتی اور اسی طرح سجدے میں چلی جاتی اور کتنی کتنی دیر وہ سجدے سے سر نہیں اٹھاتی تھی میں اماں کو جب نماز پڑھتے دیکھتی تو ان کے پاس کھڑی ہو جاتی اور جیسے جیسے وہ کرتی جاتی ویسے ویسے میں بھی کرتی جاتی نماز کے مفہوم کا تو مجھے ابھی تک پتہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ اس دوران کیا پڑھتے ہیں لیکن اماں جب جب نماز پڑھتی تو مجھے بہت اچھی لگتی اسی لیے میں ان کے ساتھ اسی انداز میں دوپٹہ لپیٹ کر کھڑی ہو جاتی یہی وجہ تھی کہ بچپن سے ہی میری نماز پڑھنے کی عادت پختہ ہو گئی اور میں بھی اماں کی طرح بڑے دل سے نماز ادا کرتی اماں نے مجھے علاقے کے ایک اچھے سکول میں داخل کروایا ہوا تھا وہ خود مجھے سکول چھوڑ کر جاتی اور خود ہی واپس لے کر اتی محلے میں ہمارا کسی گھر میں انا جانا نہیں تھا میری بھی کوئی سہیلی نہیں تھی مجھ سے کوئی دوستی کرتی نہیں تھی اگر کوئی کر بھی لیتی تو خود ہی ختم کر دیتی میں ابھی صرف پانچ سال کی تھی جب اماں سے میں اس بات کے بارے میں پوچھتی تو وہ مجھے خاموش رہنے کی تلقین کرتی اور یہی کہتی کہ میں تجھے وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ سمجھا دوں گی اماں کی بات پر میں ان کی طرف نہ سمجھی سے دیکھتی رہتی لیکن ایک دن تو حد ہی ہو گئی اماں مجھے سکول چھوڑنے جا رہی تھی اچانک راستے میں فقیر مل گیا اور اس نے اماں کے اگے ہاتھ پھیلا دیا اماں نے اسے 10 روپے کا نوٹ پکڑایا تو اتنے میں پیچھے سے ایک عورت ارہی تھی وہ ہماری گلی کی ہی تھی اور کچھ گھر چھوڑ کر رہتی تھی اس نے نفرت سے اماں کی طرف دیکھتے ہوئے فقیر سے کہا بابا یہ نوٹ مت لینا یہ ایک طوائف ہے اور اس کی کمائی حلال نہیں ہے اس عورت نے نہ جانے کس انداز میں اپنی نفرت کا اظہار کیا اماں بیچاری غم غصے سے اسے دیکھتی رہ گئی اور خاموش ہو کر رہ گئیں جب وہ فقیر بھی نفرت سے اس نوٹ کو وہیں پھینک کر اگے چل دیا میں حیران رہ گئی مجھے فقیر کے اس رد عمل کی توقع نہیں تھی اماں نے ان دونوں کو کچھ نہیں کہا اور خاموشی سے اگے بڑھ گئیں لیکن ان کے چہرے پہ غم کی کیفیت دیکھی جا سکتی تھی جبکہ میرے ذہن میں ایک ہی لفظ ہمیشہ کے لیے جیسے قید ہو کر رہ گیا تھا طوائف ایک دو دن تو اماں کو اس صدمے سے سنبھلنے میں لگ گئے اور پھر جب میں نے ان سے طوائف ہونے کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگی کہ میں وقت انے پر تمہیں سب کچھ بتا دوں گی اماں مجھے نرمی سے ٹال دیتی اور پھر یہی کہتی کہ تم ان باتوں کے لیے بہت چھوٹی ہو اب یہ لفظ میرے دماغ میں پھنس کر رہ گئے تھے جہاں کہیں بھی یہ لفظ سنتی تو اماں کی طرف دیکھنے لگتی اکثر اماں سے اس بارے میں سوال کرتی کہ اخر ہمارے گھر محلے کے لوگ کیوں نہیں اتے اور نہ ہی وہ ہمیں اپنے گھر کسی غمی خوشی پر بلاتے ہیں تو اماں اداسی سے مسکرا دیتی اور یہی کہتی کہ وہ لوگ ابھی نہ سمجھ ہیں وہ نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اس لیے ایسا کرتے ہیں تم لوگوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دو اماں کے کہنے پر میں خاموش ہو جاتی لیکن جیسے جیسے میں بڑی ہو رہی تھی میرے سامنے لوگوں کی باتیں انے لگ گئیں اور میں اماں سے زیادہ سوال کرنے لگ گئی میں ان سے پوچھنے لگی کہ اخر طوائف کیا ہوتی ہے لیکن اماں ہمیشہ کی طرح مجھے خاموش کروا دیتی اماں کی نمازیں اور سجدے طویل ہوتے جا رہے تھے میں جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اماں اب زیادہ وقت جائے نماز پر ہی گزارتی اور نہ جانے رو رو کر اللہ سے کیا مانگتی رہتی میں بس خاموشی سے انہیں بیٹھ کر دیکھتی رہتی لیکن اماں میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیتی اور نہ ہی مجھے کچھ بتاتی ایک اور بات جو میں نے محسوس کی تھی مجھے اج تک یہ بات نہیں پتہ چلی کہ ہمارے گھر کا خرچ کیسے چل رہا ہے اماں تو کوئی کام کرتی نہیں اور میرے ابا تو تھے نہیں اور نہ ہی مجھے ان کے بارے میں کچھ علم تھا اماں سے جب میں نے اپنے باپ کے بارے میں بھی پوچھا تو انہوں نے مجھے ٹال دیا اور کبھی ان کے بارے میں نہیں بتایا میں تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں اور اگر زندہ ہیں تو کہاں ہے اور ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہ رہے ننھے سے ذہن میں بہت سارے سوال تھے جو چکرا رہے تھے اور ان سب کے جوابات اماں کے پاس تھے اور اماں اس معاملے میں بالکل خاموش تھی سکول میں اچھے نمبر لینے کے بعد میں کالج میں گئی تو اماں نے مجھے ایک ہی بات سمجھائی کہ کبھی بھی کسی کی باتوں میں نہ انا اور نہ ہی کبھی کسی لڑکے پر بھروسہ کرنا یہ لڑکے بھروسے کے قابل نہیں ہوتے اماں نے میرا دماغ ایسا باندھا تھا کہ میں نے اپنے دماغ پر یہ بات سوار کر لی تھی کہ مجھے کسی بھی لڑکے کی طرف مائل نہیں ہونا مجھ میں سوجھ بوجھ تو کافی تھی مگر اماں نے مجھے گھر کا ماحول ہی ایسا دیا تھا کبھی میں دماغی طور پر چالاک ہو ہی نہیں سکی جبکہ میرے ساتھ کی سب بچیاں بہت چالاک تھی میں نے کبھی کسی کی باتوں پر دھیان ہی نہیں دیا تھا نہ ہی کسی کی باتوں میں دخل اندازی کی تھی میری کوئی سہیلی نہیں تھی میں اکیلی ہی کالج میں پڑھتی اور اکیلی ہی گھر واپس ا جاتی اب بس یہ تبدیلی ائی تھی کہ پہلے اماں مجھے سکول چھوڑنے جاتی تھی اور اب میں خود کالج چلی جاتی تھی مگر جب بھی میں گھر جاتی تو اماں سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کرتی کہ اج کسی لڑکے سے ٹکراؤ تو نہیں ہوا کسی لڑکے سے بات تو نہیں کی اب تو مجھے بھی الجھن محسوس ہونے لگی تھی کہ اماں ہر بار یہی کیوں بات کرتی ہے ہر مرتبہ ایسے ہی الفاظ یوں استعمال کرتی ہیں مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے میں تو ہمیشہ کہتی ہوں کہ اماں اپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں اب اپ مجھے ایسی باتیں کیوں کہتی ہیں میں بھلا کیوں لڑکوں سے بات کروں گی میں وہاں پر پڑھنے جاتی ہوں لڑکوں سے بات کرنے نہیں جاتی تبھی اماں کی انکھوں میں انسو ا جاتے اور کہتی کہ میں تمہاری بھلائی کے لیے کہتی ہوں جب جوانی کا خون چڑھا ہو تو انسان بہک ہی جاتا ہے انسان کو کچھ محسوس نہیں ہوتا اور تم تو بہت معصوم ہو یہ دنیا تمہارے لیے نہیں بنی اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہمارے ناک کے نیچے سے ہمیں برباد کر کے چلے جاتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا میں ہمیشہ لمبا سانس کھینچتی اور ہمیشہ اماں کو تسلی دیتی کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا میں اپنی پڑھائی پر صرف دھیان دوں گی مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جس چیز سے ہم زیادہ بھاگتے ہیں ہمیشہ وہی چیز ہمارے اگے اتی ہے ایک روز میں کالج جا رہی تھی کہ جب راستے میں ایک لڑکوں کا ٹولہ میرے پاس سے گزرا وہ سب لڑکے پڑھے لکھے لگ رہے تھے ان میں سے ایک لڑکے کی نظر مجھ پر پڑی اور میری اس لڑکے پر وہ لڑکا بہت خوبصورت اور بہت حسین تھا جوان تھا پڑھا لکھا لگ رہا تھا اور اس کا کسی امیر گھرانے سے تعلق لگ رہا تھا نظر تو میری بھی صرف ایک ہی بار پڑی تھی مگر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ سارا دن میری انکھوں کے سامنے سے وہ چہرہ گیا ہی نہیں میں سارا دن اس چہرے کو سوچتی رہی مگر ہمیشہ اماں مجھے ان چیزوں سے روکتی ٹوکتی رہتی تھی اماں نے کبھی مجھے کسی ہمسائے کے گھر بھی نہیں جانے دیا کیونکہ اماں کی اور باتیں مانی ہو یا نہ مانی ہو لیکن اماں کی یہ ایک بات ضرور ماننی ہے کہ میں کسی پر ابھی تک انکھیں بند کر کے بھروسہ نہیں کر سکتی تھی وہ لڑکا مسلسل مجھے دیکھ رہا تھا میں بار بار نظر چرا رہی تھی شرم سے میرا چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا وقت کا کام ہے گزرنا تو وہ گزر ہی جاتا ہے اس روز میں گھر کو تو اگئی مگر مجھے ابھی بھی اپنے چہرے پر اس لڑکے کی انکھیں ہی لگی ہوئی دکھائی دے رہی تھی جیسے وہ مجھے ابھی بھی دیکھ رہا ہو میں بار بار کبھی اپنا چہرہ چھپاتی تو کبھی تکیے کے نیچے منہ دے کر شرماتی میری تو چال ڈال ہی بدل چکی تھی میں اپنے کمرے میں اس لڑکے کو سوچتے ہوئے مسکرا رہی تھی مجھے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب اماں کمرے میں اگئی اور ا کر کہنے لگی مریم سب خیر تو ہے نا بڑا مسکرایا جا رہا ہے اماں کا اندازہ ایسا تھا کہ میری روح تک کانپ گئی میں ایک دم گڑبڑا کر اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھی اور اماں سے کہنے لگی کہ نہیں اماں بس ایسے ہی کچھ یاد اگیا تھا اماں کہنے لگی کیا یاد اگیا تھا مجھے بھی تو بتاؤ اماں سوالیہ نشان بن کر میرے سامنے بیٹھ گئی میں انہیں بھلا کیا بتاتی جو حقیقت تھا وہ تو بتا نہیں سکتی تھی جھوٹ مجھ سے بولا نہیں جاتا تھا مگر پھر بھی کوشش کرتے ہوئے میں نے اماں سے جھوٹ بولا اور ان سے کہا نہیں بس اج کلاس میں ایک لڑکی گر گئی تھی اس کو ہی یاد کر کے مسکرا رہی ہوں سب نے اس کا مذاق اڑایا اماں کہنے لگے کہ یہ تو بہت بری بات ہے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تمہیں کسی کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے تمہیں پتہ ہے کہ جب کسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو اسے کتنی تکلیف ہوتی ہے میں نے اماں سے کہا مجھے معاف کر دیں میں ائندہ کے بعد ایسا نہیں کروں گی اماں کہنے لگی ٹھیک ہے اور مجھے کھانا کھانے کا کہہ کر کمرے سے چلی گئی میں نے سکھ کا سانس لیا بہت مشکل سے میں نے اماں کو سنبھال لیا تھا لیکن اگے بھی اگر یہی سب چلتا رہتا تو میں کس طرح اماں کو سنبھالتی کس طرح بہانے ڈھونڈتی کس طرح میں اماں کو جواب دیتی مجھے کچھ تو کرنا ہی تھا اپنے احساسات کو چھپا نہیں سکتی تھی مگر اماں کو حقیقت تو بتا نہیں سکتی تھی کس طرح بتاتی اماں کو جب معلوم ہوتا کہ میں یہ سب کر رہی ہوں تو میرا کالج جانا بھی بند کروا دیتی میری پڑھائی رکوا دیتی اور نہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک کرتی ایک روز میں گھر ا رہی تھی میری پڑوسن باہر نکلی اور کہنے لگی طوائف کی بیٹی طوائف ہی ہوتی ہے جتنا مرضی پڑھ لو کہلاؤ گی تو طوائف کی بیٹی میں نے چونک کر اس عورت کی طرف دیکھا اور اس سے کہا کہ خالہ اپ کیوں ہمارے پیچھے پڑی ہوئی ہیں اخر اماں نے اپ کو کیا کہا ہے جو اپ ان کو بار بار طوائف کہتی ہیں تبھی وہ میرے پاس ائی اور ا کر کہنے لگی کہ اگر مجھ پر یقین نہیں ہے تو اپنی اماں سے ایک دفعہ پوچھ لے کیا وہ طوائف نہیں ہے کیا مردوں کی ہوس کو نہیں مٹاتی یہ الفاظ تھے یا کوئی خنجر تھا جو میرے دل میں چبا جا رہا تھا میں نے سوچ لیا کہ کچھ بھی ہو جائے اج تو میں حقیقت کا پتہ لگا کر ہی رہوں گی اسی دوران میں اماں کے پاس گئی غصے کی وجہ سے میرا سانس پھول چکا تھا میں ہانپ رہی تھی جب اماں نے دروازہ کھولا اور کہنے لگی کیا ہوا ہے سب ٹھیک تو ہے میں نے غصے سے اپنی کتابیں اور بستہ دور صوفے پر پھینکا اور دوسرے صوفے پر خود بیٹھ گئی اماں نے میری یہ حالت پہلی مرتبہ دیکھی تھی وہ جلدی سے گھبراتے ہوئے میرے پاس ائی اور ا کر کہنے لگی میری بچی مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے میں نے اماں سے کہا اماں ہر کوئی اپ کو طوائف کیوں کہتا ہے اور اج تو خالہ نے بہت عجیب سی بات کی اپ مردوں کی ہوس مٹاتی ہیں اور اج تو اس نے میری ذات پر بھی سوال اٹھایا وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اگر تیری ماں اتنی ہی پاک باز ہے تو بتا تیرا باپ کون ہے مجھے بتاؤ ماں میں کیا کروں میرا باپ کون ہے کہاں پر ہے میرا باپ وہ زندہ بھی ہے یا مر گیا ہے اپ نے ہی کہا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپ مجھے سب کچھ بتا دیں گی لیکن اپ نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا میں جب بھی کوئی سوال کرتی تھی اپ مجھے ٹوک دیتی تھی اب مجھے بتائیں کہ حقیقت کیا ہے اماں میری بات انکھیں پھاڑ کر سن رہی تھی ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا میری انکھوں سے مسلسل انسو بہہ رہے تھے اماں مجھے چپ کروانا چاہتی تھی مگر شاید اب ان کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی تھی تبھی وہ کندھے جھکا گئی اور کہنے لگی میں تجھے ابھی کچھ نہیں بتا سکتی میں تجھے کھونا نہیں چاہتی میں جانتی ہوں جب تجھے حقیقت پتہ چلے گی تو تم مجھ سے نفرت کرنے لگو گی جیسے ساری دنیا کرتی ہے مگر اس سب میں میرا کوئی قصور نہیں تھا ہاں صرف میرا اتنا گناہ تھا کہ میں نے اپنے ماں باپ کی بات نہیں مانی تھی ان سے جھوٹ بول کر ان سے چھپا کر میں نے ایک بہت بڑا گناہ کر دیا تھا جس کی سزا مجھے ساری زندگی بھگتنی تھی اور میں ابھی تک بھگت رہی ہوں مگر میں چاہتی ہوں کہ تم ایسی زندگی نہ گزارو تبھی تجھے بار بار ہر بات سے منع کرتی ہوں میں نے اماں سے کہا اماں کیسا گناہ اب تو مجھے تجسس ہونے لگا تھا کہ اخر اماں نے ایسا کیا کیا ہے جس کی سزا وہ بھگت رہی تھی وہ لوگ ان کو اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں اماں نے کہا کہ ابھی تیری عمر چھوٹی ہے میں تیرے دماغ پر بوجھ نہیں ڈال سکتی تیری شادی بہت اچھے گھرانے میں کرنا چاہتی ہوں پھر میں تجھے سارا باقی کا واقعہ بتاؤں گی میں نے اماں سے کہہ دیا تھا کہ اماں کچھ بھی ہو جائے میں حقیقت کا جب تک پتہ نہیں لگا لیتی تب تک میں پڑھنے نہیں جاؤں گی اماں میری بات پہ ایک دم پریشان ہو گئی اور کہنے لگی یہ کیسی بے وقوفی ہے یہ کیسی بات کر رہی ہو میں چیخ کر اماں سے کہنے لگی اماں جب تک تم مجھے حقیقت نہیں بتاؤ گی تب تک یہ دنیا چپ نہیں کرے گی اماں انسو بہانے لگی اور کہنے لگی کاش میں تجھے سب حقیقت بتا سکتی اماں کو روتے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی تکلیف ہو رہی تھی اسی لیے میں نے لمبا سانس کھینچا اور اپنے انسو صاف کر کے ان کے ساتھ جا کر لگ گئی اور ان سے کہا کہ ٹھیک ہے جب اپ کو مناسب لگے تب بتا دینا لیکن ایسے رو کر اپنی طبیعت نہ خراب کرو اماں ہمیشہ مجھے ایک بات کہتی کہ جس روز میں مر جاؤں گی اس روز میرا جنازہ کوئی نہیں اٹھائے گا لیکن کسی طرح تم مجھے قبرستان چھوڑ دینا رات 12 بجے کے بعد میرا خود ہی جنازہ پڑھا دیا جائے گا مجھے ہمیشہ اماں کی بات پر حیرانگی ہوتی اور ان سے میں کہتی اماں اول تو ایسی باتیں نہ کیا کرو اگر ایسی باتیں کرتی ہو تو مجھے وجہ بتاؤ تم ایسا کیوں کہتی ہو اور تمہیں کیسے یقین ہے کہ کوئی تمہارا جنازہ پڑھائے گا اماں اگے سے مسکرا دیتی اور کہتی جو مجھے نظر ارہا ہے میں تمہیں وہی بتاؤں گی میں اکثر اماں سے کہتی کہ اماں ہم یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاتے ہیں کہیں اور جا کر گھر بنا لیتے ہیں اماں بولتی یہ گھر چھوڑ کر ہم کہاں جائیں گے میرے پاس تو کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے لیکن اب ادھی زندگی تو گزر ہی چکی تھی اس لیے اماں یہاں سے کہیں نہیں جانا چاہتی تھی مگر اماں مجھے حقیقت بھی تو نہیں بتاتی تھی تاکہ مجھے اس جگہ پر رہنے میں اسانی ہو تو اس کے بعد حقیقت میں میرا محبت سے بھروسہ ہی اٹھ گیا جب اماں نے بتایا کہ وہ بھی اپنی جوانی میں کسی لڑکے سے محبت کرتی تھی اس کی اماں نے اسے بہت سمجھایا نامحرم کی محبت رسوا کر دیتی ہے مگر اماں کو تو اس وقت صرف محبت نظر ا رہی تھی جیسے مجھے بھی اب محبت ہی نظر ارہی تھی اور کچھ نہیں اماں نے اس لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے کا ارادہ کر لیا اس لڑکے نے بھی اماں کو کافی بہلایا ان کا سارا زیور لے کر فرار ہو گیا اماں تنہا رہ گئی گھر سے بھی بھاگ چکی تھی کہاں جاتی جب اس لڑکے نے اماں کا سارا زیور لیا اور اماں کے ساتھ زیادتی کی اس کے بعد ان کو ایک طوائف خانے میں چھوڑ دیا وہاں پر بیچ دیا اور اماں کے بدلے کچھ پیسے لے کر وہاں سے فرار ہو گیا اس کے جانے کے دو ہفتے بعد ہی اماں حاملہ ہو گئی اور پھر کسی شفیق انسان نے اماں کو وہاں سے خرید لیا اور ان کو ازادی دلوا دی شاید اماں کو اللہ نے معاف کر دیا تھا جس طرح وہ رو رو کر معافی مانگتی تھی شاید خدا کو اماں پر ترس اگیا تھا مگر وہاں سے نکل کر انے کے بعد اماں کی زندگی زیادہ مشکل ہو گئی طرح طرح کے لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے پڑتے وہ واپس اپنے اماں ابا کے پاس اگئی میرے نانا نانی بہت بوڑھے ہو چکے تھے تبھی انہوں نے اماں کو معاف کر دیا اور اپنے ساتھ رکھ لیا اماں کے ہاتھ میں جب انہوں نے ایک بیٹی دیکھی تو انہیں اس بچی پر ترس ایا وہ بچی کوئی اور نہیں تھی میں تھی اماں نے نانا نانی سے معافی مانگی لیکن لوگوں کی باتوں نے نانا نانی کو جینے کے قابل نہیں چھوڑا اس لیے وہ یہ سب برداشت نہ کر سکے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے بعد میں اماں مجھے پالنے لگی اور لوگوں کی باتیں بھی سنی مگر مجھے کبھی تنہا نہیں کیا مجھ پر ہر وقت نظر رکھتی تھی تاکہ ان کے ساتھ جو ہوا کہیں وہ میرے ساتھ نہ ہو جائے جس پر میری اماں تھی لیکن خدا کسی کسی کو ازمائش کے لیے چنتا ہے میری اماں نے جو ازمائش کاٹی خدا نے اس کے بدلے میں مجھے سکون عطا کر دیا میں نے اماں سے وعدہ کیا کہ وہ جہاں کہیں گی میں وہی شادی کروں گی اس کے علاوہ میں کچھ نہیں کروں گی میں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی اور گھر بیٹھ کے امتحان کی تیاری کرنے لگی اماں سے وعدہ کر رکھا تھا ایک روز اماں کی حالت بہت خراب ہو گئی اماں کہنے لگی میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اماں کو ایک بہت بری بیماری لگ گئی تھی وہ بیماری تو دراصل پہلے کی تھی مگر اب اس نے اپنے اثرات دکھانا شروع کر دیے تھے اہستہ اہستہ اماں بستر پر اگئی میں ہر وقت ان کے پاس رہتی ان کی خدمت کرتی اور روتی رہتی اور ان سے کہتی اماں مجھے تنہا کر کے نہ چھوڑ کے جانا ایک روز میں اماں کے سرہانے ہی لیٹی ہوئی تھی جب اچانک اماں کی عجیب و غریب اوازوں سے میری انکھ کھلی میں جیسے ہی اٹھ کے بیٹھی تو اماں کی زبان ہونٹوں سے باہر تھی اور انکھیں الٹی ہو چکی تھیں میں چیخ کر اماں کو پکارنے لگی مگر اماں نے اواز نہ دی اماں اس دنیا سے جا چکی تھی اور اماں کا اس دنیا سے جانا میری تو زندگی ہلا کر رکھ گیا سب محلے والوں کو خبر ہو چکی مگر کوئی اماں کے چہرے کو بھی دیکھنے نہیں ایا پھر میں ایک فقیر کی مدد سے اماں کو قبرستان لے گئی جیسے اماں نے مجھے کہا تھا
میری طوائف ماں کا انتقال ہوا تو کوئی بھی جنازہ پڑھانے کو تیار نہیں تھا لیکن اچانک ہی مجھے ماں کی بات یاد ائی میری میت کو رات کے 12 بجے قبرستان لے جانا جنازہ پڑھانے والے خود ہی ا جائیں گے اب میں ایک ادمی کی مدد سے اپنی ماں کی میت کو اٹھا کر قبرستان لے گئی سارے گلی والے حیران رہ گئے مگر اگے بڑھنے کی کسی میں ہمت نہ تھی جانے والی تو چلی گئی لیکن محلے والوں نے اس کی ذات پات کو لے کر بہت سی باتیں شروع کر دی میں نے لوگوں کو نظر انداز کیا اور اماں کو لے کر قبرستان میں کھڑی رہی مجھے انتظار تھا ان لوگوں کا جنہوں نے انا تھا پھر میں رات کے 12 بجے کا انتظار کرنے لگی دور دور تک سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن اچانک ہی میں نے لوگوں کا ایک گروہ اتا ہوا دیکھا جیسے ہی وہ نزدیک ائے تو میرے تو ہوش حواس فنا ہو گئے کیونکہ وہ سب طوائف کھانے کے لوگ ہی تھے مگر ان میں ایک جانا پہچانا چہرہ بھی تھا اماں نے مجھے ابا کی ایک مرتبہ تصویر دکھائی تھی جب وہ کافی بیمار تھی ہاں یہ وہی شخص تھا یہ میرا باپ ہی تھا جس نے میری ماں کو دھوکہ دیا انہیں تکلیف میں رکھا یہاں پر کیا کر رہا تھا وہ تو طائف خانے کے لوگ اگے ائے اور اماں کی میت کا جنازہ پڑھانے لگے ان میں میرا باپ بھی شامل تھا وہ چند لوگ ہی تھے جنہوں نے اماں کا جنازہ پڑھایا اور اس کے بعد ان کو دفنا دیا گیا میرا باپ میرے سامنے ایا اور ا کر میرے سر پر ہاتھ رکھنے ہی والا تھا کہ میں جٹ سے پیچھے ہو گئی اور اس سے کہا مجھے چھونا بھی مت مجھے نفرت ہے تم جیسے انسان سے جس نے عورت کا ناجائز فائدہ اٹھایا تمہیں شرم کیوں نہ ائی تمہیں تو ڈوب مر جانا چاہیے تھا تبھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور کہنے لگا میں نے جو تمہاری ماں کے ساتھ کیا مجھے اس کا بدلہ مل گیا ہے میں نے دنیا میں ہی اس کا بدلہ پا لیا ہے مجھے معاف کر دو میں تمہارا بھی قرضدار ہوں تمہاری ماں سے تو معافی مانگنے کا موقع نہیں ملا مگر تم تو مجھے معاف کر سکتی ہو نا میں نے اپنے ابا سے کہا نہ ہی میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی تم نے میری اماں کو بہت تکلیف دی وہ اس تکلیف کے قابل نہیں تھی وہ تو اتنی صابر عورت تھی اتنی نیک تھی لیکن تم نے ان کو داغدار کر دیا نہ صرف ان کو بلکہ مجھ کو بھی اگر اماں نہ بتاتی تو مجھے کبھی ہی نہ پتہ چلتا کہ میرا اصلی باپ کون ہے اخر کیوں کیا تم نے ایسا میں نے کیا بگاڑا تھا تمہارا میری ماں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا یا تم حقیقت نہیں جانتے تھے کہ تم نے گھٹیا حرکت کی ہے اس کے بعد اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے میں اس کو باتوں پہ باتیں سنا رہی تھی وہ خاموشی سے میری باتیں سنتا جا رہا تھا میں نے اسے کہہ دیا اج کے بعد میرے سامنے مت انا ورنہ میں نہیں جانتی کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلو کروں گی اتنا کہہ کے میں قبرستان سے نکل ائی رو رو کر میرا برا حال ہو چکا تھا میں اپنے گھر ائی اور گھٹنوں میں سر رکھ کر رونے لگی اماں کا جانا مجھے اکیلا کر گیا تھا میں جانتی تھی کہ مجھے اب اپنے ہی بلبوتے پر جینا ہے میں نے اسی روز فیصلہ کر لیا کہ میں شادی ہی نہیں کروں گی کسی مرد پہ تو بھروسہ کسی صورت نہیں کروں گی میں نے اپنی محبت کو ہی ادھورا چھوڑ دیا میں نے اچھی نوکری شروع کر دی جس میں مجھے بہت منافہ ہوا اہستہ اہستہ میں نے عزت کمانا شروع کر دی اور پھر بے شک رب کی ذات عزت دینے والی ہے میری ماں ساری زندگی عزت کے لیے ترس گئی مگر خدا کا شکر تھا کہ اس رب نے میرے لیے عزت رکھی تھی میں جس جگہ کام کرتی وہاں میرے اس پاس کے لوگ میری بہت عزت کرتے تھے اب تو محلے والے بھی مجھ سے اچھے سے سلام دعا لینے لگے اب کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ میں کس کی بیٹی ہوں وجہ صرف میرا کاروبار تھا میرا کام تھا جس نے میری شخصیت ہی بدل دی آج کی سٹوری اپ کو کیسی لگی کمنٹ باکس میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا شکریہ