Jawan Bachun Ki Moot Par khush Hone Wali Maa | Story | Ramzan Story

آج کی اس ویڈیو میں ہم آپ کو ایک ایسی ماں کا واقعہ سنائیں گے جو اپنے بیٹوں کی موت پر خوش ہوتی تھی اس کے بیٹے مر جاتے تو وہ بہت خوش ہوتی حالانکہ وہ ان کی سگی ماں تھی ۔

آخر ایسا کیوں کرتی تھی نعمت پر غمگین اور مصیبت پر خوش ہونے والی عورت کا عجیب و غریب واقعہ سننے کے لیے ہماری ویڈیو کوبھی دیکھ سکتے ہیں ۔

 حضرت سیدنا ابن سیار مسلم رحمت اللہ علیہ اس واقعے کا تمام حال بیان فرماتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تجارت کی غرض سے بحرین کی طرف چلا وہاں میں نے دیکھا کہ ایک گھر کی طرف بہت سارے لوگوں کا آنا جانا ہے اس گھر کے باہر جب میں نے آمد و رفت دیکھی لوگوں کا اس قدر ہجوم دیکھا تو مجھے حیرت ہونے لگی کہ آخر کیا ہے اس گھر میں، کون ہے اس گھر میں ،کیا کوئی بہت نیک بزرگ ہے یا پھر خدانخواستہ کہیں کوئی انہونی تو نہیں ہو گئی آخر دل میں تجسس پیدا ہوا اور میں اس گھر کی طرف چل دیا۔

 میں گھر میں اس نیت سے داخل ہو رہا تھا کہ شاید کوئی مرد حضرات ہوں گے میرے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ وہاں پر کوئی خاتون ہوگی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خاتون نہایت ہی افسردہ اور غمگین، نہایت ہی اداس پھٹے پرانے کپڑے پہنے مصلحے پر بیٹھی ہے اور اس کے ارد گرد غلاموں اور لونڈیوں کی کثرت ہے بہت سے نوکر چاکر اس کے گھر میں کام کاج کرتے پھر رہے ہیں گھر میں اس کی اولادیں بیٹے اور بیٹیاں بھی موجود ہیں تجارت کا بہت سارا ساز و سامان اس کی ملکیت میں ہے خریدداروں کا ہجوم لگا ہے اتنا کچھ ہے اس عورت کے پاس اور وہ عورت ہر طرح کی نعمتوں کے باوجود غمگین تھی کسی سے بات نہیں کرتی تھی نہ ہی ہنستی تھی۔

 اس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا کہ اللہ تعالی نے اس عورت کو اتنی نعمت عطا کی اتنا مال و دولت جائیداد گھر بنگلہ بیٹے بھی دئیے ہیں اولادیں بھی ہیں اس کے پاس بیٹیاں بھی ہیں رحمت بھی ہیں نعمت بھی ہیں یہاں تک کہ غلام بھی ہیں کنیزیں چاروں طرف کھڑی ہیں اس کی خدمت کے لیے کاروبار اس قدر وسیع ہے کہ دیکھنے والے کو رشک آ جائے عجیب ناشکری عورت ہے اداس بیٹھی ہے اللہ کی نعمت کا شکر ادا نہیں کرتی ۔

میرے ذہن میں یہ سوال آنے لگا کہ بیٹھی ہوئی بھی مصلے پر ہے کیا چاہتی ہے آخر کاریہ، بہرحال میں نے کوئی سوال نہیں کیا اور خود کو حیرت کے سمندر میں غوتے لگاتے ہوئے اور سوالوں کو ایک کنویں میں چھوڑ کر واپس آگیا۔

 واپس آکر میں نے اپنے تمام باقی رہ جانے والے کام کیے، کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سوچا دوبارہ اس گھر کی طرف چل دیتا ہوں کیونکہ اس عورت میں مجھے کچھ عجیب سی بات نظر آئی تھی وہاں جا کر دیکھا تو اس عورت کے گھر کے ارد گرد پھر سے بہت سارے غلام کنیزیں اس کے چاروں طرف پھر رہے تھے یعنی نہایت ہی عیش و عشرت کی زندگی وہ عورت گزار رہی تھی اب میں اس کے گھر میں داخل ہو گیا اس کے بچوں سے اجازت لے کر کہا کہ میں آپ کی والدہ سے ملنا چاہتا ہوں کچھ دیر بعد میں اس کے گھر میں داخل ہوا اور اس کے گھر پر بیٹھ کر اس کے عالی شان گھر کو دیکھنے لگا جب میں اس عورت کے پاس آیا تو وہ عورت مجھ سے بہت اچھے طریقے سے ملی اور میری خوب اچھے سے مہمان نوازی بھی کی اس نے مجھ سے کہا آپ یہاں پر نئے لگتے ہیں میں نے کہا جی اس شہر میں نیا ہوں تجارت کی غرض سے یہاں آیا ہوا تھا تو آپ کے گھر کے ارد گرد اتنی بھیڑ دیکھی تو آپ سے ملنے پر مجبور ہو گیا اس نے کہا بالکل آپ کبھی یہاں پر دوبارہ آئیں تو ہم سے کوئی بھی کام ہو آپ یہاں ضرور آنا ہماری کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت پڑے تو ہمیں ضرور بتائیں ہمیں خوشی ہوگی ۔

میں نے اسے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ میں واپس اپنے شہر چلا آیا میرے دل میں بہت سے سوالات تھے لیکن میں پوچھ نہیں سکا ۔نہ جانے وہ کیا کہے گی کہ ایک اجنبی شخص مجھ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ جب میں دوبارہ کبھی آؤں گا پھر اس سے سوال پوچھوں گا میں یہاں اآکر پھر سے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا لیکن دوبارہ اب اتفاق سے میری یہ خواہش پوری ہو گئی کام کے سلسلے میں تجارت کے لیے مجھے دوبارہ اسی عورت کے شہر میں جانا پڑا جب میں دوبارہ بحرین آیا اور اپنے کام نپٹا کر جب میں اس گلی سے گزرا جہاں پر اس عورت کا گھر تھا جب میں نے اس عورت کے گھر کی طرف دیکھا تو اس کے گھر کی طرف دیکھتے ہی مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا میرے ذہن میں تھا کہ وہاں پر لوگوں کا رش ہوگا لوگ موجود ہوں گے آنا جانا لگا ہوگا گھر کے اندر اور گھر کے باہر پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا کسی قسم کی چہل پہل نہ تھی نہ تجارتی سامان تھا نہ غلام اور نہ ہی لونڈیاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا وہاں پر پہلے جیسا کچھ نہیں تھا۔

 میں بڑا حیران ہوا اللہ رحم کرے کہیں کچھ برا تو نہیں ہو گیا اس تمام عرصے میں میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ میں اسی وقت  اس عورت کے گھر جا کر سب معلوم کروں گا لہذا میں اس کے گھر کی طرف بڑھا لیکن جب میں نے پریشانی کے عالم میں اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا گھر کے اندر سے کسی کی ہنسنے اور باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں جب دروازہ کھولا گیا میں اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں  کہ وہی عورت اب نہائیت کی قیمتی اور خوش رنگ لباس میں ملبوس بڑی خوش و خرم نظر آرہی تھی اور اس کے ساتھ صرف ایک ہی عورت گھر میں موجود تھی اس کے علاوہ گھر میں کوئی نہیں تھا مجھے بڑا تعجب ہوا اور میں نے اس عورت سے پوچھا جب میں پچھلی مرتبہ تمہارے پاس تمہارے گھر آیا تھا تو تم کثیر نعمتوں کے باوجود بھی خوش نہیں تھی اتنی زیادہ نعمتیں تھیں تمہارے پاس نوکر چاکر اولاد جیسی نعمت تجارتی سامان اور سب کچھ ہونے کے باوجود آرائشی ہونے کے باوجود بھی غمگین تھی رو رہی تھی اور نہایت ہی افسردہ تھی لیکن اب خادموں، لونڈیوں اور دولت کمی   میں اور نہ ہی تمہاری اولاد سب عیش و عشرت چھن چکی ہے تم سے یعنی کچھ بھی موجود نہیں ہے تمہارے پاس کوئی بھی نہیں ہے اولاد بھی نہیں ہے نہ پیسہ ہے تمہارے پاس پھر بھی خوش اور مطمئن نظر آرہی ہو اس میں کیا راز ہے مجھے اس رازسے آگاہ کرو۔

 میں نے وہ تمام باتیں اس عورت کو کہہ دی جتنے عرصے سے میرے دل میں تھی اور اس سے پوچھنے لگا کہ آخر ماجرہ کیا ہے پھر جو اس عورت نے مجھے کہا میں وہ سن کر حیران رہ گیا اس عورت نے کہا تم تعجب نہ کرو بات دراصل یہ ہے کہ جب تم پچھلی مرتبہ مجھ سے ملنے آئے تھے تو میرے پاس دنیاوی نعمتوں کی بھرمار اور کثرت تھی اللہ تعالی نے دنیا میں موجود تمام نعمتیں مجھے عطا کی ہوئی تھی میرے پاس ان کی کثرت تھی جو تمہیں نظر بھی آ رہی تھی میرے پاس مال اور دولت اور اولاد کی کثرت تھی اس حالت میں مجھے خوف ہوا کہ شاید میرا رب (اللہ) مجھ سے ناراض ہے اس وجہ سے مجھے کوئی مصیبت اور تکلیف نہیں پہنچاتا اسی وجہ سے مجھ پر کوئی غم مصیبت نہیں آتی ورنہ اس کے پسندیدہ بندے اس کے نیک بندے جن سے وہ محبت کرتا ہے وہ تو آزمائشوں اور مصیبتوں میں مبتلا رہتے ہیں اس وقت یہی سوچ کر میں پریشان اور غمگین تھی اور رو رہی تھی مصلے پر بیٹھ کر میں جو آنسو بہا رہی تھی وہ خوف کے آنسو تھے ،ڈر کے آنسو تھے اور میں نے اپنی حالت ایسی بنائی ہوئی تھی کہ کہیں میرے خوش ہونے پر اگر میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو جاتا اور کہتا کہ تجھے میں نے اتنی نعمتیں دی تو اپنے رب کو ہی بھول گئی ایسے کیسے ہو سکتا ہے یعنی میں ان لوگوں میں شامل ہو جاتی جن کو اللہ پسند نہیں فرماتا وہ سوچ کر میں رو رہی تھی اس ڈر سے میں رو رہی تھی اس کے بعد سے میرے مال اور اولاد پر مسلسل مصیبتیں اور آزمائشیں ٹوٹ پڑیں۔

 میرا سارا اثاثہ ضائع ہو گیا میرے تمام بیٹے اور بیٹیوں کا انتقال ہو گیا خادم ،لونڈیاں ،اثاثےسب جاتے رہے میرا تجارتی کاروبار تباہ ہو گیا اور میری تمام دنیاوی نعمتیں مجھ سے چھین لی گئیں لیکن اب میں بہت خوش ہوں کہ میرا اللہ عزوجل شاید مجھ کو پسند کرتا ہے اسی وجہ سے تو مجھ پر آزمائشیں آئیں اور میں مصیبتوں میں مبتلا ہوئی حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام کی طرح اور میرا تو یہ حال ہے کہ ایک مرتبہ میری چادر  پھٹ گئی میں نے اسے ٹھیک کروایا لیکن وہ میری مرضی کے مطابق ٹھیک نہ ہوئی تو مجھے اس بات نے کافی دن تک غمگین رکھا یعنی وہ عورت جو نعمت ہونے پر ڈر رہی تھی خوفزدہ ہو رہی تھی کہ کیا اللہ مجھے پسند نہیں کرتا جو اللہ نے مجھے اتنی نعمتیں دی ہوئی ہیں اولاد دی ہوئی ہے یعنی ہر وہ نعمت جو انسان کو خوشی میں مبتلا کر دے اولاد اور دولت انسان کو خوشی میں مبتلا کر دیتی ہے وہ کوئی اٹھ کر کام نہ کرے اس کی خدمت کے لیے چاروں طرف لوگ موجود ہوں اس کے گھر میں لوگوں کی بھیڑ ہو لوگ اس سے متاثر ہوں اسے اچھا سمجھتے ہوں ایسی چیزیں تو ہر کوئی چاہتا ہے ایسی خوشی تو ہر کوئی مانگتا ہے عجیب عورت تھی۔

 حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالی کے نبی کی صبر اور شکر کی صفات ان کے اندر آگئیں اللہ تعالی نے جب  حضرت ایوب کو بیماری دی تو انہوں نےاللہ تعالی کا شکر ادا کیا نہ کہ ناشکری کی، نہ کہ مایوسی کا شکار ہوئے کہ یہ کیا کیا اللہ تو نے مجھے کس مصیبت میں مبتلا کر دیا اور اب یہ عورت جس سے  سب کچھ چھین لیا گیا پھر بھی مطمئن ہوئی اب میرا رب مجھ سے راضی ہے یعنی بندے پر مصیبت آنا اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو آزمانا چاہتا ہے وہ اس مصیبت میں کتنا صبر اور شکر کرتا ہے اور پھر اس کے گرد لوگ بھی تو ایسے موجود ہوتے ہیں جو شر پھیلاتے ہیں شیطان بھی ان کو تنگ کرتا ہے لیکن اس سب میں انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے ان سے دنیاوی نعمتیں بھی چھین لی جاتی ہیں یہ اللہ کی طرف سے اپنے نیک بندوں پر آزمائش ہی  تو ہوتی ہے۔

 پھر اللہ تعالی فرماتا ہے اے میرے بندے اب بتا پھر مجھے تجھ سے محبت نہیں کیا مجھے تجھ سے محبت نہیں 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا رب کیا اپنے بندوں سے نعمتیں چھین کر خوش ہوگا نہیں بلکہ وہ دیکھے گا کہ اس کا بندہ کتنا شکر کر رہا ہے پھر جب اس کو نوازے گا تو وہ بندہ کہے گا سبحان اللہ، اللہ والوں کی شان ہے کہ وہ نعمتیں نہ ہونے پر شکر گزار ہوتے ہیں وہ خوش ہوتے ہیں کہ آگے جا کر حساب و کتاب میں مشکل نہیں ہوگی سوال جواب نہیں دینا پڑے گا نہ ہی اولاد کے سلسلے میں اور نہ ہی مال و دولت کے سلسلے میں۔

 کیونکہ یہ سب چیزیں ہمارے لیے آزمائش ہیں اگر اللہ تعالی نے ہمیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں تو ہمیں اس پر شکر گزار ہونا چاہیے نہ کہ خوشی سے جھومنا چاہیے ہر وقت اللہ سے ڈر کر رہنا چاہیے کہ نہ جانے اللہ پاک اس کا حساب ہم سے کیسے لے گا کیونکہ مال اور اولاد فتنہ ہے یہ ہمیں فتنے میں مبتلا نہ کر دے تو اللہ ان کی محبت میں ہم تجھ سے دور نہ ہو جائیں اس دنیاوی عیش و عشرت میں اور مال و دولت میں اللہ تعالی کی عبادت سے غافل نہ ہو جائیں۔

 اسی لیے ہمیں ذرا سی مصیبت اور پریشانی میں مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سوچ لینا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے دی گئی ہم پر آزمائش ہے جسے ہمیں اللہ تبارک و تعالی کی نظر میں سرخرو ہو کر اپنے نصیب میں بہتر سے بھی بہترین لکھوانا ہے اللہ پاک ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر اور حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت نصیب فرمائے نیکی اور ثواب کی نیت سے آگے بھی ضرور شیئر کیجئے ۔

Leave a Comment