بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج کی ویڈیو میں ہم بات کریں گے کہ کربلا کے شہیدوں کا بدلہ کس نے لیا تھا اور امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کا کیا انجام ہوا تھا ۔ صاحب تاریخ طبری لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن کیاس جس نے محمد بن عمار بن یاسر کو قتل کیا تھا اس نے امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے قاتلان میں سے مختار ثقفی کو چند آدمیوں کے نام بتا دیے جن میں عبداللہ بن اسید جانی ،مالک بن نصیر بدی اور حمل بن مالک مہاروی بھی تھے یہ سب اس زمانے میں قادسیہ میں رہتے تھے. مختار ثقفی نے اپنے سرداروں میں سے ایک سردار مالک بن عمرہ نہدی کو ان کی گرفتاری کے لیے چند سپاہیوں کے ہمراہ بھیجا اس نے جاکر ان سب کو گرفتار کر لیا اور عشاء کے وقت انہیں لے کر مختار ثقفی کے پاس پہنچا مختار نے ان لوگوں سے کہا .اے اللہ اور رسول اور آل رسول کے دشمنوں حسین ابن علی کہاں ہیں .مجھے بتاؤ مجھے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کراؤ ظالموں تم نے اس مقدس ذات کو قتل کیا جن پر نماز میں تمہیں درود بھیجنے کا حکم دیا ہے انہوں نے کہا اللہ آپ پر رحم کرے ہمیں ان کے مقابلے میں زبردستی بھیجا گیا تھا ہم جانے کے لیے تیار نہیں تھے آپ ہم پر احسان کریں ہمیں چھوڑ دیں مختار نے کہا ہے کہ نہیں تم نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر احسان نہیں کیا ان پر تمہیں رحم نہیں آیا تم نے انہیں اور انکے بچوں کو پیاسا رکھا پانی نہیں پینے دیا اور آج ہم سے احسان طلب کرتے ہو پھر بدی سے کہا کہ تم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی ٹوپی اتاری تھی عبداللہ بن کامل نے کہا جی ہاں یہی وہ شخص ہے جس نے ان کی ٹوپی اتاری تھی مختار ثقفی نے حکم دیا کہ دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ کر اس کو چھوڑ دیا جائے یہ اسی طرح تڑپ تڑپ کر مر جائے چنانچہ اس کے حکم پر عمل کیا گیا بدی کے ہاتھوں اور پیروں سے خون کا دہارا بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا اس کے بعد جہنمی اور محاربی کو قتل کر دیا گیا ۔ حکیم ایک ایسا شخص تھا جس کا نام حکیم بن طفیل طائی تھا جس نے کربلا میں حضرت عباس علمدار کے لباس اور اسلحے پر قبضہ کیا تھا اور امام حسین علیہ السلام کو معاذاللہ تیر مارا تھا مختار ثقفی نے عبداللہ ابن کامل کو اس کی گرفتاری کے لیے چند سپاہیوں کے ہمراہ بھیجا جب وہ مختار ثقفی کی طرف پکڑ کر اسے لارہے تھے حکیم کے گھر والے عدی بن حاتم جو کہ حاتم طائی کا بیٹا تھا اس کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ تم مختار سے سفارش کرو کہ ہمارے بھائی کو چھوڑ دیں عدی بن حاتم مختار ثقفی کے پاس پہنچا اور سفارش کرنے لگا وہ عدی کے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آیا اسے اپنے پاس بٹھایا عدی نے اپنے آنے کی غرض بیان کی مختار نے کہا اے ابو ظریف کیا آپ کا قاتلانے حسین کے لئے بھی سفارش کرتے ہو اس نے کہا کہ حکیم پر جھوٹا الزام ہے اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ادھر حکیم کو ابھی مختار ثقفی کے پاس لایا نہیں گیا تھا سپاہی ا سے لے کر آرہے تھے اور وہ راستے میں ہی تھے جب ان سپاہیوں کو خبر ہوئی کہ عدی بن حاتم جو کہ اس وقت مختار ثقفی کے پاس بیٹھا ہے اور حکیم کی سفارش کر رہا ہے اور مختار ثقفی نے اس کی سفارش بھی قبول کر لی ہے وہ حکیم کو رہا کردے گا تو ان سپاہیوں نے راستے میں ہی اس قاتل کو انجام تک پہنچا دیا انہوں نے اسے ایک کمرے میں بند کیا اور کہا کہ تو نے حضرت عباس ابن علی کے کپڑے اتارے تھے ہم تیری زندگی میں تیرا لباس اتاریں گےچنانچہ ان لوگوں نے اسے بالکل ننگا کر دیا پھر کہا تو نے حسین ابن علی کو تیر مارا تھا ہم تجھے تیروں کا نشانہ بنائیں گے یہ کہہ کر انہوں نے اسے تیروں سے مارا ۔مار مار کر ہلاک کر دیا اسے نشان عبرت بنا دیا ۔ایک شخص جس کا نام زید بن رقاب تھا اس بدبخت نے حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو تیر مارا تھا جو ان کی پیشانی میں لگا تھا انہوں نے پیشانی کو بچانے کے لیے اس پر اپنا ہاتھ رکھ لیا تھا مگر تیر ایسا لگا کہ ہاتھ بھی پیشانی کے ساتھ زخمی ہو گیا تھا اور جب کوشش کے باوجود ان کا ہاتھ پیشانی سے جدا نہ ہو سکا تو ا نہوں نے بارگاہ الہی میں دعا کی یا رب العالمین ہمارے دشمنوں نے جیسے ہم ہمیں ذلیل کیا ہے تو بھی ان کو ایسے ہی ذلیل کر اور جس طرح انہوں نے ہمیں قتل کیا ہے تو بھی ان کو اس طرح ہی قتل کر اور پھر آخر میں زید بن رکعب نے عبداللہ بن مسلم بن عقیل کے پیٹ میں ایک تیر مارا تھا جس سے وہ شہید ہوگئے تھے ابن رکعت کہا کرتا تھا کہ ان کے پیٹ کا تیر تو میں نے آسانی سے نکال لیا ۔ مگر جو تیر پیشانی میں لگا کوشش کے باوجود وہ تیر نہ نکل سکا ۔مختار ثقفی نے ابن کامل کو اس کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا ابن کامل سپاہیوں کے ساتھ پہنچ کر اس پر ٹوٹ پڑا وہ بھی بہادر آدمی تھا تلوار لے کر اس کا مقابلہ کیا ابن کامل نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اسے نیزہ اور تلوار سے ہلاک نہ کرو بلکہ تیر اور پتھر مارو سپاہیوں نے اس قدر تیر اور پتھر مارے کہ وہ گر گیا ابن کامل نے کہا کہ دیکھو اگر جان باقی ہو تو اسے باہر لاؤ دیکھا تو اس کی جان ابھی باقی تھی اسے باہر نکالا گیا ابن کامل نے آگ منگوا کر اسے زندہ جلا دیا ۔ عبیداللہ ابن زیاد وہ نام نہاد انسان تھا جو یزید کی طرف سے کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا اسی بدبخت کے حکم پر امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اہل بیت کو تمام ایذائیں پہنچائی گئی یہی ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوج کے ساتھ اترا اور مختار ثقفی نے اس کا مقابلہ کیا مختار ثقفی نے ابراہیم بن مالک اشتر کو اس کے مقابلے کے لئے ایک فوج دے کر موصل میں جا موصل سے تقریبا پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا اور صبح سے شام تک خوفناک جنگ جاری رہی جب دن ختم ہونے والا تھا اور آفتاب قریب غریب تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آگئی اور ابن زیاد کو شکست ہوئی اس کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی ابراہیم نے حکم دیا ہے کہ مخالف فوج میں جو بھی ہاتھ آئے اس کو زندہ نہ چھوڑا جائے چنانچہ بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا گیا اسی ہنگامے میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کی دس تاریخ سن ستاسٹھ ہجری کو ہلاک کیا گیا اس کا سر کاٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ بھجوایا مختار نے دارالامارات کوفہ کو آراستہ کیا اور ابن زیاد کا سر ناپاک اسی جگہ پر رکھوایا جس جگہ ا س مغرور حکومت اور اس مغرور شخص نے امام حسین علیہ السلام کا سر رکھا تھا چھ سال ہوئے ہیں وہی تاریخ ہے وہی جگہ ہے خدا وند عالم نے اس مغرور فرعون کو ایسی ذلت اور رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا اسی کوفہ اور اسی دار الامارات میں اس بے دین کے قتل اور ہلاکت پر جشن منایا گیا ۔ کاتلان امام حسین علیہ السلام پر طرح طرح کے عذاب نازل ہوئے جو لوگ حضرت امام حسین علیہ السلام کے مقابلے میں کربلا گئے تھے اور ان کے قتل میں شریک ہوئے تھے ان میں سے تقریبا چھ ہزار کوفی مختار ثقفی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے اور دوسرے لوگ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہ بچا جس نے آخرت کے عذاب سے پہلے اس دنیا میں سزا نہ پائی ہو اس دنیا کا عذاب نہ پایا ہو۔ ان میں سے کچھ تو بُری طرح قتل کیے گئے کچھ اندھے اور کوڑھی ہوئے اور کچھ لوگ سخت قسم کی آفتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے ۔آج کی ہماری ویڈیو میں بس اتنا ہی امید ہے کہ ہماری آج کی تاریخی اور اسلامی ویڈیو آپ کو ضرور پسند آئی ہوگی ویڈیو کو لائک کیجئے اور ہمارا چینل کو سبسکرائب کیجئے تاکہ ہماری آنے والی تاریخی اور اسلامی ویڈیوز آپ تک بروقت پہنچتی رہیں شکریہ