اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار امام حسین کو بلند کر کے دنیا کو یہ بتا تے تھے کہ یہ حسین مجھ سے ہے اور میں اس حسین سے اے لوگو اگر حسین پےکوئی مشکل وقت آ جائے اور یہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کا ساتھ دینا کیونکہ یہ جنت کے جوانوں کا سردار ہے۔ میرا خون ہے میری اولاد ہے لیکن افسوس ابھی رسول اللہ کی رحمت کو تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ کربلا کے میدان میں ایک طرف نو لاکھ کا مجمع تھا تو دوسری طرف وہ حسین جس کو اللہ کے رسول اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے امام حسین علیہ السلام اپنے نانا کی امت سے بار بار کہتے رہے کہ کیوں میرا راستہ روکا ہے اے لوگو پہچانو میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں کیوں تین دن سے میرے بچوں کو پیاسا رکھا ہے کیوں میرے عزیز و اقارب کو شہید کیا ہے ۔بتاؤ! کیا میں نے رسول اللہ کی شریعت میں ترامیم کی ہے کسی انسان کا حق کھایا ہے کسی انسان پر ظلم کیا ہے ۔اتنے میں فوج یزید ایک آواز میں کہنے لگی ۔اے حسین ہم سب تجھے تیرے بابا علی کے بغض میں قتل کر رہے ہیں تاکہ یزید ہماری جھولیاں دولت سے بھر دے۔ امام حسین نے فرمایا اے لوگو آج جس ا سلام کا علم تمہارے ہاتھوں میں بلند ہے یہ علم میرے بابا علی نے بلند کیا مت بھولنا ۔ خیبر وخندق میں اگر علی نہ ہوتے تو اسلام کی فتح ناممکن تھی وہ علی جس کی پوری زندگی اسلام کی تبلیغ کی ,حق کو بلند کیا ۔رسول اللہ کی حفاظت کی اوراس علی کو یہ اجر دے رہے ۔ اے لوگو بتاؤ! اللہ کے رسول نے بار بار میرے بابا علی کا ہاتھ بلند کر کے فرمایا تھا کہ جہاں حق ہوگا وہاں علی ہوگا جہاں علی ہوگا وہاں حق ہو گا اور آج اس علی اور اولاد رسول کو یہ صلہ دےرہے ہو اتنے میں یزید کی فوج کے سپہ سالار نے دیکھا کہ کہیں فوج میں بغاوت نہ ہو جائے اے شمر کیا دیکھ رہے ہو حملہ کرو بس لاکھوں کی فوج نے جب رسول اللہ کے نواسے پر حملہ کیا ۔امام حسین علیہ السلام نے اللہ کا نام لیا اور تلوار کو نکالا ۔تاریخ گواہ ہے ایک طرف لاکھوں کا مجمع اور ایک طرف تین دن کا بھوکا پیاسا حسین بن علی ہے زمین پے اس طرح کی جنگ پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی کہ تنہا انسان لاکھوں کے مجمع کو اس طرح سےز نارکر رہا ہے کہ فوجیں اشقیاں واپس پلٹ کے بھاگنے لگی۔ امام حسین فوجیں یزید سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں تین دن کے بھوکے کی جنگ دیکھو ۔تین دن کے پیاسے کی جنگ دیکھو ۔ رسول کےاس نواسے کی جنگ دیکھو اس کی جنگ دیکھو جس کا جوان بھائی مارا گیا۔جس کے جواب بیٹے کو نظروں کے سامنے قتل کیا گیا جس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے بچے کی قبر بنائی۔ امام حسین شیر کی طرح فوجیں یزید سے لڑ رہے ہیں۔ اتنے میں آواز غائب آتی ہے حسین تیرا اللہ تجھ سے راضی ہوا .بس صدا کا سننا تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنی ذلفقار کو تھام لیا ۔اتنے میں عمر بن ساد کہتا ہے کہ شمر کیا دیکھ رہے ہو ؟ یہ علی کا شیر ہے اس کو مات دینا ناممکن ہے ۔جاؤ خیموں کو آگ لگا دو۔ بس کچھ ظالموں نے بیبیوں کے خیموں کو آگ لگا دی ۔اورکچھ امام حسین کو دور سے تیر مارنے لگے
امام حسین کبھی بیبیوں کے خیموں کی طرف بڑھتے ہیں کبھی فوج کی طرف جاتے ہیں عمر بن ساد اور شمر نے فوج کو چار حصوں میں تقسیم کردیا اور یہ کہا کہ کوئی بھی حسین کے قریب نہ جائے جس کے پاس جو جو چیز ہے وہ دور سے حسین کو مارے۔ جس کے پاس نیزہ تھا اس نے نیزہ مارا ۔جس کے پاس تیرتھے۔وہ تیر مارتا رہا۔ جس کے پاس برچھیاں تھی وہ برچھیاں مارنے لگا۔ تاریخ نے لکھا جس کے پاس مارنے کے لیے کچھ نہ تھا وہ کربلا کی گرم زمین سے مٹی اٹھا کے امام حسین کی طرف پھینکتا رہا۔امام حسین کے جسم مبارک پے ہزاروں زخم لگ گئے۔ آپ کے جسم مبارک پر اتنے تیر تھے کہ آپ کا جسم مبارک نظر تک نہیں آرہا تھا۔جیسے ہی نواسہ رسول گھوڑے کی سیٹ سے زمین پر آتے ہیں فوجیں یزید جھومنا شروع کر دیتی ہے لیکن اتنے میں وہ گھوڑا جس پے آپ سواری کیا کرتے تھے۔ وہ امام حسین کے چاروں طرف گھومنا شروع کر دیتا ہے تاکہ ان تیروں سے میں اپنے آقا حسین کو بچا لوں ۔ وہ گھوڑا دوڑ ہی رہا تھا اتنے میں عمر بن ساد نے کہا۔ اے لوگو رکو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اس گھوڑے پہ اللہ کی رسول سواری کرتے تھے کہیں تیر اس گھوڑے کو نہ لگے۔ یوں تیروں کو چلانا بند کیا گیا۔افسوس ہے ان لوگوں کواس گھوڑے کا احترام معلوم تھا جس پر رسول اللہ ساری کیا کرتے تھے لیکن اس حسین کا احترام بھول چکے جن کو آپنے کندھوں پر سوار کر کے آمت کو دکھایا کرتے تھے۔ بس امام حسین علیہ السلام زمین کربلا پر اپنا سر رکھ کے اللہ کا شکر کر رہے ہیں اور وہاں یزید کے مختلف سپاہی امام حسین کا سر کاٹنے کے لیے قریب آتے ہیں ۔جو بھی قریب آکے امام حسین کے سر کو دیکھے۔ اسےامام حسین کے چہرے پر رسول اللہ کا چہرہ نظر آئے اور وہ چیخ کے دور چلا جائے اتنے میں شمرکہنے لگا یہ کام مجھ سے ہی ہونا ہے۔ جیسے ہی شمر نے خنجر اما م حسین کے گلے پے رکھا۔ تو وہ دیکھے کہ امام حسین کے لب ہل رہے ہیں ۔اس نےسوچا ہم نے حسین کا پورا خاندان قتل کر دیا تین دن تک حسین کے بچوں کو پیاسا رکھا شاید حسین ہمیں بد دعا دے رہے ہوں گے۔ سننے کے لیے کان قریب کرے تو کیا سنا کہ امام حسین علیہ السلام اللہ کے دربار میں اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کر رہے ہیں اللہ تیرا شکر ہے کہ ا س عظیم امتحان کے لئے تو نے اس حسین کو چنا۔اتنے میں امام حسین نے آنکھیں کھولیں اور شمر سے کہا ۔ اے شمر کیا تو نہیں جانتا میں رسول اللہ کا نواسہ ہوں جنت کا سردار ہوں حق پےہوں بے جرم ہوں ۔شمر نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے پھر آپ نے فرمایا تو کیوں قتل کر رہے ہو ۔شمر نے کہا تاکہ یزید میری جھولی دنیاوی دولت سے بھر دے ۔شمر یہ کہتے کہتے امام حسین کا گلا کاٹتا رہا۔ فوجیں یزید مسلسل جھومتی رہی۔ امام حسین کے سر مبارک کو نوک پے بلند کر دیا۔ اور امام حسین کے سر کلم ہونے کے بعدسادات کو لوٹا گیا۔ بی بی سکینہ کو تمانچے مارنے لگے ۔ رسول اللہ کی نواسیوں کے سروں سے چادروں کو لوٹ لیا اورامام حسین کے جسم مبارک کی توہین کرنے لگے تاریخ نے لکھا کہ امام حسین کے جسم پرجو جو چیزیں تھی ان کو لوٹنے لگے۔ اتنے میں ایک شخص امام حسین کے جسم کے قریب آیا امام حسین کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی پہنی تھی اتارنے کی کوشش کی نا اتری وہ ظالم انگلی کاٹ کے انگوٹھی لے گیا۔آپ کے جسم مبارک کو رسیوں سے باندھ کے کر بلا کی گرم زمین پر ادھر سے ادھر پھرایا گیا۔ اتنے میں عمر بن ساد نے کہا اے شمر حسین اور اس کے ساتھیوں کی لاش کا وہ حشر کرتے ہیں۔ کہ رہتی دنیا تک کوئی بھی یزید کے خلاف آواز نہ اٹھائے سب کے جسم سے سروں کو کاٹ لو اور سب کی لاشوں کو پامال کر دو زمین ِ کربلا گواہ ر ہے ۔کہیں سے کوئی قبیلہ اٹھ کے اتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم لاش کو پامال ہونے نہیں دیں گے ۔پھر بی بی ام لیلیٰ کا قبیلہ آکے کہتا ہے کہ ہم علی اکبر کا لاشہ پامال ہونے نہیں دیں گے ۔ کہیں بی بی رباب کا قبائیل آکے کہتا ہے کہ ہم علی اصغر کالاشہ پامال ہونے نہیں دیں گے۔ایک ایک شہید کی لاش پامال ہونے والی جگہ سے ہٹائی گئی تاریخ گواہ ہے صرف رسول اللہ کا نواسہ کربلا کی گرم زمین پر پڑا رہا۔ اور مغرب کے گھوڑے مشرق کی طرف اور مشرق کے گھوڑے مغرب کی طرف دوڑتے ہے۔ امام حسین کا جسم پامال ہوتا رہا ۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں میرا سلام ہو میرے اس غریب داداپر جس کی لاش کو اس طرح سے پامال کیا گیا تھا ان کی دائیں پسلیاں بائیں پسلیوں کی طرف چلی گئی اوربائیں پسلیاں دائیں پسلیوں کی طرف چلی گئی۔ جن کا سینہ اور پشت ایک ساتھ ہو گیا ۔ سلام ہو میرے دادا حسین پر جن کے جسم مبارک کے ٹکڑوں کو زمین کربلا پے بکھیرا گیا۔