آج کی اس ویڈیو میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارے نواسے حضرت امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے بچپن کے حالات اور واقعات کے متعلق جانیں گے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا حضرت امام حسن و حسین علیہ السلام سے عقیدت اور محبت کے چند منتخب واقعات پیش کرینگے جو یقینا آپ کی محبت اور احترام میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ناظرین رمضان سن 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہاکے گھر امام حسن علیہ السلام کی پیدائش ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ملی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور اپنے نواسے کا نام حسن رکھتے ہیں۔ جبکہ شعبان سن 6 ہجری کو امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر رکھا اور یہ ایسا نام تھا جسے اللہ نے اہل عرب کے ذہنوں سے چھپا رکھا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن اور حسین جنتی ناموں میں سے دو نام ہیں امام حسن اور حسین علیہ السلام نے امام الانبیاء کی آغوش میں پرورش پائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دونوں نواسوں کی تربیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں سے بے پناہ محبت تھی حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں ہوتے تو امام حسین علیہ السلام پُشت پر سوار ہو جاتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سجدے کو طویل کر دیا کرتے تھے ایک موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے سجدہ لمبا کیوں کر دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر میرا بیٹا سوار تھا اس لیے جلدی اٹھنا مناسب نہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں نواسوں کی ایک عظیم فضیلت بیان فرمائی جو خصوصی طور پر امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے عطا کی گئی تھی حضرت حظیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے انتہا خوش دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی اس مسرت کی کیا وجہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حظیفہ میرے پاس آج ایک ایسا فرشتہ نازل ہوا جو اس سے قبل نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کے متعلق مبارکباد دی اور کہا کہ فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہے اور حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں یہ دونوں شہزادے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے حضرت سعید بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت کے لئے نکلے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام گلی میں کھیل رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور اپنے ہاتھ پھیلا دئیے امام حسین علیہ السلام ادھر ادھر بھاگنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا اور آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا ہاتھ سر کے اوپر رکھا اور بوسہ لیتے ہوئے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھتا ہو اور اس سے بغض رکھے جو حسین سے بغض رکھتا ہو اس فرمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ اعلان کردیا کہ امام حسین علیہ السلام سے محبت ایمان والوں پر فرض ہے اور ان کا دشمن مومنوں کا دشمن ہے ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ نے ہر نبی کی اولاد کو اس کی پشت سے پیدا کیا اور بے شک اللہ نے میری اولاد علی کی پشت سے پیدا فرمائی ایک دن حضور اکرم صلی ہو علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن علیہ السلام کو ساتھ لے کر مسجد کی طرف نکلے اور حسن علیہ السلام اس وقت چھوٹے سے بچے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں ممبر پر چڑھے اور لوگوں کو بتایا کہ ان کا یہ بیٹا سردار ہے جو روئے زمین پر پائے جانے والے سب سے معزز گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اللہ اس کے ذریعے دو بڑی جماعتوں میں صلح کروائے گا امام حسن علیہ السلام کی برکت سے اللہ ان دونوں جماعتوں کو آپس میں ملا دے گا اور جنگ اور لڑائی کا خاتما ہوگا امام حسن اور حسین علیہ السلام کی ہستی کو اللہ نے دنیا اور آخرت میں بلند کر دیا ان دونوں شہزادوں کا بچپن نہایت ہی فکر اور تنگدستی میں گزرا۔ باوجود اس کے آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ثابت قدم رہے اور اللہ کی طرف سے انھیں ہمیشہ غیبی مدد آتی رہی۔ روایتوں میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب عید کے ایام قریب آنے لگے تو امام حسن اور امام حسین علیہ السلام اپنے کرتے مبارک لے کر اپنی ماں فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کے قریب آئے اور کہا امی جان سب بچے نیٔے کپڑے پہن رہے ہیں کیا ہم عید پر نئے کپڑے نہیں پہنیں گے جبکہ امام علی علیہ السّلام اور فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا سب کچھ اللہ کی راہ میں تقسیم کر دیا کرتے تھے لیکن جو اللہ تعالیٰ کے لئے جیتے ہیں اللہ تعالی انہیں رسوا نہیں کرتا جب امام حسن اور امام حسین علیہ السلام اپنی ماں فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھتے ہیں کہ امی جان ہمارے لئے نئے کپڑے نہیں آئیں گے تو سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا دونوں شہزادوں کو فرماتی ہیں کہ اے میرے پیارے شہزادو صبر کرو تمہارے کپڑے تمہارا درزی لے کر آرہا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم سے اماں فاطمۃ الزہرا کے گھر تشریف لے آئے تو بڑے شہزادے امام حسن علیہ السلام نے کہا مجھے سبز رنگ پسند ہے اور چھوٹے شہزادے امام حسین علیہ السلام نے کہا مجھے لال رنگ پسند ہے تو خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا کہ اپنے درزی کو کہو کہ وہ تمہاری پسند کے رنگ لے کر آئے گا وہ دونوں جنت کے شہزادے وہ دونوں جنت کے سردار اپنی اپنی پسند حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بتاتے ہیں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام جاتے ہیں اور امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے پسند کے رنگ کے کپڑے لے کر آتے ہیں جنت کے سبز رنگ کے کپڑے کو امام حسن علیہ السلام کو دیتے ہیں اور جنت کے لال رنگ کے کپڑے کو امام حسین علیہ السلام کو دیتے ہیں رات گزری اور سورج طلوع ہوتا ہے دونوں شہزادے آپنے اپنے جنتی لباس پہن کر عید کی نماز ادا کرنے جاتے ہیں اور نماز پڑھنے کے بعد دونوں شہزادے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر چلے جاتے ہیں اور اپنے نانا جان سے گلے مل کر عید کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ نانا جان سب بچے اپنی اپنی سواریوں پر گھوم رہے ہیں ہمارے پاس کوئی سواری نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسن حسین تم میرے کندھوں پر سوار ہو جاؤ میں تمہاری سواری بنتا ہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں جنت کے سردار امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے ہیں اور مدینہ شریف کی گلیوں میں گھومنے لگتے ہیں لوگ دیکھتے ہیں اور نظر جھکا کر سبحان اللہ کہتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں زلفیں حسن علیہ السلام کے ہاتھ میں دیں اور بائیں زلفیں امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ میں دیں ایک صحابی آئے اور کہنے لگے اے پیارے شہزادو تمہاری سواری کتنی پیاری ہے کتنی عظیم ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوار بھی تو کتنے پیارے ہیں سبحان اللہ