بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم ناظرین آج کی اس ویڈیو میں ہم پیش کرنے جا رہے ہیں ایک ایسا عظیم واقعہ جسے سن کر آپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا یہ واقعہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا اس واقعے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اس ویڈیو کو اینڈ تک ضرور دیکھیں
محترم ناظرین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک 86 برس ہو چکی تھی تاہم اولاد کی نعمت سے محروم تھے انہوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں کچھ اس طرح دعا کی اے میرے رب مجھے نیک اور صالح بیٹا عطا فرما یہ دعا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور اپ علیہ السلام کی دوسری بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنا دی گئی۔ حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی تھی اس لیے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خبر ان پر ناگوارگزری اس لیے انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اصرار کیا کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے بیٹے کو یہاں سے دور کر دو یہ لوگ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں حضرت ابراہیم ابراہیم علیہ السلام کو یہ بات بہت ناگوار گزری مگر بارگاہ الہی سے جب حکم ہوا کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ریگستان میں چھوڑ دیا جائے حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اسی جگہ لے ائے جہاں اج کعبہ ہے اس زمانے میں یہ جگہ بالکل غیر اباد تھی ایک تھیلی کھجور اور ایک مشکیزہ پانی کے ہمراہ اپ علیہ السلام نے ان کو وہاں پر چھوڑ دیا جب اپ علیہ السلام ان کو وہاں پر چھوڑ کر جانے لگے تو بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں روک کر پوچھا ہمیں اس بیابان میں چھوڑ کر اپ کہاں چل دیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خاموشی پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا کیا یہ میرے رب کے حکم سے ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاں میں جواب دیا تب بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں جانے دیا اور فرمایا ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام جب چلتے چلتے ایسی جگہ پہنچے کہ دونوں ماں بیٹا نگاہوں سے اوجھل ہو گئے تو اپ علیہ السلام نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور اللہ کے حضور عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی اولاد ایک ایسے میدان میں جہاں کھیتی نہیں جہاں پانی نہیں تیرے ادب گھر والے کے پاس اے رب بعض لوگوں کے دل جھکا دے ان کی طرح اور ان کو روزی عطا فرما اپنے فضل سے تاکہ یہ شکر کریں حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا چند روز تک مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور کھجوروں سے گزارا کرتی رہی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی رہیں جب پانی اور کھجوریں ختم ہو گئے تب وہ پریشان ہو گئی چونکہ بہت بھوکی تھی اس لیے دودھ بھی نا اترتا تھا اور بچے نے بھوک اور پیاس سے رونا شروع کر دیا تھا بچے کی بے چینی دیکھ کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پانی کی تلاش شروع کر دی اور وہ صفا پہاڑ پر چڑیں کہ شاید کوئی اللہ کا بندہ نظر ا جائے یا کہیں سے پانی مل جائے مگر کچھ نظر نہ ایا پھر وہ واپس وادی میں اگئیں اور پھر وہ دوسری پہاڑی مروہ پر چڑیں کہ کہیں پانی نظر ا جائے اس طرح اپ رضی اللہ تعالی عنہا نے سات چکر لگائے ممتہ کا یہ جذبہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوا کہ بیت اللہ کی زیارت کے لیے انے والے ہر فرد پر اللہ تعالی نے اسے لازم قرار دے دیا کہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے پہاڑوں کی صیح کرے اس کی مقبولیت کا ایک اشارہ یہ بھی تھا کہ ساتوں چکروں میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا جب بچے کے پاس واپس ائیں تو دیکھا کہ جس جگہ حضرت اسماعیل علیہ السلام روتے ہوئے ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا اور یہ چشمہ اج بھی موجود ہے اور ہم لوگ اسے اب زمزم کے نام سے جانتے ہیں ہزاروں سال گزرنے کے باوجود چشمے کا پانی اس طرح جاری ہے اللہ تعالی نے اس میں مخلوق کے لیے شفا رکھی ہے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا یہ معجزہ دیکھ کر بے حد خوش ہوئی اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے بچے کو پانی پلایا اور خود بھی اس سے مستفید ہوئیں اسی وقت اللہ تعالی کی طرف سے ایک فرشتہ نازل ہوا اور ان کی طرف سے وحی سنائی اے ہاجرہ اپ خوفزدہ نہ ہوں اور نہ ہی یہ غمگین ہوں کیونکہ اللہ تعالی اپ کو اور اس بچے کو ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ یہ اللہ کا گھر یعنی مقام بیت اللہ ہے جسے اس بچے نے اور اس کے باپ نے تعمیر کرنا ہے کچھ عرصے کے بعد جرانامی ایک قبیلہ پانی کی فراوانی دیکھ کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اجازت سے یہاں ا کر اباد ہو گیا حضرت اسماعیل علیہ السلام کا بچپن اسی قبیلے کے درمیان گزرا ابھی حضرت اسماعیل علیہ السلام بچے ہی تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں اپ علیہ السلام نے مسلسل تین راتیں ایک ہی طرح کا خواب دیکھا لہذا اپ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب یقیناًاللہ تعالی کی طرف سے ہی ہے اور اپ علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کا ارادہ فرمایا اور اپنا تمام خواب اپنے بیٹے کو سنایا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا میرے بیٹے میں تمہیں اپنے خواب کے پیش نظر اللہ کی راہ میں قربان کرنا چاہتا ہوں بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے اس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انتہائ تحمل کے ساتھ فرمایا !
بابا جان اپ اللہ کے نبی اور ان کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اپ بے فکر ہو کر اللہ کے حکم کی تعمیل کریں انشاءاللہ اپ مجھے انتہائی صبر والا پائیں گے چنانچہ یہ دونوں اللہ کے بندے اپنے اللہ کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوئے روایت میں اتا ہے کہ ابلیس نے انہیں ناکام بنانے کے لیے کئی طریقے اپنائیں سب سے پہلے وہ بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس پہنچا یہ بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے چل پڑے ہیں اس پر بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا! اسماعیل ہماری اکلوتی اولاد ہے ابراہیم علیہ السلام ایسا نہیں کر سکتے پھر ابلیس نے کہا کہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق کر رہے ہیں مگر بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالی نے فرمایا اگر یہ میرے خالق کی رضا ہے تو میں اس پر راضی ہوں جب یہاں ابلیس کے سارے وار ناکام ہو گئے تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اکسانے کا فیصلہ کیا اور ان کے دل میں باپ کی شفقت کو ابھارنے لگا اور کہا اے ابراہیم اسماعیل اپ کی اکلوتی اولاد ہے آپ عمررصیدہ ہیں اور انہی سے اپ کی نسل ہے یہ اپ کیا کرنے جا رہے ہیں اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا مجھے میرا بیٹا اللہ نے دیا ہے اور یہ میرے پاس اللہ کی امانت ہے میں اللہ کے حکم پر راضی ہوں جیسے چاہے حکم دے ہم اس کے تابع ہیں اور فرمانبردار ہیں اپ کے جواب سے ابلیس کو سخت مایوسی ہوئی لیکن اس نے اپ علیہ السلام کو بہکانے کی ناکام کوشش جاری رکھی حتی کہ اس نے اسماعیل علیہ السلام کو بھی بہکایا یہ اپنے مقصد پر ڈٹے رہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا میں اپنے رب کی رضا میں راضی ہوں میرے رب نے میرے بابا کو خواب میں براہ راست قربانی کا حکم دیا اور انبیاء کرام کے خواب سچے ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ ابلیس نے انہیں تین مرتبہ قربان گاہ جانے کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی اور تینوں مرتبہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابلیس پر کنکر برسائے اور اسے کامیاب نہ ہونے دیا یہی وہ سنت ہے جسے ہر سال حاجی دہراتے ہیں اور یہ سنت رنی کہلاتی ہے بالاخر دونوں باپ بیٹا وادی منی میں پہنچے جہاں اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا تھا تب کائنات نے وہ منظر دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ شاید قیامت تک دیکھ پائے گا زمین و اسمان ساکت ہیں کائنات حیران ہے فرشتے عرش سے زمین پر عجیب منظر دیکھ رہے ہیں تبھی اسماعیل علیہ السلام کہتے ہیں ابا جان اپ میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں باندھ دیجئے تاکہ چھری چلاتے وقت اپ کو کوئی دقت نہ ہو اور ابا جان اپ مجھے زمین پر منہ کے پل لٹائیے گا تاکہ میرا چہرہ زمین کی طرف ہو اگر میرا چہرہ اپ کی طرف ہوا تو کہیں اپ کو مجھ پر ترس نہ ا جائے اور اپ مجھے ذبح نہ کر پائیں ابا جان اپنی انکھوں پر پٹی باندھ لیجئے اور ذبح کرنے کے بعد میرا کرتا میری ماں کو دے دیجئے گا تاکہ انہیں صبر آجائے اپ علیہ السلام نے ان سب باتوں پر عمل کیا بیٹے کا ماتھا چوما پاؤں باندھے اور بیٹے کو منہ کے بل لٹا دیا اور چھری چلا دی لیکن چھری نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو نہ کاٹا کیونکہ اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام چھری چلاتے ہیں مگر چھری نہیں چلتی اپ علیہ السلام اور زور لگاتے ہیں مگر چھری ہے کہ چلنے کا نام ہی نہیں لیتی اپ علیہ السلام چھری سے فرماتے ہیں اے چھری تو کیوں نہیں چلتی میرے ننے اسماعیل کا گلا تو بہت نازک ہے تو کیوں نہیں چلتی عرش پر فرشتے خاموش ہیں زمین پر ایک انسان کا اللہ سے محبت کا عجیب منظر دیکھ رہے ہیں تب اللہ پاک جبرائیل علیہ السلام سے فرماتے ہیں اے جبرائیل جاؤ اور جنت سے مینڈھا لے جاؤ میرا خلیل پیچھے نہیں ہٹے گا اور جاؤ اس کی قربانی کرو تب جبرائیل علیہ السلام جنت سے مینڈھا لے جاتے ہیں اور اسماعیل علیہ السلام کو چھری کے نیچے سے ہٹایا اور مینڈھا رکھ دیا اب چھری کو چلنے کی اجازت ملی اور چھری چل گئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں پر گرم خون لگا اور اپ علیہ السلام کی زبان سے بے ساختا نکلا اللہ اکبر یا اللہ تیرا شکر ہے مگر جب انکھوں سے پٹی اتاری تو حضرت اسماعیل علیہ السلام صحیح سلامت ایک طرف بیٹھے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تابعداری اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری بارگاہ الہی میں قبول ہوئی اور اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچا لیا اور ان کی جگہ جس جانور کی قربانی دی گئی اس کے متعلق روایات میں اتا ہے کہ وہ جنت سے لایا گیا ایک مینڈھا تھا یہی وہ قربانی ہے جسے تاقیامت امت مسلمہ کے لیے عملی نمونہ بنا دیا گیا ہے تو یہ تھا وہ عظیم قربانی کا واقعہ جسے ہم تمام مسلمان عید الاضح کو مناکر یاد کرتے ہیں .