﷽
یہ درد بھرا واقعہ سننے کے بعد آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جا ئیں گے ایک بار کا واقعہ ہے کہ بی بی فاطمہ گھر کے تمام کام کر کے چکی پیس رہی تھی اور رو رہی تھی حضرت علی گھر میں تشریف لائے کہ دیکھتے ہیں کہ گھر کے سارے کام ہو چکے ہیں اور فاطمہ چکی پیس رہی ہیں اور ساتھ میں رو رہی ہیں حضرت علی بی بی فاطمہ سے پوچھنے لگے اے فاطمہ تو کیوں رو رہی ہے اور یہ پانی کس لیے گرم ہو رہا ہے اور اتنا سارا آٹا ایک ساتھ کیوں پیس رہی ہو۔ بی بی فاطمہ رو کر فرمانے لگی اے میرے پیارے شوہر آج میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میرے ابو جان کسی چیز کو تلاش کر رہے ہیں میں نے ان سے پوچھا اے ابا حضور آپ کس کو تلاش کر رہے ہیں تو میرےپیارے ابا جان نےسرکار دوعالم نے فرمایا اے فاطمہ بیٹی میں تجھے تلاش کر رہا ہوں۔
بی بی فاطمہ رو کر فرمانے لگیں کہ آج کا دن میرا اس دنیا میں آخری دن ہے آج میں نے اللہ کو پیارے ہو جانا ہے حضرت علی یہ بات سن کر بہت ہی زیادہ رونے لگے اور فرمانے لگے ۔اے فاطمہ ابھی تک تو پیارے نبی سرکار دو عالم کے بچھڑنے کا غم ہمارے سینے میں ہی ہے اور تو اپنے بچھڑنے کی بات کر رہی ہے میں اس تیری جدائی کو کیسے برداشت کروں گا۔
تو بی بی فاطمہ فرمانے لگیں جس طرح آپ نے میرے ابا حضور کی جدائی کا غم برداشت کیا ہے اسی طرح سے میری جدائی کا غم بھی برداشت کر لیجئے گا ۔حضرت علی پوچھنےلگے کہ یہ پانی کیوں گرم کر رہی ہو اور یہ اتنا آٹاکیوں پیس رہی ہو آج کے دن بھی تم یہ کام کر رہی ہو تم نے بہت کام کرلیے ہیں۔
بی بی فاطمہ رو کر فرمانے لگی اے میرے پیارے شوہر آپ کے بھی تو حق ادا کرنے ہیں اپنے بچوں کے بھی تو حق ادا کرنے ہیں۔ میں پانی اس لیے گرم کر رہی ہوں کیونکہ اپنے دونوں بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلا سکوں ۔میں آٹا اس لیے پیس رہی ہوں تاکہ میرے بچے اور آپ اس آٹےکی روٹیاں بنا کر کھا سکیں۔ میں کپڑے دھو چکی ہوں آپ لوگوں کے ۔ تاکہ آپ لوگوں کو دھلے ہوئے کپڑے مل جائیں اور آپ پہن سکیں میرے بعد میرے بچوں کو کون آٹا گوندھ کر پیس کر کھلائے گا یہ کہہ کر بی بی فاطمہ بہت ہی زیادہ رونے لگی اور ساتھ میں حضرت علی بھی رونے لگے۔ حضرت علی بی بی فاطمہ کو سمجھا کر وہاں سے اٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام مت کرو تب ہی بی بی فاطمہ کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے انہیں تیز بخار ہونا شروع ہو جاتا ہے حضرت علی رورہے ہیں ۔ بی بی فاطمہ رو رہی ہیں اور اتنے میں گھر میں امام حسن اور امام حسین تشریف لے آتے ہیں وہ دونوں اپنی ماں اور باپ کو روتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اپنی ماں کے سینے سے لگ جاتے ہیں ۔
ذرا سوچئے وہ کیسا عالم ہوگا وہ کیسا منظر ہوگا جس ماں کو پتہ چل جائے کہ آج میں نے اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے اور میرے بچوں کا کیا بنے گا میرے بچوں کو کون کھانا کھلائے گا میرے بچوں کو کون روزسلائے گا اس ماں کے دل پے کیا گزرتی ہوگی حضرت علی بہت ہی زیادہ رونے لگے اور بی بی فاطمہ بھی بہت رونے لگی اور اپنے باپ اور ماں دیکھ کر امام حسن اور امام حسین بھی رونے لگے اور پوچھنے لگے اے بابا جان آپ کیوں رو رہے ہیں حضرت علی خاموش رہے ۔
پھر بی بی فاطمہ سے پوچھنے لگے اے امی حضور آپ کیوں رو رہے ہیں تو بی بی فاطمہ نے فرمایا کہ تم دونوں اپنے نانا جان کی قبر پہ چلے جاؤ ۔حدیث شریف میں آتا ہے کہ امام حسن اور امام حسین پیارے نبی سرکار دو عالم کی قبر پر چلے جاتے ہیں وہاں پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ تب ہی اندر سے آواز آتی ہے اے میرے پیارے بچو تم لوگ واپس اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔
میرے پاس تو تم لوگ آتے ہی رہو گے لیکن آج اپنی ماں کو جی بھر کے دیکھ لو آج کے بعد تمہیں تمہاری ماں کہیں نظر نہیں آئے گی جب یہ بات حسن اور حسین کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ دوڑتے ہوئے گھر چلے جاتے ہیں اور اپنی ماں کے سینے کے ساتھ لگ کے خوب روتے ہیں حضرت علی بھی رو رہے ہیں اور بی بی فاطمہ بھی رو رہی ہیں امام حسن بھی رو رہے ہیں اور امام حسین بھی رو رہے ہیں اتنی میں ہی بی بی فاطمہ کی طبیعت اور بھی زیادہ خراب ہونے لگتی ہے وہ حضرت علی کو اپنے پاس بٹھا کر ان سے تین باتیں کہتی ہے ۔
پہلی بات تو یہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ کوئی بھی کوتاہی کی ہو آپ کی خدمت میں کوئی بھی کوتاہی کی ہو آپ کی نافرمانی کی ہو آپ کا کوئی حکم نہ مانا ہو تو مجھے معاف کر دیجیے گا حضرت علی رو کر کہتے ہیں اے فاطمہ تو نبی کی بیٹی ہے تو نے اپنا حق پوری طرح سے ادا کیا ہے میں تجھ پر ہمیشہ خوش ہوں مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں ۔
بی بی فاطمہ دوسری بات کہتی ہیں اے میرے پیارے شوہر جب میں اس دنیا سے وفات پا جاؤ ں آپ نے دوسری شادی کرنی ہو تو کر لیجئے گا میرے بعد میرے بچوں کو میرے جتنا پیار بھی دیجئے گا ان کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دیجئے گا اور بی بی فاطمہ کی تیسری بات آپ کو بھی حیران کردے گی ۔
بی بی فاطمہ تیسری بات یہ کہتی ہیں کہ جب میں اس دنیا سے وفات پا جاؤں تو آپ میرے جنازے میں کسی کو بھی نہ بلوائیے گا یہ بات سن کر حضرت علی حیران ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے فاطمہ تو نبی کی بیٹی ہے میں تیرے جنازے میں کسی کو کیوں نہ بلواؤں تو بی بی فاطمہ فرماتی ہیں کہ میں نے آج تک اپنےآپ کو پردے میں رکھا ہے غیر مرد کی نظر نہیں پڑی میں چاہتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد بھی مجھ پر کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے جب شام ہو جائے اندھیرا ہو جائے آپ مجھے تب دفن کر دیجئے گا یہ باتیں سن کر حضرت علی بہت رو رہے ہیں بی بی فاطمہ رو رہی ہیں امام حسن رو رہےہیں اور امام حسین رور ہے ہیں سوچئے ذرا وہ کیسا منظر ہوگا جب ماں رخصت ہورہی ہے ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے اور اس کے بچے اس کے پاس بیٹھ کر رو رہے ہیں یہ الفاظ کہہ کر بی بی فاطمہ ایک بات اور کہتی ہیں کہ میں نے آج روزہ رکھا تھا میرے بابا جان نے میرے خواب میں آکر مجھے یہ کہا ہے اے فاطمہ تو سحری کر علی کے دسترخوان میں اور افطاری کرنا میرے ساتھ اپنے پیارے بابا جان کے ساتھ ۔
یہ باتیں کہہ کر بی بی فاطمہ اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں ۔بی بی فاطمہ کو کفن پہنایا جاتا ہے ان کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے روایات میں آتا ہے کہ جب بی بی فاطمہ کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو ایک طرف سے حضرت علی کاندھا دیتے ہیں اور دوسری طرف سے امام حسن کا ندھا دیتے ہیں اور تب ہی وہاں پر ایک صحابی پہنچ جاتے ہیں جن کا نام حضرت ابوذر غفاری ہوتا تبھی حضرت علی ان سے فرماتے ہیں کہ آج نبی کی لاڈلی بیٹی کا انتقال ہوگیا ہے ایک طرف سے تم کاندھا دے دو اس طرح یہ جنازہ اٹھایا جاتا ہے روایات میں آتا ہے کہ وہ دونوں معصوم بچے امام حسن اور امام حسین رو رہے ہیں حضرت علی رو رہے ہیں حضرت ابوذر غفاری رو رہے ہیں اور جنازہ قبر کے پاس رکھا جاتا ہے قبر کھودی جاتی ہے حضرت علی اس قبر کو دیکھتے ہیں جس قبر میں بی بی فاطمہ کو رکھنا ہوتا ہے حضرت علی بہت ہی زیادہ روتے ہیں ان کی داڑھی بھیگ جاتی ہے ان کے کپڑے بھیگ جاتے ہیں حضرت علی کبھی بی بی فاطمہ کو دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں یہ منظر دیکھتے ہوئے حضرت ابوذرغفاری بھی روتے ہیں اور قبر سے کہتے ہیں اے قبر کیا تجھے پتا ہے یہ جنازہ کس کا ہے یہ محمد کی بیٹی کا جنازہ ہے یہ علی کی بیوی کا جنازہ ہے جس کو امام حسن اور امام حسین کہتے ہیں یہ ان کی ماں کا جنازہ ہے تب ہی قبر سے آواز آتی ہے کہ میں رشتہ دار نہیں دیکھتی میں اعمال دیتی ہیں یہ قبر کی آواز جو آئی تھی وہ بی بی فاطمہ کے لئے نہیں تھی کیونکہ بی بی فاطمہ تو بخشی بخشائی تھی اور وہ جنت کی عورتوں کی سردار تھی بی بی فاطمہ تو ہر گناہ سے پاک تھی یہ آواز تو ہم جیسے لوگوں کے لیے تھی جو گناہ گار ہیں ۔
بی بی فاطمہ کو قبر میں دفنایا گیا اور حضرت علی اپنے دونوں بچوں کو سینے سے لگا کر وہاں قبر کے پاس بیٹھے کافی دیر تک روتے رہے دونوں پیارے بچے بھی کافی دیر تک روتے رہے وہ اپنی ماں کو یاد کرتے رہے وہ ہمارے پیارے نبی کا گھرانہ تھا وہ تو بخشے ہوئے لوگ تھے جنتی لوگ تھے جنت کے لوگوں کے سردار تھے نافرمان لوگ تو ہم ہیں جن سے قبر ہزار سوال کرے گی کہ کون سے اعمال لے کر آئے ہو میرے پاس اللہ تبارک وتعالی اورہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔