آج کی اس ویڈیو میں ہم اپ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا مکمل واقعہ بیان کریں گے یہ اتنا دردناک واقعہ ہے کہ اپ بھی اپنے انسو روک نہیں پائیں گے کہ کس طرح سے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا امام علی علیہ السلام کو لینے کے لیے تشریف لاتے ہیں
جب 19 رمضان کو مسجد کوفہ میں امام علی علیہ السلام کی آذان گونجنے لگی تو پوری کائنات میں سوگ برپا ہو گیا جرند پرند جنات چیخنے لگے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام تمام انسانوں سے کہنے لگی کہ اے انسانوں اج اخری مرتبہ علی کی اواز میں اذان سن لو مولا علی علیہ السلام اذان دینے کے لیے مصلحہ عبادت پہ آئے اللہ کی عبادت کر رہے تھے جیسے ہی اپ نے سجدہ کیا تو عبدالرحمن ابن ملجم زہر سے ڈوبی ہوئی تلوار امام علی علیہ السلام کے سر پہ دے مارتا ہے
بس مسجد کوفہ میں قیامت برپا ہو گئی تمام چاہنے والے سر پیٹنے لگے امام علی علیہ السلام کا مصلحہ خون سے رنگین ہو گیا اپ کے سر کا خون اپ کے چہرے اور داڑھی پےآ لگا کچھ چاہنے والے اس ملعون کو ڈھونڈنے لگے اس نے مولا علی کو ضرب ماری تو کچھ مولا علی علیہ السلام کے سر کا خون صاف کرنے لگے اتنی دیر میں ا مام علی علیہ السلام نے فرمایا اے حسن یہ نماز فجر کا وقت ہے پہلے نماز مکمل کرواؤ اس کے بعد مجھے دیکھنا امام حسن علیہ السلام نے نماز پڑھائی اور مسجد میں موجود تمام مسلمانوں نے نماز پڑھی جیسے ہی نماز ختم ہوئی تو عبدالرحمن ابن ملجم جس نے مولا علی علیہ السلام کے سر پہ وار کیا تھا اس کو پکڑ کے امام کی خدمت میں لایا گیا اور کچھ چاہنے والے شہد کا شربت بنا کے پاس لے کے آئے جیسے ہی امام علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے چہرے پہ خوف دیکھا تو اپنے چاہنے والوں سے فرمانے لگے کہ اس شربت کی مجھے نہیں بلکہ میرے قاتل کو ضرورت ہے یہ شربت اسے پلا دو اور دیکھو اس نے مجھ پہ ایک وار کیا ہے اس پہ بھی ایک ہی وار کرنا اور اگر یہ زندہ بچ جائے تو اسے ازاد کر دینا دیکھو اگر یہ اس وار سے مر جائے تو اس کے جسم کے اعضاء نہ کاٹنا کیونکہ میں نے اللہ کے رسول سے سنا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین انسان وہ ہے جو مرے ہوئے انسان کے جسم کے حصے کاٹتا ہے بس اپ یہ فرمانے لگے اور تمام چاہنے والے اپ کے عدل و انصاف کو دیکھ کے رونے لگی پھر اپ فرماتے ہیں حسن حسین عباس چلو مجھے اپنے گھر لے کے چلو اپ اپنے بیٹوں کے سہارے سے جیسے ہی گھر کے قریب پہنچتے ہیں تو فرماتے ہیں عباس سب چاہنے والوں کو کہو کہ واپس اپنے گھر چلے جائیں تو کسی نے عرض کیا یا امیر المومنین یہ سب اپ کے چاہنے والے ہیں اس حالت میں اپ کو کیسے چھوڑ کے چلے جائیں امام علی علیہ السلام نے فرمایا کیونکہ میرے ضربت کی خبر مجھ سے پہلے میرے گھر پہنچ چکی ہے اور میری بیٹیاں زور زور سے رو رہی ہیں میں نہیں چاہتا کہ میری بیٹیوں کی آواز میرے چاہنے والوں کے کانوں تک پہنچے تمام چاہنے والے وہیں رک گئے اور امام علی علیہ السلام گھر تشریف لاتے ہیں تمام بیبیاں روتی ہیں امام علی علیہ السلام کو دیکھ کے فریاد بلند کرتی ہیں اور امام علی علیہ السلام سب کو دلاسہ دیتے ہیں کہ مجھ سے میرے بھائی اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اے علی میری امت تجھے رمضان کے مہینے میں مسجد میں ضرب مارے گی اور تیرے سر کے خون سے تیری داڑھی سرخ ہو جائے گی یہ وقت صبر کا ہے اپ کو بستر پہ لٹایا گیا تاریخ نے لکھا جیسے ہی طبیب نے امام علی علیہ السلام کو دیکھا تو وہ چیخ کے رونے لگا اور فرمانے لگا کہ وہ ضرب زہر میں ڈوبی ہوئی تھی اور زہر مولا علی کے پورے جسم میں پھیل چکا ہے جتنا ہو سکے اپ ان کو دودھ پلائیں
بس جیسے ہی یہ خبر کوفے کی گلیوں تک پہنچی تو کوفے کے یتیم بچے اپنے اپنے حصے کا دودھ لیے امام علی علیہ السلام کے گھر پہ اتے ہیں اور با اواز بلند کہتے ہیں یا حسن یہ ہمارے حصے کا دودھ ہمارے مولا کو پلائیں ہم ایک مرتبہ یتیم ہو چکے ہیں دوسری مرتبہ یتیم نہیں ہونا چاہتے امام علی علیہ السلام بستر شہادت پہ بھی مسلسل اللہ کا ذکر کرتے رہے بس جیسے ہی 19 کا دن ختم ہوا 20 رمضان کی رات آئی۔ آپ فرمانے لگے کہ اب میرے حجرے میں کوئی بھی نہ ائے کیونکہ پوری دنیا کے جنات و فرشتے مجھ سے ملنے ارہے ہیں اور پھر جیسے ہی 20 رمضان کا سورج طلوع ہوا تو اپ امام حسن سے فرمانے لگی اے حسن جاؤ میرے تمام چاہنے والوں سے کہو کہ اپنے امام کا اخری دیدار کر لیں اپ کے عقیدت مند قطار بنا کے جیسے ہی اپ کی زیارت کے لیے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہ زہر پھیلنے کی وجہ سے اپ کا چہرہ پورا زرد ہو چکا ہے سب چیخ کے رونے لگےامام علی علیہا سلام فرمانے لگی پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو کیونکہ میں علی زمین کے راستوں سے زیادہ آسمانوں کے رستے جانتا ہوں پوچھ لو جب تم مجھے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھو گے تو پچھتاؤ گے کہ کاش کچھ اور پوچھ لیتے کسی عقیدت مند نے سوال کیا کسی نے جواب لیا کوئی زیارت کرتا رہا
بس جیسے ہی عقیدت مند جانے لگی امام علی علیہ السلام نے فرمایا حسن میرے پورے خاندان کو میرے حجرے میں لے کے اؤ امام علی علیہ السلام نے وصیتیں کیں اور فرمایا اب اس خاندان کا وارث میرا بڑا بیٹا حسن ہے جو یہ کہے اسے ماننا اور امام حسن سے فرمانے لگے اے حسن جتنا ہو سکےاپنی زبان و کردار سے محبت اور امن کا پیغام دیتے رہنا اپنے نانا کی صلح حدیبیہ کو یاد رکھنا کوشش کرنا کہ مسلمان مسلمان کا دشمن نہ بنے اور تقوی سے دور نہ ہونا اگر دنیا تمہارے قریب ائے بھی تب بھی اسے دل نہ لگا۔
دنیا وی چیز نہ ملنے پر کبھی افسوس نہ کرنا ہمیشہ حق بات کہنا مظلوم کی مدد کرتے رہنا ،حسن حسین جہاں تک ہو سکے میرے اس پیغام کو ہر ایک تک پہنچانا کہ اپنے کام ذمہ داری سے کرتے رہیں اور اپنے درمیان تعلقات کو اچھا بنائے رکھیں کیونکہ میں نے تمہارے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگوں کے بیچ میں صلح کروانا ہزاروں سالوں کے روزہ نماز سے بہتر ہے اور یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کہ کبھی وہ بھوکے نہ رہیں اور پڑوس میں رہنے والوں کا خیال رکھنا کیونکہ اللہ کے رسول پڑوسیوں کے بارے میں بار بار اتنی نصیحت کرتے ہیں کہ لوگ سمجھنے لگتے کہ شاید اللہ کے محبوب ان کو ہمارا وارث بھی بنانے والے ہیں اور قران کو سمجھ لیں اور اس پہ عمل کرنے میں دیر نہ کرنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے قران کو سمجھ کے تم پہ حکومت کرنے لگے نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے اور اللہ کے گھر کی حفاظت کرنا کیونکہ وہ تمہاری پہچان ہے اللہ سے ڈرو اپنی جان ،مال اور زبان کے بارے میں نہ کسی کا مال غضب کرو نہ کسی کو ہاتھوں اور زبان سے تکلیف دو ایک دوسرے کی مدد کرتے رہنا اور خبردار سب مسلمان ایک دوسرے سے جڑ کے جینا ورنہ تم پہ وہ لوگ مسلط ہو جائیں گے اگر تم فریاد بھی کرو گے تب بھی تمہاری اواز سننے والا کوئی نہ رہے گا اور سارے عبدالمطلب کے بیٹوں کو خبردار کر دو کہ اگر اس ضرب سے میری شہادت ہو جائے تو میرے قاتل کو بھی صرف ایک ہی ضرب مارنا اگر وہ بچ جائے تو اسے ازاد کر دینا اگر وہ مر جائے تو اس کے جسم کی بے حرمتی نہ کرنا اس کے جسم کے حصے نہ کاٹنا کیونکہ میں نے اللہ کے رسول سے سنا کہ زمین کا بدترین عمل یہ ہے کہ کسی مرے ہوئے کےعضائے جسم کاٹے جائیں چاہے وہ پاگل کتا ہی کیوں نہ ہو ۔
حسن میرے جنازے میں کسی کو شریک نہ کرنا پیچھے سے حسن و حسین تم اٹھانا اگے سے جبرائیل و میکائیل اٹھائیں گے اور اس کو ایک اونٹنی پہ رکھ دینا جہاں وہ اونٹنی رکے گی وہاں میری قبر بنی ہوئی ہوگی اور میری قبر کا کسی انسان کو نہ بتانا کیونکہ اللہ کے دین کے دشمن یہ چاہیں گے کہ میری قبر کھود کے میرے جسم کی بے حرمتی کریں پھر اپ حضرت عباس کو دیکھ کے فرمانے لگے اے عباس تم کو میں نے کربلا کے لیے اللہ سے مانگا ہے اج سے حسین تمہارا اقا ہے ان کے غلام بن کے جینا پھر امام حسین کو دیکھا اور رو کے فرمانے لگے اے حسین تیری شہادت کی خبر تیرے نانا نے تیری امد کے وقت ہی سنا دی تھی تجھے تین دن کا بھوکا پیاسا کر کے کربلا کی میدان میں شہید کیا جائے گا تیرے بچوں کو ساتھیوں کو بے دردی سے مارا جائے گا حسین تیری شہادت کے بعد میری بیٹیوں کو تیری بہنوں کو رسیوں میں قید کرکہ اسی کوفہ و شام میں پھرایا جائے گا حسین اللہ کے دین کے لیے صبر کرنا اور جب وقت اخر ائے تو اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے نصیحت کرنا کہ اسلام کے لیے صبر کرتے رہیں اور قدم قدم پہ یہ گواہی دیتے رہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ان کا نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
بس اتنی دیر میں اپ فرمانے لگے سلام یا رسول اللہ سارا خاندان چیخ کے رونے لگا اور کہنے لگا اے ہمارے مولا کیا ہمارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں امام علی علیہ السلام نے مسکرا کے فرمایا ہاں اللہ کے محبوب اور تمہاری ماں فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا مجھے لینے ائے ہیں بس پورا گھر زار و قطار رونے لگا اور یوں امام علی علیہ السلام نے اپنی انکھیں بند کر لیں اپ کے وصیت پہ عمل کرتے ہوئے اپ کے جنازے میں کسی کو بھی شریک نہیں کیا گیا پیچھے سے حسن و حسین نے اٹھایا تو اگے سے وہ جنازہ خود بخود اٹھنے لگا اور ایک نورانی اونٹنی ظاہر ہوئی جنازے کو اس پر رکھا اور وہ کوفے سے باہر چلتی گئی ایک ویران جگہ پہ چاروں کی جہاں ایک چمکدار پتھر تھا جیسے ہی امام حسن حسین نے اس پتھر کو ہٹایا تو اس پتھر کے نیچے قبر بنی ہوئی تھی اور اس پہ لکھا ہوا تھا کہ یہ قبر اللہ کے نبی نوح نجی اللہ نے بنائی ہے اللہ کے ولی علی ابن ابی طالب علیہ السلام پےسلام ہو اللہ کے ولی امام علی علیہ السلام کی عظمت پر سلام ہو شیر خدا ۔