امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں ایک نوجوان گھبرایا ہوا حضرت علی کے پاس آتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے امیر المومنین! مجھ میں اور میری ماں میں فیصلہ فرما دیجئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان کیا بات ہے کیوں اتنا گھبرائے ہوئے ہو فوراً ہی نوجوان بولا کہ اے امیرالمومنین میری ماں نے نو ماہ تک مجھے پیٹ میں رکھا پھر پیدائش کے بعد دو سال تک مجھے دودھ بھی پلایا اور اب جب میں جوان ہو گیا تو اس نے مجھے گھر سے نکال دیا اور میری فرزندی کا انکار کر بیٹھی اور کہتی ہے کہ وہ مجھے پہچانتی بھی نہیں ۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس گھبرائے ہوئے نوجوان سے پوچھا کہ تیری والدہ کہاں ہے نوجوان کہنے لگا کہ فلاں قبیلہ کے فلاں مکان میں رہتی ہے اب امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ اس نوجوان کی ماں کو میرے پاس لایا جائے آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی اور فوراً ہی اس عورت کو اس کے چار بھائیوں اور 40 مصنوعی گواہوں سمیت لایا گیا جو اس بات کی قسم کھاتے تھے کہ یہ عورت اس نوجوان کو جانتی بھی نہیں بلکہ یہ نوجوان جھوٹا اور ظالمانہ دعویٰ کر رہا ہے اور اس نوجوان کا مطلب اس بات سے یہ ہے کہ وہ اس عورت کو اس قبیلے میں ذلیل کرے حالانکہ اس عورت کا ابھی نکاح ہی نہیں ہوا تو پھر یہ بچہ کہاں جنتی بلکہ یہ تو ابھی تک پاک دامن ہے۔
اب امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نوجوان سے پوچھا کہ اے نوجوان تو کیا کہتا ہے نوجوان رو کر کہنے لگا کہ اے امیر المومنین خدا کی قسم یہ میری ماں ہے اس نے مجھے جنا اور دودھ پلایا اور پھر گھر سے نکال دیا اب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عورت سے کہا کہ اے عورت یہ لڑکا کیا کہتا ہے عورت بولی کہ اے مومنوں کے سردار مجھے خدا کی قسم نہ میں اسے پہچانتی ہوں اور نہ یہ جانتی ہوں کہ یہ کن لوگوں میں سے ہے یہ مجھے خواہ مخواہ ذلیل کرنا چاہتا ہے میں ایک قریشی لڑکی ہوں اور ابھی تک کنواری ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ اے عورت کیا اس معاملے میں تیرے پاس کوئی گواہ ہیں عورت نے کہا کہ جی ہاں یہ ہیں اس کے بعد فوراً 40 گواہ قسم کھانے والے آگے بڑھے جنہوں نے قسمیں کھا کر عورت کے حق میں گواہی دی اور نوجوان کو جھوٹا بتلایا۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اچھا تو آج میں تمہارے درمیان ایسا فیصلہ نافذ کروں گا جس کو مالکِ عرش پسند فرمائے گا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عورت سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا اے عورت تیرا کوئی ولی ہے عورت بولی کیوں نہیں یہ میرے بھائی ہیں اب امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس عورت کے بھائیوں سے مخاطب ہو کر بولے کہ کیا میرا حکم تمہارے لیے اور تمہاری بہن کے لیے قابل قبول ہوگا چاروں بھائی یک زبان ہو کر بولے ہاں ہاں کیوں نہیں امیر المومنین جو فرمائیں ہمیں منظور ہے اب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں خدا کو اور حاضرین کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے بلا شک اس عورت کو اس نوجوان کے ساتھ بیاہ دیا 400 نقددرہموں کے مہر پر اپنے مال سے اے قمبر میرے پاس 400 درہم لاؤ قمبر نے فوراً تعمیل کی اور ان درہموں کو نوجوان کے ہاتھ میں رکھ دیا اب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے نوجوان ان درہموں کو اپنی عورت کی گود میں ڈال دے اور جا اب میرے پاس اس حالت میں آنا کہ تجھ میں نہانے کا اثر ہو یعنی بعد مباشرت و غسل کے میرے پاس حاضر ہونا نوجوان یہ ارشاد سن کر اٹھا اور درہم عورت کی گود میں ڈال دئیے۔
اب عورت چلا کر بولی کہ اے امیر المومنین جہنم جہنم کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ مجھے میرے فرزند سے بیاہ دیں باخدا یہ میرا فرزند ہے میرے بھائیوں نے ایک کمینے آدمی سے میرا عقد کر دیا تھا جس میں سے میں نے یہ فرزند جنا پھر جب یہ بالغ ہوا تو بھائیوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں اس کی فرزندی سے انکار کر دوں اور اسے گھر سے نکال دوں باخدا یہ میرا لخت جگر ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہیں پر یہ معاملہ ختم کیا اور کہا کہ اچھا جاؤ اپنے فرزند کو گھر لے جاؤ ۔
حاظرین یہ حقیقت ہے کہ دو لوگوں کے درمیان تنازعات اور مقدمات کا درست فیصلہ کرنا اور اصل واقعہ کی تہہ تک پہنچنا کوئی معمولی کام نہیں ہے اس غیر معمولی کام کے لیے غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اس وصف میں صحابہ کرام کی پوری جماعت میں کوئی بھی حضرت علی کا ہمسر نہیں تھا کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دامن دولت سے وابستگی کے باعث فضل و کمال اور تحصیل علم کی فطری صلاحیت کا ذوق عطا ہوا تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑے بڑے الجھے فیصلے بہت ہی آسانی سے حل فرمائے۔
بلکہ ایک دفعہ ایک عورت روتی ہوئی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی میری خاوند نے میری اجازت کے بغیر ہی میری باندی سے تعلق قائم کر لیا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے خاوند سے کہا کہ تم کیا کہتے ہو اس نے کہا میں نے اس کی اجازت سے ہی اس کے ساتھ تعلق قائم کیا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کی طرف دیکھا اور اس کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا اگر تو سچی ہے تو میں اس کو سنگسار کروں گا اور اگر تو جھوٹی ہے تو میں تجھے تہمت کی سزا میں 80 کوڑے لگاؤں گا اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اس عورت کو چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے عورت نے سوچا تو اسے اپنے خاوند کا سنگسار کیا جانا یا اس کو کوڑے لگنا تکلیف دہ محسوس ہوا چنانچہ وہ بھاگ گئی جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آئے تو اس عورت کو نہ پایا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں پوچھا بھی نہیں ۔
حاظرین اسی طرح مدینہ منورہ میں ایک لڑکا گرفتار ہوا اس نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو پکار کر کہا اے علی ابن ابی طالب مجھے بچاؤ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کیا ہوا تو وہ کہنے لگا کہ میں بے گناہ ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے واقعہ معلوم کیا کہ اس لڑکے نے اپنے مالک کو قتل کیا ہے اور قصاص میں قتل کیا جا رہا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پوچھنے پر لڑکے نے اقرار جرم کیا اور کہا کیونکہ میرے مالک نے میرے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا تو میں نے خود کو بچانے کے لیے اسے قتل کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ جو آدمی عزت بچانے کے لیے کسی کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ میں اس کو قتل نہیں کیا جا سکتا لیکن لڑکے کے پاس اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے کوئی گواہ نہ تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور مقدمہ کی تفتیش اپنے ذمہ لے لی تفتیش کرنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قبرستان میں مالک کی قبر کشائی کی تو قبر میں لاش نہ تھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے واپس آ کر کہا کہ لڑکا سچا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دلیل پوچھی تو فرمایا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو آدمی لڑکوں سے برائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے جب اس کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کو قبر میں ڈالا جاتا ہے تو اس کی لاش کو اٹھا کر قوم لوط کے قبرستان میں بھیج دیا جاتا ہے تو اس لیے جب ہم نے اس کی قبر کھودی تو اندر لاش نہیں تھی اس شک کا فائدہ دیتے ہوئے اس لڑکے کو بری کیا جاتا ہے اس موقع پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر آج علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا ۔
حاظرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بہت سے مواقع پر قاضی کی خدمت پر مامور فرمایا بلکہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ مدینے کی گلیوں میں چلے جا رہے تھے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ کچھ لوگ غیض و غضب کی حالت میں ایک عورت کو گھسیٹتے ہوئے جا رہے ہیں وہ عورت خوف کے مارے کانپ رہی تھی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پکار کر کہا تم اس عورت کو کیوں گھسیٹ رہے ہو لوگوں نے بتایا کہ اس عورت نے بدکاری کی ہے اس لیے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو ان کے ہاتھوں سے چھینا اور ان لوگوں کو خوب سرزنش فرمائی چنانچہ وہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ضرور کسی بات کے معلوم ہونے پرایسا کیا ہوگا جاؤ ان کو میرے پاس بھیجو۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غصہ کی حالت میں آئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے پوچھا آپ نے ان لوگوں کو کیوں واپس کر دیا اور ان کو اس بد کار عورت پر حد قائم کرنے سے کیوں منع کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے امیر المومنین کیا آپ نے رسول کریم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا تین طرح کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے یعنی وہ بے قصور ہیں ایک سونے والا آدمی یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے دوسرا نابالغ جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے اور تیسرا گناہ میں مبتلا آدمی جب تک باہوش نہ ہو ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہاں میں نے یہ ارشاد سرور عالم سے سنا ہے پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے تبسم فرمایا اور کہا کہ اے امیر المومنین اس عورت کو کبھی دیوانے پن کا دورہ پڑتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ آدمی اس کے پاس اس حالت میں آیا کہ اسے دیوانے پن کا دورہ پڑا ہو یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عورت کو رہا کر دیا۔
حاظرین یاد رہے کہ حضرت علی نے خلفائے راشدین کے دور میں بھی مسلسل قاضی اور جج کے فرائض سر انجام دئیے آپ سب سے اچھے قاضی تھے اور بطور قاضی آپ کے فیصلے اور فراست و بصیرت حیران کن تھی جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ملعون ابن ملجم نے حملہ کیا اور آپ کو زخمی کر دیا اس وقت جب آپ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے ابن ملجم گرفتار کیا جا چکا تھا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس حال میں بھی اپنے صاحبزادے حضرت حسن کو تلقین کی کہ ابھی اسے کچھ نہ کہا جائے اور نہ کوئی اذیت دی جائے اس لیے کہ میں ابھی زندہ ہوں اگر زندہ رہا تو یہ فیصلہ میں خود کروں گا کہ اسے معاف کرنا ہے یا سزا دینی ہے لیکن اگر ان زخموں سے نہ شہید ہو گیا تو پھر تمہیں اس سے قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا اس طرح اس حالت میں بھی جناب علی کرم اللہ وجہہ نے قانون اور عدل کی ایسی مثال پیش کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔
حاظرین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ چار برس آٹھ ماہ نو دن تک مسند خلافت کو سرفراز فرماتے رہے 17 رمضان 40 ہجری کو عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی مردود نے نماز فجر کو جاتے ہوئے آپ کی مقدس پیش اور نورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدید طور پر زخمی ہو گئے اور دو دن زندہ رہ کر جام شہادت سے سیراب ہو گئے اہ! بعض کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ 19 رمضان جمعہ کی رات میں آپ زخمی ہوئے اور 21 رمضان آپ کی شہادت ہوئی۔
آپ کے بڑے فرزند حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو دفن فرمایا ہماری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے پیارے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کروڑوں اربوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہمیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا حکمران بار بار نصیب فرمائے امین یا رب العالمین