حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ علیہ اور ایک ضعیفہ بڑھیا جس کے 11 پوتے ہوئے لیکن کیسے ائیے اپ کو یہ واقعہ سناتے ہیں یہ واقعہ سن کر اپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا لہذا گزارش یہی ہے کہ اس ویڈیو کو اخر تک ضرور دیکھیے گا بغداد شریف میں ایک عورت رہا کرتی تھی جو کہ بیوہ عورت تھی اس کے ایک اکلوتے بیٹے کے سوا کوئی اس کا سہارا نہیں تھا وہ عورت ہر ماں کی طرح اپنے بیٹے سے بہت محبت اور دلار کرتی تھی اس نے اپنے بیٹے کی بہت ہی اچھی تربیت کی تھی اور اس کی پرورش کی وہ بڑھیا عورت ولیوں کی بہت ماننے والی تھی اور جب بھی کوئی مشکل پیش اتی تو وہ وقت کے ولی کے پاس چلی جاتی اور اپنی حاجت ان کے سامنے رکھ دیتی اسی طرح کی زندگی وہ گزار رہی تھی وہ ہر وقت اللہ تعالی کا شکر ادا کرتی اب اس کا بیٹا بڑا ہو گیا تھا جب بیٹاا جوانی کی عمر کو پہنچا اور اچھا کمانے لگا تو اس نے سوچا کہ میں اس کی شادی کر دوں کیونکہ اب وہ بوڑھی ہو چکی تھی اس نے سوچا کہ بیٹے کی شادی کروں گی تو میرے گھر میں میری بہو اجائے گی اور اللہ مجھے پوتوں سے بھی نوازے گا تو میں ان پوتوں کو کھلایا کروں گی خیر بیٹے کی شادی سے پہلے وہ اس وقت کے ولی کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا کہ حضور اپ میرے بیٹے کے لیے دعا کیجئے کہ میرے بیٹے کی شادی ہونے والی ہے اور اس کی زندگی بہت اچھی گزرے وہ شاد و اباد رہے اس کو بہت ہی نیک بیوی ملے جو اس سے محبت کرنے والی ہو نیک ہو پرہیزگار ہو اور میرا بیٹا صاحب اولاد بھی ہو جائے اور ان بزرگ اللہ والے نے بھی اس کے بیٹے کے حق میں دعا کی کہ جاؤ اللہ تعالی تمہیں خوشیوں سے نوازے گا اور تم بھی اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھو غرض کے عورت اپنے گھر اگئی اور ایک اچھی سی لڑکی سے اپنے بیٹے کی اس نے شادی کر دی اس کی بہو بہت اچھی تھی بہت نیک تھی پرہیزگار تھی اور وہ اپنی ساس کا بہت خیال رکھتی تھی اور بیٹا بھی اپنی ماں کا فرمانبردار تھا اس بوڑھے نے زندگی میں جتنی قربانیاں دی اور جو کچھ اس نے اپنے بیٹے کے لیے کیا اللہ تعالی نے اس کے بدلے میں اسے پورا پورا صلہ دے دیا وہ ہر وقت اللہ تعالی سے لو لگا کے رکھتی اور وہ دعا کرتی کہ اے پروردگار تو نے میری ہر دعا کو قبول کیا ہے مجھے ہر خوشیاں عطا فرمائی ہیں بس اب میری اخری دعا بھی سن لے میرے بیٹے کو تو بیٹا عطا کر دے یہ خوشی میں اپنی زندگی میں ہی دیکھنا چاہتی ہوں اپنے پوتوں کو اپنی نظروں کے سامنے کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں اپنی گود میں کھلانا چاہتی ہوں بس میری زندگی کی اخری خواہش پوری کر دے پھر تیرے پاس خوشی خوشی ا جاؤں گی اب وہ روز اللہ تعالی سے دعا کرتی کہ اس کے بیٹے کی شادی کو ایک سال ہونے کو ایا تھا اور ابھی تک اس کی بہو امید سے نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی بہو نے اسے کوئی امید کی خبر سنائی تھی اس نے ایک حکیم سے اپنی بہو کا علاج کروانا شروع کر دیا حکیم نے کہا یہ دعا اپنے بیٹے اور بہو کو کھلا دو انشاءاللہ تمہارا بیٹا بہت جلد باپ بن جائے گا امید اور اج کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے وہ بڑھیا اپنے بیٹے اور بہو کے حق کے اندر دعا بھی کر رہی تھی اور دعا بھی کھلا رہی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اب ایک سال گزرا دو سال گزرے یہاں تک کہ اس کے بیٹے کی شادی کو 11 سال گزر گئے اور وہ صاحب اولاد نہ ہوا وہ ضعیفہ بہت اداس تھی کیونکہ اب اس کی عمر اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی وہ بوڑھیا روز روتی اور کہتی میری دعا کیوں نہیں سنی جا رہی اے میرے پروردگار تو نے میری ہر خواہش کو پورا کیا لیکن یہ خوشی مجھے نہیں دی میں ہر جگہ جا چکی ہوں میں نے ٹوٹکے بھی ازما لیے وظیفے بھی کر لیے بزرگوں سے دعا بھی کروا لی لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی اور میرا بیٹا اب تک باپ نہیں بن سکا اس پڑوس کے لوگ جو کہ الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگے انہوں نے اس بڑھیا کے کان بھرنا شروع کر دیے اور کہا کہ اپنی بہو کو برا بھلا کہو نا تم کیوں روتی رہتی ہو غم کیوں کرتی ہو اکلوتا اور لاڈلا بیٹا ہے تمہارا اپنے بیٹے کی شادی کہیں اور کروا دو اور دیکھ لینا تمہیں اس بہو سے پوتے ضرور ملیں گے وہ بڑھیا نے لوگوں کے کہنے پر اپنے بیٹے سے بات کی اور کہا بیٹا میں تمہاری دوسری شادی کروانا چاہتی ہوں تمہاری بیوی نے تمہیں کوئی خوشی نہیں دی وہ بے پھل کا درخت ہے میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی انکھوں سے اپنے پوتوں کو اپنے انگن میں کھیلتا ہوا دیکھوں تیری بیوی نے تو میرا ارمان پورا نہیں کیا اب میں کیا کروں بیٹے نے کہا نہیں ماں اس میں میری بیوی کا کوئی قصور نہیں یہ تو سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے اپ اس عورت پر کیسے الزام لگا سکتی ہو اولاد ہونا یا نہ ہونا یہ تو اللہ تعالی کی مرضی ہوتی ہے وہ ضعیفہ بولی اگر تم دوسری شادی کے لیے رضامند نہیں ہوتے تو میں وقت کے ولی کے پاس جاؤں گی اور ان سے دعا کرواؤں گی اولاد ہوگی مجھے پتہ ہے اللہ والے میری بات کو سمجھیں گے اور وہ بغداد کے سب سے بڑے مشہور ولی ہیں ان کے پاس چلی جاؤں گی وہ ضرور میرے حق میں دعا کریں گے وہ مجھے مایوس نہیں کریں گے بیٹے نے ماں کو بہت سمجھایا لیکن ماں نہیں مانی اور کہا کہ میں وقت کے ولی کے پاس جا رہی ہوں مجھے اب مت روکو وہاں کے جو ولی تھے وہ اس وقت کے سب سے زیادہ جانے مانے اللہ والے تھے جن کے پاس لوگ اپنے دکھڑے لے کر اتے تھے دعا کرواتے تھے اب بڑھیا بھی وہاں پہنچ گئی لوگوں کے جانے کے بعد اس نے روتے ہوئے گڑگڑا کر ان کے اگے ہاتھ جوڑ دیے اور کہا حضرت اپنے بیٹے کی شادی سے پہلے میں نے اپ سے دعا کروائی تھی اور اپ سے کہا تھا کہ میرا بیٹا زندگی کی خوشیاں پائے اور وہ بہت خوش ہے اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے لیکن ان کی شادی کو 11 سال ہو گئے ہیں اور میرے بیٹے کے ہاں اب تک کوئی بھی اولاد نہیں ہوئی یہ بہت بڑا دکھ ہے میں نے کبھی اللہ تعالی سے شکایت نہیں کی نہ شکوہ کیا لیکن یہ میرا اخری ارمان ہے جس کو میں پورا کروانا چاہتی ہوں انکھیں بند کرنے سے پہلے وہ اللہ والے کہنے لگے مجھے وقت دو بی بی اور تم دوسرے دن انا تاکہ میں اللہ تعالی سے دعا کر سکوں اور دیکھوں وہ معاملہ کیا ہے اس کے بعد وہ ضعیفہ اپنے گھر اگئی اور دعا کرنے لگی یا اللہ تعالی وہ اللہ والے تیرے حضور حاضر ہوں گے یا اللہ ان کی دعا کو سن لینا وہ جو بھی میرے حق میں دعا کریں گے اس کو قبول کر لینا وہ بہت بے چین تھی دوسرے دن وہ باغی باغی ان اللہ والے کے دربار میں پہنچی اور کہا کہ اپ نے میرے لیے دعا کی ہوگی بتائیے حضرت کیا میرے بیٹے کی قسمت میں اولاد ہے تو وہ اللہ والے کہنے لگے بڑے افسوس کی بات ہے ضعیفہ لیکن میں نے رات بھر دعا کی ہے اور مراقبہ کیا ہے لیکن میرا علم کہتا ہے تمہارا بیٹا کبھی بھی صاحب اولاد نہیں ہو سکتا تم پوتوں کی خوشیاں نہیں دیکھ سکتی بوڑھیا نے اللہ والے سے کہا اپ نے خبر سنا کر تو میرے دل کو ہی توڑ دیا کیا مطلب ہے لوہے محفوظ میں میرے لیے کوئی اولاد نہیں ہے یہ کیسا فیصلہ ہے تقدیر کا وہ کہنے لگے دیکھو یہ تو اللہ تعالی کی مرضی ہے نا وہ چاہے کسی کو اولاد دے چاہے کسی کو اولاد نہ دے چاہے کسی کو بیٹا دے چاہے کسی کو بیٹی دے چاہے کسی کو دونوں دے اور چاہے کسی کو کچھ بھی نہ دے اور بانجھ بنا دے یہ تو اس کی مرضی ہے اور اس کی مثلیت ہے اس پر صبر شکر کرو اور ویسے تمہارا بیٹا موجود تو ہے تمہیں اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے تو وہ کہنے لگی اپنی خود کی اولاد سے زیادہ بیٹے کی اولاد سے زیادہ محبت ہوتی ہے میں تو چاہتی ہوں میرے پوتے ہوں لیکن اب تو میں دکھی ہو کر دنیا سے چلی جاؤں گی وہ کہنے لگے میں کچھ نہیں کر سکتا میں کیا کروں اللہ تعالی کی مرضی کے اگے تو کوئی بندہ بھی کچھ نہیں کر سکتا جو تقدیر کا فیصلہ ہے وہی تو ہوگا تم بجائے شکایت کرنے کے اللہ تعالی کی رضا پر راضی ہو جاؤ اور اس کی شکر گزار بندی بنو اس عورت نے کچھ نہیں کہا وہ بڑی اس لے کر ان کے پاس گئی تھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور جب اس استانے سے نکلی تو وہاں پر ایک ننھے سے بچے نے بڑھیا کو یوں روتے دیکھا تو اس کے پاس اگیا اور کہا کیا ہوا اپ کیوں رو رہی ہیں اللہ والے کے پاس سے اس قدر روتی ہوئی کیوں ا رہی ہے ایسا کیا ہو گیا اللہ کے ولی نے کیا کہہ دیا تو وہ بڑھیا کہنے لگی تم تو چھوٹے بچے ہو تمہیں کیا بتاؤں اس بچے نے کہا کہ بتائیے نا میں جاننا چاہتا ہوں اپ کے رونے کی وجہ تو انہوں نے کہا میرے بیٹے کی شادی کو 11 سال ہو گئے ہیں اور اب تک اس کے ہاں کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی میں پوتے کی جان میں یہاں ائی تھی یہ اللہ کے ولی کہتے ہیں میرے بیٹے کی قسمت میں بیٹا ہے ہی نہیں بیٹا تو کیا کوئی بیٹی بھی نہیں ہے میں تو بہت خوش تھی کہ میں نے اپنے بیٹے کی شادی کے بعد پوتوں کی خوشیاں بھی دیکھنی ہیں لیکن اب تو لگتا ہے یہ خوشی میرے نصیب میں نہیں پھر وہ بڑھیا وہاں سے جانے لگی تو وہ بچہ کہنے لگا اچھا کیا میں اپ کے لیے دعا کروں تو انہوں نے کہا کیا تم میرے لیے دعا کرو گے اور جب اللہ تعالی نے اپنے اتنے بڑے ولی کی دعا نہیں سنی تو وہ تمہاری بات کو کیسے سنے گا تو اس بچے نے بڑے پیار سے کہا اپ کے انسو مجھ سے دیکھے نہیں جاتے تھے اس لیے میں اللہ تعالی سے اپ کے لیے ضرور دعا کروں گا تاکہ اللہ تعالی اپ کی اس خواہش کو پورا کر دے کیونکہ اپ اس طرح رو رہی ہیں مجھے دکھ ہو رہا ہے بڑھیا نے کہا اچھا بیٹا تو تم میرے لیے دعا کرو گے تو پھر اللہ تعالی سے کہہ دینا کہ وہ مجھے ضرور پوتا دے وہ بڑھیا بھی اس ننھے بچے کو عام بچوں کی طرح سمجھ رہی تھی لیکن چونکہ شکل اتنی معصوم تھی تو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا اس بچے کو کچھ ایسا بولے جس سے اس بچے کی دل ازاری ہو وہ جو رو رہی تھی تو بچے کی مسکراتی شکل کو دیکھ کر وہ مسکرا دی اس بچے نے کہا اچھا اب گھر جائیے انشاءاللہ اللہ تعالی اپ کو نامراد نہیں کرے گا اس کے بعد وہ بڑھیا وہاں سے چلی گئی اس کے جاتے ہی وہ ننھا منا بچہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا اور نفل نماز حاجت پڑھنے کے بعد دعا کرنے لگا اس کی دعا کا انداز ایسا تھا کہ دیکھنے والے بھی حیران ہو رہے تھے متاثر ہو رہے تھے وہ بچہ گڑگڑا کر رو رو کر اللہ تعالی کے حضور ایک ایسی عورت کے لیے دعا کر رہا تھا جس کو وہ جانتا ہی نہیں تھا یہاں تو انسان اپنوں کے لیے دعا کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتا لیکن اس بچے سے ضعیفہ بڑھیا کے انسو دیکھے نہ گئے اس نے بارگاہ الہی میں اپنی جھولی دراز کر دی اے اللہ رب کریم تو سننے والا ہے تو جاننے والا ہے تو عالم الغیب رکھتا ہے بے شک تو تقدیر میں جو لکھ دیتا ہے وہی ہو جاتا ہے لیکن یہ تیرا ہی فرمان ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے میں تجھے تیری کبریائی کا واسطہ دیتا ہوں میں تجھے تیرے محبوب کی محبت کا واسطہ دیتا ہوں کہ تو اس ضعیفہ کو اپنے جناب سے پوتا عطا کر دے اس بچے کی مانگنے کا انداز اتنا الگ تھا اتنا انوکھا تھا کہ جلدی سب سمجھ گئے کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں کیفیت ایسی تھی جذبے کا عالم ایسا تھا وجدانی کیفیت ہو رہی تھی لگ رہا تھا دنیا اور مافیا سے وہ بیگانہ ہے اس کے سامنے بس اس کا رب ہے اور کوئی نہیں اور صرف دعا ہی نہیں کی بلکہ اس بچے نے 11 مرتبہ اللہ تعالی کے سامنے عرضی پیش کی جیسے سفارش کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو یا اللہ سفارش تو قبول کر لے یا اللہ جو میں دعا کر رہا ہوں تو اس کو قبول فرما لے غیارہ مرتبہ دعا کی تو پھر یہاں سے خوشخبری کے اثار نمودار ہونے لگے یہاں پر وہ بچہ اللہ تعالی کے حضور اپنے دامن کو پھیلائے ہوئے تھا اور وہاں وہ بڑی بھی اپنے گھر پہنچی تو انسو بہاتی ہوئی بیٹے کے پاس بیٹھ گئی بیٹے نے کہا اماں اپ روتی کیوں ہو ماں نے کہا کیا کروں بیٹا میں تو اللہ کے ایک ولی کے پاس گئی تھی انہوں نے کہا کہ تقدیر میں اولاد ہے ہی نہیں بیٹا کہنے لگا ماں یہ کیسی بات کہہ دی اپ نے ابھی ابھی تو میرے بیوی نے مجھے خوشخبری سنائی ہے کہ وہ امید سے ہے میں تو اپ کا انتظار کر رہا تھا کہ اپ کا منہ میٹھا کرواؤں بیٹے کے منہ سے یہ بات سن کر وہ بوڑھیا تو بہت روئی اس نے شکرانے کے نفل ادا کیے اور کہنے لگی اللہ تعالی تو نے کیسے میری دعا کو سن لیا یا اللہ تو نے مجھے مایوس نہ ہونے دیا ایسا کیسے ہو گیا وہ بچہ سچ میں مجھے سچ کہہ رہا تھا میں تو اسے مذاق سمجھ رہی تھی ایک بچے کی بات کو ایسے ہی ٹال رہی تھی بچے کی بات سمجھ نہیں پا رہی تھی ضعیفہ نے سوچا میں اس بچے کو ضرور ڈھونڈوں گی لیکن وہ بچہ ان کو کہیں نہیں ملا وہ نہ جانے کہاں جا چکا تھا پتہ کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بچہ کبھی یہاں رہتا ہے کبھی کسی اور جگہ چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے اب اس ضعیفہ کے 11 پوتے ہو گئے وہ کون تھا اللہ کا نیک بندہ جس نے میرے حق میں دعا کی اور اج میں اپنے پوتوں کے ساتھ زندگی کی خوشیاں دیکھ رہی ہوں یا اللہ مجھے ایک بار اس بچے سے ضرور ملا دے ضعیفہ نے پھر سے دعائیں کرنا شروع کر دی یا اللہ تعالی تو نے مجھے پوتوں کی بہاریں تو دکھا دی مجھے اس بچے سے ملوا دینا جانے وہ بچہ کہاں ہوگا ایک دن اس کا بیٹا گھر ا کر کہنے لگا ماں بغداد میں ایک بہت بڑے ولی ائے ہیں ان کی بہت دور مچی ہوئی ہے ان کی شہرت تو عام ہو گئی ہے ان کے علم کے کیا کہنے لیکن اپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گی کہ وہ بوڑھے نہیں بلکہ وہ نوجوان ہے اور میں نے تو سنا ہے بہت ہی خوبصورت بھی ہے ان کے علم کے اگے تو کوئی ٹکتا ہی نہیں ہے یہاں کے جتنے بھی بڑے بڑے عالم دین ہیں انہوں نے ان کا امتحان لیا ہے سنا ہے اتنی کم عمری میں وہ مفتی بھی ہے محدث بھی ہیں اور ہر طرح کا علم ان کے پاس ہے اور سب سے بڑی بات مستجاب و دوات بھی ہیں یعنی ان کی ہر دعا قبول ہوتی ہے ان کے بہت سے دیوانے اور عاشق ہیں اور میں بھی ان کا مرید بن گیا ہوں ضعیفہ کے دل میں ایک بات ائی کیوں نہ میں اس اللہ والے سے ملوں جس کے بارے میں میرے بیٹے نے مجھے کہا ہے یہ سوچ کر ضعیفہ نے چادر لپیٹی اور اس اللہ کے ولی کے دربار میں پہنچی جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے اور ان کی اواز باہر تک ارہی تھی بغیر کسی ذریعے کے اواز اتنی صاف سنائی دے رہی تھی کہ ایسا لگ رہا تھا کوئی بہت پاس سے بول رہا ہے کان میں بول رہا ہے اور بولنے کا انداز اتنا میٹھا اتنا شیری کہ وہ ضعیفہ اس بیان میں کھو سی گئی تھی اس بیان کو سنتی رہی پھر قران پاک کی تفسیر بھی سنی تلاوت بھی سنی تو اس کے دل میں اس اللہ کے ولی کی محبت اگئی اس نے سوچ لیا کہ جب یہاں سے مجمع ہٹ جائے گا تو میں ان سے ضرور ملوں گی جب وہاں سے لوگ چلے گئے تو وہ ضعیفہ اپ رحمت اللہ علیہ کے پاس پہنچی اور کہا کہ حضور ایک دل کی بات کہنی ہے میں نے سنا ہے کہ اگ کا نام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ہے اپ نے فرمایا ہاں میں عبدالقادر جیلانی ہوں پھر بڑھیا نے کہا اپ کو غوث الاعظم بھی کہا جاتا ہے اپ نے فرمایا ہاں ہمیں اللہ تعالی کی طرف سے یہ تحفہ بھی ملا ہے اپ کو محی الدین بھی کہا جاتا ہے ہاں بے شک اللہ تعالی نے ہمارے ذریعے اسلام کو زندہ کروایا ہے بڑھیا بولی ماشاءاللہ حضور میں نے اپ کے بہت چرچے سنے ہیں لیکن میں اپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں ایک بچہ مجھے 11 سال پہلے ملا تھا اس کی دعا سے اللہ پاک نے میرے ہاں غیارہ پوتے دے دیے اب اس بچے سے ملنے کی خواہش میرے دل میں بہت شدت سے ہو رہی ہے اسے ملنے کے لیے میرا دل کرتا ہے کہیں اپ تو وہ بچے نہیں حضور مسکرانے لگے اور کہا ہاں میں ہی وہ بچہ ہوں جس نے تمہارے لیے دعا کی تھی تو وہ کہنے لگی مجھے ایک سوال کرنا ہے اس وقت کے ولی کی دعا بھی قبول نہیں ہوئی اور اللہ تعالی نے اپ کی دعا کو وہ مقام مرتبہ دے دیا اپ فرمانے لگے اس وقت جب ہم نے دعا کی تو اللہ تعالی نے فرمایا اے عبدالقادر ہم اپ کی بات نہیں ٹھکرا سکتے گویا کہ اس عورت کی قسمت میں پوتے کی خوشی نہیں ہے لیکن تیرے پروردگار نے عبدالقادر تمہاری دعا کو سن لیا تمہاری دعا اس کم عمری میں اللہ پاک نے سن لی اور قبول بھی کر لی اور اب تو اپ کے علم کے اپ کے مرتبے کے کیا ہی کہنے میں اپ کے مقام و مرتبے کو مان گئی یوں تو بھلے سارے ہی بڑے ہیں لیکن میں مان گئی کہ اپ سردار اولیاء ہیں اپ شہنشاہ بغداد ہیں اللہ تعالی اپ سے کتنی محبت کرتا ہے اپ محبوب سبحانی ہیں اپ پندیلے لامکانی ہے اللہ پاک اپ کی بات نہیں ٹالتا اور میں تو اس بات کو بھی مان گئی کہ ہمیشہ اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اپ نے فرمایا ہاں بے شک اللہ تعالی اس بندے سے خوش ہوتا ہے جو اس کی رضا پر راضی رہے اور جو صبر اور شکر سے کام لے اللہ تعالی نے اپ کے نصیب میں پوتے لکھ دیے لیکن یہ ممکن نہیں تھا لیکن اللہ تعالی کے لیے تو کوئی بھی چیز ناممکن نہیں وہ تو کن فیکن کہتا ہے اور کام ہو جاتا ہے سبحان اللہ پیارے اج کی ویڈیو اپ کو کیسی لگی کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے کا اظہار ضرور فرمائیے گا اور مزید ایسے ہی واقعات سننے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کر کے ہماری فیملی کا حصہ ضرور بنیے گا شکریہ