کسی جگہ پرایک عورت رہا کرتی تھی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی کافی عمر گزرنے کے بعد بھی جب اس کے ہاں کوئی بچہ نہ ہوا تو کسی نے اس کو مشورہ دیا اور کہا یہاں سے کچھ دور ایک اللہ والے رہتے ہیں ان کے پاس چلی جاؤ ان کی دعا سے سارے کام ہو جاتے ہیں ہو سکتا ہے تمہیں اولاد بھی ہو جائے ۔
وہ اللہ والے کے پاس گئی اور کہا میرے لیے دعا کریں کہ مجھے بیٹا ہو جائے تاکہ وہ میرے بڑھاپے کا سہارا بنے اللہ والے نے اس سے کہا تمہیں اولاد نہ ہو تو بہتر ہے کہنے لگی ایسا کیوں ! اولاد کا ہونا تو اچھا ہوتا ہے تو انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی اچھا نہیں ہوتا تم مانگ کر بہت پچھتاؤ گی تو اس عورت نے کہا کہ اے اللہ والے مجھے اولاد چاہیے ،آپ میرے لیے دعا کر سکتے ہیں تو کر دیں میں نے آپ کی بڑی شہرت سنی ہے اور یہاں آئی ہوں کہ آپ کی کوئی دعا ٹالی نہیں جاتی۔آپ کے پاس آس لگا کر میں آئی ہوں آپ کہتے ہیں کہ بچے کی خواہش نہ کرو کیوں نہ مانگو اولاد کے ہونے سے ہمیشہ فائدہ ہی ملتا ہے مجھے بھی یہ فائدہ چاہیے میں اپ سے دعا کروانے ائی ہوں اور اپ مجھے کہتے ہیں کہ میں ایسی دعا نہ مانگوں میں اپ سے ایسی امید نہیں رکھتی تھی لوگ تو کہتے ہیں کہ جو بانجھ ہو اور جس کے ہاں 80 سال تک اولاد نہ ہو وہ بھی صاحب اولاد ہو جاتی ہے اپ کے پاس اگر مجھے ایسی باتیں سننے کو ملیں گی تو میرا کیا ہوگا یہ کہہ کر وہ رونے لگی اللہ والے نے اس کا رونا دیکھ کر کہا ٹھیک ہے میں تمہارے لیے دعا کرتا ہوں باقی تمہارا کام ہے تم کس طرح اس اولاد کو سنبھالو گی لیکن بعد میں پھر مجھے نہیں کہنا اس عورت کو اپ کی بات سمجھ میں نہیں ائی وہ تو بس اپنے مطلب غور غرض سے وہاں ائی تھی اللہ والے نے اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کر دی اور کہا کہ اب دیکھو اللہ پاک کا کام ہے کسی کو اولاد دینا یا نہ دینا میرے اختیار میں نہیں ہے لیکن میں نے دعا کر دی ہے اگر تمہاری حق میں مائے نصیب میں اولاد ہے تو وہ تمہیں ضرور مل کر رہے گی لیکن اگے جا کر اس کو کیسے پالنا ہے اس کو کیسے سنبھالنا ہے یہ تمہاری ذمہ داری ہے تمہارا نصیب ہے تو سب کچھ اچھا ہوگا اس کو بہت خوشی ہوئی کہ اللہ والے نے اس کے لیے دعا کر دی ہے اس کو یقین تھا کہ اپ کی دعا اللہ والے کی دعا اللہ ضرور سنے گی جو کہ ہر دعا قبول ہوتی تھی تو اللہ تعالی نے ان کی دعا سنی اور اس عمر میں اس اولاد ہوئی جب کہ اس وقت اولاد ہو ہی نہیں سکتی تھی لیکن اللہ تعالی نے اس عورت کو صاحب اولاد کر دیا بہت خوبصورت سا بیٹا اللہ تعالی نے اس بوڑھی عورت کو عطا کیا بچے کو پا کر ایسا لگا کہ اس کی سونی دنیا پھر سے رنگین ہو گئی ہے اس کو ساری نعمتیں مل گئی ہیں وہ ہر کسی کو بتاتی دیکھو اس اللہ والے کی دعا سے مجھے اس عمر میں بھی اللہ تعالی نے بیٹا دیا ہے میں بیٹی والی ہو گئی ہوں میرا بیٹا ہے نا ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا وہ اس کی انکھوں کا تارا تھا اس کی انکھوں کی ٹھنڈک بڑی پیار و محبت سے وہ اس کی پرورش کر رہی تھی لیکن جیسے جیسے وہ بچہ بڑا ہو رہا تھا اپنی ماں کے لیے عذاب بن رہا تھا کیونکہ وہ اس کی بات سنتا ہی نہیں تھا اور اب ایسا ہوتا تو اس کی ماں جب بھی اسے ڈانٹتی وہ زبان چلاتا اور گھر سے باہر بھاگ جاتا یہ وہی بچہ جا جو منتوں مرادوں سے پیدا ہوا تھا یعنی ان ماں باپ کو کی کوئی اولاد نہیں تھی اور بڑی دعاؤں کے بعد اس نے جنم لیا تھا ماں کی محبت اب بیزاری میں بدل رہی تھی کیونکہ وہ اس کو اتنا تنگ کرتا تھا کہ اس کو سمجھ ہی نہیں اتا کہ میں اس کو کیا کہوں اس کے منہ سے بددعا نکل جاتی ماں کہتی اس سے بہتر تھا تو پیدا ہی نہ ہوتا تو نے ہماری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے یہ نہیں محلے سے بھی اس کی شکایتیں اتی کہ اپ کا یہ شیطان بیٹا ہمیں بہت پریشان کرتا ہے کبھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے کبھی پتھر مارتا ہے ایک بار اس نے اپنے بیٹے کو سخت سزا دی اور اسی کمرے میں بند کر دیا اس کو کھانا نہیں دیا نہ پانی تین دف اس کو بھوکا پیاسا رکھا کہ شاید یہ سدھر جائے لیکن ماں سے کہنے لگا اپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ میں تمہارا ایک ہی بیٹا ہوں میں خوش تھی اور بہت خوش تھی اور بڑی دعاؤں سے تجھے مانگا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں نے اللہ والے کی بات نہیں سنی جو مجھے سمجھا رہے تھے کہ تو مجھے سچ میں بہت تنگ کرے گا اج میں تجھ سے جڑنے لگی ہوں ان کا کہنا تھا میں تجھے نہ مانگوں بیٹے نے کہا ابھی تمہارا قصور ہے نا تم نے مجھے مانگا لیکن میں تمہاری اولاد ہوں ماں کا فرض ہوتا ہے اولاد کا خیال رکھنا اس کی ہر حال میں فرمائش پوری کرنا اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی ہڈی گلی میں پھنس چکی تھی وہ نافرمانی کرتا اس کا دل دکھاتا تھا خدمت تو دور کی بات ایک گلاس پانی بھی اٹھ کر اپنی ماں کو نہیں دیتا تھا ایک دن تو حد ہی ہو وہ بچہ باہر سے ایا اور اس کے کپڑے کیچڑ میں لتپت تھے اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا کہ اس کے کپڑے اس کی ماں دھوئے ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی کیونکہ جاڑے کا موسم تھا اسی وجہ سے وہ پانی کو ہاتھ نہیں لگا سکتی تھی اتنے گندے کپڑے دیکھ کر بچے کو کہنے لگی کہ تجھے میرا کوئی ایسا کوئی پرواہ نہیں ہے تیری بوڑھی ماں کس طرح کپڑے دھوئے گی سردی کا موسم ہے تو چاہتا ہے تیری ماں تیرے گندے کپڑے دھوتی رہے اس نے کہا ہاں میں یہی چاہتا ہوں اور میں جان بوجھ کر ایسا کرتا ہوں تمہارے ساتھ بس یہ سننے کی دیر تھی ماں نے کہا حد ہو گئی ہے اب تمہاری حرکتیں مجھ سے نہیں سہی جاتی اللہ کرے تو مر جائیں مجھے تیرا ساتھ نہیں چاہیے مجھے ایسی اولاد نہیں چاہیے وہ بچہ جو ہمیشہ زبان چلاتا تھا اس وقت نجا نے کیا ہوا وہ خاموش ہو گیا کچھ دیر اسے تکتا رہا پھر چپ چاپ سے باہر چلا گیا ماں اس کو اوازیں دیتی رہی ارے رک جا کپڑے بدل کر جا لیکن اس نے کچھ نہیں سنا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہو گیا جو ماں کی خواہش تھی وہ دل سے تو ایسا نہیں چاہتی تھی ہوگی اس کا بچہ مر جائے اب اپ دیکھیں کہ ماں نے بددعا دی بچے کو تو یہاں پر یہ کہا جائے گا کہ ماں نے دعا ماں کی دعا لگ جاتی ہے بددعا کیوں لگے گی پر وہ تو دل دکھا رہا تھا اپنی ماں کا تو غصے میں تھی اس لیے اس کو یہ پرواہ ہی نہ ہوئی کہ بچہ کہاں جا رہا ہے اس نے کہا اتنا ضدی ہے کہ میری ایک بات نہیں سنتا ہے نافرمان ہے اب اللہ تعالی کی کرنی ہے کہ وہ بچہ گھر سے باہر نکل کر اپنی سوچوں میں راستے سے گزر رہا تھا ایک بزرگ ملے یہ کوئی اللہ والے تھے جو اپنی عبادت کے لیے اس جگہ موجود تھے بچے کے پٹے پرانے اور گندے کپڑے دیکھ کر اور چہرے پر ائی اداسی دیکھ کر کہا بیٹا کہاں جا رہے ہو اس نے کہا کہیں نہیں چلو میرے ساتھ چلو اپ مجھے کہاں پر لے کر جانا چاہتے ہیں جہاں تمہاری منزل ہے وہ ویسے ہی صدمے سے دوچار تھا ان کے ساتھ ہو لیا اس نے کوئی سوال نہیں کیا بس اپ کے ساتھ چلنے لگا یہ سفر دو دن کا تھا وہ اپ کے ساتھ جلدی چلا جا رہا تھا نہ اس نے پانی مانگا نہ کھانا مانگا اللہ والے اس کی حالت کو سمجھ رہے تھے اپ نے اس کو لیا اور ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پر اس پاس کوئی گھر نہیں تھا یعنی کوئی بھی ابادی نہیں تھی کچھ بھی نہیں تھا لیکن عجیب بات یہ تھی کہ اس ویران میدان میں صرف ایک پیڑ تھا جو سیب کا درخت تھا وہ ان سیبوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ قریب جا کر انہیں توڑ لیا جائے دو دن کا بھوکا پیاسا تھا اب اس کو بھوک لگی اس نے للچائی ہوئی نظروں سے سیبوں کو دیکھا شروع کر دیا اللہ والے نے ایک سیب کو توڑ کر اسے ایک رسیلہ سے دیا اور کہا کھاؤ جب اس نے اس کو کھایا تو کہنے لگا یہ تو بہت ہی میٹھا لگتا ہے لگتا ہی نہیں اس دنیا کا پھل ہے میں نے کہا بہت ہی الگ ہے یہ سیب کو مکمل کھانے کے بعد اس کو لگا کہ اس کے دل کی دنیا بدل رہی ہے سب کچھ بدل رہا ہے اس پاس کوئی ہوش نہ رہا اسے وہ جو کبھی شیطانیت کرتا تھا تنگ کرتا تھا دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر وہ کام کرتا تھا جس سے لوگ اس سے عاجز ا جائیں اب وہ اپنے اپ کو بدلتا ہوا محسوس کر رہا تھا اس کے دل سے شیطانیت نکل گئی اس کے دل میں رحمیانیت اگئی اب وہ جس کے ساتھ کھڑا تھا وہ کوئی معمولی انسان نہیں تھے بلکہ وہ ایک ایسے اللہ والے تھے وہ جو انسانوں کو صحیح اور سچا راستہ دکھاتے ہیں راستہ ان کا جن پر اللہ کا انعام ہو انہام کا مطلب ہے کہ رحمت و کرم کی لطف و عنایت کی بارش ہوتی ہے اللہ کریم کے پیارے ہوتے ہیں اللہ والے نے کہا کیا ہوا بیٹا مل گئی منزل جی حضرت مجھے مل گئی منزل وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا وہ مسکراہٹ جس میں ٹھنڈک تھی اللہ والے بولے تو اج سے تمہارا استاد ہوں میں اور تم میرے شاگرد ہو تم جب یہاں پر اؤ گے سے بھی کھاؤ گے اور اللہ اور اس کے رسول کے دین کی اچھی باتیں بھی سیکھ کر جاؤ گے اس نے کہا حضرت کیا میں یہاں نہیں رہ سکتا میں یہاں سے کہیں نہیں جانا چاہتا ہوں اللہ والے بولے نہیں بیٹا تمہارے گھر میں تمہاری والدہ ہے تمہارے والد ہے تم پر لازمی ہے اس لیے اپنی ماں کے لیے اپنے گھر جانا اور جو جو سبق تمہیں پڑھایا جائے گا اس کو یاد رکھنا سنو بیٹا یہ دنیا فانی ہے سب ختم ہونے جانے والا ہے لیکن جو کچھ ہم اچھے اعمال یہاں پر کرتے ہیں وہ ہمیں وہاں پر انعام کی صورت میں ملیں گے جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے جو تم چاہتے ہو وہی تمہارے ساتھ ہوگا لیکن ہمیشہ اچھا چاہو سب کی خدمت کرو خدمت خ خدمت خلق کا اتنا بڑا انعام ہے اس نے بات کاٹی اور کہا خدمت خلقت کیا مطلب ہے خدمت خلق کا مطلب ہے کہ تم انسان کی خلق کی اللہ کے مخلوق کی جن جن کو اللہ نے پیدا کیا ہے ان سب کی خدمت کرو ان کے کام اؤ گرے وقت میں ان کا ساتھ دو اور ان کی دعائیں لو یہی تو زندگی ہے ورنہ کیا زندگی ہے اپنے لیے جیا تو کیا جیا تم یہ سیب کا درخت دیکھ رہے ہو اگر یہ پھلدار نہ ہوتا تو کیا یہ ہمارے کسی کام کا تھا اگر یہ سایہ دار نہ ہوتا تو کیا ہم اس کے نیچے اس کے سائے میں بیٹھتے لیکن اللہ تعالی نے اسے پلدار بنایا اس سے سایہ دار بنایا کہ ہم اس سے فیض و فائدہ اٹھا رہے ہیں ایک انسان کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کیونکہ جو جھکتا ہے اسے ہی سب ملتا ہے جو نہیں جھکتا وہ شیطان کی طرح ذلیل و خوار ہوتا ہے تو اپنے اپ کو ایسا بناؤ کہ لوگ تمہیں دعائیں دینے پر مجبور ہو جائے اور تم اللہ پاک کے محبوب ہو جاؤ اس لیے اب اپنے گھر جاؤ اس نے کہا حضرت ہم دو دن کا سفر کر کے یہاں ائے ہیں اور اب میں دو دن کا سفر کر کے اپنے گھر جاؤں گا پھر میں اپ کے پاس اؤں گا اپ مسکرائے اپ نے کہا ارے بیٹا وہ دو دن کا سفر تمہارا امتحان تھا وہ بھوک اور پیاس سب تمہاری تربیت کا حصہ تھا اب تمہیں وقت نہیں لگے گا تم دیکھ لو تم کیسے جھٹ سے گھر پہنچتے ہو اور ایسا ہی ہوا وہ جب اپنے گھر کے لیے وہاں سے چلا تو اسے احساس ہی نہ ہوا کہ وہ منٹوں میں جھٹپٹ گھر پہنچ گیا ماں تو حیران تھی کہ بیٹا واپس اگیا ہے گھر میں داخل ہوتے ہی وہ ماں کے قدموں میں گر گیا اور کہا ماں مجھے معاف کر دو میں نے ہمیشہ تمہیں بہت ہی زیادہ غمگین گیا ہے تمہیں رنج دیا ہے میں تمہارا اچھا بیٹا نہیں تھا لیکن اج سے میں کوشش کروں گا کہ تم کو کبھی بھی کوئی دکھ نہ دوں تکلیف نہ دوں ماں نے اسے سینے سے لگا لیا ماں تو معافی کر دیتی ہے بس اپنے بچے کو سمجھنے میں تھوڑی سی غلطی کر دیتی ہے ورنہ بچہ بھی کوئی برا نہیں ہوتا بچے کے ہاتھ میں سیو دیکھ کر ماں نے کہا یہ تم کہاں سے لائے ہو اس نے کہا ماں یہ اپ کے لیے لایا ہو اپ کھائیے اور ابا جان کو بھی دے ماں تو بار بار چونک رہی تھی یہ کیا ہوا دو دن میں میرا بچہ بدل کیسے گیا یہ وہی بچہ ہے جو دن رات ہمارا دل دکھاتا تھا نافرمانی کرتا تھا بلکہ لیکن دیر ائے درست ائے کوئی بات نہیں ہمارا بچہ ٹھیک تو ہو چکا ہے بچہ اپنے گھر سے جب نکلتا اللہ والے کے پاس جاتا اور وہ اس کو دین و دنیا کی تعلیم دیتے اس کو اچھا بنانے میں اس کی مدد کرتے اللہ والے اس کے روحانی باپ بن گئے تھے اس کے سر پر اپنا مبارک ہاتھ رکھتا سکون پاتا اور گھر ا کر اپنے ماں باپ کی خوب خدمت کرتا ماں تو اس کو بھر بھر کر دعائیں دیتی کہ میرے بچے اللہ تعالی نے تجھ پر کرم کیا ہے میں نہیں جانتی تیرے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن اج میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ تو میرا بیٹا ہے وہ مسکرا دیتا کہیں کوئی خاص بات تھی جو دل میں چھپی ہوئی تھی وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا لیکن جو اللہ نے اس کو حکم دیا قران مجید میں لکھا تھا بس وہ اسی راہ پر چل رہا تھا وہ پانچ وقت کا نمازی بن چکا تھا ماں بڑا خوش تھی کہ میرا بیٹا تو اللہ پاک کے اتنے قریب ا چکا ہے اور یہ سارے فرائض بھی اب بھول نہیں رہا ہوتے ہوتے وہ جوان ہو گیا ایک دن ماں نے کہا بیٹا تو جوان ہو چکا ہے اب تیری شادی کی عمر ہے میں چاہتی ہوں تیری شادی ہو جائے تو وہ کہنے لگا نہیں ابھی اپ کی خدمت کروں گا اپ کا خیال رکھوں گا جب شادی کا وقت ہوگا تو شادی بھی کلیئر لی جائے گی لیکن بیٹا یہ فرض بھی تو پورا کرنا ہے میں جانتا ہوں نا کہ شادی کرنا بھی ایک فرض ہے لیکن ابھی میں نہیں کر سکتا ہوں اس وقت میں اپ کو ابا جان کو دیکھ رہا ہوں میری زندگی میں اپ اور ابا جان ہیں نہیں چاہتا کوئی تیسرا میرے جیون میں ائے اور یہ کہتے کہتے وہ رک گیا ماں نے کہا تو جوان لڑکا ہے یا تیرے ارمان نہیں کہ تجھے کوئی چاہیے دلہن ملے اس نے کہا یہ میری خواہش ہے لیکن اس وقت میں کسی کو اپنے لیے نہیں چن سکتا وہ چپ ہو گیا کہتے ماں نے کہا یہ بول کر چپ کیوں ہو جاتے ہو وہ بولا کچھ نہیں اب میں جا رہوں مجھے کسی سے ملنا ہے ماں بولی تو یہ روز کہاں جاتا ہے بیٹا وہ کچھ بھی نہیں بولا اور اپنے اللہ والے کے پاس اگیا اس طرح وہ نافرمان سے فرمانبردار بن گیا ایک دن وہ اللہ والے کے پاس بیٹھا قران و حدیث کی باتیں سن رہا تھا اللہ والے نے کہا بیٹا وقت اگیا ہے کہ تم اپنی ماں کو یہ ساری سچائی بتا دو کہ تم بچپن سے کس کے پاس اتے ہو اور کس کی تربیت میں یہاں پر رہتے ہو یہ اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنی تعریف جاننا چاہتی ہے نا تو تم اس کو بتا دو اسے وہ سیب لے کر اپنے گھر اگیا ماں کے پاس بیٹھ کر ماں کے پیر دبانے لگا ماں نے کہا بیٹا اج تو تم مجھے بتا ہی دو کہاں جاتا ہے کون ہے وہ نیک شخص کہ جس نے تیرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ہے اللہ والے نے چونکہ اس سے کہا تھا کہ اب تمہاری ماں تم سے جو پوچھے تو تم اسے بتا دینا کہ تم کہاں جاتے ہو وہ کہنے لگا اج ایک سچائی سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں میں بچپن سے ایک بزرگ کے حوالے کر دیا گیا ہوں وہ اللہ والے ہیں بہت پہنچے ہوئے اللہ والے وہ مجھے اچھی باتیں سکھاتے ہیں اور انہوں نے مجھے قران پاک کی تعلیم بھی دی ہے اور اج اپ کا بیٹا حافظ قران ہے انہی کے کہنے پر میں اتنی عبادت بھی کرتا ہوں جو اللہ مجھے توفیق دیتا ہے اور انہوں نے مجھے سمجھایا ہے کہ ماں باپ کا درجہ کیا ہوتا ہے اور ان کے ساتھ ہی میں نے جانا ہے اصل میں انسان کی زندگی کا کیا مقصد ہونا چاہیے اس کو کیوں پیدا کیا گیا ہے اس کو کیوں یہاں پر بھیجا گیا ہے پر دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں نے ہمیشہ تمہاری بددعا لی دعائیں نہیں سمیٹی جب بھی تمہارے منہ سے میرے لیے بددعا نکلتی تھی میں کام جایا کرتا تھا ہاں بیٹا افسوس ہے کہ میں نے تجھے بد دعا دی وہ اپنی ماں سے کہنے لگا ماں اب تو تم مجھ سے ناراض نہیں ہونا ماں نے کہا نہیں بیٹا تو جیتا رہے تیری جدائی تو ہمیں اب برداشت ہی نہیں ہے بس تیرے سر پر صحرا سجا دیکھنے کی تمنا ہے تیرے بچوں کو دیکھوں پھر مر جاؤں تو کوئی غم نہ ہوگا وہ بولا نہیں ماں اللہ اپ اور بابا کو سلامت رکھے میری عمر بھی تمہیں لگ جائے ماں بولی کیسی باتیں کرتا ہے بیکار کی تو جوان ہے تجھے جینا ہے تجھے زندگی کی خوبصورتی دیکھنی ہے اللہ تعالی تجھے لمبی عمر دے وہ خوش ہو گیا اس نے کہا اچھا میں اتا ہوں اس کے بعد وہ اللہ والے کے پاس ایا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کچھ باتیں کی راز کی باتیں اور ان کی دعائیں لے کر گھر اگیا اس نے ہاتھ میں سیب تھے ماں نے کہا تیرے سیف تو بڑے ہی عمدہ اور لذیذ ہوتے ہیں تو نہیں جانتا تیرا باپ بھی تجھے بہت دعائیں دے رہا تھا کہ سیب کھا کر دو ایسا لگتا ہے کہ اندر تک سکون اتر گیا تو ائینہ ہی اگئی طاقت اگئی ہو اس نے کہا تو ماں ابھی کھاؤ ماں نے کہا تم کو کبھی ہمارے ساتھ سیب کھاتے نہیں دیکھا اچھا میں تمہیں اسے کاٹ کر دیتی ہوں اس نے کہا ٹھیک ہے ماں جیسے ہی تمہاری مرضی ماں نے صرف سیب کاٹ کر اس کے سامنے رکھ دیے اس نے جیسے ہی سیب کو اپنے منہ میں ڈالا سیب اس کے حلق میں اٹکا اس کی سانس رکی اور اسی وقت اس کی موت ہو گئی اپنے بیٹے کو تڑپتی ہوئی حالت میں دیکھا وہ دعا کر رہی تھی اے اللہ اے رب کریم میرے بیٹے کو زندگی دے دے اللہ پاک مجھے اس سے دور نہ کرنا یہ میرے بڑھاپے کا واحد سہارا ہے تو اتنا اچھا بیٹا دے کر اس کو مجھ سے چھیننا نہیں میں مر جاؤں گی یہ میرے دل کا سکون ہے لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی بیٹا اس کی انکھوں کے سامنے زندگی سے ہاتھ دھو گئی اب وہی ماں تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی کہ میرا جوان بیٹا بچھڑ گیا اس کے شوہر گھر پر ائے تو وہ بھی دھاڑے مار مار کر رونے لگے جوانی میں ہمارا بیٹا ہم سے بچھڑ گیا باپ بھی اپنے ہوش میں نہیں تھا اب وہ غم منا رہے تھے بیٹے کی جدائی کو سہ نہیں پا رہے تھے چیخ چیخ کر پورے گھر کو سر پر اٹھا لیا تھا جوان بیٹے کی ان بیٹے کی موت ماں باپ کیسے برداشت کر سکتے ہیں اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی باپ نے دروازہ کھولا تو وہی اللہ والے ہیں وہی کھڑے ہوئے تھے ان کے ہاتھ میں سیب کا ٹوکرا تھا اللہ والے کو جب اس عورت کے سامنے لایا گیا تو وہ ان کو دیکھ کر پیچھے ہٹی اس نے کہا اپ وہیں ہیں نا جن سے میں نے اپنے بیٹے کی دعا کروائی تھی جن سے میں نے ضد کر کے اپنے بیٹے کے لیے دعا کروائی تھی میں لٹ گئی میرا سب کچھ چھن گیا میرا تو جوان جہان بیٹا مت میری انکھوں کے سامنے چلا گیا اللہ والے نے کہا اب کیوں روتی ہو کیوں تڑپتی ہو یہ تمہاری دعا ہی کا تو اثر ہے جو تم نے اپنے بچے کے لیے مانگی تھی جب تو بچہ پیدا نہیں کر سکتی تھی اس وقت تو نے مجھے دعا کروائی اللہ نے تیرے حق میں اولاد نہیں لکھی تھی لیکن تو نے دعا کروا کر اولاد مانگ لی میں تجھے منع کرتا رہا کہ مت مانگ اگے جا کر بہت پچھتائے گی پر ایسا نہ ہوا اب انسوؤں کو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب یہ انسو تمہارے لیے بیکار ہیں اگر کر سکتی ہو کچھ تو اپنے بیٹے کی مغفرت کے لیے دعا کرنا اس کے بعد اس کے بیٹے کے جنازے کو دفنایا گیا اللہ والے وہاں سے اپنے اسی مقام پر ا چکے تھے دو تین دن کے بعد وہ ضعیفہ عورت چلتی ہوئی اللہ والے کے ٹکے نا ٹھکانے پر ائی اساس نے کہا اپ میرے لیے دعا کریں مجھے کسی پل چین و قرار نہیں ارہا اپنے بیٹے سے ملنا چاہتی ہوں اللہ والے نے کہا تو اس کو کس حال میں دیکھنا چاہتی ہے ایک ماں ہوں اچھے ہی حال میں دیکھنا چاہتی ہوں تو جب تمہاری اولاد تمہارا اچھا نہیں کر رہی تھی جب اللہ نے تم کو امتحان میں ڈالا ہوا تھا اس وقت اس کو بددعا کیوں دی اس وقت اس کے لیے برے الفاظ کیوں نکالے اگر والدین کو اولاد تنگ کرے زبان چلائے گستاخی کرے تو اولاد کو اس بددعا نہ دو تم نہیں جانتی ماں باپ کی بددعا فورا لگ جاتی ہے جس طرح دعا لگتی ہے اس طرح ماں باپ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ بھی بچے کی زندگی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اس کی زندگی کو خراب کرتے ہیں اس لیے کہا گیا ہے کہ اپنی اولاد کو اپنے مال کو برباد نہ کرو اپنی بددعاؤں سے ان کو کوسو نہیں تم نے اپنے بیٹے کو دن رات کوسا اس کو بد دعائیں دیں ہاتھ اٹھا اٹھا کر کیونکہ وہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا کیا کوئی اچھا ہوگا تبھی ہم اس کو دعا دیں گے کیا وہ ہمارے لیے ازمائش نہیں ہے اللہ پاک نے یہ امانت دی ہے کہ ہیں ہم کسی اور کے نہیں ہو سکتے ہمیں اسے جواب دینا ہے اب اس کے پیدا کردہ ہیں والدین ذریعہ ہیں اولاد کو دنیا میں لانے کا اللہ تعالی نے اولاد کیوں دی ہے تاکہ ہم اس کی اچھی طرح سے تربیت کریں اس کو اللہ اور اس کے حبیب الصلوۃ والسلام کی باتیں بتائے اور اگر وہ بچہ نہیں مانتا ہے تو اس کے لیے دعائے خیر کرے بھلائی کی دعا کریں جب اسے دعا اسے لگے گی وہ صحیح ہو جائے گا پھر تمہارے لیے صدقہ جاریہ بنے گا پھر تم نے کیا کیا ہاتھ اٹھا اٹھا کر اس کو اتنا بولا اور کیوں روتی ہو بی بی میں کیا کروں مجھے بہت بڑا صدمہ ہے اس بات کا کہ میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا اپنے ہاتھوں سے اور میری ہی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے دور چلا گیا اب اپ مجھے اس کا دیدار کروا سکتے ہیں وہ پھر سے ضد کرنے لگی اللہ والے نے کہا ایک تو تم ضد بہت کرتی ہو تمہاری ضد کی وجہ سے تمہارا بیٹا تمہارے ہاتھوں سے نکل گیا لیکن ماں کی انکھوں میں انسو دیکھ کر تمہاری ملاقات کرواتا ہوں پھر اپ نے اپنی انکھیں بند کر کے ذکر کرنا شروع کر دیا تھوڑی ہی دیر کے بعد اس عورت کی انکھیں بند ہوئی اس نے دیکھا اس کا بیٹا بہت خوبصورت لباس میں جنت میں کھڑا ہے مسکرا رہا ہے مسکرا کر اسے ملا کہا اماں اپنے دل کو ارام دو میں بہت اچھی جگہ پر ہوں مجھے یہاں پر سب کچھ ملا ہے کیونکہ میں تم کو راضی کر کے ایا ہوں اور میں نے تمہاری دعائیں لی ہیں تم بھی اللہ کو راضی کر لو اللہ پاک کو منانا کوئی مشکل نہیں ہے اس لیے اب تم بھی اپنی زندگی کو اللہ تعالی کی یاد میں گزارو اور جب تم میرے پاس اؤ گی تو میں تمہارے استقبال کے لیے جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں گا سبحان اللہ اللہ والے نے کہا دیکھ لیا کیا مکان ملا ہے تمہارے بیٹے کو ماں کے دل کو ابھی سکون ملا تھا وہ گھر ا کر اپنے بچے کے لیے مغفرت کی دعا کرنے لگی