Allah Wali Ki 3 Bahwein Janwer Bn Gai | Allah Wale

ناظرین ایک اللہ والے تھے اور ان کی ایک ہی بہن تھی وہ بھی ان کی طرح اللہ والی تھی وہ کسی دوسرے گاؤں میں رہتی تھی وہ اپنی بہن سے کبھی کبھار ملنے کے لیے چلے جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ نیک اللہ والے بزرگ اپنی بہن سے ملنے کے لیے نہ جا سکے اور اس کی بہن کے تین بیٹے تھے اس عورت نے اپنے تینوں بیٹوں کی شادی کر دی اس نیک عورت کی تینوں بہوئیں ہی بہت چلاک اور ہوشیار تھی جب وہ نیک عورت اپنے کمرے میں بیٹھ کر نماز اور قران پڑھتی تو اس کی بہوؤں کو بہت ہی برا لگتا وہ ہمیشہ ہی کہتی کہ جب دیکھو اللہ اللہ کرتی رہتی ہے اور روٹیاں بیٹھی توڑتی رہتی ہے وہ نیک عورت گھر کے کام بھی کر دیا کرتی تھی اگر اس کے دروازے پہ کوئی مانگنے والا فقیر مسکین ا جاتا تو کبھی بھوکا نہ لوٹاتی اور صدقہ خیرات بھی کیا کرتی تھی وہ نیک خاتون اپنے پڑوسیوں کا بھی کافی خیال رکھا کرتی تھی وہ اپنی بہوؤں کو ہمیشہ کہتی کہ تم کھانا تھوڑا زیادہ بنایا کرو مجھے اپنے پڑوسیوں کو بھی دینا ہوتا ہے وہ نیک عورت اپنی بہوں کو صبح سویرے اٹھا دیتی کہتی کہ اٹھو نماز پڑھو قران پاک کی تلاوت کرو اور گھر کی صفائی کرو اس کی بہوں کو عبادت کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن پھر بھی کبھی کبھار کر لیتی تھی یہ سب ان تینوں بہوں کو کافی برا لگتا وہ اپس میں اپنی ساس کی برائیاں کرتی اپنی نیک ساس کو برا بھلا بولتی رہتی ایک مرتبہ اس نے اپنی بہوؤں سے کہا کہ بیٹا اج کھانا زیادہ بنانا اج میں غریبوں کی دعوت کرنے والی ہوں اور اس لیے بیٹا تم تینوں کو مل کر ان کے لیے کھانا تیار کرنا ہے دیکھو بہو جب ہم یتیم مسکین لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں تو اللہ پاک بہت راضی ہوتا ہے یہ بات سن کر ان تینوں بہوں کو کافی غصہ ایا اور کہنے لگی کہ یہ کیا مصیبت ہمارے سر پہ ا پڑی ہے کہنے لگی کہ جب سے ہم اس گھر میں ائی ہیں یہ کبھی غریبوں کو بلاتی ہے کبھی مسکینوں کو بلاتی ہے اور کبھی بیواؤں کو بلا لیتی ہے اس نیک عورت کی تینیں بہوئیں اس کے بیٹوں کے کام بھرا کرتی تھی ایک دن وہ نیک عورت اپنے کمرے میں عبادت کرنے کے لیے چلی گئی اور وہ تینیں بہوئیں اکٹھی بیٹھ گئی ایک بہو بولی کہ میں تو اس سے کافی تنگ ا گئی ہوں پتہ نہیں یہ کب مرے گی دوسری بولی کہ یہ روز روز ہم سے کھانے بنواتی ہے میری ناک میں تو دم اگیا ہے اور تیسرے نمبر والی بہو چوٹی کہنے لگی کہ یہ چلی ہی جائے یہاں سے تو بہت اچھا ہو جائے

ایک دن چوٹی بہو نے جھوٹ موٹ کی اپنے ہاتھ پہ پٹی باندھ لی اور جب شام کو شوہر گھر ایا تو اس کے سامنے رونے لگی شوہر نے بیوی کے ہاتھ کے اوپر پٹی دیکھی تو وہ پریشان ہو گیا عورت رو کر کہنے لگی کہ اج ماں جی نے 50 لوگوں کا کھانا مجھ سے بنوایا اور سارے گھر کا کام بھی مجھ سے کروایا ہے جھوٹ موٹ کے پٹی باندھ کر کےنے لگی کہ کھانا بناتے وقت میرا ہاتھ جل گیا ہے اور کافی درد کر رہا ہے اب میں نے اس گھر میں نہیں رہنا یا اپ اپنی امی کو کہیں بھیج دیں وہ بیٹا ماں کا اتنا فرمانبردار نہیں تھا فورا ہی ماں کے کمرے میں ایا اور کہنے لگا کہ اپ نے ہم بھائیوں کی بیوی کو نوکرانیاں سمجھ رکھا ہے اتنا ہی شوق ہے عبادت کرنے کا تو اپنے بھائی کے گھر چلی جاؤ وہاں بیٹھ کر عبادت کیا کرو ماں کا دل تڑپ اٹھا کہنے لگی کہ بیٹا تم لوگوں کے ہوتے ہوئے اب میں کہیں اور چلی جاؤں بیٹا کہنے لگا کہ جی اپ کہیں چلی جائیں یا پھر ہم کہیں چلے جاتے ہیں ماں نے چھوٹے بیٹے کی بات سن کر بڑے بیٹے کی طرف دیکھا وہ بھی اپنی بیوی کی زبان بول رہا تھا کہنے لگا لگا کہ کبھی مسکینوں کو بلاتی ہو کبھی غریبوں کو بلاتی ہو اور کھانا کھلاتی ہو اتنا سارا کھانا تم ہماری بیویوں سے بنواتی ہو اپنے بھائی کے گھر چلی جاؤ وہاں پہ صدقہ خیرات کرو اور وہاں پر بیٹھ کے تبلیغ کرو ماں نے دیکھا کہ اس کے سارے بیٹے اپنی بیویوں کی طرفداری کر رہے تھے ماں نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا میں چلی جاتی ہوں اور بیٹا میں تم تینوں کو تخلیف میں نہیں دیکھ سکتی بیٹوں کو یہی لگ رہا تھا کہ ماں اپنے بھائی کے گھر جا رہی ہے ماں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور چل پڑی وہ کہاں جا رہی تھی کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا وہ کہاں جا رہی تھی اس کو خود بھی پتہ نہیں تھا لیکن وہ اپنے بھائی کے گھر میں نہیں جا رہی تھی وہ بلاوجہ اپنے بھائی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ بھائی دین کے کاموں میں اور تبلیغ میں کافی مصروف رہتے تھے وہ بوڑھی عورت چلتی جا رہی تھی کہ راستے میں ایک نوجوان ایا اور کہنے لگا کہ مانجی اپ کہاں جا رہی ہیں وہ بوڑھی عورت بولی کہ بیٹا منزل کی تلاش میں ہوں اور سفر میں جا رہی ہوں نوجوان بولا کہ لگتا ہے مان جی اپ اکیلی ہیں اپ کے ساتھ کوئی نہیں یہ سن کر وہ عورت خاموش ہو گئی نوجوان بولا کہ کوئی بات نہیں مان جی اپ میرے ساتھ ائیے اور میرے گھر میں رہیے میں اپنے گھر میں اکیلا رہتا ہوں اس طرح وہ نیک نوجوان اس بوڑھی عورت کو اپنے گھر لے اتا ہے گھر چھوٹا تھا لیکن سکون والا تھا نیک عورت بولی کہ بیٹا تم اکیلے رہتے ہو نوجوان بولا کہ جی مان جی میں اکیلا ہوں یتیم ہوں میرا کوئی نہیں ہے اور اج سے اپ ہی میری ماں ہیں اس بوڑھی عورت نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور کہنے لگی کہ بیٹا میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں نوجوان بوڑھی عورت کو کمرے میں لے گیا اور کہنے لگا کہ اج سے ہی اپ کا کمرہ ہے یہاں رہیے جتنی چاہے عبادت کیجئے خاتون سوچنے لگی کہ نوجوان ہوتے ہوئے بھی اتنا نیک ہے اور عبادت کرتا ہے وہ نیک نوجوان گھر میں عبادت کرتا اور کبھی کبھار گھر سے باہر نکل جاتا وہ

گوڑی عورت اس لڑکے سے کچھ بھی نہ پوچھتی وہ خاموش ہی ہو گئی تھی جس ماں کے بیٹے اس کو گھر سے نکال دے وہ بھلا دوسرے کسی سے کیسے سوال کر سکتی ہے وہ عورت اللہ تعالی سے دعا کرنے لگی کہ یا اللہ تو جانتا ہے کہ میں غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلاتی ہوں لیکن میں اپنے بیٹوں کو کوئی بددعا نہیں دیتی میں ان سے کوئی شکوہ بھی نہیں کرتی بس دل تو اس بات پہ اداس ہے کہ میں یہاں پر کسی کو کھانا نہیں کھلا سکتی اے اللہ تو مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا ہمیشہ اپنے خزانے سے عطا کرنا بس وہ یہی سوچ رہی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی عورت نے دروازے پہ دیکھا کہ چھوٹے سے بچے فقیر اور یتیم تھے عورت نے بولا کہ اپ یہاں کیا کر رہے ہیں بچے بولے کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ یہاں پر کھانا کھلایا جا رہا ہے بوڑھی عورت بولی کہ بچوں میں نے تو کھانا نہیں بنایا ہے وہ نیک عورت بولیے کہ بچوں میں نے تو کھانا نہیں بنایا ہے اور میرے پاس تو کھانا بھی نہیں ہے وہ بچے بولے کہ یہ اپ کیسی باتیں کر رہی ہیں باہر جا کے دیکھیے کہ بڑی بڑی دیگوں میں کھانا بن رہا ہے نیک عورت نے باہر ا کر دیکھا تو بڑی بڑی دیگوں میں کھانا بن رہا تھا کھانا کون پکوا رہا تھا اس بات کا کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا وہ نوجوان بھی وہاں پر موجود نہیں تھا بوڑھی عورت نے سب بچوں کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا کہ یا اللہ تیرا شکر ہے میں تو اس بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپ نے میری دعا قبول کر لی ہے بوڑھی عورت کو لگا کہ شاید دسترخوان ایک دن کے لیے ہی لگا ہے لیکن ایسا نہیں تھا وہ جب بھی فجر کی نماز پڑھ کے اٹھتی تو دسترخوان لگا ہوتا تھا بڑی بڑی دیگوں میں کھانا بن رہا ہوتا تھا اور بچے بوڑھے عورتیں یتیم مسکین کھانا کھا رہے ہوتے تھے جب کھانا بن رہا ہوتا تھا تو وہ نیک نوجوان وہاں پر موجود نہیں ہوتا تھا کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جن کو کھولنا مناسب نہیں ہوتا اس لیے ہی وہ عورت خاموش تھی اس نے کسی سے پوچھا نہیں اس بات کا چرچہ ہر طرف ہو گیا ہر گاؤں میں ہو گیا اس گاؤں میں بھی ہو گیا جہاں پر اس عورت کے تین بیٹے رہا کرتے تھے اس کی بہنوں نے اپس میں بات کی کہ جنگل میں ایک ایسا گھر ہے کہ جہاں ہر وقت کھانا ہی بنتا رہتا ہے اور وہاں پر وہ لوگ کھانا کھاتے ہیں جن کے گھر میں کھانا نہیں ہوتا جو غریب ہوتے ہیں مسکین ہوتے ہیں بچے بوڑھے عورتیں فقیر وہ سبھی وہاں پر کھانا کھاتے ہیں وہ اپس میں کہنے لگی کہ ہم بھی دیکھ کر اتے ہیں کہ کون اتنا امیر ہے جو روز ہی دسترخوان لگا لیتا ہے ایک دن وہ اپنے شوہروں سے چپ کر وہاں پر چلی گئی تینوں بہویں جب ائی تو ایک چھوٹا سا گھر تھا اس کے باہر دسترخوان لگا ہوا تھا بڑی بڑی دیگوں میں کھانا بن رہا تھا اس گھر میں کون موجود تھا یہ تینوں بہوئیں نہیں جانتی تھی ان تین عورتوں کو بھی کھانا کھانے کے لیے بلایا گیا تو ان تینوں نے عجیب سا منہ بنا لیا اور کہنے لگی کہ یہ صدقہ خیرات والا کھانا ہم نہیں کھاتے ہم کو یتیم یا غریب تھوڑی ہیں بلانے والے کوئی بیوہ عورت تھی کہنے لگی کہ ایسا نہیں ہے یہ کھانا کافی شفا والا ہے اس کھانے کو جو بھی کھاتا ہے وہ شفایاب ہو جاتا ہے ان میں سے ایک بہو بولی کہ ہم اس باتوں پہ یقین نہیں رکھتے دوسری بولی کہ ہم نے تو بہت مشکل سے اپنی ساس سے جان چھڑائی ہے تیسری بولی کہ یہ بتاؤ کہ یہ گھر کس کا ہے دیکھنے میں تو یہ گھر والے کافی امیر معلوم ہوتے ہیں بیوہ عورت بولی کہ یہاں پر ایک عورت رہتی ہے جو غریبوں مسکینوں فقیروں کو کھانا کھلاتی ہے بہوؤں نے جب یہ سنا تو وہ ڈر گئی کہ کہیں یہ ہماری ساس تو نہیں ہے جو یہاں بھی ا کر غریبوں مسکینوں کو کھانا کھلا رہی ہے وہ سوچنے لگی کہ وہ تو اپنے بھائی کے گھر میں چلی گئی تھی پھر ان تینوں نے کہا کہ اؤ گھر کے اندر دیکھتے ہیں وہ تینوں گھر کے اندر ائی تو ایک بزرگ عبادت کر رہے تھے بزرگوں کا چہرہ نورانی تھا ان کے چہرے پہ کافی نور تھا عورتیں بزرگوں کو دیکھ کر کانپ گئی بزرگوں نے پوچھا کہ اپ لوگ کون ہیں عورتیں بولیے کہ کوئی بھی نہیں بس ہم تو یہاں کھانا کھانے کے لیے ائی ہیں بزرگوں نے بولا تو اپ لوگوں نے کھانا کھا لیا ان تینوں نے ایک زبان ہو کر سفید جھوٹ بول دیا کہ جی جی کھا لیا ہے باہر ا کر چھوٹی بہو بولی کہ میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ

نہیں ہماری ساس ہی نہ ہو باہر ا کر ان کو پتہ چلا کہ یہ تو کوئی عبادت گزار بزرگ ہیں ایک دوسرے سے بات کرنے لگی اور اپنی ساس کا مذاق اڑانے لگی کہ ہمارے ساس نے ہمیں اتنا تنگ کر رکھا تھا کہ ہمارے ذہن سے اس کا خیال ہی نہیں جاتا اچھا ہوا وہ ہمیں نہیں ملی اور ہم لوگوں نے کھانا بھی نہیں کھایا پتہ نہیں کون سی خیرات والا یہ کھانا ہے وہ اسی طرح مسلسل اپنی ساس کی برائیاں کر رہی تھی اور اس صدقہ خیرات کو بھی برا بھلا بول رہی تھی ان میں سے ایک نے کہا کہ دیکھو مجھے کیا ہو رہا ہے بہو نے دیکھا تو اس کا جسم بدل رہا تھا اور اتنے میں ہی دوسری دو بہوں کا بھی جسم بدلنے لگا دیکھتے ہی دیکھتے وہ تینوں کتیا بن گئی ناظرین کہا جاتا ہے کہ یہ عورتیں کتا بن گئی تھی اسی حالت میں وہ اپنے گھر پہنچی ان کی زبان بھی کتے کی طرح ہو گئی تھی اگے شوہر ڈنڈا لے کر بیٹھے ہوئے تھے شوہر اپس میں کہنے لگے کہ پتہ نہیں ہماری بیویاں کہاں چلی گئی ہیں اتنے میں ہی وہ تین کتا بنی ہوئی عورتیں سامنے اگئی شوہروں نے ڈنڈے مار کر بھگا دیا وہ ڈری سہمی ہوئی کسی دیوار کے پاس ا کر چھپ گئی اب وہ تینوں عورتیں بیٹھ کر رونے لگی کہ یہ ہم جانور کیسے بن گئے ہیں اندر سے ان کے شوہروں کی اواز ارہی تھی کہ نہ جانے ہماری بیویاں کہاں چلی گئی ہیں یہ سن کر وہ تینوں عورتیں شوہروں کے سامنے اگئی ان کے شوہروں نے پھر سے ڈنڈا اٹھایا اور ان کو مارنے لگ گئے اس لیے وہ اب مجبور ہو کر اپنے شوہروں کے سامنے بھی نہیں ارہی تھی جب وہ تینوں انسان سے جانور بن گئی تو ان کو محسوس ہوا کہ اللہ پاک نے انسان کو کیا درجہ دیا ہے اور وہاں پہ وہ تینوں بیٹے پریشان تھے کہ نہ جانے ہماری بیویاں کہاں چلی گئی ہیں اپنی ماں کی تو ذرا بھی پرواہ نہیں تھی لیکن بیویوں کی پرواہ ہو رہی تھی اور اسی طرح کئی دن گزر گئے وہ اسی طرح کتا بنی حالت میں گھوم رہی تھی کھانا کہیں سے مل نہیں رہا تھا گھر وہ جا نہیں سکتی تھی اور ان کے شوہر ان کو ڈھونڈ رہے تھے جب بھوک پیاس سے وہ مرنے لگی تو ایک دوسرے سے کہنے لگی کہ اؤ اسی جگہ پر چلتے ہیں جہاں پر کھانا بنتا ہے غریبوں یتیموں مسکینوں بیواؤں کو کھلایا جاتا ہے اؤ ہم بھی وہاں جا کر کھانا کھاتے ہیں

جب وہاں پہنچی تو دیکھا کہ اب بھی وہاں پر کھانا کھلایا جا رہا تھا غریبوں نے کتوں کو دیکھا تو ڈنڈا لے کر بھگا دیا وہ پاس ا کر کھانا کھانے کی کوشش کرتی تو کوئی لات مار رہا تھا کوئی ڈنڈا مار رہا تھا اور کوئی دھکا دے رہا تھا اور ان کو بھگا رہا تھا اب ان کو احساس اور پچھتاوا ہو رہا تھا کہ جو سلوک وہ غریبوں یتیموں کے ساتھ کر رہی تھی وہ ان کے خود کے ساتھ ہی ہو رہا ہے اتنے میں ہی وہ نوجوان ایا اور کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ تم تینوں بھوکی ہو مگر یہ کھانا ان کے لیے ہے جن کے دل میں رحم درد ہوتا ہے تم تینوں کے دل میں رحم درد نہیں ہے نوجوان بولا کہ میں جانتا ہوں کہ تم تینوں کبھی انسان ہوا کرتی تھی تم لوگوں نے ہر شخص کے ساتھ برا رویہ رکھا ہے جو ایک بوڑھی عورت کا بھی دل دکھا چکی ہیں اور یہ تمہاری شکلیں بھی تمہارے اعمالوں کی وجہ سے ہی بدلی ہیں وہ لڑکا ان تینوں کو کہنے لگا کہ چلو میرے ساتھ وہ ان کو اس کمرے میں لے ایا جہاں پر بزرگ عبادت کر رہے تھے بزرگوں نے مسکرا کے ان تینوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ تم تینوں نے اس دن کھانا کھایا ہوتا اللہ کے نام پہ کھانا کھلایا جا رہا تھا تم تینوں نے اکڑ بازی نہ کی ہوتی تو اج تم لوگوں کا یہ حال نہ ہوتا خدا کی راہ میں کھانا کھلایا جا رہا تھا تم تینوں نے کیوں نفرت کی تم تینوں کو اللہ کی راہ میں دیا ہوا کھانا پسند نہیں اللہ کی راہ میں دی ہوئی خرید صدقہ پسند نہیں اور وہ ضعیفہ جو غریبوں مسکینوں یتیموں بیواؤں کو کھانا کھلاتی تھی تم تینوں نے اس کو بھی گھر سے نکال دیا وہ تینوں یہ ساری باتیں سن کر بس انسو ہی بہائی جا رہی تھی وہ اور کیا کر سکتی تھی گول بھی نہیں سکتی تھی اللہ والے نے کہا کہ اللہ کے حکم سے تم تینوں انسان کی طرح بولنے لگ جاؤ تو وہ تینوں عورتیں انسان کی طرح بولنے لگ گئی تینوں بہوئیں ایک زبان ہو کر بولی کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے اپنی ساس کا دل دکھایا اس کو گھر سے نکال دیا ہم تینوں اس سے حسد کرتی تھی اس سے جلتی تھی بزرگ بولے کہ تم تینوں نے اس نیک عورت کا دل دکھایا اس کے بیٹوں کو اس کے خلاف کر دیا وہ نیک عورت کوئی اور نہیں میری بہن ہے وہ تینوں بولی تو کیا وہ اپ کے پاس نہیں ائی تھی بزرگ بولے کہ نہیں وہ میرے پاس نہیں ائی تھی اور وہ میرے پاس ا بھی نہیں سکتی تھی وہ خوددار عورت ہے اور جب مجھے اپنی بہن کے بارے میں علم ہوا تو میں نے اپنی بہن کے پاس اپنا ایک خاص عالمی بھیجا ہوا تھا

جو اس کی بیٹوں کی طرح مدد کرتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے مجھے اپنے علم کے ذریعے پتہ چل چکا تھا کہ تم تینوں نے میری بہن کو ب** کر کے اس کو گھر سے نکلوا دیا ہے اور تم تینوں سوچتی ہو نا کہ میری بہن کے پاس اتنے سارے پیسے کہاں سے اتی ہیں یہ اتنا سارا کھانا بنا کر کیسے تقسیم کر دیتی ہے جب کوئی اللہ کا نیک بندہ اللہ کی راہ میں ایک پیسہ خرچ کرتا ہے تو اس کے بدلے اللہ تعالی 10 گنا زیادہ عطا کر دیتا ہے یہ بھی اللہ تعالی کا کرم ہے اور یہ جو تمہارا حال بنا ہوا ہے اس میں کوئی بددعا شامل نہیں ہے اگر تم اس دن کھانا کھا لیتی غرور و تکبر نہ کرتی اللہ کی راہ پہ دیا ہوا کھانے پہ نفرت نہ کرتی تو اج تمہارا یہ حال نہ ہوتا غرور تکبر تم تینوں نے کیا اور غرور ہی تکبر ہی شیطان نے کیا تھا جس کو اللہ پاک نے فرشتے سے شیطان بنا دیا اس پہ وہ تینوں عورتیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ ہمیں ایک بار مانجی سے ملوا دیجئے ہم اسے معافی مانگنا چاہتی ہیں ہمیں کتے بن کر پتہ چل رہا ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو کیا مرتبہ عطا کیا ہے اتنے میں ہی وہ بوڑھی عورت اگئی وہ تینوں بہوئیں اپنی بوڑھی ساس کے قدموں میں گر گئی اور رو کر معافی مانگنے لگی کہ اے ماں جی ہمیں معاف کر دیجئے بس ایک بار اپ ہمیں معاف کر دیجئے عورت بولیے کہ بیٹا میں نے تم لوگوں کے لیے کبھی بھی بددعا نہیں کی اور بیٹا معاف کرنا نہ کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور بیٹا صدقہ خیرات انسان کو بڑی بڑی بیماریوں سے مشکلوں سے بچاتا ہے

بیٹا میں تو تم لوگوں کے لیے ہی ایسا کرتی تھی کہ میرے بچے میری بہوئیں ان بیماریوں سے ان مشکلوں سے ہمیشہ بچے رہیں وہ تینوں عورتیں کہنے لگی کہ مانچی اپ ہمیں معاف کر دیں ہمیں اس بات کی خوشی ہوگی کہ اپ نے ہمیں معاف کر دیا ہے ہم بھلے ہی اس شکل میں ہی رہیں بس اپ ہمیں معاف کر دیں بوڑھی عورت نے کہا کہ بیٹا میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے معافی پاک اور وہ تینوں عورتیں وہاں سے جانے لگی تو بوڑھی عورت نے کہا کہ بیٹا رکو میں تم لوگوں کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتی بوڑھی عورت نے اپنے بھائی نیک اللہ والے بزرگ سے کہا کہ اپ ان تینوں کے لیے اللہ پاک سے دعا کریں کہ اللہ پاک پھر سے ان کو انسان بنا دے اللہ والے بولے کہ نہیں پہلے تم تینوں جاؤ اور اپنے شوہروں کو یہاں پر بلا کر لاؤ وہ تینوں اپنے شوہروں کے پاس چلی گئی پہلے تو شوہر ڈنڈا لے کر مارنے لگے لیکن جب وہ بول اٹھی تو ان کو پتہ چل گیا کہ یہ ہماری ہی بیویاں ہیں ان تینوں عورتوں نے اپنے شوہروں کو بتا دیا اور اپنے شوہروں کو لے کر وہاں پر اگئی بیٹے اپنی ماں کو دیکھ کر کافی شرمندہ ہوئے اللہ والے بزرگ نے کہا کہ تم تینوں نے اپنی ماں کے ساتھ کیا کیا ہے بیٹے تو ماؤں کا خیال رکھتے ہیں اور برا تو تم تینوں کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا لیکن تمہاری ماں کے صدقے خیرات نے تمہیں بچا لیا ہے وہ تینوں بیٹے اپنی ماں کے سامنے رو کر معافی مانگنے لگے نیک عورت بولی کہ بیٹا میں نے تو تم لوگوں کو بہت پہلے ہی معاف کر دیا تھا اس نیک عورت نے اپنے بچوں اور بہوں کو معاف کر دیا اور پھر اپنے بھائی کو بولا کہ اپ بھی ان کو معاف کر دیں اور ان کے حق میں اللہ تعالی سے دعا کریں بزرگوں نے ان کے حق میں اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ یہ تینوں عورتیں اپنے گناہوں کی وجہ سے ہی اس حال میں ہیں مگر یا اللہ تو تو رحم کرنے والا ہے کرم کرنے والا ہے بزرگ کافی دیر دعا کرتے رہے بزرگوں کی دعا قبول ہو گئی اللہ تعالی نے ان کو کتیا سے انسان بنا دیا تینوں بہنوں نے اپنی ساس کے ہاتھ پکڑے اور کہا کہ چلیے ماں جی اپنے گھر چلیے وہ اپ کا ہی گھر ہے ہم سے پہلے اس پہ اپ کا ہی حق ہے اپ نے ہی ان کو بسایا ہے اور اپ ہی ہمیں اس گھر میں بہا کر لائی ہیں اور اب ہم سب لوگ مل کر پورے گاؤں کو کھانا کھلائیں گے اور اللہ کی راہ میں خیرات کریں گے تو پیارے مسلمانوں سٹوری اچھی لگی تو مزید ایسی ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کر لیں اور اس ویڈیو کو اگے بھی شیئر کرنا مت بھولیں

Leave a Comment