بسم اللہ الرحمن الرحیم
ناظرین یہ واقعہ ہے امام حسین علیہ السلام اور ان کے پیارے شہزادے ننھے علی اصغر جن کی عمر چھ ماہ تھی کس طرح اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہوئے اس واقعے کو اخر تک ضرور دیکھیے گا کہ اللہ تعالی کے دین کو بچانے کے لیے ان کے پیاروں نے ان کے شہزادوں نے ان کے نواسے اور ان کے بچے نے کس طرح سے اپنی قربانیاں دے کر اللہ تعالی کے دین کو بچایا اپنے نانا کے دین کو بچایا
کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خاندان کا پانی بند کر دیا گیا رسول اللہ ﷺکے چھوٹے چھوٹے بچے پانی کی صدائیں بلند کرنے لگے تاریخ نے لکھا کہ تین دن تک رسول اللہﷺ کے خاندان کا پانی بند تھا جب کربلا میں ہر ایک شہید شہادت کا جام پیتا گیا تو دس محرم کے دن امام حسین علیہ السلام تنہا رہ گئے امام حسین علیہ السلام یزید کے سامنے مدد طلب کرتے ہیں کہ کوئی ہے اس غریب کی مدد کرنے والا آسمان ہل اٹھا اور زمین تڑپ اٹھی فرشتے آگیے جنات کہنے لگے اے حسین ابن علی ہمیں حکم کرے لیکن امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ صدا صرف انسانوں کے لیے تھی لیکن افسوس کہ تمام انسان رسول اللہﷺ کے نواسے کی غربت پہ ہنسنے لگے ۔اتنے میں ہی میں سے ایک بچہ اپنے آپ کو جھولے سے گرا دیتا ہے اتنے میں حضرت بی بی رباب رضی اللہ تعالی عنہانے بلایا حضرت امام حسین علیہ السلام کو اور دست ادب کو جوڑ کر عرض کرنے لگی۔ نواسہ رسولﷺ جیسے ہی آپ نے کہا کہ ہے کوئی اس غریب کی مدد آنے والا آپ کے اس شہزادے علی اصغر نے اپنے آپ کو جھولے سے گرا دیا ۔امام حسین علیہ السلام علی اصغرکا سر چومتے ہیں اور فرماتے ہیں اے امےرباب میں علی اصغر کو پانی پلا کر آتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسا حسین ابن علی اپنے چھ ماہ کے بچے کو کربلا کے میدان میں لے کر آتے ہیں اور فرمایا کہ تمہاری جنگ رسول اللہ کے اس نواسے سےہے اس معصوم بچے نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ایے لوگو تین دن سے اس معصوم بچے نے پانی نہیں پیا ۔پیاس کی وجہ سے اس کی ماں کا دودھ خشک ہو گیا ہے اے لوگو اس بچے کو پانی پلاؤ فوجے یزید سے آواز آئی اے حسین پانی خود پینا چاہتے ہو اور نام بچے کا لیتے ہو اگر یہ بچہ پانی خود مانگے گا تو ہم اسے پانی پلائیں گے ۔امام حسین علیہ السلام نے علی اصغر کو بلند کیا اور فرمانے لگے۔ اے علی اصغر نا نا کی امت سے پانی مانگو۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ فرمانا ہی تھا کہ علی اصغر چھ ماہ کے بچے کے لب ہلے اور علی اصغر فرمانے لگے اے لوگو میں تمہارے رسول کے گلشن کا ایک چھوٹا سا پھول ہوں میری رگوں میں تمہارے رسول کا خون بہتا ہے ایسے لوگو میں تین دن سے پیاسا ہوں۔ تاریخ نے لکھا کہ علی اصغر کی صدا سے فوجیں اشقیا ں ہلنے لگی ۔ عمر بن سعد اور شمر نے کہا کہیں فوج یزید بغاوت پر نہ اترآئیں آواز لگائی حرملا تیر چلا۔ ہر ملا کے پاس جو تیر جانوروں کے شکار کے لئے تھا تاریخ نے لکھا کہ وہ تیر علی اصغر کا نشانہ لیا اور تیر چلا دیا اس تیر کی تین نوکیں تھی ایک نوک علی اصغر کی کمر میں لگی دوسری نوک علی اصغر کے بازو میں لگی اور تیسری نوک علی اصغر کے کان میں لگی تیر اتنا وزنی تھا کہ علی اصغر کو چیرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے بازو میں جا لگا۔تاریخ نے لکھا کہ علی اصغر کے جسم سے خون امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں پر جاگرا امام حسین علیہ السلام اپنے چھ ماہ کے علی اصغر کو ہاتھوں میں لیے اپنے نانا کی امت کو دیکھ رہے ہیں چاہا کے علی اصغر کے خون کو زمین کے حوالے کریں زمین چیخ اٹھی مولااس ناحق خون کو میرے اوپر گرا تے ہیں ۔تو روز محشر تک میں اناج نہیں آگاؤں گی ۔امام حسین علیہ السلام نے سوچا کہ خون کو آسمان کے حوالے کردوں آسمان سے آواز آئی اے رسول اللہ کے نواسے اگر اس خون کو ہمارے حوالے کیا تو روز محشر تک ہم بارش نہیں برسائیں گے ۔امام حسین علیہ السلام نے خون علی اصغر اپنے چہرے پہ ملا اور ان ظالموں کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے کہ اے لوگو روزے محشر میں خونِ علی اصغر اپنے چہرے پہ لے کر آؤں گا اور فرماؤں گا کہ میرے چھ ماہ کے بچے علی اصغر کا کیا قصور تھا امام حسین علیہ السلام اپنے بچے علی اصغر کو اپنے بازوؤں میں چھپائے جیسے ہی خیمے میں آئے ۔حضرت بی بی ام رباب نے رو کر فرمایا اے مولا میرے بچے نے پانی پیا ۔امام حسین علیہ السلام نے علی اصغر کو اپنے بازو سے ہٹایا جیسے ہی بی بی رباب نے دیکھا ۔رو کر عرض کرنے لگی اے مولا جس نے میرے بچے کو شہید کیا کیا اس کی کوئی اولاد نہ تھی ۔ماں باپ تو اپنے بچے کے جسم پر ایک خراش تک برداشت نہیں کر سکتے۔ تو کیسے دیکھا ہوگا اس ماں باپ نے اپنے چھ ماہ کے علی اصغر کا درد۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ صبر کرو اللہ کی مرضی اس میں ہے کہ ہم صبر کریں ہر ظلم سہہ کے ہم نے صبر کرنا ہے ۔کیونکہ ہمارے ہی خون سے اللہ کا دین بسنا ہے او علی اصغر کی قبر بناتے ہیں امام حسین علیہ السلام اور حضرت بی بی رباب خیمے کے پیچھے ایک گھڑا کھودتے ہیں اور علی اصغر کو کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر دفن کر دیتےہیں۔ دس محرم کے دن جب امام حسین علیہ السلام کے جسم مبارک سے آپ کا سر جدا کر دیا گیا جب تمام سروں کو کاٹ دیا گیا تو عمر بن سعد نے کہا کہ دیکھو کوئی سر رہ تو نہیں گیا ۔کسی ظالم نے کہا کہ ایک سر رہ گیا ہے شمر نے کہا کہ کون سا اس نے کہا کہ حسین ایک 6 ماہ کا بچہ لے کر آئے تھے۔ ہم نے اس کو تیر مار کر شہید کیا اس کا سر نہیں ملا ۔شمر نے کہا ڈھونڈو۔ زمین پر نیزے مارتے رہو اور اس کا سر ڈھونڈ کر لاؤ فوجیں کربلا کی تپتی ہوئی زمین پر نیزے مار کر علی اصغر کو ڈھونڈتی رہی ۔تاریخ نے لکھا کہ ایک جگہ پر نیزہ لگا جیسے ہی نیزہ اوپر آیا تو اس نیزےپر علی اصغر کا جسم مبارک سوار تھا ۔جیسے ہی ایک ماں نے اپنے بچے کو نیزے کے اوپر دیکھا اس ماں کا کلیجہ چیخ اٹھا ۔ماں نے چیختے ہوئے مدینے کی طرف رخ کیا اور فرمایا یارسول اللہ دیکھیں آپ کی امت نے ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے نے اللہ کے دین کو بچایا اللہ کے دین کی خاطر اپنے اور اپنے بچوں کی قربانیاں دیں۔