Agha Khan Hospital Me 10 Saal Ki Bachi Maa Bn Gai | Real Story

کراچی کے علاقے کورنگی کا یہ سچا واقعہ آپ کو سنائیں گے بلکہ لوگوں سے اپیل کریں گے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیجیے تاکہ ایک پبلک اویئرنس پھیلے اور ایسے لوگوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو بے نقاب کریں تاکہ ان کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے۔

یہ واقعہ ہمیں ڈاکٹر عظمیٰ نے کراچی سے بھیجا ہے۔ کہتی ہیں میرا نام ڈاکٹر عظمیٰ ہے۔ زندگی میں ویسے تو بہت سارے ایسے واقعات آئے جن کے بارے میں میں بات کرنا چاہوں گی مگر یہ کہانی ایک چھوٹی بچی کی تھی جس نے نہ صرف مجھے بہت زیادہ حیران کیا بلکہ زندگی بھر کے لیے اپنی بچیوں کے بارے میں محتاط کر دیا۔ وہ پیر کا دن تھا جب ایک عورت اپنی کوئی 10 سالہ بچی کو لے کر میرے آفس میں داخل ہوئی۔ میری نظر اس بچی پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔ بچی کا پیٹ غیر معمولی حد تک بڑا ہوا تھا۔ جب میں نے بچی کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا کہ شاید اسے کوئی بیماری ہوگی یا پھر پیٹ اس لیے بڑا ہوگا کہ پیٹ میں پانی جمع ہو گیا ہوگا۔ مگر جب میں نے بچی کی ماں کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کیا بات ہے محترمہ، آپ رو کیوں رہی ہیں؟ میری بات سن کر اس نے میرے آگے دامن پھیلا دیا۔ میں نے جب اس کی طرف ناسمجھی سے دیکھا تو اس نے اپنی چادر اپنے سر سے اتاری اور میرے قدموں میں رکھ دی۔ ڈاکٹر صاحبہ، خدا کے لیے میری عزت بچا لیں۔ میں نے لڑکی کی ماں کی طرف دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ کیا معاملہ ہے۔ دراصل 10 سالہ بچی امید سے تھی اور اب لڑکی کی ماں مجھ سے یہ کہہ رہی تھی کہ میں اس کی جان، یعنی اس کی عزت بچا لوں تاکہ کسی کو بھی یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی بچی امید سے تھی۔ میں نے اس کی طرف بے یقینی سے دیکھا اور کہا کہ میں اس کا الٹراساؤنڈ کرتی ہوں۔

’’نہیں ڈاکٹر صاحبہ، الٹراساؤنڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری بچی پیٹ سے ہے، آپ کو نظر نہیں آ رہا؟ آپ تو ڈاکٹر ہیں، آپ اچھے طریقے سے جانتی ہیں۔‘‘

’’ایسی بات نہیں ہے لیکن مجھے آپ کی بچی کو دیکھنا پڑے گا، دیکھنا پڑے گا کہ بچی کی صحت کیسی ہے اور یہ کیسے امید سے ہوئی۔ کیا اس کے ساتھ کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہے؟‘‘ میں نے بچی کی ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’نہیں جی، یہ بات میں نہیں جانتی، آپ اسی سے پوچھ لیں۔ اس نے تو ہمارا منہ کالا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘ اس عورت نے نفرت سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی، ’’اگر یہ بات اس کے باپ کو پتہ چل گئی تو وہ تو اسے زندہ گاڑ دے گا۔ کیوں اتنا بڑا پیٹ ہے آپ کی بچی کا؟ کیا آپ کے شوہر کو نظر نہیں آیا؟‘‘ میری بات سن کر وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی، ’’نہیں، وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ اس کے پیٹ میں پانی بھر گیا ہے یا اسے کوئی انفیکشن ہو گیا ہے۔ ویسے بھی میری بچی کی شہرت بہت نیک ہے۔ یہ تو اپنے محلے میں قرآن پڑھنے جاتی ہے تو نہ صرف یہ سب بچوں سے آگے ہے بلکہ دوسرے بچوں کو بھی پڑھاتی ہے۔ میرا مطلب ہے اپنے سے چھوٹے بچوں کو پڑھاتی ہے کیونکہ اسے قرآن پاک بہت اچھے سے یاد ہے۔ اسی وجہ سے تو میری بیٹی پر کوئی کبھی ایسا الزام نہیں لگا سکتا اور ویسے بھی ابھی تو اس کی بہت چھوٹی عمر ہے، ابھی تو یہ اس کا بچپن ہے۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ میں اس کی ماں ہو کر اس کی طرف داری کر رہی ہوں بلکہ بات اصل میں یہی ہے کہ ہمارے بچے بہت نیک ماحول میں رہتے ہیں، پلتے بڑھتے بھی بہت اچھے سے ہیں اور انہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ اس کے تو اسکول کا ماحول بھی بہت اچھا ہے، ہر طرح کی سہولت ہے۔ میری بچی کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے لیکن بس کیا کریں جو اللہ کی مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر اس عورت نے سر جھکا لیا تو مجھے اس پر شک ہونے لگا تھا۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ بغیر کسی آدمی کے، بغیر کسی ظلم اور زیادتی کے یہ بچی امید سے ہو گئی ہو۔ کسی نے تو کوئی ظلم کیا ہوگا، نہیں تو اس کی ماں سے لاپرواہی ہوئی ہوگی۔ تبھی تو اس بچی کا یہ حال ہے، میں نے اپنے دل میں سوچا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ماں مجھ سے نظریں چرا رہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ اس کی ماں مجھے پوری بات بتانا نہیں چاہتی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ کو بچی کا الٹراساؤنڈ تو کروانا ہی ہوگا، تبھی مجھے پتہ چل سکے گا کہ آپ کی بچی کا کون سا مہینہ ہے اور اس کا کون سا علاج کیا جا سکتا ہے۔ وہ عورت الٹراساؤنڈ کروانے پر راضی ہو گئی۔ اس کی بچی کو میں الٹراساؤنڈ والے کمرے میں لے کر جانے لگی تو عورت بولی، ’’ڈاکٹر صاحبہ، میں بھی ساتھ چلوں۔‘‘ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ عورت بچی کو اکیلے میرے ساتھ نہیں بھیجنا چاہتی۔ شاید وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بچی مجھ سے کوئی بات کر لے۔ مجھے عجیب تو لگا لیکن پرائیویٹ کلینک میں لوگ ایسے ہی نخرے کرتے ہیں۔ سرکاری ہو تو لوگ زیادہ بات نہیں کرتے، ڈاکٹر کی ہر بات کو مانتے ہیں اور سر تسلیم خم کرتے ہیں، لیکن پرائیویٹ کلینک میں کوئی بھی کسی کی بات نہیں سنتا۔ اینی ویز، زیادہ تر مریض اپنی ہی مرضی منواتے ہیں اور وہ عورت بھی اپنی بیٹی کے ساتھ الٹراساؤنڈ والے کمرے میں آنا چاہتی تھی، تو میں نے اسے منع نہیں کیا۔ وہ میرے ساتھ ساتھ کمرے میں آ گئی۔ میں اس کی بیٹی کا الٹراساؤنڈ کرنے لگی تو اسکرین پر نظریں گاڑے وہ بھی بیٹھی دیکھ رہی تھی۔

’’کیا خیال ہے پھر آپ کا؟ کوئی امید ہے؟ میرا مطلب ہے، کیا میری بیٹی کی عزت بچ جائے گی؟‘‘

’’دیکھیے، آپ عزت اور بے عزتی کی بات تو نہ ہی کریں۔ یہ چھوٹی لڑکی ہے اور ویسے بھی اس نے جب کوئی جرم کیا یا نہیں تو آپ خواہ مخواہ اس کے سر پر ایک ہی چیز کیوں تھوپ رہی ہیں؟ چھوٹی بچیوں کو تو ایسے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ آپ کو اپنی بیٹی کے اردگرد کے ماحول کی خبر رکھنا ہوگی۔ آپ کو پتہ چلانا ہوگا کہ یہ کس کے ساتھ ملتی جلتی ہے، کیا کرتی ہے، کہاں جاتی ہے، اس کے ساتھ کون رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنی بیٹی کا خیال بھی رکھنا ہوگا۔ الٹراساؤنڈ رپورٹ آتے ہی آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کی بیٹی کے ساتھ کیا معاملات ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے اس عورت کو بتا دیا۔ حالانکہ میں سب کچھ جان چکی تھی، الٹراساؤنڈ کو پڑھنا میرے لیے کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ پر میں نے آدھا گھنٹہ پھر بھی سوچ بچار کی کہ میں اس عورت کو کیا بات کہوں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ برا مان جائے یا اپنی بیٹی کو مارنا پیٹنا شروع کر دے۔ میں نے اس عورت کے ساتھ بڑے طریقے سے بات کی۔ میں نے کہا، ’’دیکھیے، آپ کی بچی بہت نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اس لمحے پر اس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس لیے آپ کو اس کی بہت زیادہ کیئر کرنا ہوگی۔ اگر آپ اس کا خیال رکھیں گی تو ہی اس کی زندگی آسان ہوگی۔ ویسے بھی آپ بچی کی ماں ہیں، کوئی دشمن تو نہیں جو آپ اس کے ساتھ اتنا برا سلوک کریں گی۔ آپ کی بچی امید سے ہے اور اسے بچے کو اٹھائے ہوئے سات آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ ایسے میں آپ کی بچی کو اگر میں ضائع کر دوں گی تو پھر ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے زندگی بھر مشکلات ہو جائیں۔ تو اس موقع پر ہم اس کے بچے کو ضائع نہیں کر سکتے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنی بچی کو لے جائیں اور اس کا خیال رکھیں۔ بچہ پیدا ہونے دیں۔ غیر قانونی کام کرنا بھی نہیں چاہیے اور ویسے اس پر کیا بھی نہیں جا سکتا۔ ایک تو اس کی عمر بہت کم ہے، دوسرا آپ کی بچی کی صورت حال بہت نازک ہے۔  اس کا خیال رکھیں اسے گھر لے جائیں میں نے اس عورت کو یہ بات کہہ کر مطمئن کر تو دیا تھا مگر وہ رونے لگی بولی کہ ڈاکٹر صاحبہ اپ جو بات کر رہی ہے وہ بالکل لامکن ہے اگر میں اپنی بچی کو اپنے گھر لے بھی جاتی ہوں تو بچہ پیدا ہونے سے پہلے یہ زندہ زمین میں گاڑتی جائے گی اب میری جگہ خود کو رکھ کر سوچیں بتائیں بھلا کیا بھلا کیا اپ ایسے کسی بچی کی ماں ہوتی اور وہ امید سے ہو جاتی تو اپ کا شوہر اپ کو معاف کرتا ساری باتیں تو بچی کی ماں پر ہی اتی ہیں سوال اس کی تربیت پر اٹھتے ہیں میں اسے گھر نہیں لے کر جا سکتی اپ کوئی نہ کوئی اپ کوئی نہ کوئی حل نکالے ورنہ تو میرے لیے اپنی بچی کو چھوڑنے کے علاوہ اور کچھ چارہ نہیں ہوگا وہ اس عورت کی سخت دل دیکھ کر حیران رہ گئی اپ اپنی بچی کو چھوڑ کر کہاں جائے گی اپ کی بچی کے علاوہ اپ کا سہارا ہی کون ہے دیکھیے میڈم یہ بات میں تو نہیں جانتی لیکن اگر اپ کے پاس کوئی حل کے پاس کوئی حل ہے تو بتا دے کیونکہ یہ بچی یا تو موت کے منہ میں جائے گی یا پھر اپ اس کا کوئی علاج کر دیں میری بات سن کر بچی کی ماں رونے لگی تب میں نے بچی کی ماں کو ایک پیشکش کی تب میں نے اس عورت سے ایک بات کہی کہ اگر تم اپنی بچی کو میرے کلینک پر ہی رہنے دو بچہ پیدا ہونے تک اسے گھر نہ لے کر جاؤ تو کیا یہ ممکن ہے اس نے جھٹ سے کہا کہ ہاں ایسا تو ممکن ہے میں اپنے شوہر سے کہہ دوں گی کہ میں نے اپنی بیٹی کو اپنی بہن کے گھر بھیجا ہے بہنیں تو سانجھی ہوتی ہیں وہ میرا ساتھ دے دے گی اسے بھی پتہ ہے کہ میری بچی کے ساتھ کیا معاملہ ہے بس میں اپنے شوہر کو کسی طریقے سے قابو کر لوں گی اپ بتائیں کہ اپ اس کام کے کتنے پیسے لے گی وہ عورت بیمار بھی تھی اور ساتھ میں مجبور بھی اپنی بیٹی کے لیے بہت پریشان ہو رہی تھی میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ مجھے اپ سے کوئی پیسے نہیں چاہیے میں تو بس اس بچی پر ترس کھا کر اپ کو یہ بات کہہ رہی ہوں ویسے بھی میرے کلینک میں رات کے وقت کوئی نہیں ہوتا میں ہی ہوتی ہوں تو میں اس کا خیال رکھوں گی اور باقی کا وقت یہیں پر چھوڑ کر جائیے اس بچے کی ماں کو اور کیا چاہیے تھا وہ تو پہلے ہی پریشان تھی کہنے لگی کہ ٹھیک ہے میں اسے یہیں چھوڑ جاؤں گی اس کے جانے کے بعد میں نے بچی سے پوچھا بیٹا تم کیا سکول جاتی ہو اسکول جاتی ہو اس نے مجھے ساری باتیں بتا دیں میرا شک تھا کہ شاید اسکول میں وین والے نے اس کے ساتھ کچھ ایسی حرکت نہ کر دی ہو جس کے نتیجے میں ایسا ہو گیا ہو مگر ایسا بالکل بھی نہیں تھا بچی نے مجھے ایسی کوئی معلومات نہیں بتائی حالانکہ وہ ڈری ہوئی بھی نہیں تھی لگتا تھا کہ بچی کے علم میں یہ بات ہے ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا کب ہوا اور کیسے ہوا وہ مجھ سے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر معصومیت سے پوچھنے لگی ڈاکٹر صاحبہ کیا میرے بھی بچے ہوں گے میں اماں بن جاؤں گی ہاں بیٹا تم مما تو بن جاؤ گی لیکن اس کے لیے تمہیں بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی میں نے اسے اچھل کود کرنے سے منع کر دیا کہا کہ اب تمہیں بس اپنا خیال رکھنا ہوگا ارام وغیرہ کرنا ہوگا اپنے لیے دعا کرو اور یاد کرنے کی کوشش کرو کہ اگر کسی نے کبھی تمہارے ساتھ کوئی غیر معمولی رویہ رکھا ہو تو مجھے سچ سچ بتا دو اس نے تو نفی میں سر ہلا دیا بولی کہ ایسا اج تک کبھی بھی نہیں ہوا مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا میں اس کی باتوں کو سمجھ تو رہی تھی مگر یقین نہیں ارہا تھا بچی کی ماں اگلے دن ائی اس کے پاس حلوہ اور بہت ساری ایسی خشک چیزیں تھیں جو کہ میں اسے دے سکتی تھی میں نے بچی کی ماں سے وہ سب کچھ لے لیا اور کلینک میں ہی رکھ دیا بچی کی ماں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسے گاہے بگاہے ملنے اتی رہے گی بچی اپنی ماں کو یاد تو کرتی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ پریشان بھی ہوتی تھی خیر میں نے اسے کلینک میں ہی رکھ لیا اس کے دن اب قریب ا رہے تھے مجھے پریشانی بھی تھی کہ کہیں اس بچی کا کیس کوئی غیر معمولی صورتحال اختیار نہ کر لے کیونکہ میں نے تو اس کی ماں سے کہہ رکھا تھا کہ تمہیں پریشانی کی ضرورت نہیں ہے تمہاری بچی کا کیس میرے ہاتھ میں ہے تو میں اسے برباد نہیں ہونے دوں گی نہ ہی اس کے مستقبل پر کوئی فرق ائے گا خیر ولادت کے دن اس نے دو خوبصورت بچوں کو جنم دیا بچے گول مٹول پیارے اور صحت مند تھے میں نے اس صحت مند تھے میں نے ان بچوں کو دیکھا میری تو حیرت کی انتہا نہ رہی وہ دونوں جڑواں بچے تھے اج تک میں نے ایسا ہوتے نہیں دیکھا تھا بچی کی صحت بہت خراب تھی میں اسے ہسپتال سے سیدھا گھر لے کر گئی تھی اب وہ بڑی بڑی عورت معلوم ہو رہی تھی مجھے اس پر دکھ بھی ہو رہا تھا میں نے اسے دوبارہ سے پوچھنے کی کوشش کی اسے کچھ نہیں پتہ تھا وہ بچے اسی کے تھے پر میں نے سختی سے منع کر دیا کہ گھر میں یہ بات کسی کو نہ بتائے بچی کی ماں کو بھی میں نے ساری حقیقت بتا دی تھی کہ دو بچے جو پیدا ہوئے وہ بچے میں کسی بے اولاد چھوڑے کو دے دوں گی اپ کو اس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بچی کی ماں اپنی طرف سے بے فکر ہو گئی اس نے مجھے ہزاروں روپے دیے اور بولی اپ کا بہت شکریہ اپ نے اس مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا میں نے اپنے شوہر سے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی بچی کو خالہ کے گھر چھوڑ ائی ہوں وہ مطمئن ہو گیا تھا ویسے بھی وہ بچوں کی زیادہ خبر نہیں رکھتا لیکن اگر اسے پتہ چل جاتا تو پتہ نہیں کیا سے کیا ہوتا عورت یہ کہہ کر چلی گئی تھی میرے خیال میں تو وہ اب مطمئن تھی اور اس کی فکر بھی ختم ہو گئی تھی مگر مجھے اس کی بیٹی بار بار یاد ا رہی تھی ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے کچھ بتانا چاہتی تھی مگر ہمارے پریشانی کے کچھ بتا نہیں پائی میں نے اسے مزید کچھ نہیں کہا تھا بچی کے جانے کے بعد میرے کمرے میں موجود نرس نے مجھ سے ایک عجیب بات کہی بولی کہ اپ کو نہیں لگتا کہ بچی کی ماں کا رویہ کچھ ایسا تھا جسے بھی مشکوک کہہ سکتی ہوں مجھے لگ تو ایسا رہا تھا مگر میں نے سر چھٹک دیا میں فالتو کی باتوں میں نہیں پڑھنا چاہتی تھی میں نے یہ کیس بھی اپنے ذہن سے بھلا دیا تھا میں نے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کچے کو مجھے دوبارہ بھی دیکھنا پڑے گا میرے خیال میں یہ سب سے بڑی مصیبت تھی جو ان لوگوں پر ائی تھی اور یقینا انہوں نے اگلی زندگی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا تھا مجھے اس بات کا بھی مکمل یقین تھا کہ وہ ماں اپ اپنی بیٹی کا خاص خیال رکھے گی اسے باہر انے جانے نہیں دے گی نہ صرف یہ کہ اس کی ہر حرکت پر نظر رکھے گی بلکہ اس کے ملنے جلنے والوں پر بھی دھیان کرے گی میں نے یہی سوچا تھا کہ یہ اخری اور پہلا واقعہ ہوگا جو اس بچی کی زندگی میں ائے گا مگر پھر وہ ہوا جو میں نے سوچا بھی نہیں تھا تقریبا سات اٹھ مہینے گزرے تھے کہ وہ بچی دوبارہ میری کلینک میں داخل ہوئی اس بار اس کی ماں بھی ساتھ تھی اور بچی نے بڑا سا دوپٹہ اڑ رکھا تھا بچی کا قد کافی بڑھ چکا تھا لگتا تھا کہ اب اس کی زندگی میں کوئی اور مسئلہ ہے میں سمجھی کہ شاید کوئی دوسرا مسئلہ ہے جس کے لیے وہ میرے پاس بات کرنے کے لیے ائی ہے مگر اس نے دعا دے ہی میرے سر پر حیرتوں کے پہاڑ گرا دیے میں نے پوچھا کہ کیوں انا ہوا کہنے لگی کہ میری بچی کو دوبارہ سے وہی علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں میں نے پوچھا کیسی علامتیں تو لڑکی کی ماں رونے لگی اس کے انسو دیکھ کر میں سمجھ چکی تھی کہ معاملہ پھر سے گڑبڑ ہے اس کے ساتھ دوبارہ وہی ہو چکا ہے جس کے لیے وہ پہلے میرے پاس ائی تھی مجھے یقین نہیں ا رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی بچی اتنی سی عمر میں ایسے حادثات سے کیسے بار بار گزر رہی ہے اور وہ بھی جب اس کی ماں کو اس بارے میں کوئی خبر ہی نہیں نہ لڑکی کو پتہ ہے میں نے کہا کہ اب یہ سب کیسے ہو گیا تم نے تو کہا تھا کہ تمہاری بچی کے ارد گرد میں ایسا کوئی انسان نہیں ایسا کوئی شخص نہیں جو یہ حرکت کر سکے تو پھر یہ سب کیا ہے لڑکی کی ماں روتے ہوئے بولی ڈاکٹر صاحبہ مجھے تو خود اس بارے میں نہیں پتہ میری تو ٹانگیں کانپ رہی ہیں اس وقت سے جب سے میں نے اپنی بچی کے بارے میں ایسا بحث اس کیا اپ کم از کم اس کا ٹیسٹ کر کے پتہ لگائیں کہ جو کچھ میں سوچ رہی ہوں وہ صحیح ہے یا غلط ہے کیونکہ ابھی تک میں نے اس کا کہیں اور ٹیسٹ نہیں کروایا اپ چونکہ میرے حالات سے پہلے بھی واقف ہیں اسی لیے میں اپ کے پاس تشریف لائی ہوں اپ خدا کے لیے چیک کر کے بتا دیں کہ جو کچھ بھی سوچ رہی ہوں وہ صحیح ہے یا غلط ہے اللہ کرے کہ یہ سب جو میں سوچتی ہوں جھوٹ نکلے ورنہ تمہیں جیتے جی مر جاؤں گی اب تو اس کے باپ سے کیا بہانہ کروں گی اب تو میری زندگی میں وہ طوفان ائے گا کہ میری زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گی میں نے اسے تسلی دی کہا کہ اب ہم ہر شک نہ کریں پہلے مجھے اپ کی بچی کو چیک کرنے دیں جب تک ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں ائی تب تک اپ کو اندازہ قائم مت کریں مگر میں جب اسے الٹرا ساؤنڈ والے کمرے میں لے کر گئی تو الٹراسون کی اسکرین پر نظر پڑتے ہی میرے تو قدموں تلے سے زمین نکل گئی میری انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ دوبارہ سے وہی سب کچھ ہو جائے گا میں نے لڑکی کی ماں کو بھی سچ سچ بتا دیا کہنے لگی کہ ایسا مت کہیں کہہ دے کہ یہ جھوٹ ہے میں سچ کہتی ہوں قران پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے کو تیار ہوں کہ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ بالکل صحیح کہا ہے میں اپنی بیٹی کے بارے میں کسی مجرم کو نہیں جانتی اپ شاید مجھ پر ہی شک کرے سوچیں گی کہ یہ کیسی ماں ہے جو اپنی بیٹی کے بارے میں اتنی سی بھی بات نہیں جانتی لیکن قسم کھا کر کہتی ہوں مجھے واقعی میں نہیں پتہ کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ہے دیکھ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دوائیوں کے استعمال سے معاملہ ٹھیک ہو جائے گا اپ کو وہ پریشانی تو نہیں ہوگی جو اس سے پہلے ہوئی مگر بار بار ایسا ہونے سے اپ کی بچی کی صحت گر جائے گی بہت کم عمری میں ایسے معاملات بچیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتے ہیں اپ کو بھی پتہ ہے کہ اس کی صحت کیسی ہے ایک تو عمر کم ہے دوسرا کمزور اور مریل سی ہے اپ کو اس کا خیال رکھنا ہوگا میری بات سن کر اس نے کہا کہ بالکل خیال تمہیں رکھوں گی اپ دوائیاں دے دیں مگر مجھے بتا دیں کہ میری بچی کا مجرم کون ہے وہ عورت میرے کلینک میں بیٹھے رونے لگی میں نے کہا اس بار کی تو سمجھ مجھ کو بھی نہیں ہے میں نے تو کئی بار اپ کی بچی سے نفسیاتی حرف ازما کر یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا اس کی نظر میں کوئی مجرم ہے تو اس نے مجھے صاف منع کر دیا بولے کہ اج تو کیسا نہیں ہوا نہ ہی مجھے کوئی ایسا شخص نظر اتا ہے جس نے میری طرف بری نظر سے دیکھا ہو مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش کی ہو بس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اچانک ہے میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں جانتی سوچا تھا کہ شاید یہ اخری بار ہوگا اب اس بچی کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں ہوگا لیکن اس معاملے کو تقریبا کچھ دن ہی گزرے تھے یعنی دو سے تین مہینے ہی ہوئے ہوں گے کہ وہ لڑکی پھر اپنی بچی کو لے کر میرے کلینک میں ا گئی اس بار تو اسے دیکھ کر مجھے غصہ اگیا مجھے لگا کہ جان بوجھ کر یہ لوگ ناٹک کر رہے ہیں کیونکہ ایسا کبھی ممکن ممکن ہی نہیں کہ کوئی بچی امید سے ہو جائے اور اس کی ماں کو نہ ہی اسے پتہ ہو کہ یہ سب کیسے ہوا ہے اس بار میں نے الٹراساؤنڈ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی بس توائیاں لکھ کر دے دی مگر بچی کی ماں بہت پریشان تھی انکھوں سے بہتے انسو اور ساتھ ہی ہاتھ کانپ رہے تھے بولی کہ میں کہاں جاؤں گی اگر دوبارہ میری بچی کے ساتھ یہی کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں گی میں نے کہا محترمہ اج کے زمانے میں اتنا بے وقوف تو کوئی بھی نہیں ہے جتنا اپ مجھے سمجھ رہی ہیں اپ کی بچی کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کو مجھے اپ کے گھر میں ہی موجود ہوگا یا تو اپ نے دوسری شادی کر رکھی ہے تو اپ نے دوسری شادی کر رکھی ہے اپ کا شوہر اس بچی کا سوتیلا باب ہے یا تو پھر کوئی اور معاملہ ہے جو اپ مجھے بتا نہیں رہی اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اپ اپنی بچی کی حفاظت کریں اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں مجھے نہیں لگتا کہ اپ اگر اسے ہر وقت اپنی نظر کے سامنے رکھیں گی تو کوئی ایسا معاملہ ہو پائے گا ایسا میں کیسے کروں بس میں تو اپنی بچی کو اسکول بھیجتی ہوں اور کچھ بھی نہیں کرتی ابھی میں یہ باتیں کر ہی رہی تھی کہ میرے کلینک کے دروازے پر دستک ہوئی تقریبا اسی کی عمر کی ایک اور لڑکی میرے کلینک میں اپنی ماں کے ساتھ داخل ہوئی تھی اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ مجھے اپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے اور اکیلے میں کرنی ہے یہ لوگ ایک دوسرے کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے میں نے دیکھا اس عورت کے ساتھ بھی اپنی 12 13 سالہ بچی تھی اور ساتھ وہ خود بھی بہت پریشان تھی انکھوں سے انسو چھلک رہے تھے میں نے اسے دیکھ لیا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا معاملہ بھی ایک جیسا ہی ہے میں نے پہلی والی عورت کو اس کے گھر بھیج دیا اور میں دوسری کے پاس اگئی تھی کیونکہ وہ تو ظاہر ہے میری کلینک میں پہلی بار ائی اسے وقت دینا دینا ضروری تھا میں اس کے پاس جا کر بیٹھی تو دیکھا اس کی بچی بھی اسی طرح کسی پیٹ کے درد میں مبتلا تھی کہنے لگی کہ مجھے اپنی بچی کے پیٹ کے درد کے بہت فکر ہے اس کے ساتھ عجیب عجیب چیزیں ہو رہی ہیں جو صرف شادی شدہ عورتوں کو ہوتی ہے میں نے مچھی کی طرف دیکھا اور اس کی حلیہ دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ اس کے ساتھ بھی پہلے بچے والا معاملہ ہے میں نے اسے الٹراساؤنڈ کے لیے کمرے میں بھیجا الٹرا ساون کی رپورٹ دیکھ کر میں نے تو قدموں تلے سے زمین کھسک گئی تھی اس بچی کے ساتھ بھی وہی معاملہ تھا جو کہ پہلی والی کے ساتھ تھا اب تو مجھے اس پر افسوس ہونے لگا دیکھ کر میں پریشان ہو گئی میں نے اس کی ماں کو صاف صاف سچائی بتا دی کہ تمہاری بچی امید سے ہے وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی بولی کہ مجھے سمجھ نہیں اتا ایسا کیسے ممکن ہے میں نے اسے پہلی والی بچی کے بارے میں بھی بتا دیا تھا بچی کے بارے میں بھی بتا دیا تھا کیونکہ اب ماؤں کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت تھی میں نے کہا کہ اپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اپ کے بچے کے ساتھ کچھ نہ کچھ ہو ہی رہا ہے جس کا نتیجہ سامنے ایا ہے جو بات اپ کر رہی ہے وہ غیر حقیقی ہے میں اپ کی بیٹی پر کوئی الزام تو نہیں لگا رہی لیکن دیکھیں جو حقیقت ہے وہ اپ کے سامنے ہے ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ اپ کی بیٹی کے ساتھ کچھ نہیں ہوا اور پھر یہ معاملات ہو گئے اپ کو بھی تو اپنے بچوں کے دیکھ بارے میں دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے میں نے اس ماں کو بھی جب یہ بات کہی تو وہ زار و قطار رونے لگی بولی کہ میڈم اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے میری بچی بس اسکول جاتی ہے اور گھر ا کر بس کھیلے کھودنے کے لیے جاتی ہے میں نے ان سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ اور پہلے والی بچی ایک ہی محلے میں رہتے ہیں ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں اور اپس میں ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں ان دونوں کی کہانی ملتی جلتی تھی میں نے انہیں کہا چونکہ میں ڈاکٹر تھی ماہر نفسیات بھی تھی مجھے چیزوں کا جتنا زیادہ اندازہ تھا اتنا اتنا شاید ہی نہ مارتوں کو نہیں ہو سکتا تھا میں نے ان سے کہا کہ اپ مجھے اپنے بچوں کے پاس ایک دن رہنے دیں ایک دن جب میں ان کے ساتھ رہوں گی تو مجھے پتہ چل جائے گا کہ ایسا کیا ہے جس کا نتیجہ اتنا بھیانک سامنے اتا ہے اور ہر بار ہی ایسا ہوتا ہے اگلے دن میری چھٹی تھی اس سے پہلے کہ میں میں ان بچوں کی سکول میں گئی اسکول میں تو ایسا ماحول بالکل بھی نہیں تھا کہ مجھے کسی قسم کا شک ہوتا میں نے دیکھا وہاں پر سب پڑھے لکھے لوگ تھے کسی پر بھی شک نہیں کیا جا سکتا تھا مالی چوکیدار سب بہت خوش اخلاق لوگ تھے خاندانی لوگ تھے کیونکہ یہ سکول بھی ارمی کا ہی تھا اور اس میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جہاں پر مجھے شک گزرتا ویسے بھی جہاں پر فوج کا قانون ہوتا ہے وہاں صفائی اور نظم و ضبط ضرور ہوتا ہے سکول میں مجھے کچھ نہیں ملا میں ان بچوں کے کھیلنے کودنے والی جگہ پر جا ہی رہی تھی کہ مجھے ایک اندھوناک خبر سننے کو ملی کہ کئی بچیوں کے مجرم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اسے جیل میں ڈال دیا گیا ہے اس کی وجہ سے کئی بچیوں کی زندگیاں مشکل میں پڑ چکی ہیں کم سے کم 30 بچیاں امید سے ہو چکی تھیں اس بات کی خبر اتے ہی مجھے دلچسپی ہوئی تھی کیونکہ میں بھی دو کیسز دیکھ چکی تھی جب چھوٹی چھوٹی بچیاں بنا کسی قصور کے نہ کردہ گناہ کی سزا پا رہی تھی خبر کے بارے میں مزید جانکاری کرنے پر پتہ چلا کہ یہ ساری بیماری ایک سویمنگ پول سے پھیل رہی تھی اس سویمنگ پول میں ایک ادمی بھی نہانے اتا تھا جس کے بعد باقی بچیاں سوئمنگ وغیرہ کرتی تھی بہت سارے لوگ اپنی بچیوں کو تیراکی سکھانے کے لیے اس  سویمنگ پول میں بھیجتے تھے اور یہ ادمی جو کہ اس سویمنگ پول کے اس پاس رہتا تھا اس کی صفائی کا کام کرتا تھا تو یہ بھی کبھی کبھار سویمنگ پول میں ہی نہا لیتا تھا ایک معمولی سی لاپرواہی نے کئی بچیوں کی زندگیوں کو عذاب بنا دیا تھا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک معمولی سی لاپرواہی سے اتنی زندگیاں تباہ ہو سکتی ہیں اس ادمی کو گرفتار تو کیا گیا مگر کیونکہ کوئی گناہ نہیں تھا ثبوت بھی کوئی نہیں تھا تو پھر اسے مجبورا ازاد کرنا پڑا مگر میں یہ سوچ کر ابھی تک حیران ہوں کہ کبھی کبھی ایک معمولی سی لاپرواہی ایک عورت کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے برباد کر دیتی ہے خدا ان بچیوں کے ماں باپ کو صبر دے 

Leave a Comment