ایک معصوم بچہ جو ماں کی قبر سے لپٹ کر رو رہا تھا بچے کے رونے پر ماں قبر سے باہر اگئی بچہ جب ماں کی قبر پر رو رہا تھا تو ماں کی روح قبر سے باہر نکل ائی ماں کیا ہوتی ہے اور جب اس کے اولاد کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر کیا بیجتی ہے اج کا یہ حیرت انگیز واقعہ سن کر اپ کا ایمان تازہ ہو جائے گا ماں سے محبت کرنے والے اس واقعے کو اخر تک ضرور سنیے گا یہ واقعہ ہے بھارت کے ایک گاؤں کا اس گاؤں میں ایک غریب عورت اور اس کا شوہر اپنے ایک بیٹے کے ساتھ رہتے تھے ناظرین یہ واقعہ اس عورت کا ہے وہ عورت بہت ہی نیک اور پرہیزگار تھی اس عورت کا نام مریم تھا مریم کے گھر میں ہر وہ خوشی تھی جو وہ چاہتی تھی لیکن اللہ نے ایک خوشی سے اسے محروم رکھا تھا وہ خوشی تھی اولاد کی ان دونوں میاں بیوی کی کوئی اولاد نہیں تھی شادی کو پانچ سال گزر گئے تھے لوگ مریم کو طرح طرح کی باتیں سناتے اور طعنے دیتے کہ تم بانجھ ہو اولاد پیدا نہیں کر سکتی اس کے شوہر کو کہتے کہ تم دوسری شادی کر لو پانچ سال ہو گئے ہیں تیری اس بیوی نے تجھے اولاد کی خوشی نہ دی مریم جب لوگوں کے یہ باتیں سنتی تو دل ہی دل میں رونے لگ جاتی وہ اللہ سے دعا کرتی کہ یا اللہ میرا ایمان تجھ پر ہے اگر تو میری دعا نہیں سنے گا تو کون سنے گا یہ طعنے یہ لوگوں کی باتیں میرا دل توڑ رہی ہیں اگر میری قسمت میں اولاد تو نے نہیں لکھی تو مجھے نہیں پتہ تو میری قسمت میں اولاد لکھ دے کیونکہ تو دعا مانگنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اسی طرح کچھ ہی دن گزرے تھے اللہ تعالی نے مریم کے توکل کا انعام اسے دے دیا ایک دن مریم کی طبیعت خراب ہوئی جب اس کا شوہر اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ تمہاری بیوی ماں بننے والی ہے یہ بات سن کر دونوں میاں بیوی خوشی سے پھولے نہ سمائے مریم اللہ کا شکر ادا کرنے لگی اب وہ دونوں بہت خوش رہنے لگے جو لوگ انہیں طعنے دیتے تھے اب وہی لوگ ان کی تعریفیں کر رہے تھے کہ اللہ نے اس کے توکل کا انعام اسے دے دیا یہ صبر کرتی رہی اور لوگوں کی باتیں سہتی رہی مریم بہت خوش تھی اس کا شوہر بھی اس نے بہت خوش تھا اخر کار وہ دن بھی اگیا جس دن مریم نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا جب مریم نے بیٹے کو پیدا کیا تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مریم کی طبیعت بچے کی زنجگی کے دوران اچانک سے بہت بگڑ گئی اس درد کے ساتھ وہ اس دنیا سے چلی گئی مریم وفات پا چکی تھی اس کا شوہر ایک طرف خوشی دیکھ کر اور دوسری طرف اپنی بیوی کی جدائی دیکھ کر بہت پریشان تھا وہ اندر سے ٹوٹ چکا تھا ایک طرف اللہ نے بیٹے کی خوشی دی اسی طرف اس کی بیوی سے چھوڑ کر چلی گئی وہ اپنے بیٹے کو بھی نہ دیکھ سکی جس اولاد کو پانے کے لیے وہ تڑپ رہی تھی اخری وقت میں اپنے بچے کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکی اب میں کیا کروں گا اس کے بغیر میں اپنے بچے کو کیسے پالوں گا وہ بہت رونے لگا کیونکہ اسے اپنی بیوی سے بے انتہا محبت تھی وہ کہنے لگا کہ تو مجھے چھوڑ کر مت جا میں تیرے بیٹے کی پرورش تیرے بغیر کیسے کروں گا لیکن کیا ہو سکتا ہے ازمائش بہت بڑی تھی اللہ تعالی نے اسے حوصلہ دے دیا اور وہ صبر کر گیا وہ اپنے بچے کا خیال خود رکھنے لگا مریم کے خواہش تھی کہ اس کے بیٹے کا نام علی ہو تو اس نے اپنی بیوی کی خواہش پر اپنے بیٹے کا نام علی رکھا ایسے ہی دن گزرتے گئے اور علی تھوڑا بڑا ہوتا گیا اس کا باپ اس کی اچھی طرح پرورش کر رہا تھا اسے ماں کی کمی کبھی محسوس نہ ہونے دی اسے اچھے سکول میں داخل کروا دیا اب وہ اپنے بیٹے کی ماں بھی تھی اور باپ بھی تھا علی کو کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ اس کی ماں نہیں ہے کیونکہ باپ نے اسے ہر وہ چیز لا کر دی تھی جو وہ منہ سے نکالتا تھا اس کا باپ اسے فورا پورا کرتا ہمیشہ خوش رکھتا اسے ماں کی کمی کبھی محسوس نہ ہوتی اس کا باپ اس کی انکھ میں کبھی انسو نہ انے دیتا کیونکہ وہ اپنے بیٹے سے بے انتہا محبت کرتا تھا لوگ اس کی تعریفیں کرتے کہ بیوی کے مرنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کی کتنی اچھی طرح سے پرورش کر رہا ہے وہ خوش تھے ان کی زندگی بہت اچھے سے گزر رہی تھی لیکن کبھی کبھی اسے اپنی بیوی کا خیال اتا تو وہ رونے لگتا وہ بیٹے کے سامنے تو نہ روتا اس طرح چار سال گزر گئے لوگ اب اس سے کہہ رہے تھے کہ تم دوسری شادی کر لو تمہارا بچہ بڑا ہو رہا ہے اس کا خیال کون رکھے گا اور تمہاری بھی ابھی عمر اتنی نہیں تم بھی جوان ہو اور ویسے بھی جب تم کام پر چلے جاتے ہو تمہارا بچہ گھر میں اکیلا رہتا ہے کسی گھر والے کو گھر میں لاؤ جو تمہارا گھر چلائے تمہارے بچے کا خیال رکھے اسے ماں کی کمی محسوس نہ ہو وہ ان کی بات مان کر ایک خوبصورت لڑکی سے نکاح کر لیتا ہے لڑکے بھی بہت خوبصورت تھی عارف نے بھی یہ فیصلہ کر لیا کہ شادی ہو جائے گی تو بچے کا بھی خیال میری دوسری بیوی اچھی طرح سے رکھے گی مجھے اس بات کی فکر تو نہ رہے گی کہ میرا بیٹا گھر میں اکیلا ہے جب میں کام پر چلا جاؤں گا تو مجھے پیچھے سے اس کی فکر نہیں رہے گی جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ لڑکی دلہن بن کر اس کے گھر میں ا جاتی ہے وہ شادی کی پہلی رات اپنے بیوی کو کہتا ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اس کا نام علی ہے اس کی ماں جب سے فوت ہوئی ہے تب سے میں ہی اس کی پرورش کر رہا ہوں اس کی پیدائش والے دن ہی اس کی ماں فوت ہو چکی تھی اس نے اپنی ماں کو اج تک نہیں دیکھا میرے بچے نے کبھی بھی ماں کا پیار نہیں دیکھا تم اس کو ماں کا پیار دینا میں نے شادی اسی لیے تمہارے ساتھ کی ہے تاکہ تم میرے بچے کو اپنا بچہ سمجھو اور اس کا اچھی طرح سے خیال رکھو اس کی بیوی بہت چالاک تھی وہ لڑکی کہنے لگی کہ اپ فکر نہ کریں یہ اپ کا بیٹا نہیں بلکہ اج سے میرا بھی بیٹا ہے اپ اج سے یہ فکر دل سے نکال دیں کہ اپ کا بیٹا اکیلا ہے اسے ماں کی کمی محسوس ہو رہی ہوگی نہیں اج سے میں ہی اس کی ماں ہوں میں اس کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھوں گی وہ لڑکی اس میں ایک بری عادت یہ تھی کہ وہ خود کا بناؤ سنگار بہت کرتی تھی زندگی کے دن اسی طرح سے گزرتے گئے عارف اب بچے کی طرف سے فکر چھوڑ چکا تھا وہ مطمئن تھا کہ اسے ماں مل گئی ہے اور میری دوسری بیوی اس کا خیال رکھ رہی ہے بچہ بھی بہت خوش تھا اس کا دل نہیں ماں کے ساتھ لگ گیا تھا لیکن یہ عورت اب بچے سے چڑنے لگی تھی چونکہ وہ اس سے حسد کرنے لگی تھی کیونکہ اب وہ خود ایک بچے کی ماں بننے والی تھی اور سوچتی تھی کہ اس کا باپ اس سے کتنی محبت کرتا ہے اگر میرے بچے پیدا ہوں گے تو یہ ایسے اتنی محبت نہیں کرے گا عورت اب حسد کرنے لگی تھی وہ اپنی سوتیلی ماں کا روپ دکھا رہی تھی وہ بچے کو بری نظروں سے دیکھتی کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی جب کبھی تو عارف کام پر ہوتا تو گھر میں ابسر اوقات اسے ڈانٹتی رہتی اور کہتی ہے کہ میں تیری ماں نہیں ہوں سمجھ نہیں اتی تجھے اب گھر کے کام تو خود کرے گا میں تجھے اور نہیں کھلا سکتی تیرے باپ کے سامنے تو میں تجھے پیار کرتی ہوں لیکن جب وہ چلا جائے گا تو میں تیرے ساتھ یہی برا سلوک کروں گی کیونکہ تو میرا بچہ نہیں ہے میں تجھ سے محبت کیسے کر سکتی ہوں میرے ہونے والا بچہ ہی میرا اصل بچہ ہے اور میں اسی سے محبت کروں گی اس کی دنیا میں انے تک میں تجھے اس گھر سے نکلوا کر رہوں گی تاکہ تیرا باپ صرف اور صرف میرے بچے سے ہی محبت کرے وہ عورت اب اس بچے سے جلنے لگی تھی اسے بہت بڑے بڑے کام کروانے لگی جو وہ ننھی سی جان نہ کر سکتا وہ بچہ ہر وقت رونے لگا تھا اب اسے اپنی ماں کی کمی محسوس ہونے لگی تھی کیونکہ وقت کے ساتھ بچہ بڑا ہونے لگا تھا اور اسے ہر چیز کی سمجھ انے لگی تھی کہ یہ میری سگی ماں نہیں ہے کیونکہ عارف بھی اپنے بیٹے کو اب اس کی اصلی ماں کی قبر پر لے جانے لگا تھا اور بتاتا تھا کہ یہ تمہاری امی ہے اپنے باپ کو بھی ڈر کے مارے نہ کہتا ایک دن اس کی ماں نے اسے بہت ظلم والا کام کروایا تو وہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس ایا اور کہا کہ ابا ستیلی ماں مجھے بہت ظلم کرتی ہے بھاری بھاری کام کرواتی ہے مجھے مارتی رہتی ہے سکول سے انے کے بعد وہ مجھے کھانا تک نہیں دیتی اور کہتی ہے کہ اگر تو نے باپ کو بتایا تو میں تجھے جان سے مار دوں گی وہ ننھی جان برداشت نہ کر سکی اور اپنے باپ کو ساری بات بتا دی باپ کو بہت غصہ ایا اور اپنی بیوی کو کہتا ہے کہ یہ بچہ کیا کہہ رہا ہے کہ تو نے اس کے ساتھ ایسا کیا ہے تو وہ مکار عورت رونے لگی انسو جھوٹے موٹے گرانے لگی کہنے لگی کہ اپ نے کیسے ایسے چھوٹے بچے کی اس جھوٹی بات پر یقین کر لیا وہ بچہ ہے ایسے ہی کھیلتے کھیلتے اس نے یہ بات کہہ دی ہے پر وہ باپ تو بچے کی بات پر یقین ہی نہیں کرتا تھا یہ بچہ ہے غلطی سے ایسے ہی کہہ دیا ہوگا عارف نے بھی اپنی بیوی کی بات پر یقین کر لیا باپ کے جانے کے بعد وہ عورت کہنے لگی تیری اتنی ہمت کہ تو نے اپنے باپ کو میری شکایت لگا دی جا نکل جا دفع ہو جا میرے گھر سے وہ ظالم عورت اس معصوم بچے کو مارنے لگتی ہے ظلم کرنے لگتی ہے کہ چل نکل جا اور واپس کبھی مت انا اگر تو واپس ایا تو میں تجھے جان سے مار دوں گی وہ بچہ تھا ڈر گیا رونے لگا کہنے لگا کہ اماں ایسا مت کہو ایسا مت کرو میرے ساتھ میں کہاں جاؤں گا مجھے ڈر لگتا ہے وہ عورت کہنے لگی میں تمہاری ماں نہیں ہوں سنا تو نے تجھے سمجھ کیوں نہیں اتی میں تیری سوتیلی ماں ہوں سگی ماں نہیں چل نکل جا یہاں سے اس گھر میں اب تیرے لیے کوئی جگہ نہیں اس گھر میں صرف میرا بچہ رہے گا تو نہیں وہ معصوم بچہ تھا وہ ڈر کے مارے گھر چھوڑ کر نکل گیا اور بھوکا کئی دن تک بھٹکتا رہا گلیوں سے کوڑوں سے بچا کچا کھانا اٹھا کر کھاتا رہا اس کی زندگی اب ویران ہو چکی تھی وہ بچہ بھکاری بن چکا تھا وہ کبار اکٹھا کر کے بیچنے لگا ادھر دوسری طرف جب عارف گھر ایا تو اس کی بیوی رو رہی تھی وہ مکار عورت ڈرامے بازی کر رہی تھی وہ بیوی سے رونے کی وجہ پوچھتا ہے کہ کیا ہوا ہے تمہیں کیوں رو رہی ہو اور علی کہاں پر ہے وہ کہنے لگے کہ ہم لٹ گئے برباد ہو گئے ہیں میرے بچے علی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے میں سو رہی تھی اور وہ بچہ باہر کھیل رہا تھا جب میں باہر نکلی تو کوئی اسے اغوا کر کے لے جا چکا تھا میں کیا کروں لاکھ کوشش کی سے ڈھونڈنے کی لیکن وہ مجھے کہیں نہ ملا نہ صرف اپنی بیوی کی مکاری نہ سمجھ سکا وہ بیوی کے منہ پر جھوٹے انسو دیکھ کر پگھل گیا وہ کہنے لگا کیا سچ میں میرا بیٹا اغوا ہو چکا ہے اس کی بیوی جھوٹ موٹ کا رونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ بہت پریشان ہوا کہ میرا بچہ کہاں چلا گیا کس کمبخت نے اس کو اگوا کر لیا ہے اس کے دو پیروں کے تلے سے زمین ہی نکل گئی وہ بیوی کو کہنے لگا کہ چلو اؤ میرے ساتھ ہم اپنے بچے کو ڈھونڈتے ہیں اللہ کرے گا مل جائے گا میری تو دنیا ہی اجڑ گئی میں کیا کروں گا اس کے بغیر میں تو مر جاؤں گا اس چالاک عورت کے ساتھ وہ اسے گلیوں میں تلاش کرنے لگا بہت کوشش کرنے کے بعد بھی بچہ نہ ملا کیونکہ بچہ کہیں چلا گیا تھا وہ معصوم بچہ یوہی دربدر بھٹکتا رہا وہ علی اب ماں کی یاد میں روتا رہتا اسے اب اپنی ماں کی یاد ارہی تھی کہ اے میری ماں اگر تو اس دنیا میں ہوتی تو اج میں ایسے دربدر نہ پھرتا کیونکہ اب وہ بڑا ہو چکا تھا اور اسے بہت کچھ سمجھ بھی ا چکی تھی ایک دن اس نے سوچا کہ میں اپنی ماں کی قبر پر جاتا ہوں اور اسے سارا حال بتاتا ہوں وہ بچہ اپنی ماں کی قبر پر ا جاتا ہے زور زور سے رونے لگتا ہے چیکھنے لگتا ہے چلانے لگتا ہے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی ماں اسے سن رہی ہو وہ کہنے لگا کہ ماں دیکھو تم مجھے چھوڑ کر چلی ائی اور پیچھے تیرے بچے کو تیرے علی کو گھر سے نکال دیا گیا اس کا باپ بھی اسے چھوڑ گیا سوتیلی ماں نے مجھ پر ظلم کیا تو مجھے چھوڑ کر کیسے چلی ائی ماں مائیں تو اپنے بچوں کا اسرہ ہوتی ہیں ان کی چھت ہوتی ہیں ماں کے ہوتے ہوئے بچے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی ایک تو ہے جو یہاں پر ا کر سو چکی ہے تیرا بچہ درد سے چور چور ہے میں بھوکا ہوں کئی دنوں سے میں نے کچھ نہیں کھایا یہ سب کچھ سن کر بچے کی ماں کی روح تڑپ اٹھتی ہے اس بچے کی ماں کی روح ا جاتی ہے اللہ کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ وہ قبر سے باہر نکل اتی ہے وہ اپنے بچے کی تڑپ دیکھ کر باہر ا جاتی ہے بچہ جب ماں کو اپنی انکھوں کے سامنے دیکھتا ہے تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے وہ اپنی ماں کے گلے لگ جاتا ہے وہ اپنے بچے کا دکھ محسوس کر رہی تھی اور اللہ کے حکم سے وہ اس کے پاس بالکل اس کے سامنے حاضر ہو چکی تھی بچہ ماں کے گلے سے لپٹ کر رو رہا تھا اسے اپنے دل کا درد بتا رہا تھا کہ میرے باپ نے دوسری شادی کر لی ہے میری سوتیلی ماں نے مجھے مار مار کر گھر سے باہر نکال دیا اب میں واپس اپنے گھر نہیں جاؤں گا میں تیرے پاس ہی رہوں گا وہ بچہ اپنی ماں کو سارا واقعہ بتاتا ہے اس کی ماں رونے لگتی ہے ماں تو ماں ہوتی ہے چاہے ماں اس دنیا میں ہے یا نہیں اس کی روح بچے کا درد محسوس کرتی ہے اس طرح مریم نے بھی اپنے بچے کے درد کو محسوس کیا اور اللہ کے حکم سے وہ اپنے بچے کے سامنے حاضر ہو گئی ادھر باپ اپنے بیٹے کے دکھ میں غمے نڈھال ہو گیا تھا وہ اپنی بیوی اور بچے کو یاد کرنے لگا کہ ایز اینب تو اس دنیا سے چلی گئی ساری خوشیاں لے گئی ایک خوشی تو نے بچہ دیا اور وہ بھی چلا گیا اخر کہاں چلے گئے ہو تم ماں بیٹے واپس ا جاؤ میرا دل نہیں لگ رہا اس کی دوسری بیوی بھی اب حیران تھی کیونکہ عارف کا دل اب بجھ گیا تھا وہ سمجھ چکی تھی کہ یہ بچے سے بہت محبت کرتا تھا اور میں نے بہت غلط کیا وہ کہنے لگی کہ اپ اس طرح اداس نہ ہو ہمارا نیا بچہ اس دنیا میں انے والا ہے وہ بھی تو اپ کی اولاد ہوگی اپ اس سے بھی پیار کیجئے گا لیکن کسی بھی بات کا عارف پر کوئی فرق نہیں پڑا اسے کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی وہ ہر وقت اب روتا رہتا اس نے کام پر بھی جانا چھوڑ دیا تھا وہ ہر وقت اپنے بچے اور بیوی کی یاد میں روتا رہتا ایک دن وہ قبرستان اپنی بیوی کی قبر پر گیا تو وہ یہ منظر دیکھ کر کانپ گیا کیونکہ اس کی بیوی اور اس کا بچہ قبر پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اس کی بیوی عبادت میں مصروف تھی یہ سارا منظر وہ اپنی انکھوں سے دیکھ رہا تھا اسے پہلی دفعہ تو ایسا لگا کہ جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھا یہ منظر دیکھ کر اس کی انکھوں سے انسو نکل پڑے حوصلہ کر کے وہ ان کے پاس گیا روح تو روح تھی وہ غائب ہو گئی لیکن بچہ ظاہر تھا وہ کہنے لگا کہ ابا تو میرا ابا نہیں ہے تو یہاں سے چلا جا یہاں میں صرف اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہوں تیری دوسری بیوی نے مجھے گھر سے نکال دیا ستیلی ماں نے مجھ پر بہت ظلم کیا میں نے تجھے بتایا بھی تھا یہ مجھ پر ظلم کرتی ہے لیکن تو نے میری بات پر یقین نہیں کیا اور اپنی بیوی کی بات کو سچ مانا اس نے جھوٹ بولا ہوگا تجھ سے لیکن میں تو کب سے اپنی ماں کے پاس ہوں میری ماں مجھے روز کھانا دیتی ہے میرا اچھی طرح سے خیال رکھتی ہے وہ ماں میرے ساتھ اچھی نہیں تھی بچہ ساری بات بتاتا ہے بچے کی دکھ بھری باتیں سن کر عارف کا دل تڑپ اٹھتا ہے اسے یقین نہیں ارہا تھا کہ وہ مکار عورت اتنی چال باز اور ظالم نکلے گی اس کی اصلیت میرے سامنے ا جائے گی یہ سوچ کر اسے بہت زیادہ غصہ ایا وہ بھاگ کر اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر اتا ہے اور اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ اے چلا اے مکار عورت تجھے شرم نہیں اتی کتنی پتھر دل ہے تو تو نے میرے بچے پر اتنا ظلم کیا تجھے شرم نہیں ائی تو بھی ماں بننے والی ہے یہ نہیں سوچا کہ یہ تیرا بچہ تو نہیں لیکن کسی کا تو بچہ ہے یہ تو میرا خون ہے تو نے ایسا کیوں کیا تو اس گھر میں اب نہیں رہے گی میں تجھے اسی وقت طلاق دیتا ہوں بچہ جو پیدا ہوگا وہ میرا ہوگا اسے میں خود رکھوں گا اب تو یہاں سے نکل جا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تو کہاں جائے گی لیکن میں تجھے طلاق دے دوں گا اور تجھے ازاد کروں میری زندگی سے تو دفع ہو جا مجھے اور میرے بچے کو سکون سے جینے دے تو ہماری خوشیوں میں اگ بن کر ائی اور سب کچھ جلا کر راک کر دیا اب تو اس گھر میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہے گی پھر سارے منصوبے تیرے ناکام ہو گئے اللہ نے تیرے اصلیت کو میرے سامنے لا کر رکھ دیا اور ایسے معجزے کیے ہیں کہ میں تجھے زندگی میں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا اور اپنے گھر میں بالکل بھی نہیں رکھوں گا عارف اسے طلاق دیکھ کر گھر سے نکالنے ہی والا تھا کہ وہ اس کے پاؤں میں پڑ گئی اور زور زور سے رونے لگی معافی مانگنے لگی کہنے لگے کہ میں مانتی ہوں کہ میں نے اس بچے پر بہت ظلم کیا خدا کے لیے مجھے معاف کر دیجیے نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا میں اپنے بچے کی محبت کے لالچ میں اگئی تھی مجھے لگتا تھا کہ میرا بچہ ہو جائے گا تو اپ علی سے زیادہ اسے محبت نہیں کریں گے اور ساری محبت صرف علی کے لیے ہی ہے میں نے اسی لیے اپ کے بچے پر ظلم کیے اور اس کے گھر سے بھی نکالا لیکن میں اپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ پہلے غلطی کو تو اللہ بھی معاف کر دیتا ہے اب مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہوگی اپ مجھے معاف کر دیجیے مجھے طلاق مت دیں میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں علی کو ماں سے بڑھ کر پیار کروں گی عارف کو اس کی باتوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا لیکن جب علی نے اپنے باپ کو کہا کہ ابو اس امی کو ایک موقع دے کر دیکھیے کیا پتہ یہ سچ کہہ رہی ہوں انہیں معاف کر دیجیے علی کے کہنے پر عارف نے اپنی دوسری بیوی کو ایک موقع دینے پر راضی ہو جاتا ہے اور اسے معاف کر دیتا ہے علی کی دوسری ماں اب اس کی امیدوں پر پورا اترتی ہے وہ سچ میں علی کو بہت پیار اور دولار اور ماں کا پیار دیتی ہے جسے دیکھ کر عارف بھی خوش ہوتا ہے وہ اپنے بچے علی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا وہ پرانے دکھ بھول گیا اس کا بچہ بھی اب زندگی کی نئی خوشیوں میں چلا گیا تھا ماں تو ماں ہوتی ہے اگر ماں زندہ ہے تو اپنے بچے پر کبھی بھی انچ نہیں انے دیتی اگر وہ اس دنیا سے چلی گئی ہے تو دنیا میں اس کے بچے پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ تکلیفوں میں ہے تو ماں کی روح یہ سارا منظر محسوس کرتی ہے وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کا بچہ تکلیف میں ہے اس لیے تو اللہ تعالی نے ماں کے قدموں کے تلے جنت رکھی ہے اتنا بڑا مقام ماں کو حاصل ہے وہ لوگ خوش قسمت ہیں جن کے گھر میں ماں کا سایہ قائم ہے ماں جس گھر میں ہوتی ہے وہ گھر ہرا بھرا رہتا ہے اور جس گھر سے ماں رخصت ہو جاتی ہے وہ گھر ویران ہو جاتا ہے اس گھر کے رونقیں ختم ہو جاتی ہیں کیونکہ ساری رونقیں تو ماں کے دم سے ہی ہیں اللہ تعالی سب کی ماؤں کو سلامت رکھے اور صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور ماں کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور تمام اولادوں کو والدین کی نافرمانی کرنے سے بچائے امین یا رب العالمین پیارے دوستوں امید کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اپ لوگوں کو پسند ایا ہوگا پسند انے کی صورت میں ویڈیو کو لائک شیئر اور چینل کو سبسکرائب بھی ضرور کیجئے گا