پیارےناظرین آج ہم آپ کو ایک ایسے شخص کا واقعہ سنائیں گے جس نے قران مجید کی بے حرمتی کی اور اس پر اللہ کا ایسا قہر اور عذاب نازل ہوا کہ اسے دیکھ کر کافر بھی کلمہ پڑھنے پر مجبور ہو گیا پلیز اس واقعے کو مکمل جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمد کرم دین بہت ہی غریب انسان تھا محمد کرم دین کا نہ تو ماں باپ تھا ،نہ ہی اس کا کوئی بہن بھائی تھا وہ بہت ہی نیک اور دیندار انسان تھا اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے وہ دن رات مسجد میں رہتا صبح کے وقت وہ ساری مسجد کی صفائی خود کرتا مسجد میں رہنے کی وجہ سے وہ ہر نماز باجماعت ادا کرتا یہاں تک کہ اس نے کبھی تہجد کی نماز بھی نہیں چھوڑی تھی محلے کا ہر انسان اس کی غریبی سے واقف تھا اس لیے محلے والے اپنے گھر سے اس کے لیے کھانا بھجوا دیتے بہت سال تک یوہی سلسلہ چلتا رہا ایک دن مسجد کے امام نے کرم دین کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کیوں نہ میں تمہاری شادی کروا دوں اور تم اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں رہو محمد کرم دین مسجد امام کی بات سن کر مسکرایا اور کہنے لگا استاد جی بھلا مجھ غریب کے ساتھ کون شادی کرے گا مسجد امام کہنے لگا تم یہ سب مجھ پر چھوڑ دو بس ہاں یا نہ کا جواب دو محمد کرم دین کہنے لگا اگر استاد جی اپ کی نظر میں کوئی ایسی لڑکی ہے جو مجھے قبول کر سکے تو پھر مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے پھر مسجد امام نے بتایا کہ میرے دور کے رشتہ داروں میں ایک لڑکی ہے جو طلاق یافتہ ہے میں اگلے جمعہ تک تمہارا نکاح اس سے کروا دوں گا اس سے پہلے تمہیں یہ کرنا ہوگا کہ کوئی کرائے کے لیے اپنا گھر ڈھونڈ لو جہاں تم دونوں میاں بیوی سکون سے رہ سکو اور گھر کا کرایہ دینے کی تم بالکل فکر نہ کرنا وہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو ۔محمد کرم دین نے کر ائے کے لیے گھر تو ڈھونڈ لیا لیکن نکاح کی تیاری کے لیے اس کے پاس کوئی بھی پیسہ نہیں تھا محمد کرم دین اپنے نکاح سے ایک دن پہلے مسجد امام کے پاس ایا اور کہنے لگا استاد جی میں نے کرائے کے لیے مکان تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن میرے پاس نکاح کے اخراجات کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اس کے استاد نے کہا کہ بیٹا تم فکر نہ کرو تم بس صبح نکاح کے لیے تیار رہنا جیسے ہی صبح جمعہ کا سورج نکلا مولوی صاحب نے مسجد میں اعلان کروا دیا اگر کسی کے پاس کوئی بھی چیز اللہ کی راہ میں دینے کے لیے ہے تو وہ ا کر مسجد میں دے جائے بے شک کپڑے ہوں برتن ہوں یا پیسے ہوں بہت سے لوگ اپنے گھروں سے سامان اٹھا کر مسجد میں لے ائے سارا سامان اٹھوا کر محمد کرم دین کے گھر بھجوا دیا گیا ظہر کی نماز کے بعد محمد کرم دین کا نکاح مولوی صاحب نے بہت ہی سادگی سے پڑھا کر دونوں میاں بیوی کو کرائے والے مکان میں رخصت کر دیا محمد کرم دین کی بیوی بہت ہی نیک اور صابر خاتون تھی اس نے کبھی بھی اپنی شوہر سے کسی چیز کی کوئی فرمائش نہ کی وہ نماز پڑھتی ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتی محمد کرم دین شادی شدہ ہونے کے بعد بھی روزانہ مسجد کی صفائی کرتا اور باجماعت نماز ادا کرتا مسجد کی صفائی کرنے کے بعد وہ روزانہ گھر سے کام کے لیے نکل جاتا اور اس کی بیوی پیچھے سے ہر وقت اپنے اللہ سے دعائیں کرتی اے اللہ میرے شوہر کے لیے کوئی وسیلہ بنا دے اور اسے کوئی کام کاج مل جائے کام کی تلاش کرتے کرتے محمد کرم دین اللہ والے کے پاس پہنچ گیا وہاں ان کے ہاں بہت سارے لوگ جمع تھے جو اپنے مسائل اور مصیبتیں ان کے پاس لے کر ائے تھے وہ اللہ تعالی سے ان کے لیے دعا کرتے تو اللہ پاک ان کی تمام مصیبتوں پریشانیوں کو دور کر دیتا اور سب سے بڑی بات کہ ان کے ہاں بہت ہی عمدہ کھانے بنتے تھے اسی کھانے کی وجہ سے اس کو وہاں ایک نوکری مل گئی جو کہ وہ غریبوں میں کھانا تقسیم ہوتا تھا اور محمد کرم دین خود اپنے ہاتھوں سے کھانا تقسیم کرتا تھا اور اسی غریبوں میں کھانا بانٹنے کے لیے اس کو اللہ والے پیسے دیا کرتے تھے جو کھانا بچ جاتا وہ اپنے اور اپنی بیوی کے لیے صبح شام گھر لے جاتا ایسے ہی اس کے گھر کے حالات کچھ بدلنے لگے شادی کے ایک سال بعد اللہ نے انہیں بہت ہی خوبصورت بیٹی سے نوازا محمد کرم دین اور اس کی بیوی بہت ہی خوش تھے کہ اللہ پاک نے انہیں اپنی رحمت سے نوازا ہے وہ اپنی بیٹی کے بہت ناز نخرے اٹھاتے اور اس کی خوب دیکھ بھال کر تے
بیٹی کے ایک سال گزر جانے کے بعد اللہ پاک نے انہیں پھر دوسری بیٹی سے نواز دیا اس کا شوہر پھر بھی خوش ہوا اللہ پاک نے اسے پھر اولاد سے نوازا اور وہ بھی اپنے رحمت سے اس کی بیوی کہنے لگی کہ میں چاہتی ہوں اللہ پاک مجھے اگلی دفعہ بیٹھے سے نوازے اس کا شوہر مسکرا کر کہنے لگا کہ تجھے نہیں پتہ کہ اللہ پاک وہاں بیٹیاں دیتا ہے جہاں وہ خوش ہوتا ہے ہاں ہاں پتہ ہے لیکن بہنوں کا بھائی ہونا بہت ضروری ہے اپ بس اپنے اللہ والے سے کہیے کہ ہمارے لیے دعا کریں اگلی دفعہ ہمیں اللہ بیٹے سے نوازے وہ اپنی بیوی کی باتیں سن کر مسکرا رہا تھا اور واپس اپنے کام پر چلا گیا کچھ مہینوں کے بعد اس کی بیوی پھر سے امید سے ہو گئی اس نے اپنے لیے بہت اللہ اللہ کروائی اپنے لیے خوب گڑگڑا کر دعائیں کی کہ اے اللہ اس بار مجھے اپنی نعمت سے نوازنا لیکن اللہ پاک نے اسے پھر بیٹی سے نواز دیا تیسری بیٹی کی پیدائش پر وہ بہت زیادہ پریشان ہوئی اور اپنے شوہر سے کہنے لگی کہ اب مجھے اپنے اللہ والے کے دربار پر لے کر جائیں میں انہیں خود اپنا مسئلہ سناؤں گی دیکھنا وہ میرے لیے دعا کریں گے تو اللہ پاک مجھے بیٹے سے نوازے گا اس کا شوہر کہنے لگا نہیں اپ گھر پر بیٹھ کر دعا کرو میں خود تمہارا مسئلہ ان کو سنا دوں گا جب ایک سال گزرا تو اللہ پاک نے انہیں چوتھی بیٹی سے نواز دیا چوتھی بیٹی کی پیدائش پر اس کی بیوی اپنے شوہر کے سامنے بہت روئی کہنے لگی ہمارے گھر میں پہلے ہی غریبی ہے اللہ پاک نے نہ جانے ہمیں کیوں بیٹیاں دے رہا ہے اس کا شوہر کہنے لگا کہ تم خود اللہ کی بہت شکر گزار بندی ہو تمہارے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتی تم خود تو کہتی ہو کہ اللہ پاک بیٹیاں جہاں پیدا کرتا ہے وہاں ان کا رزق بھی بیجتا ہے پھر بھی میں ماں ہوں میرا دل چاہتا ہے کہ اللہ مجھے بیٹے سے نوازے ایک سال گزرنے کے بعد اللہ پاک نے اسے پھر بیٹی سے نواز دیا پانچویں بیٹی کی پیدائش پر وہ بہت روئی اللہ کے سامنے گڑگڑائی کے اے اللہ میں تیری ناشکری نہیں کر رہی تیرے ہر فیصلے سے راضی ہوں لیکن بہنوں کا بھائی ہونا بہت ضروری ہے تجھے تیرے محبوب کا واسطہ بی بی فاطمہ کا واسطہ مجھے بیٹے سے نواز دے اس نے اللہ کے سامنے بہت منتیں مانگی روئی گڑگڑائی اے اللہ اگر اس بار تو مجھے بیٹا دے گا میں اتنے نوافل ادا کروں گی اتنے روزے رکھو گے فلاں فلاں
وہ اپنے شوہر کے ساتھ اس اللہ والے کے پاس چلی گئی اور خوب رو کر گڑگڑائی کہ اپ تو اللہ کے ولی ہیں اللہ پاک سے دعا کریں تو اپ کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے میرے لیے ایک دفعہ ہاتھ اٹھا کر دعا کر دے اللہ پاک ہمیں بیٹے سے نواز دے نہ جانے اللہ پاک کو کیا منظور تھا اللہ پاک نے اسے پھر بیٹی سے نواز دیا دعائیں مانگتے مانگتے اس کو 10 سال گزر گئے حتی کہ اس کی سات بیٹیاں پیدا ہو گئی ساتویں بیٹی کی پیدائش پر تو اس کے شوہر کی انکھوں میں بھی انسو اگئے انکھوں میں انسو لیے اس نے اسمان کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا یا اللہ تیرے ہر کام میں کوئی نہ کوئی بہتری ہے یا اللہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کی کیونکہ تو رحمان اور رحیم ہے بن کہے ہی سمجھ جاتا ہے میرا نہ تو کوئی بھائی ہے نہ باپ ہے اگر میرا خود کا بیٹا نہ ہوا تو میں کیسے جی پاؤں گا بیٹے تو باپ کا بازو ہوتے ہیں اللہ کے سامنے اس قدر رویا گڑگڑایا اسے دیکھ کر اس کی چھوٹی بیٹیاں بھی رونے لگی اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگی اے اللہ ہم بہنوں کو بھی کھیلنے کے لیے بھائی چاہیے اس کے بعد اس کا شوہر صبح کھانا کھا کر اللہ والے کے دربار پر جب گیا جیسے ہی اس کو چھٹی ہوئی تو وہ دربار پر بیٹھ گیا جیسے ہی اس کے دربار سے لوگوں کا رش کم ہوا محمد کرم دین اللہ والے کے پاس چلا گیا پوچھنے لگا اے اللہ کے ولی تیرے پاس بہت دور دور سے لوگ اپنی پریشانیاں لے کر اتے ہیں کیا ان کی پریشانیاں دور ہوتی ہیں ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں اللہ والے کہنے لگے بیٹا تمہارے سامنے ہی صبح سے لے کر شام تک لوگ دعائیں کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کی دعائیں ضرور قبول فرماتا ہے ان کی مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں تبھی تو لوگ دور دور سے ا کر یہاں پر دعا کرواتے ہیں اور میں تو اللہ کا گنہگار بندہ ہوں اس کی صرف عبادت کرتا ہوں اللہ تعالی میری دعا قبول کر لیتا ہے تو میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اتنا سننا تھا کہ محمد کرم دین کہنے لگا مجھے تو 10 سال ہو گئے اپ کے پاس کام کرتے ہوئے اور اپ سے ایک ہی دعا کروا رہا ہوں اللہ مجھے بیٹے سے نواز دے لیکن میں ابھی تک بیٹے کی نعمت سے محروم ہوں اللہ والے کہنے لگے کہ بیٹا تجھے اس بار اللہ پاک ضرور بیٹے سے نوازے گا لیکن تجھے کچھ کام کرنا ہوگا اور اس کام کو کرنا بہت ضروری ہے جب اللہ راضی ہوتا ہے تو تو دل و جان سے اس سے جو مانگے گا وہ تجھ کو ضرور دے گا اللہ والے نے کہا کہ تم کو قران مجید کی حفاظت کرنی ہوگی جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہے اپ کو اللہ اگلے سال ہی خوبصورت بیٹے سے نواز دے گا محمد کرم دین اللہ والے کی باتیں سن کر کہنے لگا الحمدللہ ہم قران مجید کی بہت حفاظت کرتے ہیں اور اس کتاب کی صبح شام تلاوت کرتے ہیں اللہ والے محمد کرم دین کی بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے بیٹا میں جانتا ہوں تم قران مجید کی حفاظت کرتے ہو صبح شام اس کی تلاوت بھی کرتے ہو جو کہ ہر مسلمان کرتا ہے لیکن حفاظت کس طرح کرنی ہے وہ تجھے میں بتاؤں گا اگر تم میرے کیے پر پورا اترو گے تو میرا تم سے وعدہ ہے اللہ پاک تمہیں اگلے سال چاند جیسے بیٹے سے نوازے گا اور دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال کر دے گا اس کے لیے تمہیں ایک سال کے لیے میرے دربار سے چھٹی کرنی پڑے گی اور گاؤں کے باہر ایک ویران بستی میں ایک بہت بڑا گڈا کھودنا ہوگا اور صبح سے لے کر شام تک لوگوں کے دروازے کھٹکھٹا کر پوچھنا ہوگا کہ اگر اپ کے گھر میں کوئی شہید سپارے پڑے ہوئے ہیں جن کے لوگ بے حرمتی کر دیتے ہیں اگر کوئی سپارہ ، قران پاک شہید ہو جاتا ہے تو اس کو ایسی جگہ پر رکھ دیتے ہیں جہاں اس کی بے حرمتی ہوتی رہتی ہے تم لوگوں کے گھروں پر جا کر ان سے پوچھنا کہ اپ کے گھر میں کسی قسم کا کوئی پارہ یا قران مجید شہید پاڑے ہیں تو اپ مجھے دے دو وہ سب اکٹھا کرنے کے بعد اس گڑھا کھود کر ان کو دفن کر دینا اور قران پاک کی بے حرمتی نہ ہونے دینا اس نے اللہ والے کے کہنے پر گاؤں کے باہر کسی ویران بستی میں ایک گڈھا نکالنا شروع کر دیا جو کہ دو دن میں مکمل ہو گیا اس کے بعد اس دن لوگوں کے گھر جا کر شہید سپارے اور قران مجید مانگنا شروع کر دیے صبح سے لے کر شام تک وہ اسی کام میں مصروف رہتا لوگوں کے گھروں کے علاوہ وہ محلے کی گلیوں اور کچرے کے گندے ڈھیروں میں سے بھی اللہ کے نام یا دینی اسلام کی کتابوں کے صفحے نکالتا پھر ان کو صاف پانی سے دھوتا سارا کچھ اکٹھا کر کے وہ اسی گھڈے میں ڈال دیتا یہاں تک کہ اس کے اس پاس جتنے بھی گاؤں تھے سب گاؤں میں وہ جاتا اور سب سپارے قران مجید جائے نماز ریلیں اور دینی اسلامی کتابوں کے صفحے یہاں تک کہ جو کچھ بھی ہوتا سب کچھ اکٹھا کر کے لے اتا اور شام کو اسی گھڈے میں ڈال دیتا یہ کام کرتے کرتے جب اسے ایک سال گزر گیا اللہ پاک نے اسے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا جب اس کے دو جڑوا بیٹے ہوئے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی وہ سب سے پہلے اللہ والے کے پاس گیا اور کہا اج اپ کی دعا سے اللہ نے مجھے جڑواں بیٹوں سے نوازا ہے۔جن کا نام میں نے ناصر اور اسم رکھا ہے بھلے ہی میں غریب ہوں پھر بھی آپکوجو مانگنا ہے مجھ سے مانگیں میں اپ کی ہر خواہش کو پورا کروں گا اس کی باتیں سن کرمسکرائے اور کہنے لگے ہم بزرگوں کو دنیا کی کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں سواے اللہ اور رسول کےاور اس کی عبادت کے میں تمھیں ایک نصیحت کرو ں گا تم کبھی بھی یہ کام مت چھوڑنا اور اگے اپنے بیٹوں سے بھی یہ کام لازمی کروانا باقی کے سب کام تو اللہ پر چھوڑ دو اللہ والے کی باتیں سن کر وہ اپنے گھر ایا اس نے دیکھا اس کی بیوی اور بیٹیوں کے چہرے پر خوشیاں چہک رہی تھی اس نے گھر ا کر اپنی بیوی سے کہا کہ اللہ نے مجھے اج زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے نوازا ہے اس لیے میں چاہتا ہوں اس خوشی میں کوئی انوکھا کام کرو جس سے میرا اللہ اور دنیا والے دونوں خوش ہو جائیں اس کی بیوی پہلے تو سمجھی شاید کوئی لوازمات بنا کر لوگوں میں تقسیم ہوں گے یا کوئی چیز بن کر اللہ کی راہ میں تقسیم ہوگی بیوی کہنے لگی کہ ایسا کون سا انوکھا کام کریں گے جس سے اللہ اور دنیا والے دونوں خوش ہو جائیں اس نے کہا میں چاہتا ہوں گاؤں میں جتنے بھی گھر ہیں سبھی کے گھروں میں ایک ایک قران مجید دے کر اؤں کیونکہ اسی قران مجید کی بدولت سے اللہ نے مجھے اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے اس کی بیوی اپنے شوہر کی بات سن کر بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی ہاں ہاں اس سے ہمارا اللہ اور دنیا والے سارے بہت خوش ہوں گے اس سے اگلے ہی دن اس نے اپنے گھر پر قران مجید منگائے اور گاؤں کے سبھی گھروں میں بانٹ دیے اس کا یہ کارنامہ سبھی گاؤں والوں کو بہت پسند ایا سبھی لوگوں نے قران مجید کو بڑی پیار اور محبت سے قبول کیا اس کے بیٹے جیسے ہی سات سال کے ہوئے تو اس نے اپنے بیٹوں کو بھی قران مجید حفظ کرنے کے لیے مدرسے میں داخل کروا دیا اور اپنی بیٹیوں کو بھی دینی اور دنیاوی تعلیم دونوں سکھائیں محمد کرم دین کو قران مجید کی حفاظت کرتے کرتے تقریبا 20 سال گزر گئے 20 سال گزرنے کے بعد اس نے اپنی ساری بیٹیوں کی نیک اور شریف گھرانے میں شادیاں کر دی اس نے اللہ کا خوب شکر ادا کیا کہ میری بیٹیاں عزت سے اپنے گھروں میں چلی گئی اس کے دونوں بیٹے حافظ قران بن گئے ایک بیٹے نے اپنے گاؤں میں ہی چھوٹا سا مدرسہ بنا کر وہاں گاؤں کے سبھی لڑکوں کو قران مجید کی تعلیم دیتا دوسرا بیٹا ناصر اپنے باپ کے ساتھ قران مجید کی حفاظت کے لیے مشغول رہتا ایک دن ناصر نے اپنے باپ سے کہا کہ بابا جان میں چاہتا ہوں بیرون ملک جا کر خوب محنت کرو اور خوب پیسہ کماؤ اور اس پیسے سے اپنے بھائی کے لیے بہت بڑا مدرسہ بناؤں جہاں پر دوسرے گاؤں کے لوگ ا کر یہاں تعلیم حاصل کریں اس کا باپ کہنے لگا کہ بیٹا میں نے تجھے بہت ہی منتوں اور مرادوں سے اللہ سے مانگا ہے اس لیے میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بیٹے کو کبھی بھی اپنی انکھوں سے دور کرو اللہ نے مجھے جتنا دیا ہے میں اسی پر شکر گزار ہوں بیٹا کہنے لگا کہ بابا جان جس سے اتنی منتیں اور دعاؤں سے مجھے مانگا ہے پھر اسی پر بھروسہ کر کے مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت دی یہاں کا کام اپ اور عارف بھائی سنبھال لیں گے میری فکر مت کرنا اچھا بیٹا ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی یہ کہہ کر تو محمدکرم دین خاموش ہو گیا لیکن تم بیرون ملک جاؤ گے کیسے بابا جان اپ اس کی فکر مجھ پر چھوڑ دیں میں اکیلا نہیں بلکہ گاؤں کے اور بھی تین چار لڑکے میرے ساتھ جا رہے ہیں تقریبا ایک مہینے تک ناصر نے بیرون ملک جانے کی مکمل تیاری کر لی جیسے جیسے ناصر کا بیرون ملک جانے کا وقت قریب ا رہا تھا اس کے ماں باپ اداس رہنے لگے کیونکہ دو دن بعد اس کے جانے کی روانگی تھی وہ ہر وقت اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرتی کہ اے اللہ میرے بیٹے کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا محمد کرم دین خود تو پریشان ہوتا لیکن اپنی بیوی کے سامنے دلیری سے کہتا اللہ نے ہمیں دو شیروں سے نوازا ہے اس لیے اللہ پر بھروسہ رکھو
اور سب کچھ اسی پر چھوڑ دو جیسے ہی دو دن بعد ایئرپورٹ جانے کا وقت ایا ناصر اور اس کے ماں باپ سب اس کو ایئرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے روانہ ہوئے ایئرپورٹ پر ناصر کی ماں اور اس کا باپ اور بھائی سب نے اسے پیار سے رخصت کیا ناصرکی ماں نے اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے کہا میں تو تمہارے لیے دنیا جہان کی ایک بہت ہی قیمتی چیز لے کر ائی ہوں خوبصورت غلاف میں لپٹا ہوا قران مجید تھا اس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیا بولی بیٹا جب تم اوپر کوئی بھی مشکل اتے ہوئے دیکھو اسے کھول کر پڑھ لینا اور اپنے اللہ کو یاد کرنا بیٹا مسکرا کر کہنے لگا اماں جان اپ کو تو پتہ ہے میں حافظ قران ہوں میرے سینے میں مکمل قران پاک چھپا ہوا ہے بے شک بیٹا تم حافظ قران ہو مجھے پتہ ہے لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں تم اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤ اور اسے وہاں جا کر لازمی پڑھنا دوسروں کو بھی پڑھانا بیٹے نے ماں کے ہاتھوں سے قران پاک اور بیگ پکڑا اور اپنے دوستوں کے ساتھ جا کر فلائٹ پے بیٹھ گیا دو دن کے بعد فلائٹ اٹلی میں پہنچ گئی ناصر اور اس کے دوستوں کو کام ڈھونڈنے کے لیے زیادہ پریشان نہیں ہونا پڑا تھا بہت ہی جلد اٹلی میں ان کو کرنے کے لیے کام اور رہنے کے لیے رہائش مل گئی لیکن مسئلہ یہ تھا جس فیکٹری میں ناصر اور اس کے دوست کام کرتے تھے وہاں کا بوس ایک غیر مسلم انسان تھا وہاں ہندو اور مسلم سب مل جل کر کام کرتے تھے اس فیکٹری کا مالک بہت ہی امیر اور اونچے خاندان کا تھا اس نے اپنی فیکٹری میں لاکھ سے زیادہ ملازم رکھے تھے جو اس کے پیچھے اس کی فیکٹری میں کام کرتے تھے اس نے اپنی فیکٹری میں جگہ جگہ کیمرے لگوائے ہوئے تھے تاکہ اس سے کوئی بھی کام چھپ نہ سکے وہ 24 گھنٹے اپنے ملازموں پر نظر رکھتا تھا کیونکہ ہر چیز اس کے کیمرے میں ریکارڈ ہو جاتی تھی اس کا باس اپنے اصولوں کا بہت پکا اور سخت تھا اگر کوئی بھی ملازم اس کے اصول سے پیچھے ہٹتا اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتا تو وہ ان کی ادھی سیلری کم کر دیتا اتوار والے دن کے علاوہ ملازم اس کی فیکٹری میں دن رات کام کرتے
جو ملازم رات کو 12 گھنٹے ڈیوٹی کرتے تھے وہ پھر صبح 12 گھنٹے سکون کرتے اور صبح والے ملازم رات 12 گھنٹے کام کرتے ناصر اور اس کے ساتھ والے دو صبح کے وقت فیکٹری میں کام کرتے تھے ناصر اپنے کام کے ساتھ ساتھ پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرتا ناصر صبح کام جانے سے پہلے دو گھنٹے پہلے اٹھ جاتا وہ ان دو گھنٹوں میں روزانہ اونچی اواز میں قران مجید کی ایک منزل تلاوت کیا کرتا تھا اس کی تلاوت کرنے کی وجہ سے جتنے بھی مسلمان ملازم تھے وہاں پر کام کرتے تھے سب اس سے بہت خوش ہوتے کیونکہ اللہ نے اسے ایسی اواز اور خوبصورتی دی تھی کہ جب بھی وہ قران مجید کی تلاوت کرتا اس کی اواز اور بھی خوبصورت ہو جاتی ہر مسلمان بھائی اس کی توجہ سے تلاوت سنتے تھے یہاں تک کہ غیر مسلم ملازموں کو بھی اس کی اواز اپنی طرف کھینچ کر لے اتی قران مجید کی تلاوت کے بعد ناصر وہاں پر بیٹھے پاس سارے ملازموں کو دین اسلام کا درس دیتا اس کے ساتھ رہنے والے لڑکوں کے دلوں میں ناصر کی باتیں اثر کرنے لگی جیسے جیسے ہی اذان ہوتی ناصر فیکٹری کے سارے کام چھوڑ کر نماز کے لیے چلا جاتا اور جاتے وقت دوسرے لڑکوں کو بھی نماز کی دعوت دیتا ناصر کو دیکھ کر اور بھی لڑکے نماز پڑھنے کے لیے اس کے ساتھ چلے جاتے جب یہ بات فیکٹری کے بوس کو پتہ چلی تو اس نے ناصر کو پاس بلا کر کہا تجھے میرے اصولوں کو پتہ ہے میں نے کبھی بھی اپنے حکم کی خلاف ورزی کسی کو کرنے نہیں دی تم صبح بھی کام پر لیٹ جاتے ہو تمہاری وجہ سے دوسرے لڑکے بھی تم کو دیکھ کر لیٹ ہو جاتے ہیں اوپر سے تم ہر کام چھوڑ چھاڑ کر نماز کے لیے چلے جاتے ہو میں اس مہینے تو تجھے تمہاری سیلری دے دوں گا لیکن اگر اگلے مہینے بھی تمہارا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو میں تمہاری ادھی سیلری کم کر دوں گا ناصر اپنے باس کی باتیں چپ چاپ سنتا رہا بنا کسی بات کا جواب دیے وہ باہر ا گیا وہ اس کی باتوں کا ناصر کے رویے پر کوئی فرق نہ پڑا وہ بالکل پہلے کی طرح صبح کام جانے سے دو گھنٹے پہلے اٹھتا روزانہ قران پاک کی تلاوت کرتا اس کے کمرے میں جتنے بھی لڑکے تھے سب کو دین کی دعوت دیتا نماز کے وقت فورا ہر کام چھوڑ کر نماز ادا کرتا جب فیکٹری کے بوس کو یہ بات پتہ چلی کہ ناصر کے اوپر میری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ غصے سے ایا اور اس نے اگلے مہینے اس کی ادھی سیلری کم کر دی بوس نے سوچا اب تو اس کی عقل ٹھکانے ائے گی دیکھتا ہوں کہ کتنی نمازیں اور قران پڑھتا ہے ناصر کو پتہ چلا کہ میری ادھی سیلری بوس نے کم کر دی ہے اس کے کان پر جوں تک نہ رنگیں وہ پہلے کی طرح کام کرتا اور وقت پر نماز ادا کرتا بلکہ اس کا اثر باقی فیکٹری کے لڑکوں پر بھی ہونا شروع ہو گیا وہاں پر جتنے بھی مسلمان لڑکے تھے ناصر کو دیکھتے ہی فورا کام چھوڑ کر اس کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے چلے جاتے جب یہ بات فیکٹری کے بوس کو پتہ چلی تو اسے مزید غصہ ایا اس نے باقی تمام لڑکوں کو بھی اپنے ساتھ خراب کر دیا ہے تو فیکٹری کے بوس نے ناصر کے ساتھ والے سارے لڑکوں کو اپنے پاس سختی سے بلایا اور کہا مجھے لگتا ہے مجھے اب تم سب کی سیلری بند کرنی پڑے گی تبھی تم لوگ سدھرو گے اور کام کو کام سمجھو گے ناصر کے ساتھ والے سبھی لڑکے اپنے بوس سے کہنے لگے باس ہمارے اوپر ایسا ظلم مت کرنا اگر اپ کہتے ہیں ہم کام چھوڑ کر نماز کے لیے نہیں جائیں گے تو ہم نہیں جائیں گے لیکن ہمیں ہماری سیلری پوری چاہیے ناصر ان سب کی باتیں چپ چاپ سنتا رہا تبھی بوس نے ناصر سے پوچھا ہاں بھائی تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے ناصر نے نرمی والے لہجے سے اپنے باس کو کہا اپ بے شک میری ادھی سیلری کم کر دیں لیکن میں کبھی بھی اپنے کام کے لیے نماز اور قران مجید کی تلاوت کرنا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ یہ تو اپ کا اصول ہے جو اپنا کام چھوڑ کر کسی دوسرے کام کے لیے جاتا ہے تو اسے اپ ادھی سیلری دیتے ہیں لیکن یہ ہمارا بھی اصول ہے جو اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے ہمارے اللہ کی بھی اس انسان کے لیے بہت سخت سزا ہے معاف کرنا اپ میں کبھی بھی یہ کام نہیں کر سکتا بوس کہنے لگا مجھے تو یہ تھا کہ میں تمہیں ادھی سیلری اب دے رہا ہوں اسی وجہ سے اب تم نماز کے لیے اپنا کام چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤ گے لیکن تم تو بہت ڈیھٹ قسم کے انسان ہو باس مجھے اپ کی آدھی سیلری منظور ہے لیکن نماز چھوڑنا کبھی بھی منظور نہیں بوس نے سخت لہجے سے کہا اچھا ٹھیک ہے میں بھی دیکھتا ہوں تم کب تک اپنے اللہ کے حکم کے خلاف ورزی نہیں کرتے ایک نہ ایک دن تو تم یہ کام ضرور چھوڑو گے ناصر کی باتوں کوپاس والے کھڑے لڑکے سن کر بہت زیادہ شرمندہ ہوئے انہوں نے بھی اپنے دل میں ایک بات ٹھان لی کہ اب چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے ہم بھی ناصر کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے ضرور چلیں گے اگلے ہی دن جب ناصر نماز پڑھنے کے لیے جانے لگا اس کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ لڑکے جانے کے لیے تیار ہو گئے جب اس بات کا ناصر کے بوس کو پتہ چلا اس نے کچھ نہ کہا بس ان سبھی لڑکوں کی ادھی سیلری کم کر دی اتوار والے دن فیکٹری سے جب سب لڑکوں کو چھٹی ہوتی تو ناصر وہاں سب لڑکوں کو اکٹھا کر کے اپنے نبی پاک کی سنتیں بتاتا وہاں پر فیکٹری میں دو تین لڑکے ایسے تھے جو غیر مسلم تھے ان کو ناصر کی باتیں بہت اچھی لگتی وہ ناصر کی ہر بات پر عمل بھی کرتے ناصر صبح جب بھی قران مجید کی تلاوت کرتا تو وہ غیر مسلم لڑکے اس کی تلاوت کو بڑی خاموشی اور توجہ سے سنتے ایک دن ان لڑکوں نے ناصر سے ڈرتے ڈرتے کہا کیا تم ہمیں اپنا قران مجید پڑھانا سکھاؤ گے ہمیں بھی بہت شوق ہے ہم بھی تمہاری طرح ایسے ہی صبح صبح قران مجید پڑھیں لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے بوس سے بہت ڈر لگتا ہے وہ تو ہمیں فیکٹری سے نکال دے گا کیونکہ ہم تو غیر مسلم ہیں وہ ہمارے اوپر اور ہمارے گھر والوں کے سارے خرچے بند کروا دے گا ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اس بات کا علم ہمارے بوس کو ہو
ناصر نے کہا کہ دیکھو بھائی اپ کو اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور ہمیں اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ساری دنیا کا نظام وہی چلا رہا ہے لیکن اگر اپ کو پھر بھی اپنے بوس سے اتنا ڈر لگتا ہے تو میں اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کروں گا میں تم لڑکوں کو ضرور قران مجید پڑھنا سکھاؤں گا ان لڑکوں نے تقریبا ایک سال تک ناصر سے قران مجید مکمل کر لیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے فیکٹری میں بہت سارے ایسے غیر مسلم لڑکے تھے جو ناصر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکے تھے فیکٹری میں ناصر کو کام کرتے ہوئے تقریبا دو سال گزر گئے ۔
ناصر کو دیکھ کر اس فیکٹری کا بہت زیادہ ماحول بدل چکا تھا جب فیکٹری کے بوس کو اس بات کا پتہ چلا کہ ناصر نے بہت سے لڑکوں کو مسلمان بنا دیا ہے تو وہ سخت غصے سے لال پیلا ہو گیا ۔بوس نےسوچ لیا کہ اج اس کی خیر نہیں اج تو اسے ختم کر کے ہی چھوڑوں گا بس بہت ہو گیا بہت برداشت کر لیا میری ہی فیکٹری میں ا کر یہ میرے ہی ملازموں کا مالک بنا ہوا ہے صبح کا سورج ناصر کا اخری سورج ہوگا جمعہ کا دن تھا صبح کا وقت تھا ناصر قران پاک کھول کر بہت ہی بلند اواز سے قران مجید کی تلاوت کر رہا تھا اس کے بوس نے اتے ہی ناصر کے منہ پر زوردار لات مار کر نیچے گرا دیا اس کے ہاتھ سے قران مجید چھین کر دوسری طرف نیچے پھینک دیا ناصر نے قران مجید کی تلاوت کرنا پھر بھی نہ چھوڑی کیونکہ اسے تو قران پاک مکمل زبانی یاد تھا اس کے بس کو اتنا غصہ ایا کہ اس نے اپنے پاس کھڑے ملازم کو کہا کہ جاؤ جلدی سے ماچس لے کر اؤ اج میں ابھی اسی وقت اس کے سامنے اس کے قران پاک کو جلاؤں گا اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ کیا کرتا ہے اور اس کا اللہ کیا کرتا ہے ناصر یہ بات سن کر بہت رویا اور روتے روتے اللہ سے فریاد کرنے لگا کہ اے اللہ بے شک اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ تو نے اپنے سر لیا ہے یہ خود کو بہت بڑا بوس سمجھتا ہے اج تو اسے اپنی طاقت دکھا دے جیسے ہی اس کا ملازم ماچس لے کر ایا اس نے ماچس چلائی اور قران مجید کو اگ لگانا شروع کر دی قران پاک کو پکڑ کر پھینک دیا قران پاک کو اگ لگتی ہوئی کو پھینک دیا اللہ کی قدرت ناصر کو پکڑ کر ایک پنجرے میں قید کر دیا اب میں تجھے دیکھتا ہوں تمہیں یہاں سے کون بچانے اتا ہے تم بھوکے پیاسے یہاں مرو گے یہاں سے جب باس اپنے گھر واپس جا رہا تھا تو راستے میں اس کی اچانک طبیعت خراب ہو گئی اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تو باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ اسے ہاسپٹل پہنچایا گیا جہاں پر اس کے مختلف ٹیسٹ کیے گئے اس کی کوئی بھی بیماری سامنے نظر نہ ائی اس کی مزید حالت بگڑتی جا رہی تھی اس کا وجود جگہ جگہ سے پھٹنے لگا خون کی دھاریاں ایسی رس رہی تھی جیسے کسی نے گہرے زخم لگا دیے ہوں وہ شخص درد سے چیخ رہا تھا مگر ڈاکٹر بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے اس کا انجام دیکھ رہے تھے کیونکہ کوئی بھی بیماری کی تشخیص نہیں کر پا رہا تھا دھیرے دھیرے اس کی انکھوں سے خون اگلنے لگا اور باہر انے لگا اس کی انکھیں بالکل سرخ ہو گئی اور جسم کے کئی حصوں سے خون جاری ہو گیا وہ دردسے اس قدر چیختا چلاتا پورا ہاسپٹل سر پر اٹھا لیتا مگر اس پر تو خدا کا عذاب نازل ہو رہا تھا کئی لوگ اس کے قریب گئے اور کہا کہ تم اپنے گناہوں کی معافی اللہ سے مانگ لو وہ تمہیں معاف کر دے گا تم نے جو گستاخی کی ہے وہ انتہائی سنگین ہے یہ اسی کا عذاب تم پر نازل ہو رہا ہے مگر اس غیر مسلم بوس نے کسی کی بات نہ مانی دیکھتے ہی دیکھتے اس کے وجود سے لگے زخموں سے عجیب سیاہ مادہ بہنے لگا جس کی اس قدر گندی بدبو تھی کہ ڈاکٹر بھی پاس جانے سے کراہت محسوس کرنے لگے یہ خبر جیسے ہی فیکٹری میں اس کے ملازموں اور وہاں کے باقی لوگوں کو پتہ چلی تو لوگ اس سے مزید نفرت کرنے لگے اس کی حالت مزید تشویش ناک ہوتی گئی وہ پل پل موت کے لیے تڑپتا رہا اس نے ڈاکٹروں کو یہ تک بول دیا کہ مجھے زہر کا ایک بار انجیکشن لگا کر مار دیا جائے میں پل پل والی موت برداشت نہیں کر پا رہا مگر ڈاکٹر پوری کوشش کر کے اسے بچانے میں لگے ہوئے تھے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جسم سے بال نکلنا شروع ہو گئے اور لمبے لمبے ناخن نکل ائے اور اس کی شکل بگڑنا شروع ہو گئی نعوذ باللہ جیسے کسی کتے سے بھی بدتر ہو گئی ہو وہ ایک خوفناک جانور کی شکل میں مبتلا ہو گیا اسے دیکھ کر وہاں پر کھڑے سارے ڈاکٹر بھاگ کر ہاسپٹل سے باہر اگئے وہاں پر سبھی دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے دیکھنے والے کانوں پر ہاتھ لگانے سے مجبور ہو گئے سب کے لبوں پر استغفار کی تسبیح بلند ہونے لگی بے شک اللہ پاک نے قران پاک کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے اور جو بھی اس کی گستاخی کرنا چاہے گا تو یقینا اللہ تعالی کا سخت عذاب نازل ہوگا جیسے اس شخص پر نازل ہوا یہ خبر اٹلی میں اگ کی طرح پھیل گئی کوئی بھی انسان جب اس شخص کو جانور کے روپ میں دیکھتا اسے دیکھ کر ہر کوئی تھو تھو کر کے چلا جاتا ناصر کے دوستوں نے پنجراہ توڑ کر ناصر کو باہر نکال دیا اور جس قران پاک کو اس نے اگ لگائی تھی وہ صحیح سلامت تھا اور اسی پنجرے میں اس جانور شخص کو قید کر کہ بند کر دیا گیا یہ معجزہ دیکھ کر فیکٹری کے سبھی لوگ ناصر کے ساتھ کھڑے ہو گئے وہاں پر سبھی غیر مسلم لوگ یہ معجزہ دیکھ کر مسلمان ہو گئے اللہ نے ناصر کو اور بھی عزت سے نواز دیا اس لیے ہر جگہ ناصر کے چرچے ہونے لگے ہر کوئی ناصر کو منہ مانگی رقم دے کر کام پر رکھنے کے لیے تیار تھا جب اس غیر مسلم بوس کے گھر والوں کو یہ سب پتہ چلا تو وہ ناصر سےآکر ملے اور خود اپنی مرضی سے اس کو اسی فیکٹری کا بوس بنا دیا اور اس کے سب گھر والے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکے تھے سبحان اللہ