Hafze Quran Larhki Ko Sanp K Sath Kyun Dafan Kia?

آج ہم اپ کو واقعہ سنانے والے ہیں ایک حافظ قران لڑکی کا اس حافظ قران لڑکی کو قبر میں سانپ کے ساتھ دفن کر دیا گیا اخر اس لڑکی نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا جس کی اس کو اتنی بڑی سزا ملی اس واقعے کو جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے گا ۔

میری امی کہنے لگی کہ ذیشان میں چاہتی ہوں کہ اب تمہاری شادی کر دی جائے میں بولا میں بھی یہی چاہتا ہوں پچھلے کئی دنوں سے میں اپ سے یہ بات کہنا چاہتا تھا اپ نے یہ بات کہہ کر میری مشکل اسان کر دی ہے امی مسکرا کر کہنے لگی کہ اچھا تو یہ اچھی بات ہے میں نے تمہارے لیے مولوی صاحب کی بیٹی جو کہ حافظ قران ہے بہت ہی حسین لڑکی ہے اور بہت ہی شریف بھی ہے امی کی بات سن کر میں گھبرا گیا تھا میں بولا اپ کیسی باتیں کر رہی ہیں میں نے تو کسی اور لڑکی سے شادی کا وعدہ کیا ہوا ہے میری امی نے میری جانب بڑی حیرت سے دیکھا تھا کہنے لگی کہ تم ایسے لگتے تو نہیں ہو امی کی بات سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گیا تھا

میں امی کی بات سن کر بولا امی میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا مجھے اس طرح گھور کر مت دیکھیں مجھے ایک لڑکی اچھی لگتی ہے اسے بھی میں پسند اگیا ہوں اس نے مجھے اپنا نمبر دے دیا تو ہمارا رابطہ ہونے لگا میں نے اس سے کہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا اب اس لڑکی کے بہت رشتے ارہے ہیں وہ بہت زیادہ پریشان رہتی ہے خود مجھ سے کہا ہے کہ میرا رشتہ لے اؤ اس سے پہلے کہ میری والدہ میری شادی کسی اور لڑکے سے کر دے امی نے میری ساری باتیں بڑے غور سے سنی تھی پھر جب میں  چپ ہوا تو کہنے لگی کہ ذیشان جو لڑکی اپنے والدین کو دھوکہ دے کر تم سے بات کر سکتی ہے تم اس پر کیسے اعتبار کر سکتے ہو ۔

ایک لڑکی کو تم اچھے لگے تو اس نے اپنے والدین کی عزت کے متعلق بھی نہیں سوچا اور تم سے بات کرنے لگی تمہاری شادی جب اس سے ہو جائے گی اور اسے کوئی دوسرا لڑکا پسند ا جائے گا تو کیا وہ تمہاری عزت کے بارے میں سوچے گی نہیں نا میں بولا امی میرے ساتھ بات کرنے سے حمیرہ کے والدین کی عزت تو نہیں چلی گئی پھر اپ یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں امی کہنے لگی بالکل کل کلا کو تم اپنی بیوی کو کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ بات کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لو گے تو وہ تم سے کہے گی کہ بات ہی تو کی ہے اس سے تمہاری عزت تو نہیں چلی گئی ذیشان تمہیں ایک بات بتاتی ہوں حرام کو شیطان ہمیشہ بہت خوبصورت کر کے پیش کرتا ہے عورت کو ایک بار حرام کی عادت پڑجائے تو حلال اسے ہضم نہیں ہوتا تمہاری یہ حمیراہ تمہارے ساتھ بات کرتی ہے یہ کوئی حلال چیز تو نہیں ہے نا ایک لڑکی جو غیر محرم سے بات کر سکتی ہے پھر عزت دار مرد اس پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کر سکتا ۔

مولوی صاحب کی بیٹی شریف ہے حافظ قران ہے حیا دار ہے اگر تم اسے گھر پر چھوڑ کر پانچ چھ سال کے لیے ملک سے باہر بھی چلے جاؤ گے نا تبھی بھی کوئی بات نہیں وہ تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری عزت کی حفاظت ہی کرے گی پیار  تو انے جانے کی چیز ہے مگر عزت ایک بار گئی تو بس گئی اتنا کہہ کر امی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ میں ان کی باتوں کو سوچتا رہ گیا تھا امی جو کہہ رہی تھی ان باتوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی امی نے مجھے کچھ دن سوچنے کے لیے دیے تھے اس دوران انہوں نے ایک بار بھی میری شادی کا نام نہیں لیا تھا مگر میں ان باتوں کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہا تھا ان کی ایک ایک بات میں صداقت تھی تین دن گزر گئے تھے مگر اس دوران میں نے ایک بار بھی حمیرہ کو فون نہیں کیا تھا وہ مجھے فون کرتی تھی تو میں اس کی کال کو کاٹ دیا کرتا تھا چوتھے دن میں نے خود ہی حمیرہ کو فون کیا اور اس سے کہا کہ حمیرہ اپنے والدین کی بات مان کر ان کی پسند سے شادی کر لو میں نے بھی اپنی امی کے اگے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہوں نے میرے لیے جو لڑکی پسند کی ہے میں اسی سے ہی شادی کروں گا یہ سننے کی دیر تھی تو حمیرہ حیران رہ گئی اور کہنے لگی کہ ذیشان بیہودہ مذاق ہے الٹی سیدھی باتیں مت کرو میرا دل بیٹھ جائے گا پہلے جب وہ ایسی باتیں کرتی تھی تو میرا دل دکھ جایا کرتا تھا مگر اس بار مجھے اس کی تکلیف کا احساس نہیں ہو رہا تھا نہ جانے میں پتھر دل کیسے بن گیا تھا تمہیں اس بات کو سمجھنا پڑے گا کہ ہماری تقدیر میں ایک ہونا نہیں لکھا میں کبھی بھی تمہیں نہیں مل پاؤں گا یہ میری مجبوری ہے یہ تلخ حقیقت ہے اسے تسلیم کرنا پڑے گا ہم دونوں ایک نہیں ہو سکتے میں اپنی بوڑھی ماں کا دل نہیں دکھا سکتا حمیرہ کے رونے کی اوازیں مسلسل ارہی تھی پھر وہ کہنے لگی اچھا تو میرا دل دکھا سکتے ہو نا میں بولا میں اس عورت کو تکلیف نہیں دے سکتا جس نے مجھے جنم دیا تم سمجھدار لڑکی ہو مجھے امید ہے کہ تم میری مجبوری کو سمجھ جاؤ گی وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی اور بولی تمہیں خدا کا واسطہ ہے ذیشان مجھے مت چھوڑو میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی تم کہو تم میں تمہارے گھر ا کر تمہاری والدہ کے پاؤں پکڑ لوں گی لیکن میرے لیے ایسا فیصلہ مت کرو میں تمہارے بغیر کیسے رہوں گی میں نے اس سے کہا کہ حمیرہ اب رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں فیصلہ ہو چکا اج کے بعد نہ تم کبھی میرے ساتھ رابطہ کرنا اور نہ ہی میں تمہارے ساتھ رابطے میں رہوں گا ہمارا ساتھ بس اتنا ہی تھا یہ کہہ کر میں نے فون کاٹ دیا تھا مجھے احساس تھا کہ میں نے حمیرہ کا دل توڑ دیا ہے لیکن امی کی بات بھی سچ تھی محبت تو پھر بھی مل سکتی ہے لیکن عزت ایک بار چلی گئی تو پھر بس چلی گئی وہ ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے حمیرہ کو فون کرنے کے بعد میں امی کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا میں نے امی سے کہا کہ میں اپ کی پسند کی ہوئی لڑکی سے شادی کرنے کے لیے رضامند ہوں ۔امی نے جب یہ بات سنی تو اٹھ کر کھڑی ہو گئی انہوں نے میرے سر پر بوسہ دیا اور کہا کہ تم نے اپنے لیے بہترین فیصلہ کیا ہے عورت سے ہی اولاد کی تربیت ہوتی ہے اور انسان کو اپنی نسل چلانے کے لیے کسی ایسی لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرنی چاہیے تمہاری شادی مولوی کی بیٹی سے ہوگی جو حافظ قران ہے یقین جانو وہ تمہاری دنیا اور اخرت دونوں بنا دے گی میں مسکرا دیا چند دن کے بعد  میرے لیے مولوی صاحب کی بیٹی کا ہاتھ مانگ ائی تھی ان کی طرف سے بھی ہاں ہو گئی تھی تو شادی کی تیاریاں شروع ہو گئی تھی امی نے مجھ سے کہا کہ تم بہت خوش نصیب ہو جو تمہیں اتنی اچھی لڑکی ملی ہے تمہاری شادی بہت اچھی لڑکی سے ہو رہی ہے یہ باتیں سن کر میں بہت خوش رہنے لگا تھا زندگی اب بہترین لگنے لگی تھی اخر کار وہ دن بھی اگیا جب کنزا میری بیوی بن کر میرے گھر اگئی شادی کی پہلی رات ہی اس نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ ذیشان میں اپ کو اپنے مزاجی خدا کا درجہ دے رہی ہوں میں اپنی زندگی اپ کی مرضی کے مطابق ہی گزاروں گی میری اپ سے بس یہی گزارش ہے کہ اپ مجھے کبھی بھی پردہ کرنے سے منع نہیں کریں گے

میں اپنی عبادات کرنے کے لیے اپ سے اجازت چاہتی ہوں میں جلدی سے بولا ہاں ہاں کیوں نہیں تم یہ کیسی باتیں کر رہی ہو میری طرف سے تم پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی تم جس طرح شادی سے پہلی اپنی عبادتیں کرتی رہی ہو ویسے ہی اب بھی کرتی رہنا تم جیسی لڑکی کو اپنی بیوی بنا کر میں تو بے انتہا خوش ہوں مجھے امید ہے کہ تمہارے وجود سے میرے گھر میں خیر و برکت اترے گی وہ مسکرا رہی تھی امی نے جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہو رہا تھا کنزا بہت ہی اچھی لڑکی تھی میری ہر پسند کا خیال رکھتی وہ میری امی کی عزت کرتی تھی ہر کام میں ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتی میرے لیے بھی ہر وقت حاضر رہتی تھی جب میں کام سے لوٹ کر گھر واپس اتا تو ہمیشہ مسکرا کر میرا استقبال کرتی تھی وہ مجھے اچھی لگنے لگی تھی پہلے تو بس میں نے امی کے کہنے سے اس کے ساتھ شادی کر لی تھی لیکن اب اس کو دل سے میں چاہنے لگا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کنزا کے انے کی وجہ سے میری زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا اور نہ ہی میری ازادی میں کوئی فرق ایا تھا بلکہ مجھے پہلے سے زیادہ چھوٹ مل گئی تھی پہلے تو امی گھر میں اکیلی ہوتی تھی اس وجہ سے میں کہیں ا جا نہیں سکتا تھا لیکن اب میری بیوی ان کے پاس ہمیشہ گھر میں ہوتی ۔

اب تو میری امی بھی اپنے فیصلے پر بے انتہا راضی تھی اٹھتے بیٹھتے مجھے یہی باور کرانے کی کوشش کرتی رہتی تھی کہ تم نے بات مان کر اپنے ساتھ بہت بڑی نیکی کی ہے میری اور کنزا کی شادی کو دو برس گزر گئے تھے لیکن ہم ابھی تک اولاد سے محروم تھے ایک دن میری امی میرے پاس ائی اور کہنے لگی کہ ذیشان ابھی تک مجھے اپنے صحن میں کوئی بھی ننھا مہمان کھیلتا ہوا نظر کیوں نہیں ایا یہ تم دونوں کی پلاننگ ہے یا اللہ کی رضا ہے میں بولا امی یہ تو بس اللہ کی طرف سے ہے ہم نے تو ایسا کچھ نہیں سوچ رکھا امی کہنے لگی مجھے تو دادی بننے کا بہت زیادہ شوق ہے میں امی کی بات سن کر خاموش رہ گیا تھا پھر امی نے ایک دن کنزہ سے کہا کہ اپنے شوہر کو لے کر ابھی کے ابھی ڈاکٹر کے پاس جاؤ اللہ نے مرض سے پہلے اس کی دوا کو تخلیق کیا ہے اگر خدانخواستہ تم میں یا میرے بیٹے میں کوئی بھی مسئلہ ہو ڈاکٹر کی دوا سے ہمارے گھر اولاد ہو جائے گی میری بیوی یہ مسئلہ لے کر میرے پاس ائی اور کہنے لگی کہ ذیشان امی ہمیں ڈاکٹر کے پاس بھیجنا چاہتی ہے اپ اس چیز کے لیے تیار ہیں میں بولا ہاں مجھے بھی اولاد کی ضرورت ہے میں تمہارے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے رضامند ہوں میری بات سن کر کنزہ حیران رہ گئی تھی وہ کہنے لگی کہ اپ نے مجھ سے پہلے کبھی بھی اولاد کا تذکرہ کیوں نہیں کیا میں بولا میں نے تمہارے ساتھ شادی بھی اس لیے کی تھی کیونکہ میں ایک نیک عورت سے اپنی نسل کو پروان چڑھانا چاہتا تھا مجھے یہ تھا کہ عورت نیک ہو تو اولاد بھی نیک ہوتی ہے کنزا کہنے لگی ٹھیک ہے میں اپ کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے تیار ہوں ہم دونوں ڈاکٹر کے پاس گئے اس کے بعد علاج کا ایک طویل سلسلہ نکل کھڑا ہوا تھا ہم اب کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس جا رہے تھے تو کبھی کسی کے پاس ایک سال کے علاج کے بعد بھی ابھی تک ہمیں اولاد کی نعمت سے اللہ پاک نے نہیں نوازا تھا ہمیں اگر کوئی جاننے والا بتاتا کہ فلاں جگہ بہت ہی قابل ڈاکٹر بیٹھا ہے تو ہم اپنا علاج کروانے کے لیے وہاں پہنچ جایا کرتے تھے اس دوران امی تلخ بھی ہو گئی تھی وہ اٹھتے بیٹھتے کنزا کو باتیں سنانے لگی تھی مگر اس نے کبھی بھی اف تک نہیں کیا تھا وہ اس سارے عرصے  یہی کہتی تھی کہ مجھے اپنے اللہ سے اچھا گمان ہے مجھے امید ہے کہ وہ مجھے بہت جلد اولاد دے دے گا یوں ہی وقت گزرتا گیا ایک دن مجھے میرے دوست نے بتایا کہ تم ایک بہت ہی قابل لیڈی ڈاکٹر بیٹھی ہے اسلام اباد وہاں جاؤ اور جا کر اپنا علاج کرواؤ مجھے امید ہے کہ تمہارے ہاں اولاد ہو جائے گی میں نے یہ بات ا کر امی سے کہی تو امی نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو تم اپنی بیوی کو لے کر اج شام اسلام اباد کے لیے روانہ ہو جاؤ میں نے کنزا کو تیار ہونے کا کہا اور پھر ہم اسلام اباد چلے گئے وہاں ڈاکٹر نے جو مجھے بات بتائی اسے سن کر مجھے ایسا لگا جیسے زمین و اسمان کی گردش رک سی گئی ہو ڈاکٹر نے کہا تھا کہ میں دوسرے ڈاکٹروں کی طرح اپ کا وقت ضائع نہیں کروں گی میں جانتی ہوں کہ کچھ ڈاکٹرز اپنے پیسے بنانے کے لیے مریضوں کو دوائیوں پر دوائیاں کھلاتے رہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں کروں گی جو حقیقت ہے وہ میں اپ کو بتانے جا رہی ہوں اپ کی بیوی بانجھ ہے وہ کبھی بھی اولاد پیدا نہیں کر سکے گی بہتر یہی ہوگا اپ اپنی بیوی کو بلاوجہ دوائیاں نہ کھلائیں جو اللہ کی تقدیر ہے اس پر سمجھوتہ کر لیں اس نے اپ کے لیے جو فیصلہ کیا ہے بے شک وہ بہترین ہی ہوگا یہ بات سن کر کنزا رونے لگی تھی اور میری انکھوں میں بھی انسو اگئے تھے ہم دونوں اسی رات اسلام اباد سے گھر واپس اگئے امی مجھے بار بار پوچھ رہی تھی کہ ذیشان کچھ تو بتاؤ ڈاکٹر نے کیا کہا ہے تم دونوں میاں بیوی چپ کیوں ہو میں نے امی کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا میری بات سن کرامی دھاڑے مار مار کر رونے لگی تھی وہ بولی تم کیا کہہ رہے ہو ذیشان اب کیا ہوگا میں چپ رہا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں اگیا میں نے کنزا سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی تھی ایک دن میری امی میرے کمرے میں ائی اور کنزا سے کہنے لگی کہ بیٹی تم میری بات کا برا مت ماننا مگر تم جانتی ہو کہ ذیشان میرا کلوتا بیٹا ہے میری نسل اسی سے اگے بڑے گی اگر یہ بےاولاد رہا تو ہمارا کوئی نام لینے والا نہیں رہے گا اس لیے ہمیں ذیشان کی دوسری شادی کرنی ہے تم سے اجازت لینے کے لیے ائی ہوں کنزا رونے لگی میں جلدی سے بولا امی اپ نے دوسری شادی کا فیصلہ خود سے ہی کر لیا میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا اگر میری قسمت میں اولاد ہوتی تو میری پہلی بیوی سے ہی ہو جاتی ہیں دوسری شادی نہیں کروں گا امی نے میری جانب گھور کر دیکھا اور کہنے لگی کہ ذیشان تم یہ بات سمجھنے کی کوشش کرو کہ تم میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں ہے اگر تم شادی کرو گے تو تمہارے ہاں اولاد ہو جائے گی تم مجھے دادی بننے کی خوشخبری سنا دو گے میں نے صاف انکار کر دیا تھا اور بولا امی دوسری شادی کسی قیمت پر نہیں کروں گا اللہ کے فضل سے میری زندگی میں بہت سکون ہے میں دو بیویاں ایک گھر میں نہیں رکھ سکتا ان کی لڑائی جھگڑے سے میری زندگی خراب ہو جائے گی لیکن امی ہر وقت مجھ پر زور ڈالتی رہتی تھی کہ میں دوسری شادی کر لوں اور میں ہر بار انہیں انکار کر دیا کرتا تھا میری امی دوسری شادی کا ارمان لیے دل میں اس دنیا سے رخصت ہو گئی امی کے جانے کے بعد میرا گھر بڑا ہی سونا سونا سا ہو گیا مجھے ہر وقت تنہائی محسوس ہوتی تھی اب تو میری حافظ قران بیوی بھی اداس اداس رہنے لگی ایک دن مجھے ا کر کہنے لگی کہ ذیشان اگر اپ اولاد کی خاطر دوسری شادی کریں گے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور نہ ہی میں اپ کو یہ کام کرنے سے روکوں گی میں نے بولا کہ نہیں میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتا تو کنزا کہنے لگی کہ ہم دونوں اس گھر میں تنہا رہتے ہیں ہر جانب اداسی ہی اداسی ہے اپ بتائیں ہمارا بڑھاپہ کیسے گزرے گا میں بولا تم کہنا کیا چاہتی ہو کنزا نے کہا اگر اپ اجازت دیں تو میں بچہ اڈاپٹ کرنا چاہتی ہوں میری ممتا کو سکون مل جائے گا یہ بات سن کر میں کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گیا اور بولا اس دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس اولاد نہیں ہے مگر وہ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن کنزہ بولی مجھے اولاد چاہیے تو میں نے اسے بچہ اڈاپٹ کرنے کی اجازت دے دی کچھ دنوں کے بعد کنزا نے مجھے بتایا کہ وہ ایک بچی اڈاپٹ کر کے ائی ہے میں پہلے تو کسی کی اولاد پالنے کے حق میں نہیں تھا مگر جب کنزا بچی کو لے کر ائی تو میں اس سے بولا کہ کہاں ہے ہماری بچی میں اس سے ملنا چاہتا ہوں یہ سن کر کنزا گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ ذیشان اپ تو جانتے ہیں نا میں مولوی کی بیٹی ہوں اور میں نے اسلام کو بہت قریب سے جانا ہے میں ایک حافظ قران ہوں اپ اس بچی کے لیے جس کو میں نے اڈاپٹ کیا ہے غیر محرم ہیں میں نہیں چاہتی کہ اپ اس سے ملے ویسے بھی اپ اولاد کے بغیر خوش تھے اولاد کے لیے تو میں ترس رہی تھی اپ بچی سے دور ہی رہیں میں نے سر ہلا دیا اور بولا ٹھیک ہے جیسا تم کہو گی میں ویسا ہی کروں گا کچھ دن گزر گئے تو کنزا     نے مجھے بتایا کہ وہ ایک اور بچی کو اڈاپٹ کر لائی ہے میں نے اس پر بھی اعتراض نہیں کیا پھر مجھے میری بیوی نے بتایا کہ یتیم خانے والوں کو پتہ چل گیا ہے کہ میں بیٹیاں اڈاپ کرنے پر راضی ہو جاتی ہوں اس لیے ان کے پاس جب بھی کوئی لڑکی اتی ہے مجھے ہی فون کرتے  ہیں کنزا نے پانچ بچے اڈاپٹ کر لیے تھے ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا تم ہمیشہ لڑکی کو ہی کیوں لے کر اتی ہو کنزا کہنے لگی کہ ذیشان میں سب نیکی حاصل کرنے کی غرض سے کرتی ہوں اپ جانتے ہیں نا ہمارے معاشرے میں ہمیشہ لڑکیوں کو دھتکار ہی ملتی ہے اپنی بیٹی کی پیدائش پر منہ لٹکا لیتے ہیں پھر کسی کی بیٹی کو کیا پالیں گے مجھے علم ہے کہ یتیم خانے میں لڑکیوں کو کوئی بھی گود نہیں لیتا اس لیے وہ ساری زندگی فیملی سے محروم رہتی ہیں مجھے جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ کوئی لڑکی موجود ہے تو میں اسے اڈوب کر کے گھر لے اتی ہوں اور ماں کا پیار دیتی ہوں اور پھر لے پالک بیٹوں سے پردے کا حکم تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اپ کو پتہ ہے میں پردے کی بہت پابند ہوں میں ایک لڑکے کو نہیں پالنا چاہتی میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے تم بہت ہی نیک وکار لڑکی ہو میری بات سن کر مسکرا دی تھی یہ چیزیں دیکھ کر میرے دل میں کنزا کے لیے محبت بہت زیادہ بھر گئی تھی وہ نہ صرف بہت اچھی بیوی تھی بلکہ ایک بہت ہی اچھی ماں ثابت ہو رہی تھی میں نے کبھی بھی گھر میں بچوں کے رونے کی اواز نہیں سنی تھی اور پھر میرے افس سے انے سے پہلے ہی وہ بچوں کو سلا دیا کرتی تھی اور میرے ساتھ وقت بتایا کرتی تھی میں اپنی زندگی میں بہت سکون محسوس کر رہا تھا مجھے یہی لگتا تھا کہ میری زندگی میں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں رہ گئی ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھی لیکن میں کہاں جانتا تھا کہ میری بیوی اچانک دم توڑ جائے گی ایک دن میں افس سے گھر واپس ایا تو دیکھا بستر پر بے ہوش پڑی ہے میں نے اس کو بلایا ہلایا اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ بے دم پڑی ہوئی تھی میں اسے جلدی سے ہاسپٹل لے کے ایا تو وہاں جا کر مجھے پتہ چلا کہ میری بیوی کو ہارٹ اٹیک ایا ہے اور وہ اچانک مر گئی یہ خبر سن کر تو میں دھاڑے مار مار کر رو رہا تھا زندگی بہت ہی بے وفا چیز ہے کب کہاں ساتھ جوڑ جائے انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا میں نے اور کنزا نے تو اپنے بڑھاپے کی پلاننگ بھی کر رکھی تھی لیکن وہ کہاں جانتی تھی کہ یوں موت اچانک گلے لگا لے گی ہمارے گھر میں تو مجھے کسی چیز کی کوئی ہوش نہیں تھی محلے والوں نے ہر چیز کی تیاری کی تھی وہی میری بیوی کو غسل دلانے کے لیے غسال کو لے کر ائے تھے وہ غسال میری بیوی کو غسل دینے کے لیے گئی تو چیخ مار کر واش روم سے باہر بھاگی تھی ہم سب حیران و پریشان تھے کہ اخر غسال کو کیا ہو گیا ہے غسال بہت ڈری ہوئی تھی وہ کہنے لگی کہ میت کے ساتھ سانپ لپٹا ہوا ہے یہ خبر سن کر تو ہر شخص حیران رہ گیا تھا یہ بہت ہی انہونی سی بات تھی میرے گھر میں تو کوئی سانپ موجود نہیں تھا تو یہ سب کیسے ممکن ہوا تھا میں نے اپنی بیوی سے سانپ کو ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ سانپ بہت پتھریلا اور بہت خطرناک قسم کا تھا وہ میری بیوی کے وجود سے ہٹنے پر رضامند نہیں تھا میں بھی ناکام ہو کر واپس اگیا تھا لوگ میری بیوی کے لیے عجیب عجیب الفاظ استعمال کر رہے تھے طرح طرح کی باتیں ہونے لگی تھیں تو وہ بھی یہ سن کر حیران ہو گئے پھر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا کر اللہ سے معافی مانگی تھی مولوی صاحب کہنے لگے کہ بہتر یہی ہے میت کو اس سانپ کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے اس نے ایسا نہ جانے کون سا گناہ کیا ہے جس کی اس کو یہ سزا مل رہی ہے میں پھٹ پڑا اور بولا میری بیوی نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا وہ بہت ہی نیک عورت تھی نماز قران کی پابند تھی حافظ قران تھی مولوی صاحب کہنے لگے کہ اگر میری بات سے تمہاری دل ازاری ہوئی ہو تو مجھے معاف کر دینا میں نے تو وہی کہہ دیا جو مجھے محسوس ہوا بہتر یہی ہے کہ میت کو سانپ کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے مولوی صاحب کی بات مان لی گئی تھی ہر شخص حیران تھا ہر کسی کے منہ پر میری بیوی کے لیے عجیب قسم کی باتیں نکل رہی تھی خیر میں اپنی بیوی کی جو چھوٹی چھوٹی بچیاں میری بیوی لے کر ائی تھی یہ سوچتا ہوا فورا گھر ایا کہ وہ بھوکی ہوں گی میں ان کو کھانا کھلانے کے لیے کمرے میں ایا تو وہاں پر تو کوئی چھوٹی بچی موجود ہی نہیں تھی سب کی سب لڑکیاں جوان تھیں اور  یہ تھا کہ ان کے پیٹ بڑے ہوئے تھے ان میں سے ایک روتی ہوئی اگے بڑھی اور کہنے لگی کہ ہمیں بچا لے اپ کون ہیں اپ ذیشان ہے نا کنزا کے شوہر وہ بہت بری عورت ہے ہمیں دارالامان سے یہ کہہ کر یہاں لائی تھی کہ ہم اپ کو ہنر سکھائیں گے اور تم سب کو پیروں پر کھڑا کر دوں گی مگر اس نے تو یہاں غلط کام کرنا شروع کر دیے اس نے ہم پانچوں لڑکیوں کو امیر بے اولاد جوڑوں کے لیے اولاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ایک دن میں نے کنزا کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ ہسنے لگی اور کہنے لگی میرا باپ مولوی تھا میں حافظ قران ہوں مجھے یہ سب معلوم ہے مگر مجھے کسی بات پر بھی یقین نہیں ہے میں مرنے کے بعد عذاب اور جنت جہنم کی بہت باتیں سن رکھی ہیں مگر میں کسی بات پر یقین نہیں رکھتی یہ سب مولویوں کی بنائی ہوئی باتیں ہیں مرنے کے بعد انسان ختم ہو جاتا ہے بس جو بھی ہے یہی زندگی ہے مجھے اپنی یہ زندگی بھرپور انجوائے کرنی ہے کنزا اپنے شوہر کے جانے کے بعد غیر لڑکوں کو گھر پر بلاتی تھی ان کے ساتھ وقت گزارتی تھی اور ہم سے امیر جوڑوں کی اولاد پیدا کروانے کے اواز ان سے لاکھوں کے حساب سے پیسے لیا کرتی تھی وہ عیش کرتی تھی اور اس نے ہمیں یہ بتایا تھا ۔ کہ وہ بانج نہیں تھی بلکہ اس نے جان بوجھ کر اولاد پیدا نہیں کی تھی وہ اپنی زندگی بچے پالنے میں صرف نہیں کرنا چاہتی تھی اس نے ڈاکٹر سے پیسے کے عوض یہ کہلوایا تھا کہ وہ بانجھ ہے تاکہ اس کی جانب سے اس کی جان چھوٹ جائے یہ سب باتیں سن کر میں دھنگ رہ گیا تھا کہ میری بیوی ایک بری عورت تھی اس نے مجھے اور میری ماں کو دھوکہ دیا تھا وہ تو اسلام اور پردے کا مذاق بنا رہی تھی اور مرنے کے بعد ہونے والے عذاب کو جھٹلا رہی تھی ضروری نہیں ہے کہ نیک والدین کی اولاد بھی نیک ہو محترم ناظرین حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی تو نافرمان تھا اج مجھے حمیرہ کی بہت یاد ائی اور مجھ سے محبت کرتی تھی جبکہ میری بیوی نے مجھ سے کبھی محبت کی ہی نہیں تھی اس نے میری عزت کی ڈھجیاں اڑا کر رکھ دی تھی کاش عمیرہ کو دھوکہ نہ دیا ہوتا تو مجھے بھی اس طرح دھوکا نہ ملتا میں نے ان لڑکیوں کو اپنے گھر سے ازاد کر دیا تھا جنہیں میری بیوی نے اپنے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا اس نے غلط کام کر کے جو پیسہ بنایا تھا وہ پوری طرح سے اس کو خرچ بھی نہیں کر پائی تھی اور موت کی اغوش میں چلی گئی تھی اس کی برائی رہ گئی تھی عیش ختم ہو گئی تھی استغفر اللہ محترم ناظرین ہمیں کنزہ کے انجام سے یہی سیکھنا چاہیے کہ زندگی تو انکھ جھکپنے سے پہلے ختم ہو سکتی ہے اس لیے ہمیں کوئی بھی غلط کام کر کے اسے حسین بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اللہ کی رضا 

Leave a Comment