Aurat Ne Bakri Ka Bacha Peda Kia Aur Allah Wale

ایک اللہ والے اور ایک بانج عورت نے کیا بکری کا بچہ پیدا اخر کیسے ہوا یہ کرشمہ چلیے سنتے ہیں ایک بہت ہی خوبصورت سا واقعہ سبق حاصل کیجئے گا اور اس سے پہلے اپ نے ہمارے چینل عنایہ سپیکس کو سبسکرائب ضرور کرنا ہے اسی طرح کے پیارے واقعے سننے کے لیے بیل ائیکن کو بھی ساتھ دبائیے گا ویڈیو کو لائک اور شیئر کیجیے گا۔ ایک اللہ والے بکریوں کو چرایا کرتے تھے اور بکریوں کو کبھی ہری بھری گھاس کھلانے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جایا کرتے تھے اس گاؤں کے لوگ ہنستے اور کہتے او بڑے میاں اپنی عمر دیکھو اور صحت بھی بدن میں جان ہے نہیں لیکن کسی جوان ادمی کی طرح پہاڑوں پر ایسے چڑھتے پھرتے ہو جیسے تمہیں تو کوئی ہواؤں میں اڑا رہا ہے وہ ہنس کر کہہ دیتے ہاں بھائیو جس رب پر میں بھروسہ کرتا ہوں وہی یہ کام کرتا ہے اس نے مجھے اتنی ہمت دی ہے کہ اس بڑھاپے میں بھی میں بکریوں کو چروانے دور پہاڑ پر چلا جاتا ہوں کیونکہ میں اپنے ہاتھوں سے کمانے پر یقین رکھتا ہوں اور اللہ والے کا یہ اصول تھا کہ وہ کسی ایک گاؤں میں نہیں رہا کرتے تھے بلکہ دس دن کسی بھی گاؤں میں گزار کر پھر اگے سفر کرتے ایک بار اپنی بکریوں کے ریوڑ کو لے کر وہ ایک بہت ہی خوبصورت سے پہاڑ پر چڑھے اس پہاڑ پر ایک بستی بنی ہوئی تھی جہاں اس پاس کئی گھر بنے ہوئے تھے لیکن ایک گھر ان میں سب سے بڑا تھا اللہ والے کو بھوک لگی انہوں نے سوچا کہ میں اس گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہوں ضرور یہاں پر کوئی ہوگا جو میری مدد کرے گا انہوں نے بکریوں کو ہری بھری گھاس پر چھوڑا اور دروازے پر دستک دی دروازے کو کھولنے سے پہلے ایک عورت کی اواز ائی کون ہے اللہ والے نے کہا میں دور سے ایا ہوں مسافر ہوں مجھے بھوک بھی لگ رہی ہے اور پیاس بھی کیا مجھے یہاں سے کچھ کھانے کو مل سکتا ہے تو اندر سے ایک سخت اواز میں عورت چلائی اور کہا ہم کوئی بھکاری کو کھانا دینے والے نہیں ہیں جاؤ کسی اور گھر پر جاؤ اللہ والے کو بڑا ہی تعجب ہوا کہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ یہاں کوئی دریا دل نیک انسان رہتا ہے پر لگتا ہے یہاں پر رہنے والا انسان تو خوف الہی بھی اپنے دل میں نہیں رکھتا یہ عورت تو نہایت بد تہذیب ہے اللہ والے نے کچھ نہیں کہا بس دل میں یہ بات سوچی تھی اور اپنی بکریوں کے پاس ا کر بیٹھ گئے پر اپ کو اس وقت بہت شدید پیاس لگ رہی تھی اور بھوک سے اپ بے حال ہو رہے تھے کیونکہ اپ نے 10 دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا اپ کے دل میں یہ بات سما گئی تھی کہ مجھے اسی گھر سے ہی روٹی لینی ہے اس لیے اپ پھر سے اس دروازے پر گئے اور دستک دی لیکن اس بار جس عورت کی اواز ائی اس نے بہت ہی ادب اور ارام سے پوچھا جی کون ہے اللہ والے نے کہا بی بی میں وہی ہوں جس کو بہت بھوک لگ رہی ہے کیا اپ کے گھر سے کچھ مل سکتا ہے عورت کہنے لگی کیا کھائیے گا تو کہا کہ مجھے اٹے کی بوری چاہیے اس نے کہا اپ کو اتنی بھوک لگی ہے تو میں روٹی بگا کر دے دیتی ہوں اپ کو اٹے کی بوری کیوں چاہیے اللہ والوں نے فرمایا کہ مجھے اٹے کی ہی بوری چاہیے اور اسی گھر سے چاہیے اس عورت نے جھٹ سے اپ کو بوری بھی لا کر دے دی کوئی بھی سوال جواب نہیں کیا اب پہلی والی عورت کون تھی یہ نہیں پتہ تھا اپ تو بس اس دوسری عورت کے اخلاق سے متاثر ہوئے اللہ والے کوئی گندی سوچ اپنے ذہن میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ انسان کے دکھ کو اندر سے پڑھ لیتے ہیں اٹے کی بوری لے کر اپ اپنی بکریوں کے پاس اگئے اٹا گوند کر اپ نے روٹی اپنے ہاتھوں سے پکائی اور کھا لی جس گھر سے اپ کو وہ اٹا ملا تھا وہاں پر دو عورتیں رہا کرتی تھیں جن میں سے ایک عورت بہت دکھی رہا کرتی جب کہ اس کے پاس سب کچھ تھا دنیا جہاں کی دولت مکان زمین جائیداد زیورات پر وہ پھر بھی دکھی تھی کیونکہ وہ بیوہ تھی اس سے بھی بڑا دکھ اسے یہ تھا کہ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی جب اس کا شوہر زندہ تھا تو اللہ پاک نے اسے اولاد کی نعمت سے نوازا بھی تھا لیکن اس کی قسمت میں یہی لکھا ہوا تھا کہ اس کی اولاد پیدا ہوتے ہی مر جاتی وہ اپنی اولاد کا سکھ نہیں دیکھ پائی تھی اس کا شوہر اس پر اپنی جان نے جھابر کرتا تھا لیکن بچوں کے مر جانے کا غم لے کر وہ اس دنیا سے چلا گیا شوہر کیا گیا اس کی تو دنیا ہی اجڑ گئی اس کے گھر میں جو دوسری عورت تھی اس کے ساتھ ہی وہ رہا کرتی تھی اور وہ کوئی اور نہیں اس کے شوہر کی بہن تھی وہ عورت جو اپنے بھائی کی زندگی میں اپنی بھابھی کی بہت عزت کیا کرتی تھی اسے کبھی بانجھ ہونے کا اس نےطانہ بھی نہیں دیا تھا یہاں تک کہ اس کی بھابی کی جوانی گزر گئی پر اب اس کے ہاتھ ایک موقع اگیا تھا اس نے اپنی زبان سے دل توڑنے والے جملے کسنے شروع کر دیے کہ تجھ جیسی عورت تو اپنے شوہر کو ہی کھا گئی اولاد بھی پیدا کرنے کی تجھ میں ہمت نہیں دیکھو تو اتنی بڑی جائیداد لے کر بیٹھی ہوئی ہے مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میرے بھائی کی موت کے پیچھے تمہارا ہی ہاتھ ہے بیچارے کو تم نے شادی بھی کرنے نہیں دی تم عورت نہیں ایک ڈائن ہو وہ حیران ہوتی کہ میرے شوہر کے سامنے تو اس کی بہن میری بڑی تعریفیں کیا کرتی تھی کہ اپ کی اتنی حسین اور جوان خوبصورت بیوی ہے اور اب یہی بہن مجھے ڈائن کہہ رہی ہے کس طرح کی یہ دنیا ہے لوگ کیوں چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں بس یہی بات اس کے دل کو دکھایا کرتی تھی کہ شوہر کی بہن نے اس پاس کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور تو اور اکثر کوئی مذاق میں یہ بھی کہہ دیتا ارے تمہاری عمر کو اتنی زیادہ تو نہیں ہے صرف سر کے بال تو سفید ہوئے ہیں شادی کر لو اچھا ہے کوئی جوان شوہر مل جائے گا تمہاری اتنی بڑی جائیداد ہے کسی کو بھی تم اپنا شوہر بنا سکتی ہو پر ان جاہل اور بدمعاش لوگوں کی باتوں کا کوئی جواب وہ دیتی نہیں کیونکہ وہ جس عمر میں تھی اب تو سوال یہ پیدا نہیں ہوتا وہ بچہ پیدا کر سکتی ہے اتنی بڑی جائیداد ہونے پر بھی اس نے اس لیے شادی نہیں کی تھی کیونکہ اس کو پتہ تھا کہ جب وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں تو پھر شادی کا فائدہ اس لیے لوگوں کی باتوں سے اپنے دل جلانے سے بہر وہ اللہ رب کریم کی یاد میں خود کو مصروف رکھنا چاہتی تھی وہ اپنے اپ کو عبادت میں اتنا لگا چکی تھی کہ اسے کوئی پرواہ نہیں تھی کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں کیا نہیں وہ اکیلی سارہ کام کرتی اس کا شوہر ایک بہت بڑا تاجر تھا تو اس لیے وہ اپنے شوہر کے کاروبار کو بھی اگے بڑھاتی جا رہی تھی پر اپنی شرم و حیا کو اس نے برباد نہ ہونے دیا بس اس کے دل میں ایک ہی دکھ اور درد تھا کہ اللہ اسے ایک بچہ تو دے ہی دیتا چاہے وہ بیٹا ہوتا یا بیٹی یعنی اس جائیداد کا کوئی وارث ا جاتا لیکن یہ دعا جیسے اس کی قبول ہی نہیں ہو پا رہی تھی اللہ والے یہ بات اچھی طرح سے جان چکے تھے کہ وہ عورت مصیبت میں ہے ازمائش تو رب ذوالجلال کی طرف سے ہے لیکن اس کے گھر میں جو فتنہ عورت ہے اس نے اس کا جینا حرام کر دیا ہے اپنی زبان کے تیر سے اس کا جگر زخمی کرتی ہے اس لیے اللہ والے نے وہیں پر پڑاؤ ڈال دیا اٹا تو لینا ایک بہانہ تھا دراصل وہ اس کی مدد کے لیے وہاں رکے ہوئے تھے اللہ والے اپنی بکریوں کو وہیں چرایا کرتے تھے اور عورت اپنے کام کے لیے کبھی گھر سے باہر نکلا کرتی اور اللہ والے کو بکریوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اس کے دل میں خیال اتا کہ میں ان سے دعا کرواؤں لیکن اس کی زبان طاقت نہیں رکھتی تھی کہ وہ ان سے کچھ کہے وہ وہاں سے خاموشی سے گزر جایا کرتی تھی اللہ والے سب کچھ دیکھ رہے تھے لیکن وقت کا انتظار کر رہے تھے ایک دن جب وہ گھر سے باہر نکلی تو اللہ والے نے اسے رو کر کہا اے میری بیٹی میری بات سنو تم نے میرا بہت خیال رکھا میں جب سے یہاں ایا ہوا ہوں مجھے کھانے پینے میں کوئی تنگی نہیں ہوئی ورنہ میں جس جگہ پہ رہتا ہوں کئی کئی دن تک بھوکا رہتا ہوں پر تم نے تو انسان ہونے کا حق ادا کر دیا میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہیں کوئی تحفہ دوں وہ تو بس یہی چاہتی تھی کہ اللہ والے اس کے لیے دعائے خیر کرے اس کے دل کی یہی تمنا تھی پر وہ چپ کھڑی رہی اللہ والے نے کہا بیٹی میری ان بکریوں میں ایک بکری ایسی ہے جو کہ بہت برکتی ہے اس لیے اس بکری نے اج ایک بچے کو جنا ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ بچہ میں تمہارے حوالے کر دوں وہ کہنے لگی لیکن حضرت ایک ماں سے اس کے بچے کو اپ جدا کر رہے ہیں اللہ والے نے کہا بیٹی سمجھ لو یہ بکری کے بچے کہ تم ہی ماں ہو کیونکہ تم نے اب تک ایک بھوکے اور غریب انسان کو کھانا کھلایا ہے اللہ پاک تمہاری تمام مشکلات کو دور کرے گا پر خیال رکھنا کہ اسے اپنے پاس رکھنا اور اس کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانا کسی بھی بری نظر اور خراب نیت والے انسان کو اس کی طرف بھٹکنے نہیں دینا وہ کہنے لگی حضرت اگر یہ اپ کا تحفہ ہے تو میں اسے دل و جان سے اپنے پاس رکھوں گی کم از کم اس بچے کی وجہ سے میرا دل بھی بہل جائے گا پھر اللہ والے نے کہا بیٹی مجھے یہاں پر 10 دن ہو چکے ہیں اب میں یہاں سے جا رہا ہوں تو اس نے کہا کہ بابا اپ یہاں پر رہیں اگر مجھے بیٹی کہاں ہے تو اپ اپنی بیٹی کے گھر پر بھی رہ سکتے ہیں اللہ والے بولے نہیں بیٹی میں کسی ایک جگہ نہیں ٹکتا ہوں اس لیے مجھے یہاں سے جانا ہوگا بس اس میمنے کا دھیان رکھنا اللہ والے وہاں سے جا چکے تھے وہ عورت بکری کے بچے کو لے کر گھر اگئی وہ بچہ بہت ہی پیارا تھا اس کی بھولی صورت دیکھ کر اس عورت کا دکھ بہت کم ہو جاتا اس کے غم کو ہلکا کرنے میں اس بکری کے بچے کا بڑا ہاتھ تھا وہ اسے اپنے پاس رکھتی پیار کرتی اسے اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتی اور وہ بچہ بھی اسے اپنی ماں کی طرح ہی پیار سے دیکھتا اس بچے کے انے سے اس کے گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں اگئی تھی اور یہ بات اس کے شوہر کی بہن کو ہضم نہیں ہو رہی تھی وہ کبھی بن کر کہتی کیا میں اسے کھانا کھلا سکتی ہوں تو وہ کہتی نہیں نہیں یہ میرا ہی بچہ ہے اور ایک ماں ہی اپنے بچے کو کھانا کھلاتی ہے پلاتی ہے تو وہ ہنستے ہوئے کہتی لگتا ہے تم پاگل ہو گئی ہو تمہارے ہاں اپنا کوئی انسانی بچہ تو نہ ہوا تو ایک بکری کے بچے کو ہی تم نے اپنا بیٹا کہہ دیا وہ کچھ نہیں کہتی تھی اپنے کام سے کام رکھتی اس بچے کے انے سے اس کی زندگی میں ایک بہت بڑا بدلاؤ ایا تھا کہ وہ خوش بھی رہنے لگی تھی اور یہی نہیں اس بار اسے کاروبار میں بہت منافہ ہوا تھا وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اسی میمنے کی برکت سے ہوا ہے اس لیے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی خدمت کرتی ایک رات جب وہ تہجد کے لیے اٹھی تو اسے کسی کے دعا مانگنے کی اواز ائی تو اس نے چپکے سے دیکھا کہ میرے گھر میں یہ بچے کی اواز کیسی ا رہی ہے لیکن حیرت سے اس کا منہ کھل گیا وہاں کوئی بہت ہی خوبصورت سا بچہ نورانی لباس پہنے ہوئے سجدے میں گر کر اللہ پاک سے دعا مانگ رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا اے رب کائنات اے خالق و مالک اے رب مصطفی اے رب مرتضی یا اللہ رب دوعالم مجھے میری ماں سے الگ نہیں کرنا ایک تو اس خاتون اس بچے کو دیکھ کر ویسی ہی اپنے ہوش کو کھو بیٹھی تھی پھر وہ اپنی ماں کا نام بھی لے رہا تھا نہ جانے کس کا بچہ تھا اور ان کے گھر میں کیا کر رہا تھا اسے شک ہوا کہیں اس کی نند کسی ماں سے اس کے بچے کو الگ کر کے تو نہیں لے ائی جب اس بچے نے دعا مانگ لی تو خاتون اس کے پاس گئی اور کہا بیٹا تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو بچے نے کہا میں یہیں رہتا ہوں اپ کو نہیں پتہ عورت نے کہا لیکن میں نے تو تمہیں اج تک نہیں دیکھا بچے نے کچھ نہیں کہا عورت کو بڑی پریشانی تھی کہ یہ بچہ کچھ کہتا بھی نہیں ہے اور کس ماں کا لخت جگر ہے ماں تو تڑپ رہی ہوگی کہ اس کا بچہ یہاں پر ہے اس غم میں اسے رات بھر نیند نہیں ائی جب صبح اس کی نند جاگی تو اس نے اسے کہا کیا تم کسی بچے کو ہمارے گھر لے کر ائی ہو اس خبیث فتنی عورت نے کہا تم سچ میں اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہو نیک عورت بولی یقین نہیں اتا تو چلو جب وہ اسے اس جگہ لے کر ائی جہاں پر بکری کا بچہ بندھا ہوا تھا تو وہاں کوئی بھی اور بچہ نہیں تھا بلکہ بکری کا بچہ بھوک سے میں میں کر رہا تھا وہ انکھیں پھاڑے اس جگہ اس بچے کو تلاش کرتی رہی ارے وہ یہیں تھا کہاں چلا گیا اس کے شوہر کی بہن اس پر ہنسنے لگی ارے میرا بھائی تو تمہارے غم میں اس دنیا سے چلا گیا تو کیا اور اب ایک بکری کے بچے کو انسان کا بچہ کہتی ہے وارث سمجھی کہ شاید اسے بھی وہم ہوا ہے بہرحال اس نے اپنے ہاتھوں سے اس بکری کے بچے کو دودھ پلایا اور پھر اپنے کاموں میں لگ گئی اسے لگا تھا کہ یہ ایک رات کا وہم ہے لیکن ہر رات جب بھی وہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے اٹھتی تو اسے اسی بچے کی اواز اتی جو دعا مانگ رہا ہوتا کبھی رو رہا ہوتا اور اپنی ماں کو یاد کر رہا ہوتا اس بچے کے پاس ا کر وہ اسے جاننا چاہتی تھی لیکن وہ بچہ اسے کچھ نہیں بتاتا اس نے خوفزدہ ہو کر اپنے شوہر کی بہن سے بھی کہنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ تو اس کی کسی بات پر یقین ویسے بھی نہیں کرتی تھی اور اس کی ہنسی بھی اڑاتی اور یہی نہیں اس نے پورے محلے میں اس کا تماشہ بھی بنا دیا تھا کہ یہ بیوہ بانجھ عورت جو میرے ساتھ رہتی ہے اپنے دماغ کو کہیں بیچ ائی ہے بہکی بہکی باتیں کرتی ہے اولاد کی اتنی چاہت ہے لیکن ہر اولاد کو پیدا ہونے کے بعد یہ خود ہی مار کر کھا گئی اور اب ایک بکری کے بچے کو انسان کا بچہ کہتی ہے اس بات سے اس عورت کو بھی لگنے لگا تھا کہ سچ میں وہ پاگل ہو رہی ہے ایک بچے کی چاہت میں اسے بکری کا بچہ ہی انسان کا بچہ لگ رہا ہے جبکہ ایسا ناممکن ہے اب وہ دعا کرنے لگی کہ وہ اللہ والے پھر سے اس کے پاس ائے اور وہ ان سے اس راز کے بارے میں جانے کے اخر یہ کیا ماجرہ ہے ہو کیا رہا ہے اس کے ساتھ لیکن ایک مہینہ گزر گیا اور اللہ والے نہیں ائے اس بکری کے بچے کے انے سے جہاں اس کے گھر میں خوشیاں ائی تھی وہیں اسے اس بات کا غم بھی تھا وہم ہو رہا ہے یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے ایک دن وہ نماز پڑھ رہی تھی نماز پڑھتے پڑھتے اسے رونا اگیا اس نے دعا کی اے اللہ رب ذوالجلال میں نے تیری عطا پر صبر کیا لیکن ایک خواہش تھی کہ میں صاحب اولاد ہو جاؤں میں بھی ماں بنوں پر اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے بھی میرا کوئی بچہ زندہ نہ رہ سکا اس کے بعد میرا شوہر بھی مجھے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا اب ایک بکری کے بچے کو مجھے تحفے میں دیا گیا ہے وہ بکری کا بچہ جس کو میں اپنا بیٹا ہی مانتی ہوں اخر وہ کون ہے اور کیوں یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ بچہ رات میں اتا ہے تو کہاں چلا جاتا ہے یہ دنیا مجھے پاگل کہہ رہی ہے اے اللہ مجھے رسوا ہونے سے بچا لے اے اللہ تو عیب کی پردہ پوشی کرتا ہے تو میرے عیبوں کو میری کمیوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہونے دینا ورنہ یہ لوگ مجھے چین سے جینے نہیں دیں گے تو اپنی عطا سے اس نیک بزرگ کو میرے پاس بھیج دے اس نے تڑپ تڑپ کر دعا مانگی کہ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اس کی نند نے کہا میں دیکھتی ہوں سخت لہجے میں پوچھنے لگی کون ہے یہ اللہ والے کی اواز تھی بیٹی مجھے اٹا چاہیے کہ اٹا مل سکتا ہے بدتمیز عورت غصے سے کھولنے لگی اس نے اللہ والے کو وہاں سے دھتکار کر بھگانا چاہا کہ تم جیسے ادمی نے پہلے ہی میری اس بھابھی کو پاگل کر دیا ہے اور پھر سے اگئے ہو اٹا مانگنے چلو جا یہاں سے اور اس عورت نے کہا رک جاؤ ان کو نہ بھگاؤ یہ اللہ کے نیک بندے ہیں مجھے ان سے کوئی بات کرنی ہے وہ چلائی اگر یہ اللہ کے نیک بندے ہیں تو یہ کیوں تمہارے ساتھ یہ کھیل کھیل رہے ہیں جانے تمہیں بچہ کیوں دیا گیا ہے جس کو تمہیں ایک انسان کا بچہ سمجھ بیٹھی ہو یہ بڈھا تمہارے ساتھ کوئی چال چل رہا ہے مجھے تو یہ جادوگر لگتا ہے کہ جو ہماری جائیداد کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے اس کے منہ ہی نہ لگو بلکہ میں تو کہتی ہوں یہ میمنہ بھی اس کے حوالے کر دو جب سے یہ ایا ہے اس نے ہمیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے وہ عورت کہنے لگی نہیں اس میں اس بکری کے بچے کا کوئی قصور نہیں بلکہ اس کے انے سے ہمارے گھر میں بہار ائی ہے بس میں جو پوچھنا چاہتی ہوں مجھے اللہ والے سے پوچھنے دو اس کے بعد وہ اللہ والے کے پاس آئی اور کہا بابا میں اپ کو اٹے کی 100 بوریاں دے دوں گی بس مجھے بتائیے اخر رات میں وہ نورانی چہرے والا بچہ مجھے کیوں نظر اتا ہے کیا وہ حقیقت ہے یا پھر میری صرف سوچ ہے سب کہتے ہیں میں وہم کرتی ہوں اور مجھے بھی لگتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے اللہ والے نے کہا بیٹی میں تمہیں سب کچھ سچ سچ بتا دوں گا پہلے بس مجھے اٹا دے دو تاکہ میں روٹیاں پکاؤں اور کھانا کھا کر تم سے بات کرو وہ نند جو کہ پیچھے کھڑی ہوئی تھی اس عورت کو جلی کٹی سنانے لگی اور کہا اس بوڑھے کی باتوں میں نہ اؤ یہ تمہاری ساری جائیداد کو ہڑپ کر کے قبضہ کرنا چاہتا ہے تم کیوں اس کی باتوں کو سن رہی ہو پر اس  نیک عورت نے اپنے شوہر کی بہن کی باتوں کو نہ سنا اور نظر انداز کر کے اٹا اللہ والے کو دے کر کہا لیجیے اللہ والے بزرگ اٹا اپ لیجیے اور روٹیاں پکائیے اللہ والے نے اٹا لیا اٹا گوندا روٹی پکائی پھر روٹی کھانے کے بعد اللہ رب دو عالم کا شکر ادا کیا اور پھر نماز پڑھنے لگے اپ کی نماز کافی لمبی تھی اور بے چین ہو رہی تھی وہ اپ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ کیا ماجرہ ہے کیوں ہو رہا ہے میرے ساتھ ایسا لیکن اپ تھے کہ سجدہ ہی نہیں کر رہے تھے اس کو اپنی نند کی باتیں صحیح لگنے لگی کہیں کوئی جادوگر تو نہیں کہیں میرے ساتھ کوئی جادو ٹونا تو نہیں ہو رہا ہے اور یہ تو نماز پڑھ رہے ہیں شریعت کے پابند تھے سارے اچھے کام کر رہے ہیں نہیں یہ جادوگر نہیں ہو سکتے اس کے دل نے کہا جب اللہ والے نماز پڑھ چکے تو بکریوں کو گھاس کھانے کے لیے چھوڑ کر اس نیک عورت کے پاس ائے اور کہا اب سن لو کہ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں کوئی جادوگر نہیں نہ ہی سفلی عمل کرتا ہوں نہ ہی میں یہاں گھر تمہاری دولت حاصل کرنے ایا ہوں بلکہ تم ایک دکھی عورت تھی تمہارے دکھ کا علاج کرنے ایا ہوں اللہ والے نے کہا اب مجھے گھر کے اندر انے کی اجازت ہے اللہ والے کو بھلا کیسے منع کر سکتی تھی وہ عورت ان کو عزت سے اپنے گھر لے ائی اپ ایک جگہ بیٹھ کے بلانے پر وہ بدتمیز بدلحاظ عورت وہاں ائی اور کہا اے بھکاری تو روز یہاں اٹا مانگنے ا جاتا ہے تو چاہتا کیا ہے اللہ والے نے جوشیلی اواز میں کہا اے عورت تو کتنی خبیث اور شاطر ہے تو ایک مسلمان ہو کر بھی ایسی حرکت کر سکتی ہے تو جانتی ہے انسانیت کے دجرے تو نے خود کو کتنا نیچے گرا لیا ہے کبھی سوچا ہے کہ تو نے اپنے بھائی کی خوشیاں ختم کی تیری بھابھی بانجھ نہیں تھی نہ ہی کوئی اولاد اس کی مرتی لیکن تو نے اس پر ایک ایسا گندا عمل کیا کہ اس کی کوئی اولاد زندہ نہیں رہتی بچہ پیدا ہونے کے بعد مر جاتا اور تیرے بھائی کو مارنے کے پیچھے بھی تیرا ہی ہاتھ ہے اور اپنی چاہتی ہے کہ یہ نیک خاتون بھی اس دنیا سے چلی جائے اور تو اکیلی اس جائیداد کی وارث ہو یہ مال و دولت یہ زمین جائیداد یہ گھر سب یہیں رہ جانا ہے فنا ہو جانا ہے کچھ بھی اپنے ہاتھ میں نہ رہے گا تو نے کیوں رشتوں کو ختم کیا تو نے جو گناہ کیا ہے اس کی تجھے سزا تو ملنی ہی ہے تیرا انجام تو بھیانک ہونا ہی ہے پر اس سے پہلے تو اپنے منہ سے اگل اور اس خاتون کو بتا کہ تو نے کس طرح اس کی زندگی کو برباد کیا ہے اللہ والے کی اواز میں کچھ ایسا جلال تھا کہ وہ کہنے لگی ہاں میں نے اپنے بھائی کی کسی اولاد کو زندہ نہیں رہنے دیا کیونکہ اگر اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی اس دنیا میں اجاتا تو پھر مجھے یہ سب نہیں ملتا پھر وہ نیک عورت سے کہنے لگی ہاں تم ماں بننے کے لائق تھی تم بانج نہیں تھی بلکہ ہر بار تمہارا حمل میں ضائع کروا دیتی تمہارا بچہ صحت مند پیدا ہوتا لیکن میں ایک ایسا گندا جادو کرتی کہ وہ مر جاتا اے بڑھے تو نے مجھ سے سب کچھ اگلوا لیا ہے نا تو اب بتا رات میں اسے جو بچہ نظر اتا ہے اس کے پیچھے کیا مقصد ہے یہ اس کا وہم ہے اللہ والے نے کہا نہیں یہ اس کا وہم نہیں ہے وہ انسان کا بچہ ہی ہے جو اسے نظر اتا ہے یہ اس کی اولادوں میں سے ایک اولاد ہے جو کہ اپنی ماں کو بہت یاد کرتی ہے جن کو تو نے زبردستی ان کی ماں سے جدا کیا اپنے بھائی کو اتنا بڑا دکھ دیا جو کہ بچوں کو اپنی انکھوں سے دیکھ کر خوش ہوتا اپنی جائیداد کے وارث کو اپنی گود میں کھلانا چاہتا تھا لیکن تو نے اپنے بھائی کو برباد کیا اللہ تعالی چاہے تو بندے کے لیے کیا کچھ نہیں کر سکتا وہ کن فیکون کہتا ہے تو ہو جاتا ہے جو اللہ چاہتا ہے تو نے ایک ماں سے اس کی اولاد کو چھینا تجھے شرم تو نہ ائی وہ ڈھیٹ بن کر کہنے لگی مجھے شرم نہیں ائی اور اب اس کی کوئی اولاد دنیا میں ا بھی نہیں سکتی نہ اس کا شوہر زندہ ہے اور نہ ہی یہ اس قابل ہے اے بوڑھے تم کچھ نہیں کر سکتے ہو تم کیا کرو گے اس کو اولاد دو گے میں نے کہا نا کہ اولاد دینے والا تو اللہ ہے وہ چاہے تو اس کی اولاد اس وقت بھی اس کے پاس ا سکتی ہے وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور کہا کہ اچھا چلو یہ تماشہ تم لوگوں کے سامنے دکھاؤ کہ بغیر باپ کے بچہ کیسے دنیا میں اتا ہے وہ گھر سے باہر ائی اور لوگوں کو اواز دی اے لوگوں ارے ارے اؤ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ میری بھابھی پاگل ہو گئی ہے اور اس کو پاگل کرنے والا کوئی اور نہیں یہ بڈھا جادوگر ہے کہ یہ عورت بنا باپ کے بچہ پیدا کر سکتی ہے اللہ والے تو ویسے ہی جلال میں تھے اب تک اس کی بات کو سن ہی رہے تھے اپ نے دھار کر کہا میں نے تجھے ایک موقع اس لیے دیا تھا کہ تو شاید اپنی کیے پر نادم ہو وہ ایک مسلمان ہے تو توبہ کر لے اللہ سے معافی مانگ لے اور کہہ دے کہ ہاں اے اللہ تو سب خوش کر سکتا ہے اپ نے پھر اس میمنیں کو اشارہ کیا اے بکری کے بچے اپنے خالق کا نام لے جس نے تجھے پیدا کیا ہے میں تجھے دعا کرتا ہوں یہ خالق کائنات کہ اللہ تو اس بکری کے بچے کو انسان کا بچہ بنا دے اور یہ بچہ اس عورت کا بچہ کہلائے بس اپ کے کہنے کی دیر تھی کہ وہ بکری کا بچہ انسانی بچے میں بدل گیا اور یہ وہی پیارا سا نورانی چہرے والا بچہ تھا جو کہ رات کے اندھیرے میں خوشی اور خضو کے ساتھ اللہ رب العالمین سے راز و نیاز کرتا یعنی عبادت کرتا دعا مانگتا جیسے ہی وہ اس خوبصورت چہرے والے بچے میں بدلہ دوڑتا ہوا اس خاتون کے پاس اگیا ان سے لپٹ کر کہنے لگا اپ میری والدہ ہیں میں اپ کو اپنی ماں کہتا ہوں کہ اپ بھی مجھے بیٹا مانتی ہیں وہ خاتون تو ویسے ہی کرشمہ دیکھ رہی تھی اللہ والے نے کہا بیٹی تمہاری دعاؤں کا تمہارے اچھے اور نیک عمل کا یہ نتیجہ ہے پھر اپ نے ان محلے والوں کی طرف دیکھ کر کہا اے انسانو اس سے پہلے تم سب پر کوئی عذاب ائے سنبھل جاؤ اور معافی مانگو ان سب نے معافی مانگی اور اللہ والے کے دست حق پر تائب ہوگا یعنی توبہ کی اللہ والے کا کام ہو چکا تھا اپ وہاں سے اپنی بکریوں کے ریوڑ کو لے کر چلے گئے کسی اور بستی میں کسی اور کے مسئلے کو حل کرنے کیونکہ اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں زندگی کا مقصد اوروں کے کام انا 

Leave a Comment