ایک اللہ والے سوسال کی بڑھیا کا حج کا سفر اور رنگین پروں والا کبوتر بن گیا موچی کا بیٹا ایک اور بہت ہی خوبصورت سا واقعہ اپ کی خدمت میں پیش ہے تو اپ نے اس سے سبق حاصل کرنا ہے ویڈیو کو لائک اور شیئر ضرور کیا کریں اور یہ پرانے دور کی بات ہے حج کا مہینہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا ایک اللہ والے جن کو ہر سال حج کی سعادت ملتی تھی تو اپ بڑے شوق سے حج پر جایا کرتے آپ بیت اللہ اور مدینہ پاک کی زیارت بھی کرتے اور بہت ساری دعائیں مانگا کرتے اس سال بھی جب اپ حج کا فرض ادا کرنے جا رہے تھے تو دل میں جوش اور جذبہ تھا اس وقت یا تو پیدل سفر کیا جاتا تھا یا اونٹ وغیرہ پر جاتے تھے اوراپ کے پاس کوئی اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ اونچی نسل کے جارمل رکھتے تو پیدل سفر کرتے ہوئے اپ ایک گاؤں پہنچے سوچا کہ میں کچھ دن یہاں ٹھہر جاتا ہوں حج میں تو ابھی کافی دن بچے ہیں جونہی اپ اس گاؤں میں اگئے تو ادھر بہت چہل پہل ہو رہی تھی سب اپنے ہی کاموں میں لگے ہوئے تھے کہ اپ کو ایک بڑھیا دکھی جو ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی اس کی جھکی قمر اور چہرے کی جھریاں اس کی عمر کا پتہ دے رہی تھی اس کے پاس ا کر اپ نے اس کا حال چال پوچھا اور اسے کہا کہاں رہتی ہو اپ اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس انکھیں بند کیے بیٹھی نہ جانے کیا سوچ رہی تھی اپ نے نظر دوڑائی تو تھوڑے ہی فاصلے پر ایک موچی کی دکان تھی شکل سے بھلا انسان لگ رہا تھا اور وہ کڑی دھوپ میں بھی اس بنا چھت کی دکان میں بیٹھا جوتے سی رہا تھا اس کی پیشانی پر پسینہ تھا وہ بڑی لگن سے جوتے سی رہا تھا اپ کو اس کے چہرے پر عجیب سی چمک نظر ائی اپ بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئے اور اس نے پھر بھی سر اٹھا کر نہیں دیکھا وہ اپنے کام میں ایسا مگن تھا کہ اپنے پاس کسی کو کھڑا پا کر بھی اس نے اس کی طرف توجہ نہیں دی اللہ والے خود بھی تو اتنے محنتی ہوتے ہیں اور حلال روزی کمانے والوں کے دوست ہوتے ہیں جس طرح اللہ ان کا دوست ہوتا ہے اب بہت دیر تک اس کے پاس کھڑے اسے دیکھتے رہے لیکن اس نے اپ کی طرف توجہ نہیں دی اپ نے پکارا اے بھائی کیا بہت ضروری کام ہے جو سر اٹھانے کی فرصت نہیں اسے چونک کر اپ کی طرف دیکھا اور ایک اجنبی بزرگ کو دیکھ کر وہ فورا کھڑا ہو گیا اس کے دل میں اللہ والے کی عزت اگئی اس نے کہا جی حضرت بس وہ میں جوتا سی رہا تھا وہ تو میں بھی دیکھ رہا ہوں اور یہ تمہارے کام سے محبت کو دیکھ کر مجھے اچھا لگا موچی نے کہا مجھے کام کرنا بہت پسند ہے لیکن وہ کہتے ہی خاموش ہو گیا اس کی انکھوں میں گہری اداسی تھی اپ نے پوچھا کیا ہوا تم کیوں پریشان ہو اس نے کہا نہیں پریشان نہیں ہوں میں تو ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتا ہوں تو پھر ایسی کون سی بات ہے جس نے تجھے پریشان کر دیا اس نے بات پلٹ کر کہا اپ کون ہیں پہلی بار یہاں دیکھا ہے اپ نے کہا میں سفر کے ارادے سے نکلا ہوں اور سفر حج کا ہے لیکن ابھی حج کا مہینہ شروع نہیں ہوا سوچا کچھ دن اس گاؤں میں ٹھہر کر اگے چلو سواری نہیں ہے نا پیدل سفر کر رہا ہوں تو وقت تو لگتا ہی ہے اس بات پر اس نے فورا کہا تو ائیے اپ میرے مہمان ہیں میرے غریب خانے پر تشریف لے چلیے پھر اللہ والےنے پیچھے مڑ کر اس 100 سال کی بڑھیا کو دیکھا تو وہ وہاں پر نہیں تھی اللہ والے نے موچی سے پوچھا وہ ضعیفہ جو یہاں بیٹھی ہوئی تھی وہ کہاں چلی گئی اس نے کہا کون ضعیفہ میں کسی کو نہیں جانتا اپ نے کہا ارے تم سے ملنے سے پہلےمیں اس کے پاس گیا تھا میں نے اس بوڑھی عورت سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں رہتی ہے پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا عجیب حالت تھی اس کی سوچا تم سے معلوم کر لو لیکن تم تو اسے جانتے ہی نہیں وہ بولا جی ہاں میں نہیں جانتا چلیے اپ کو بھوک لگی ہوگی گھر چلیے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جان چھڑا رہا ہے اپ کو برا تو لگا لیکن وہ اپ کو اتنے پیار سے لے کر جا رہا تھا تو اپ نے کچھ نہیں کہا اللہ والے اس کے گھر اگئے وہاں پر اس کی بیوی تھی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ان کی شادی کو 30 سال ہو چکے تھے لیکن اب تک اولاد کی خوشخبری نہیں ملی تھی اسی وجہ سے بھی وہ اداس رہا کرتا لیکن اس بار اس کے اداس ہونے کی وجہ کچھ اور تھی اللہ والے کے انے سے اس کے دل کو ڈھارس ملی تھی اس نے بیوی سے کہا ہمارے پاس ایک خاص مہمان ائے ہیں تم ان کے لیے کھانے کا بندوبست کرو وہ دھیرے سے بولی لیکن اس وقت گھر میں تو کچھ بھی نہیں ہے ارے نیک بخت جو کچھ بھی ہے لے اؤ اس نے کہا کھانے کے لیے ایک دانہ نہیں اپ کو کیا بتاؤں وہ سوچ میں پڑ گیا اس نے کہا اچھا رکو میں اتا ہوں وہ اپنی دکان پر گیا اورایک گاہک دکان پر ایا ہوا تھا اس نے جو پیسے دیے وہ اس نے لیے پھر وہ بازار گیا وہاں سے کھانے کا سامان لے کر اپنے گھر اگیا بیوی سے کہا جلدی پکاؤ بیوی نے کھانا بنایا اور وہ کھانا صرف ایک ادمی کے لیے تھا اس نے اپنے شوہر سے کہا کہ یہ کھانا صرف ایک مہمان کے لیے ہے تو اپ ہاتھ روک لیجیے گا اس کی بیوی بھی اسی کی طرح نیک اور بڑے دل والی تھی اللہ والے کے گھر پر انے پر اس نے کوئی بھی ناک منہ نہیں بنائی نہ ہی شوہر کو ٹوکا کہ کسی راہ چلتے کو لے ائے ہو بلکہ خوش دلی سے اس نے اپ کو خوش امدید کہا اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ مہمان کے سامنے عزت رہ گئی اللہ والے سب جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے اپ نے موچی سے کہا اؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ تو وہ موچی اپ کے ساتھ بیٹھ گیا اور دھیرے دھیرے ہاتھ چلانے لگا اپ نے اسے دیکھ کر کہا کہ بھائی پیٹ بھر کر کھاؤ یہ کھانا ختم نہیں ہوگا اور اپنی زوجہ سے کہو کہ وہ بھی شامل ہو جائے اللہ والوں نے ایک پلیٹ میں تھوڑا سا کھانا اس کی بیوی کے لیے بھیج دیا دونوں حیران رہ گئے اور کہا ں وہ تین دن کے بھوکے تھے اور اس کھانے کو ایک شخص تو ٹھیک سے کھا نہیں سکتا تھا بلکہ اب ان تینوں نے ارام سے پیٹ بھر کے کھانا کھایا پھر بھی کھانا بچ گیا اپ دیکھ رہے تھے کہ وہ اس کھانے کا کیا کرتا ہے یعنی اگلے دن کے لیے رکھتا ہے یا پھر کچھ اور کام کرتا ہے موچی نے کہا بیٹھیے میں اتا ہوں وہ کھانے لے کر باہر چلا گیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد خالی برتن لے کر گھر اگیا یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ مہمان کے آنے سے رزق بھی بڑھتا ہے اور اللہ تعالی بھی خوش ہوتا ہے مہمان نوازی سے، لیکن یہ مہمان تو کچھ الگ تھے اللہ والے اس موچی کے ہر عمل کو دیکھ رہے تھے رات میں اس موچی نے اللہ والے کے لیے سونے کا انتظام کر دیا اپ نے کہا مجھے نماز پڑھنی ہے اپ کو وضو کروایا اور پھر کہا کہ اپ نماز پڑھیے میں کام سے اتا ہوں روزی بھی تو کمانی ہے اپ نے کہا بے شک اس کے بعد موجی وہاں سے چلا گیا اپ عبادت کرتے رہے جب وہ دکان پر پہنچا تو یقین نہیں ایا کہ کہاں تو اس کی دکان پر رش نہیں ہوتا تھا اور اج اس کے انتظار میں بھیڑ جمع تھی اس نے جلدی جلدی جوتوں کی مرمت کرنا شروع کر دی شام تک اس نے روز کے حساب سے زیادہ پیسے کما لیے تھے بہت خوش تھا وہ جانتا تھا کہ اللہ والے کے قدموں کی برکت سے یہ ہوا ہے اس نے بازار جا کر کھانے کا سامان اور پھل خریدے اور گھر لے کر اگیا اس نے بیوی سے کہا کہ ان میں سے ادھے پھل تم ان بزرگ کے لیے کاٹ دو وہ بولی اور ادھے رکھ دوں وہ بولا نہیں یہ میں لے کر جا رہا ہوں وہ لے کر باہر نکل گیا پھر خالی ہاتھ لوٹا بیوی کبھی پوچھتی بھی نہیں تھی کہ تم کہاں جاتے ہو اور کس کو یہ کھانا دے کر اتے ہو کیونکہ وہ اس کا تو خیال رکھتا تھا نا اچھی بیویاں ایسے ہی کرتی ہیں غرض یہ کہ وہ اللہ والے کی خوب خدمت کیا کرتا اپ کے انے سے اس کی غریبی دور ہوتی رہی اور وہ اپنا کام بھی کرتا رہا اللہ والے کے ساتھ نماز پڑھنے بھی جاتا اور ایک بار جو اللہ والے بار بار اس کو کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ وہ گھر سے نکل جاتا کبھی پیسے لے کر کبھی کھانا لے کر کبھی پھل لے کر اور خالی ہاتھ لوٹتا اللہ والوں کے پاس خاص نظر ہوتی ہے جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی اپ کوموچی کے پاس رہتے ہوئے دس دن ہو گئے تھے اور دس دنوں میں اپ نے خوب جان لیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے اور دل و جان سے اپ کا خیال بھی رکھتا ہے اور اپ کی دعائیں بھی سمیٹ رہا تھا اس کے بعد اپ نے کہا اب میں چلتا ہوں حج کا سفر بھی کرنا ہے تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے مجھے ارام دیا اللہ پاک تمہاری جھولی کو بھر دے اور تمہاری بیوی کو بھی خوب نوازے اپ کے جانے کی بات سن کر موچی کے دل میں ٹھیس اٹھی وہ رونے لگا اپ نے اسے گلے لگا لیا اور کہا کہ تم میرے ساتھ حج پر چلو گے وہ تو ایسا چاہتا ہی تھا پر اس نے خود کے دل کو تسلی دی یہ کہہ کر کہ اگلے سال صحیح اس سال تو میں نہیں جا سکتا اللہ والے نے کہا اللہ پاک کے گھر پر حاضری کے لیے سوچنا کیسا وہ کچھ نہیں کہہ سکا اللہ والے کا اس گاؤں میں انا اس کے گھر پر رہنا اور پھر وہاں سے جانا یہ سب اللہ تعالی کی مرضی کے بغیر نہیں ہوا تھا اور اپ کوئی بھی کام اللہ کے حکم کے بنا نہیں کرتے کوئی جواب نہ پا کر اپ نے کہا چلو میں چلتا ہوں لیکن مجھے افسوس ہوا کہ تمہیں حج کا کوئی شوق نہیں جبکہ ہر مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج کرنا تو فرض ہے کیا تم زیارت خانہ کعبہ نہیں کرنا چاہتے کیا تمہارے پاس سرمایہ نہیں ہے تم ابھی اس قابل ہو کے اپنی دونوں ٹانگوں پر صحت مندی کے ساتھ سفر کر سکتے ہو لیکن تم نے تو منع ہی کر دیا اپ کے اتنا بولنے پر بھی اس نے کچھ نہیں کہا اور وہ موچی نظریں جھکائے کھڑا رہا بہرحال وہ میزبان تو بہت اچھا تھا اپ نے اس کا پھر سے شکریہ ادا کیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے اللہ والے جا چکے تھے اس کے دل میں گہرا دکھ تھا کہ دل میں تو میرے بھی ارزو حج کی تھی لیکن میں کیا کروں میری مجبوری ہے وہ اپنی دکان پر اگیا اور کام کرنے لگا اللہ والے کے ان کے گھر میں رہنے سے اور ان کے جانے کے بعد بھی گراہکوں کی کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ وہ کمائی اتنی بڑھ گئی کہ اسے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ گاؤں میں پہلے تو یہی لوگ رہتے تھے اب یہ کیوں بار بار میرے پاس اتے ہیں ان میں سے کچھ چہرے ایسے تھے جو اس نے دیکھے بھی نہیں تھے خیر اسے اس بات سے کیا غرض تھی وہ تو بس روزی کو اپنے حلال کر رہا تھا اب ان کے گھر میں جو نہیں پک سکتا تھا خوب کھانا پکنے لگا اس کی بیوی خوش ہو کر کہتی کہ یہ سب انہی بزرگ کی وجہ سے ہوا ہے کہ اللہ پاک نے ہمارے لیے رزق کے دروازے کھول دیے اس موچی نے ایک صندوق رکھا ہوا تھا اور وہ اس نے پیسے جمع کرتا تھا اس کی بیوی یہی سمجھتی کہ وہ شاید حج کے لیے پیسے جمع کر رہا ہے پر وہ اسے کچھ نہیں بتاتا نہ ہی وہ اس سے پوچھتی تھی حج کا مہینہ شروع ہو گیا تھا ذلحجہ کے شروع کے دس دن جو بہت اہمیت رکھتے ہیں اس کا دل بے قرار ہونے لگا وہ موچی ڈھنڈی اہیں بھرنے لگا کہ کاش میں بھی حاجی ہوتا جو اس وقت حج کر رہے ہیں میں ان میں شامل ہوتا میں بھی ان کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کرتا اس سال میرا نام بھی حاجیوں میں اجاتا تو کتنا اچھا ہوتا پر اس کی حسرت دل میں ہی رہ گئی اور وہ محروم رہ گیا اس کی انکھوں میں انسو تھے جو اس کی انکھوں سے باہر نکلنے کو مچل رہے تھے خیر ایک دن وہ اپنی دکان پر بیٹھا جوتے سی رہا تھا کہ اسے پروں کے پھڑپھڑانے کی اواز ائی سر اٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک بہت ہی خوبصورت سا کبوتر بیٹھا ہوا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ رنگین پروں والا کبوتر تھا اور اس کی نسل جیسا اج تک اس نے وہاں پرندہ نہیں دیکھا تھا ایسا لگا کہ وہ اسی کے لیے ایا ہے موچی نے اسے ہاتھ میں لے لیا تو وہ خوشی خوشی اس کے ہاتھ میں بیٹھ بھی گیا اس نے اسے پیار کیا اور اپنا کام کرتا رہا شام کو جب اس نے اپنے کام کو ختم کر لیا تو اس کبوتر کو لے کر اپنے گھر اگیا اس کبوتر کے انے سے اس کی بیوی کا اکیلا پن بھی دور ہو گیا ان کا کوئی بچہ تو تھا نہیں کبوتر کے ساتھ وہ دل بہلاتی اس کا خیال رکھتی جب شوہر گھر پر نہیں ہوتا تو وہی کبوتر اس کے بچوں کی طرح اس کے پاس رہتا وہ غم جو اسے ستا رہا تھا کہ اس نے حج نہیں کیا تھا کبوتر کے ان کے گھر میں انے سے وہ غم بھی ہلکا ہو گیا جیسے امید کی کرن نظر ائی اسے اللہ والے کی یاد انے لگی کہ کتنے مہربان تھے وہ کیا تحفہ دیاکہ وہ کبوتر صبح گھر سے کہیں چلا جاتا اور کچھ گھنٹوں کے بعد واپس ا جاتا پہلا پہل تو وہ میاں بیوی ڈر گئے کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے لیکن وہ اس طرح انا جانا کرنے لگا تو وہ سکون میں اگئے کہ کہیں جاتا ہے اور واپس ا جاتا ہے ہو سکتا ہے اپنے خاندان سے ملنے جاتا ہو ان کا بھی تو خاندان ہوتا ہے نا موچی اور اس کی بیوی کو اس کی بہت عادت ہو گئی تھی جیسے کوئی اپنی اولاد کے لیے بے چین ہوتا ہے اسی طرح دونوں اس کو دیکھ کر جیتے تھے ایک رات کی بات ہے جب بیوی سو رہی تھی تو موچی نے وہ صندوق اٹھایا اور گھر سے باہر چلا گیا اور پھر سے خالی ہاتھ لوٹا بیوی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس کا شوہر کیا کرتا ہے کیونکہ یہ وہ کسی کو نہیں بتاتا تھا وہ گھر اگر سو گیا اس وقت تو کبوتر اپنے گھونسلے میں سو رہا تھا فجر کے وقت کبوتر روزانہ کی طرح جب گھر سے گیا تو انہیں لگا وہ لوٹ ائے گا ہمیشہ کی طرح اس لیے اس بات کی دونوں کو فکر نہیں تھی موچی کام پر چلا گیا تھا بیوی گھر کے کام کرنے لگی موچی کو تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں تھی شام تک راہک ایک کے بعد ایک اس کے بعد اتے رہے اب یہاں سارا دن گزر گیا پرگبوتر نہیں ایا بیوی کا دل کانپنے لگ گیا کہ کہیں اسے کچھ ہو تو نہیں گیا شام کو جب موچی کام سے لوٹا تو وہ روتی جا رہی تھی اس کے انسو ہی نہیں رک رہے تھے جیسے کسی ماں سے بچہ چھن جاتا ہے اس کا بھی وہی حال ہو رہا تھا موچی فکر مند ہوا کہ ایک ہی تو خوشی بھری تھی پر وہ بھی کیوں دور کر دی گئی صبح تک دونوں کے کان پروں کی پھڑپھڑاہٹ پر لگے رہے پر اس کو انا تھا وہ نہ ایا فجر پڑ کر بڑی دقتوں سے اپنی بیوی کو اس نے سلایا اور موچی کام پر چلا گیا ظاہر سی بات ہے اللہ اللہ کر کے گراہک انا شروع ہوئے تھے وہ روزی روٹی پر لات تو نہیں مار سکتا تھا پر اس نے سوچ لیا تھا کہ کبوتر کو میں ڈھونڈنے تو جاؤں گا تھوڑا وقت نکال کر لیکن سارا دن اسے وقت ہی نہیں ملا ادھر موچی کی دکان پر گرہک کی بھیڑ بڑھ رہی تھی وہ لوگ کون تھے اس گاؤں کے تو نہیں لگتے تھے کیونکہ گاؤں والے تو چند ایک ہی ہوں گے جو اس سے اپنے جوتے سلواتے ہوں گے یہ گاہک کسی اور گاؤں سے اتے تھے وہ کام بھی چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اور بیوی تھی جس کا دم نکلا جا رہا تھا وہ سخت پریشان تھا الجھن تھی جس کے بنا اپ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے وہ اپ کو اچانک چھوڑ کر چلا جائے تو کیا ہوگا تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی اسی طرح اس شخص کے دل کی حالت تھی۔ بیوی کا تو حال ایسا تھا کہ اس کے بدن سے لہو نکال لیا گیا ہو اس کی زندگی اسے چھین لی گئی ہو کبوتر جو اس کو مل کر بھی نہیں مل پا رہا تھا اس رنگین کبوتر کو اس نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا پر وہ اسے نہیں ملا اپنی دکان پر بھی وہ جاتا تو سوچتا شاید وہ ا جائے گا لیکن وہ نہیں ایا وہ کسی سے اپنے دل کی بات کہہ بھی نہیں سکتے تھے وہ اللہ والے کو یاد کرنے لگا کہ یہاں وہ ہوتے تو میں ان سے اپنے دکھ کو بیان کرتا پر وہ تو حج کے ارکان پورے کر رہے ہوں گے وہ تو ابھی نہیں آسکتے ہیں وہ بیوی کو تسلی دیتا کہ صبر سے کام لو اللہ تعالی کسی بندے کو اس کی برداشت سے زیادہ دکھ نہیں دیتا اس کی بات پر نیک بیوی کہنے لگی کہ میرے جیون میں اولاد کی ہی تو ایک کمی تھی کیا میں کبھی ماں نہیں بن سکوں گی کیا میری یہ خوشی ہمیشہ ادھوری رہ جائے گی وہ کیا کہتا سوائے رونے کے اللہ تعالی نے ان کے دن تو پھیر دیے تھے لیکن ایک طرف ان کو کبوتر کے جانے کا صدمہ بھی دے دیا تھا اس طرح حج کا مہینہ گزر گیا موچی کی بیوی تو دعائیں کرتی نہ تھکتی تھی کہ اخر کار اس کی دعا قبول ہو گئی رنگین پروں والہ کبوتر واپس اگیا پر وہ اکیلا نہیں تھا وہ اللہ والے بھی مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ ائے تھے موچی کی بیوی اور اسے یقین نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اللہ والے جو ناراض ہو کر گئے تھے کہ تم حج کیوں نہیں کر رہے ہو وہ اس طرح اچانک ا جائیں گے اور کبوتر جو ان کے ہاتھ پر بیٹھا ہوا تھا ان کی انکھوں میں سوال تھے یہ سب کیا ہے اللہ والے نے کہا مجھے بیٹھنے دو پھر جواب بھی مل جائے گا موچی کو ہوش ایا اس نے اللہ والے کے لیے کھانے کا بندوبست کیا اس کی بیوی بھی جوش میں کھانا پکا رہی تھی جب کھانا کھا لیا گیا تو اللہ والے نے کہا ہم جانتے ہیں کہ تم لوگوں کو کس بات کا انتظار ہے پر تم ذرا اپنا راز تو کھولو موچی نے پوچھا کون سا راز اللہ والے نے کہا صندوق کا راز وہ چپ رہا بیوی اس کی طرف سوالی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی پھر اس صندوق کی جگہ دیکھی صندوق تو سچ میں غائب تھا کبوتر کی تڑپ میں اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ صندوق تو وہاں ہے ہی نہیں موچی کچھ دیر خاموش رہا پھر کہا وہ جس کی امانت تھا اسے دے دیا کس کو دے دیا اللہ والے نے پھر پوچھا اسے دے دیا وہ ایک ضعیفہ تھی یہ تو وہی تھی جو پیڑ کے نیچے بیٹھی رہتی تھی یہ تو چل بھی نہیں سکتی تھی بیوی نے کہا تو وہ جوان عورت کی طرح چلتی ہوئی اس کے پاس ائی چہرہ چاند کی مانند روشن تھا وہ کہنے لگی اس جیسا انسان میں نے اج تک نہیں دیکھا اتنا بڑا دل تو بہت کم کسی کا ہوتا ہے پر یہ بچہ تو میرے لیے وہ کر گیا ہے جو اپنے پیٹ سے پیدا کی گئی اولاد بھی نہ کرتی جانتی ہوں اگر کوئی اچھا عمل کرتا ہے تو جتاتا ہے دنیا کو پتہ بھی ہوتا ہے اس کے نیک عمل کے بارے میں لیکن اس نے میرے ساتھ جو کچھ کیا اپنے اپ کو بھی اس کی خبر نہ ہونے وہ کہتے ہیں نا کہ کسی کی مدد ایسے کرو کہ بائیں ہاتھ کو بھی اس کی خبر نہ ہو اس موچی نے تو اپنی عمر بھر کی پونجی مجھے دے دی اور کیوں دی اللہ والے نے پوچھا کیونکہ یہ مجھے حج کروانا چاہتا تھا میرا کوئی بیٹا نہیں تھا نہ میرا شوہر ہے اور یہ میرا بیٹوں کی طرح خیال رکھتا اس سال میں نے اسے خواہش ظاہر کی کہ میں حج کرنا چاہتی ہوں پر میرے پاس تو اتنا پیسہ نہیں ہے تو میں کس طرح اس در پر حاضری دوں گی یہ خود اتنی محنت کرتا تھا دھوپ میں جل کر جوتے سیدھا تھا میں دیکھتی تھی تو میں اس کو کیا کہتی بس یہ میرا خیال رکھتا جو کچھ اس کے پاس کھانے کے لیے ہوتا مجھے لا کر دیتا پھر ایک دن میرے پاس یہ صندوق لے کر ایا اور کہا یہ لے ماں جی اپ حج پر جانا چاہتی ہیں انتظام ہو گیا جب اس نے صندوق کھولا تو اس میں پیسے تھے میرا دل جھوم گیا میں نے اسے کہا بیٹا تو تو جوان ہے تو حج پر چلا جا لیکن اس نے کہا نہیں میں نے اپ کے لیے نیت کی تھی اپ ہی جائیں گی یہ بہت پریشانی میں تھا میں اس سے پوچھ نہیں سکی کہ یہ اتنی الجھن میں کیوں ہے بس یہ صندوق پکڑا کر چلا گیا پیسہ میرے پاس ا چکا تھا لیکن میں اکیلے کیسے جاتی میں سوچ ہی رہی تھی کہ میرے پاس یہ کبوتر اڑتا ہوا ایا اور یہ بولنے لگا کہ میں اپ کی سواری بنوں گا مجھے ہنسی اگئی اتنا ننھا منا پرندہ بھلا مجھے کیسے سوار کرے گا اپنی پیٹھ پر لیکن اس نے کہا اللہ تعالی چاہے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا کیا اپ کو اپنے رب پر بھروسہ نہیں اخر موچی کے پاس کیسے پیسے ائے کیا وہ اس قابل تھا کہ اپ کو اس صندوق میں پیسے بھر کر دیتا لیکن اللہ تعالی نے ہر کسی کو کسی نہ کسی کا وسیلہ بنایا ہے کوئی دعا کرتا ہے کوئی ہاتھوں سے مدد کرتا ہے اور کوئی صرف نظروں سے ہی کام چلا لیتا ہے واللہ والے کی مثال دے رہا تھا کہ اللہ والوں کی نگاہیں جب کسی پر پڑ جاتی ہیں تو بگڑے کام بن جاتے ہیں پھر میں نے اس کبوتر سے کہا لیکن تم تو اتنے چھوٹے سے ہو میں تمہاری پیٹھ پر کیسے سوار ہو سکوں گی اس نے کہا اللہ تعالی کا نام لے اور پڑھیے اللہ اکبر اور پھر میری انکھوں نے وہ منظر دیکھا یہ اتنا بڑا ہو گیا کہ میں اس پر ارام سے بیٹھ گئی اس نے ہی تو مجھے اپنی پیٹھ پر بٹھا کر حج کروایا کسی کو بھی پتہ نہیں چلا اور میں نے اس کبوتر کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کیا بغیر کسی تھکان کے پھر تبھی میری ملاقات ان اللہ والے سے ہوئی اور انہی کے ساتھ میں واپس اگئی موچی اور اس کی بیوی اللہ والے کو دیکھنے لگے اللہ والے نے کہا ضعیفہ بالکل ٹھیک کہتی ہے دراصل یہ کبوتر ہمارا ہی ہے اور ہمارے ہی کہنے پر یہ تمہاری نگرانی کر رہا تھا جب میں تم سے سوال کر رہا تھا کہ تم اس سال حج کیوں نہیں کر رہے ہو تم نے کوئی جواب نہیں دیا میں جانتا تھا کوئی تو ایسی بات ہے جس کی وجہ سے تم خاموش ہو اور وہ کوئی نیکی ہی ہے راز تو معلوم ہو گیا تھا پھر میں نے اپنے کبوتر کو بھیجا اور وہ تمہارے بیٹے کی طرح ہو گیا اس کی وجہ سے تمہارے گھر میں رونق اگئی یہ صبح جو گھر سے نکلتا تھا تو ہمارے پاس ہی اڑتا ہوا اتا اور حرم کے فضاؤں میں گھوم پھر کر پھر تمہارے گھر ا جاتا جس دن تم بڑھیا کو صندوق دے کر ائے اسی دن یہ وہاں پہنچا اور اس طرح اس نے ضعیفہ کو حج کروا دیا تمہاری تڑپ تمہاری لگن اللہ پاک نے دیکھی تم نے کس طرح بیٹا نہ ہو کر بھی بیٹے کا فرض ادا کیا اللہ تعالی نے تمہاری محنت کو ضائع نہیں جانے دیا یہ تو اپنے سگے بھی اپنی ماں کو پوچھتے نہیں ہیں پر تم نے بیٹا نہ ہو کر بھی ماں کا خواب پورا کیا تو اللہ تعالی تم سے کیوں نا راضی ہوتا دونوں میاں بیوی رو رہے تھے کہ کبوتر اڑتا ہوا ایا اور جب ان کے پاس آکر بیٹھ گیا اللہ والے نے کہا اگر اللہ تعالی کی ذات پر یقین کرنا ہے اور بھروسہ رکھنا ہے تو تم ان پرندوں سے سیکھو اس کا یقین تھا کہ اس بڑھیا نے حج کیا اور اب یہ اس کی ہی فرمائش ہے کہ میں دعا کروں کہ یہ اللہ تعالی کے کرم اس کی عطا اور اس کے کن کہنے سے تمہارا بیٹا بن جائے کہ تم اس بات کو مانو گے وہ دونوں میاں بیوی تو انکھیں پھاڑے اللہ والے اور اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے کہ اللہ والے کیا کہہ رہے ہیں اور اپ نے اسی وقت دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے پھر وہ کبوتر جو زمین پر بیٹھا ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بچے کی شکل میں بدل گیا ممتا کی پیاسی نگاہیں اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں اللہ والے نے کہا یہ سب اللہ تعالی کی مرضی سے ہے اور اس کے حکم کے بغیر تو کوئی پتہ ہل بھی نہیں سکتا وہ جب چاہے جسے چاہے اولاد عطا کر دے تو تمہارا شوہر ایک بڑھیا کا بیٹا بن کر اس کو حج کروا سکتا ہے تو کیا کبوتر تمہارا بیٹا نہیں بن سکتا موچی کو تو سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کن الفاظوں میں اللہ والے کا شکر ادا کرے اللہ والے نے کہا تم نے جس طرح مجھے مہمان بنایا بنا کسی سوال جواب کے مجھے اپنے گھر میں ٹھہرایا خود بھوکے رہ کر مجھے کھانا کھلایا پھر کھانا ملنے پر اس کھانے کو اس ضعیفہ کو دے کر ائے تم نے اسے بھوکا نہیں رہنے دیا اپنے حصے میں سے اس کا حصہ نکالا تو اللہ رب کریم کیسے تمہاری اس بیوی کی دعا قبول نہیں کرتا جو تمہارے اس نیک عمل میں تمہارے ساتھ تھی لو بیٹی اج سے تم بھی صاحب اولاد ہو گئی تمہیں بھی اللہ پاک نے بیٹا عطا کر دیا یاد رکھو یہ سب صرف اللہ رب دوعالم کا کرم ہے اور اسی کی عطا ہے اور اسی کا کام ہے ہمارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ ہم یہ کام کر سکیں ہاں ہم کوشش کر سکتے ہیں کیونکہ کوشش کرنا بندے کا کام ہے اور اس طرح وہ کبوتر ان کا بیٹا بن کر ان کی زندگی میں شامل ہو گیا اور پھر اگلے سال اس موچی کو اللہ پاک نے اتنا نوازا کہ اس نے اپنی بیوی بیٹے اور ضعیفہ کے ساتھ حج بیت اللہ کیا اور اس بار اللہ والے اس کے ساتھ تھے بے شک جو کسی کے ساتھ اچھا کرتا ہے اس کے ساتھ بھی برا نہیں ہوتا