بسم اللہ الرحمن الرحیم
کربلا میں حضرت غازی عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار و گفتار کو جان کر آپ کا ایمان مزید تازہ ہو جائے گا آج بھی حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر سننے والوں کی آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں ہم آپ کے ساتھ غازی عباس کی شہادت کا مکمل واقعہ شیئر کریں گے لہذا ویڈیو کو اینڈ تک دیکھیں اور سکپ نہ کریں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ جنتی عورتوں کی سردار حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات کے بعد حضرت علی شیر خدا نے اپنے بھائی عقیل سے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے ایسی عورت تلاش کریں جو اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتی ہوں تاکہ ان سے ایک بہادر اور دلیر اولاد پیدا ہوئے جو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا مدد گاربنے۔ لہذا جناب عقیل نے بنو قلبیا کی ایک خاتون فاطمہ بنت حزام کا نام پیش کیا۔ جنہوں نے ام البنین کہا جاتا تھا ان کا خاندان بہادری پاکیزگی اور مہمان نوازی میں عرب میں سب سے مشہور قبیلہ تھا۔ لہذا مولا علی نے ام البنین سے نکاح کرلیا اور سن26 ہجری میں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی بچے کو مولا علی نے اپنی گود میں لیا اور بچے کا نام عباس رکھا۔ عباس شیئر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جائیں آپ نے ان کے کانوں میں اذان دی اور بازوں کا بوسہ لے کر رونے لگے اس پے اُمل بنین نے کہا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ۔مولا علی نے فرمایا کہ کربلا میں تمہارے بیٹے کے دونوں بازو کاٹ کر تن سے جدا کر دیے جائیں گےاور اللہ پاک کٹے ہوئے بازو کے بدلے آخرت میں انہیں دو پر عطا فرمائے گا ۔حضرت عباس ابن علی نے نہایت ہی حسین اور خوبصورت چہرہ پایا تھا کہ جب آپ گھوڑے پر سوار ہوتے تو آپ کے پاؤں زمین پر لگ جاتے تھے حضرت علی فرماتے کہ یہ عباس ہیں ۔یہ بنو ہاشم کے چاند ہیں اس لئے غازی عباس کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا غازی عباس کا اہم واقعہ کربلا میں شرکت ہے جس میں آپ نے امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی کا ساتھ دے کر وفا اور قربانی کی مثال پیش کر دی۔ میدان کربلا میں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی ایک مثال ہے تاریخ نے کبھی ایسی وفاداری اور جانثاری نہیں دیکھی کربلا میں غازی عباس کی عمر 35 سال کے لگ بھگ تھی امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حسین کا علم دار قرار دیا تھا آپ حسینی فوج کے ایک قابل سپہ سالار تھے ریوایتوں میں آتا ہے کہ جب تک غازی عباس حسینی لشکر کے ساتھ رہے یزیدیوں کا لشکر چین سے سو نہیں پایا تھا۔ جب عاشورہ کی رات امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام ساتھیوں سے فرمایا کہ رات کے اندھیرے کا سہارا لے کر جس کا جی چاہے وہ یہاں سے مجھے چھوڑ کر جا سکتا ہے اور اپنی جان بچا سکتا ہے کیونکہ کل کی صبح شہادت یقینی ہے اس وقت سب سے پہلے غازی عباس نے اپنی وفاداری کا اعلان فرمایا اور کہنے لگے اے امام ہم کس وجہ سے آپ کو تنہا چھوڑیں ہم آخری سانس تک آپ کی حمایت میں رہیں گے تین دنوں سے پانی بند تھا تین دنوں سے امام حسین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کا لشکر اور امام حسین علیہ السلام کے بچوں کا پانی بند تھا ۔دس محرم کے دن پیاس کی وجہ سے جب بچے خیمے میں رونے لگے امام حسین علیہ السلام کی بیٹی سکینہ پانی پانی پکار رہی تھی جب جناب عباس نے یہ منظر دیکھا تو آپ سے رہا نہ گیا ۔فرمانے لگے امام حسین علیہ السلام کو کہ بھائی میں پانی لینے جاتا ہوں تو امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اجازت دے دی۔ حضرت غازی عباس پانی لینے کے لیے دریا فرات کی طرف نکلے اس وقت کربلا میں پانی کا کوئی وسیلہ نہ تھا سوائے دریا فرات کے اس وقت ظالموں نے دریا پے پہرے لگا رکھے تھے آج آزاد بہہ رہا ہے 4000 یزیدی لشکر دریائے فرات کے کنارے کھڑا تھا ۔غازی عباس دریائے فرات کی طرف بڑھے تو عمر بن حجاج اور اس کے سپا ہی راستہ روکنے کے لئے آگے آ گئے غازی عباس سے ان کی جنگ ہوئی لیکن بنو ہاشم کے اس بہادر نوجوان کے سامنے کون ٹک سکتا تھا ۔آپ نے دشمن پر ایسے حملے کئے کہ انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا گازی عباس دریا کے کنارے پہنچے پانی کو ہاتھوں کے چلو سے اٹھایا آپ خود بھی شدید تین دن کے پیاسے تھے لیکن جب آپ کو خیال آیا کہ خیمے میں ان کی پیاری بھتیجی سکینہ پانی کے انتظار میں ہوں گی تو آپ نے پانی نہیں پیا ۔لہذا آپ نے پانی سے ہاتھوں کو واپس کھینچ لیا اور مشکیزے میں پانی بھر کرخیمے کی طرف روانہ ہوئے اچانک یزیدی لشکر نے پیٹھ پیچھے حملہ کر دیا ۔ان ظالموں نے تیروں اور نیزوں کی بارش کر دی۔ جناب عباس زخمی ہوگئے۔ جناب غازی عباس نے پانی کی مشک کو کندھوں پہ لیا اور یزیدی لشکر سے لڑنے لگے اس شیرکی ایک دھاڑ سے سپاہی چاروں طرف بکھر جاتے تھے۔ آخر یزیدی سپاہیوں نے تیر سے اس مشکیزے کو بھی توڑ دیا سخت لڑائی شروع ہو گئی ۔غازی عباس کی تلوار جس پر بھی پڑتی اس کے دو ٹکڑے کر دیتی ۔حضرت عباس اکیلے اور ہزاروں کا یزیدی لشکر تھا کتنے ہی یزیدیوں کو آپ نے مار ڈالا اچانک پیچھے سے ایک سپاہی نے آپ کے ہاتھ پر حملہ کیا اور آپ کا ایک بازو کٹ گیا جب ایک بازو کٹا تو تلوار نیچے گر گئی اپنے دوسرے ہاتھ سے تلوار کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے جنگ کرنے لگے جناب غازی عباس کی بہادری کو سلام جب آپ کا ایک بازو کٹ گیا تو آپ نے دوسرے ہاتھ سے تلوار اٹھائی اور یزیدی لشکر سے جنگ کرنے لگے۔ یزیدی لشکر نے آپ کے دوسرے بازو پر بھی تلوار سے حملہ کیا اور آپ کا دوسرا بازو بھی کٹ گیا اور آپ زمین پر گر گئے اتنے میں ہی امام حسین علیہ السلام تیز رفتار سے بھاگتے ہوئے اپنے بھائی غازی عباس کے پاس آئے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی کو گود میں لیا ۔حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بھائی کی طرف دیکھا اور فرمایا میرے بھائی میرے بھائی اور آپ اللہ کو پیارے ہوگئے امام حسین علیہ السلام رونے لگے اور فرمانے لگے کہ آج عباس کی شہادت سے میری کمر ٹوٹ گئی فرات کا بھاؤ سردیوں کی طرح تاریخ ہو گیا ۔آسمان سرخ ہو گیا اور ہاشمیوں کا یہ چاند دس محرم 61 ہجری فرات کے کنارے شہید ہوگیا ۔خدا کے شیر کو علی کہتے ہیں اور علی کے شیر کو عباس کہتے ہیں ۔سلام غازی عباس کی بہادری پر اور سلام ہو امام حسین علیہ السلام پر اور سلام ہو پیارے نبی سرکار دوعالم پر جنہوں نے اللہ کا دین بچانے کے لئے اپنی اور اپنے بچوں کی قربانیاں دےدی اسلامک معلومات کے لیے اور اس طرح کی نیو ویڈیو کے لیے ہمارے چینل کو سبسکرائب کر لیں