ناظرین میدان کربلا میں عصر کے وقت کوفیوں کے چند لٹیرے شمر کی ماعیت میں اگے بڑھے تمام اہل بیت کو ایک خیمے میں جمع کر کے باقی خیموں کو اگ لگا دی اگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور ال رسول کے دل ڈوب رہے تھے شیطان کے ساتھی مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے .کپڑے اکٹھے کرنے شروع کر دیے سیدہ سکینہ کے کانوں کی بالیاں کھینچنے لگے بچی نے احتجاج کیا تو اسے تھپڑ مار دیا اس سے بڑھ کر ظلم و ستم کی داستان اور کیا ہوگی کتنے بے حیا تھے وہ ہاتھ جو حسین کی بچی پر اٹھے کتنے بے غیرت تھے وہ ہاتھ جو علی کی پوتی پر اٹھے اب ایک بیمار کی باری تھی بے ہوش امام زین العابدین کو شمر نے پورے زور سے گھسیٹا تو بیمار نے انکھیں کھول دی سر پر ظالموں کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ ان خیموں کا محافظ بھی شہید ہو چکا ہے شمر نے ساتھیوں کو کہا کہ اس کا بھی سر قلم کر دو جناب سجاد سنبھل کر اٹھنے لگے تو علی کی بیٹی کو جلال اگیا سیدہ زینب نے غضب میں ا کر فرمایا بغیر تو کچھ تو شرم کرو اب بیمار کو بھی قتل کر دو گے اؤ پہلے ہمیں قتل کر لو پھر اسے قتل کرنا بات یہیں تک پہنچی تھی کہ عمر ابن سعد بھی اگیا اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اب لوٹ کھسوٹ ختم کر کے یہاں سے چلے جاؤ اور بیمار کو قتل نہ کرو اب خاندان اہل بیت کے تمام افراد ایک ہی خیمے میں بیٹھے ہوئے اپنی حالت زار پر رو رہے تھے اتنے میں شام کا وقت ہو گیا اور پھر نماز مغرب کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے ناظرین یزیدی اپنے مرداروں کو دفن کرنے کے بعد اپنے پڑاؤ میں شام کے وقت فتح منا رہے تھے اور خاندان رسول کی شہزادیاں ایک بیمار کے سرہانے بیٹھی اپنی حالت پر رو رہی تھی پیاسوں کو چوتھی رات ہو گئی تھی اب تو بھوک پیاس کا احساس ہی ختم ہو چکا تھا صبح عاشورہ کے وقت ان پاک دامنوں کے ساتھ کتنے لوگ تسلیاں دینے والے تھے مگر اب تو ایک بھی نہیں تھا کون سہارا دیتا کربلا کے وحشت ناک صحرا میں کون تسلی دینے اتا اپنا وطن ہوتا اپنا شہر ہوتا اپنا گھر ہوتا تو کچھ ڈرس بھی بنتی مگر یہاں تو نہ وطن اپنا تھا نہ شہر اپنا تھا اور نہ گھر اپنا تھا ہاشمی شہزادے سوئے پڑے تھے جناب عبدالمطلب کے چھوٹے بڑے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے جناب ابو طالب کی ساری اولاد کٹ چکی تھی کربلا میں جتنے ہاشمی شہید ہوئے وہ سب جناب ابو طالب کی اولاد تھی ان تمام حالات میں خاندان اہل بیت کی اللہ رب العزت کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں تھا اب ان کے سامنے تو ایک اور امتحان کھڑا تھا انہیں شہیدوں کی لاشوں کا پہرہ دینا تھا رات سر پر اگئی تھی بیمار کر رہ رہا تھا سیدہ سکینہ فریاد کر کے اس طرح خاموش ہو چکی تھیں جیسے موت کی اغوش میں پہنچ چکی ہوں ساری پاک دام نے رو رو کر اپنا دامن تر کر رہی تھی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کئی بار جا کر بائی کا بغیر سر کے لاشہ چوماتی تھی کبھی خیمے میں ا کر بیمار کو دیکھ لیتی تھی اور کبھی بھائی کے لاشہ اقدس پر پہنچ جاتی تھی رات اتی سے زیادہ ڈھل چکی تھی سیدہ زینب نے دیکھا کہ ذرا دور ہٹ کر دو سائے سے نظر اتے ہیں اپ نے وہیں سے اواز دی اگے مت انا ایک پردہ نشین اپنے بھائی کی لاش پر پہرہ دے رہی ہے اواز ائی بیٹی ہم غیر نہیں ہیں ہم بھی تیرا پہرا ہی دیکھنے ائے ہیں سیدہ زینب نے پہچان لیا کہ یہ تو میرے بابا علی کی اواز ہے تسلی کے لیے دوبارہ اواز دی اپ کون ہیں پہلے بتا لو پھر اگے بڑھنا اواز ائی بیٹی ہم اگے نہیں ائیں گے میری غمزدہ بیٹی صبر کرو میں تیرا باپ علی ہوں اور یہ تیری ماں فاطمہ بنت رسول ہیں ہم تمہارا پہرہ دیکھنے کے لیے ائے ہیں سیدہ زینب نے بے قرار ہو کر اواز دی امی جان اواز ائی تھی بیٹی ماں قربان کیا بات ہے امی جان اپ لوگ کیوں گئے ا کر میرے نازوں کے پالک لاشہ تو دیکھ لو مجھے دلاسہ تو دے جاؤ اواز ائی بیٹی میں اگے نہیں ا سکتی سیدہ زینب نے پھر اواز دی ابا جان اواز ائی ہاں بیٹی میں موجود ہوں عرض کیا ابا جان اپ صبح کیوں نہیں ائے جب اپ کا گھر لوٹ رہا تھا اس وقت اپ کہاں تھے اپ اس وقت کیوں نہیں ائے جب اصغر نے تیر کھا کر دم توڑا تھا جب علی اکبر کی لاش کو اٹھاتے وقت میرے بھائی کی کمر دوری ہو رہی تھی جب قاسم کی جوانی لوٹی گئی جب عباس کے بازو قلم کیے گئے جب اونو محمد کو قصابوں نے ذبح کیا جب پسرا نے عقیل و جعفر شہید ہوئے بابا اپ کو اس وقت اس وقت انا تھا جب تیرے حسین کا تیروں اور تلواروں سے سینہ چھلنی ہوا تھا اپ اس وقت کیوں نہ ائے جب میرے بھائی کے گلے میں تیر پھنسا ہوا تھا میرے بابا میں تو اس وقت بھی اپ کو دوائی دیتی رہی المدد ابا جان پکارتی رہی دوسری طرف سے اواز ائی بھیڈی ہم اس وقت بھی ائے تھے تمہاری امی بھی ساتھ اور تمہارے نانا بھی ساتھ تھے ہم نے تمہارا پورا امتحان اپنی انکھوں سے دیکھا تمہارے نانا حضور شہیدوں کے خون کو بوتل میں جمع کرتے رہے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والی دوڑ سے تمہارے نانا کی زلفیں ہٹ گئی تھیں ہم نے سب کچھ اپنی انکھوں سے دیکھا میرے فرزند حسین نے ویسا ہی امتحان دیا جیسے ان کے نانا حضور کی خواہش تھی اے بیٹی تم نے بھی اپنا حق پورا پورا ادا کر دیا تم سب نے مجھے اور بنت رسول کو اللہ تعالی کے حضور میں سرخرو کر دیا تمہاری امی تمہاری قربانیوں سے پوری طرح مطمئن ہے تیرا بھائی بھتیجے اور ان کے تمام ساتھی ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں اور جنت میں ارام کر رہے ہیں اے میری لخت جگر ابھی تمہارے صبر کا امتحان باقی ہے تم بنت رسول کے دودھ کی لاج رکھو گی صابر و شاکر بن کر رہنا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے خدا حافظ اور پھر اواز انا بند ہو گئی سیدہ زینب کے دل کو کافی اطمینان حاصل ہو گیا تھا اور پھر باقی رات بھی گزر گئی ناظرین صبح ہوئی تو فوج یزید نے اہل بیت مصطفی کو پابند سلاسل کر لیا عابد بیمار کو باوجود ان کے نقاہت اور کمزوری اور شدت بخار کے زنجیریں پہنا دی گئی اسیران ال رسول جب شہیدوں کی لاش کے قریب سے گزرے تو ان کی رخصتی کا منظر دیکھ کر زمین و اسمان لرز کر رہ گئے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے مدینہ منورہ کی طرف روک کر کے اس طرح فریاد کی کہ سننے والوں کے سینے چاک ہو گئے ادھر انکھیں اشکبار تھیں اور دعا فرمائی جا رہی تھی اے اللہ ہماری اس قربانی کو قبول فرما اسی دوران سید الشہداء امام عالی مقام کی لاڈلی شہزادی سیدہ سکینہ جو سات سال کی تھی وہ اپنے شفیق باپ کے جسد اطہر کے ساتھ جا کر لپٹ گئیں سیدہ کو جب کافی دیر ہو گئی کہ وہ اپنے باپ کی لاش مطہرہ سے لپٹی ہوئی ہیں اور کسی طرح جدا نہیں ہوتی تو بالاخر زبردستی سیدہ کو اس کے باپ کی لاشیں مطہرہ سے جدا کیا گیا ناظرین جب یہ خاندان نبوت کا مختصر سا قافلہ محرم کی 12 تاریخ کو کوفہ کے قریب پہنچا تو عبید اللہ ابن زیاد نے شہدائے کربلا کے سرائے مبارک اور سرکار سید الشہداء کے سر مبارک کو نیزوں اور تلواروں پر سوار کر کے دارالامارت کوفہ سے ایک لشکر کے ہاتھوں عمر ابن سعد کے پاس بھیج دیا عمر ابن سعد نے لشکر کو ہدایت دی کہ یہ سرہ مبارکہ اگے اگے ہوں اور ان کے پیچھے اسران اہل بیت ہوں اور اس حال میں میرے دارالامارت کوفہ میں لایا جائے تاکہ لوگ اس منظر کو دیکھیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا خولی بن یزید ملعون امام علی مقام کا سر اقدس نیزے پر چڑھا کر قافلے کے اگے اگے جا رہا تھا راستے میں ایک شخص ملا جو سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا جب اس نے یہ ایت پڑھی کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کے غار اور جنگل کے کنارے والے ہماری نشانیوں میں ایک عجیب نشانی تھے سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر اقدس سے اواز ائی اے قران پڑھنے والے مجھے قتل کرنا اور نیزے پر چڑھا کر لیے پھرنا اصحاب کہف کے قصے سے بھی زیادہ عجیب ہے منزل ب منزل اسیران اہل بیت کا قافلہ کوفے کی طرف بڑھ رہا تھا اگے چل کر حولی بن یزید نے ساتھیوں کو قافلے کے ساتھ چھوڑ کر اپنی سواری کو تیز کر لیا وہ جلد از جلد سر امام کو ابن زیاد کے دربار میں پیش کر کے انعام حاصل کرنا چاہتا تھا ناظرین جب لوگوں نے امام علی مقام کے سر مبارک اور اسیرہ نے کربلا کو دیکھا تو وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگے پورے شہر میں کہرام مچ گیا ایک وہ وقت تھا جب خاندان نبوت کی یہی اولاد کوفہ میں شہزادگان کی حیثیت سے تھے اور اج اسیر ہو کر کوفہ میں داخل ہو رہے تھے جب سیدات اور طاہرات کا یہ قافلہ شہر میں داخل ہوا تو بازاروں دکانوں درختوں اور مکانوں کی چھتوں پر مرد عورتیں اور بچے ال نبی کا یہ منظر دیکھنے کے لیے جمع تھے شہدائے کربلا کے سرہائی مقدسہ اور اہل بیت کی بے کسی دیکھ کر بعض عورتوں کے دلوں میں ہمدردی پیدا ہوئی تو انہوں نے کھجوریں دینی شروع کر دی سی زینب نے فرمایا اے اہل کوفہ صدقہ ہم پر حرام ہے اور اپ نے وہ کھجوریں وابس کر دیں ناظرین سیدنا امام عالی مقام امام حسین کا سر مبارک نیزے کی نوک پر رکھا ہوا سب سے اگے تھا اس جلخراش منظر کو دیکھ کر بعض مرد اور عورتیں دھاڑیں مار مار کر روتے تھے اور اس وقت امام عالی مقام کا سر مبارک چمک رہا تھا اور تمام خلقت سے زیادہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ چہرہ تھا وہ چہرہ انور ماتاب کی طرح روشن تھا اور ہوا داڑھی مبارک کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی یعنی چہرہ چمک دمک رہا تھا جب لوگوں کا ہجوم ہر طرف جمع ہو گیا اور ال رسول کی سید زادیاں اس حال میں کوفہ کے بازار سے گزر رہی تھی حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ کچھ لوگ گھور گھور کر انہیں دیکھ رہے ہیں سیدہ پاک نے بلند اواز سے فرمایا تم نہیں جانتے کہ یہ خاندان نبوت کی مستورات طہارت ارہی ہے اپنی نگاہیں فورا نیچی کر لو سیدہ کے اس اواز سے ایسے لوگوں کی نگاہ نیچی ہوئی اور جب شور و غل دیکھا تو سیدہ زینب نے کوفہ کے بڑے بازار میں فرمایا خاموش ہو جاؤ اس کا فرمانا تھا کہ ہر طرف شور ہول ساکت ہو گیا سیدہ زینب نے پھر اونٹنی پر سوار کوفہ کے بازار میں مردوں عورتوں سے خطاب فرمایا شیر خدا کی اس شہزادی کا خطبہ شروع کرنا تھا کہ مولائے کائنات باب مدینۃ العلم کا لب و لےچا تازہ ہو گیا سیدہ کی فضا تو بلاغت اور علوم قران پر پہلے ہی لوگ واقف تھے اور اج کل رہا تھا کہ مولا علی بول رہے ہیں ناظرین حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کا یہ خطبہ مختلف مورخین نے مختلف انداز میں بیان کیا ہے یہ خطبہ شجاعت و فساد و بلاغت سن کر لوگ حیرت میں پڑ گئے اور دشمنوں کو بھی اس کا اقرار کرنا پڑا مسلم بن کثیر عرب کے مشہور فصحہ میں عمر رسیدہ بزرگ تھے جب سیدہ پاک نے خطبہ ختم فرمایا تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں اور ان کی داڑھی انسوں سے در ہے ہاتھ اسمان کی طرف بلند تھا اور وہ کہہ رہے تھے میرے ماں باپ اپ پر قربان اپ کے بزرگ سب بزرگوں سے بہتر اپ کے جوان سب جوانوں سے افضل اپ کی عورتیں سب عورتوں سے افضل اپ کی نسل سب نسلوں سے اعلی اور اپ کا فضل فضل عظیم ہے جو نا باطل سے دبتی ہے اور نہ باطل کے سامنے جھکتی ہے اور نہ ہی حق بات میں جھجھکتی ہے بشیر بن خزیم اسدی کا بیان ہے کہ سیدہ کی تقریر سن کر پورے مجمع پر سکوت چھایا ہوا تھا سانس لینے کی اواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی اور خطبے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ تقریر فرما رہے ہیں ناظرین خولی بن یزید کے پاس امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سر مبارک موجود تھا وہ جب کوفہ میں داخل ہوا تو اس وقت رات ہو گئی اس لیے وہ بجائے ابن زیاد کو ملنے کے اپنے گھر اگیا سر مبارک اب اس نے نیزے سے اتار لیا تھا اور کپڑے میں باندھ رکھا تھا اپنے گھر گیا تو بیوی نے پوچھا کیا لائے ہو بدبخت کہنے لگا میں نے بہت بڑا کام کیا ہے میں حسین کا سر کاٹ کر لایا ہوں جس کا حکومت کی طرف سے اس قدر انعام ملے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گی خولی بن یزید کی بیوی کا نام نوار تھا جب اس نے سنا تو رونے لگ گئی وہ روتی بھی جا رہی تھی اور غصے سے اگ بگولا ہو کر حولی ملعون کو برا بھلا بھی کہے جا رہی تھی وہ کہہ رہی تھی خدا تجھے اگ میں جلائے خدا تجھے غارت کرے تو نے جنت کے جوانوں کا سر کاٹا ہے تو نے فاطمہ کے لال کا سر کاٹا ہے تو ہمیشہ اگ میں جلتا رہے گا تیرا گھر برباد ہو جائے گا ہولی کا خیال تھا کہ انعام کا سن کر بیوی بہت خوش ہوگی مگر خون حسین کا انتقام شروع ہو چکا تھا جس گھر کو اباد کرنے کے لیے خولی بدبخت نے وحشت و بربریت کی انتہا کر دی وہ گھر برباد ہو رہا تھا نیک بخت بیوی نے سر اقدس کو پاکیزہ کپڑوں میں لپیٹا خوشبو لگائی اور سامنے رکھ کر رونا شروع کر دیا رات کا کافی حصہ روتی رہی تو اس پر نیند کا غلبہ طاری ہوا پھر ایک دم انکھ کھل گئی تو گھر میں نور کی بارش ہو رہی تھی اس نور کی چادر میں لپٹی ہوئی چار عورتیں کھڑی تھیں جیسے جنت کی حوریں اتر ائی غس سر اقدس کو باری باری ہاتھوں میں لے کر کبھی چومتی تھیں اور کبھی سینے سے لگا دی تھیں ہولی کی بیوی نے بے تاب ہو کر پوچھا حضرات اپ کون ہیں ان میں سے ایک بی بی نے جواب دیا بیٹی تم نے ہمارے بیٹے کے سر اقدس سے پیار کیا ہے اس لیے میں تمہیں بتا دیتی ہوں کہ ہم کون ہیں میں فاطمۃ الزہرا بنت رسول حسین کی ماں ہوں اور یہ میری ماں سیدہ خدیجۃ الکبری ہیں یہ حضرت مریم حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ ہیں اور یہ جناب سیدہ اسیہ ہیں اس نیک بخت نے چاہا کہ اگے بڑھ کر ان کے قدموں کو بوسہ دے لے مگر وہ ارواح منورہ سر اقدس کو بوسے دے کر غائب ہو گئیں ساری رات نور اسی طرح پھیلا رہا اور خوشبوئیں اسی طرح مہکتی رہیں صبح ہوئی تو خولی کی بیوی نے برقہ اڑا اور دروازے سے باہر نکل گئیں ہولی پیچھے دوڑا اور منت سماجت کی کہ یوں جیتے جی بچوں کو یتیم نہ کرو مگر وہ واپس نہ ائی اور یہ کہتی ہوئی دور چلی گئی کہ تیرے بچے امام حسین کے بچوں سے اچھے نہیں ہیں یوں خولی بن یزید ملعون کی بیوی جا چکی تھی اور اس کا گھر برباد ہو چکا تھا ناظرین پھر اس نے امام عالی مقام امام حسین کا سر اقدس تشت میں رکھا اور دربار ابن یزید میں پیش کر دیا ابن زیاد کے ہاتھوں میں چڑھی تھی اس نے وہ چڑی امام عالی مقام امام حسین کے دانتوں پر مار کر کہا میں نے نہ تو اس سے زیادہ خوبصورت چہرہ اج تک دیکھا ہے اور نہ ہی اس سے زیادہ اچھے کسی کے دان دیکھے ہیں صحابی رسول حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے کہا ابن زیاد ان دانتوں کو چھڑی نہ لگاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لبوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے میں نے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حسین کو بوسے دیتے دیکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جنت میں وہی جا سکے گا جو میرے حسین سے محبت کرے گا ابن زیاد نے یہ سنا تو چلا اٹھا غصے میں ا کر کہنے لگا اے بڈھے تو اگر سٹیا ناگیا ہوتا تو میں تجھے قتل کرا دیتا حضرت زید بن القم رضی اللہ تعالی عنہ یہ سن کر کھڑے ہوئے اور جاتے ہوئے کہہ رہے تھے اے لوگو اج سے تم غلام ہو تم نے فاطمہ کے بیٹے کو قتل کر دیا اور مرجانہ کے بیٹے کو حاکم منا دیا وہ نیکوں کو قتل کرتا ہے اور شریروں کو غلام بناتا ہے تم نے خود ذلت پسند کی ہے خدا انہیں برباد کرے گا جو ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں ناظرین اس کے بعد اسیران کربلا کو اب کو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو ظالم نے امام زین العابدین کو دیکھ کر کہا اس کو کیوں چھوڑ دیا ہے اسے بھی قتل کر دو سیدہ زینب نے قتل سجاد کا سنا تو جلال اگیا اپ فرمانے لگی اے ظالم حجرہ رسول کا اخری چراغ بھی کھول کر دینا چاہتا ہے کیا تم نسل مصطفی کو دنیا سے مٹا دینے پر تل چکے ہو اؤ دل کی یہ حسرت بھی نکال لو تلواریں پہلے ہم سب کو قتل کرو پھر اسے بھی کر لینا کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس بچے کو قتل نہ کرو تو اچھا ہے ابن زیاد نے پوچھا یہ عورت کون ہے لوگوں نے بتایا کہ یہ زینب بنت بتول ہے علی کی بیٹی اور حسین کی بہن ہے ابن زیاد نے کہا اسی لیے تو اتنی سخت اور تیز ہے ابن زیاد ملعون کی بے ایا زبان پر ال مصطفی کی شان میں گستاخی کے لفظ ائے تو جناب سجاد نے فرمایا پھوپھی جان میں اس سے بات کرتا ہوں اور پھر امام زین العابدین نے فرمایا میں بیمار ہوں مگر علی کا پوتا ہوں حسین علیہ السلام کا بیٹا ہوں تو مجھے جلادوں سے قتل نہیں کروا سکتا تجھے میرا مقابلہ کرنا پڑے گا میں تیرے ہاتھ سے تلوار چھین کر تجھ پر وار کر دوں گا ابن زیاد یہ سن کر گھبرا گیا اور پھر سیدہ زینب کو مخاطب کر کے بولا تم قیدی بھی ہو اور تمہارا لباس بھی فقیروں جیسا ہے تعریف اس خدا کی جس نے تم لوگوں کو رسوائی سے ہلاک اور ذلیل و خوار کیا اور تمہارے نام کو بٹا لگا دیا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا ہزاروں حمد و ثنا اور تعریفیں اس خدا کی جس نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نسبت کی عزت بخشی اور ہمیں پاک کیا تو غلط کہتا ہے رسوائی اور ذلت و خواری فاسقوں کو ملتی ہے اور بٹا فاجروں کے نام لگتا ہے ہمارے حق میں تو ایت تطہیر نازل ہو چکی ہے ابن زیاد نے کہا کیا تو نے نہیں دیکھا خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا ہے سیدہ زینب نے فرمایا ان باتوں کا پتہ خدا کے حضور نے پہنچ کر چلے گا میرے بھائی نے شہادت کے منصب پر فائض ہونا تھا وہ ہو گیا تم لوگوں نے قاتل اہل بیت بن کر خدا کے سامنے ذلیل و خوار ہونا ہے سو تم تیار رہو ابن زیاد غضبناک ہوا تو اس کے ساتھی نے اس کا غصہ ٹھنڈا کر دیا کہ عورتوں کی بات کا غصہ کرنا مناسب نہیں ہے کوئی دیر بعد ابن زیاد پھر بولا خدا نے تیرے باغی اور سرکش بھائی اور اہل بیت کے نافرمان باغیوں کی طرف سے میرا دل ٹھنڈا کر دیا سیدہ زینب نے جب یہ سنا تو اپ بے اختیار ہو کر رونے لگی اپ نے فرمایا خدا کی قسم تو نے واقعی ہمارے سردار کو قتل کیا ہے ہمارے خاندان کو مٹایا ہے ہماری شاخوں کو کاٹ دیا ہے ہماری جڑ کو قطع کر دیا ہے اگر اس سے ہی تیرا دل ٹھنڈا ہونا تھا تو ہو گیا شیطان ابن زیاد ہنسنے لگا اور ہنس کر کہنے لگا تو نے شاعری شروع کر دی تیرا باپ بھی شاعر تھا مگر وہ تو بڑا بہادر اور شجاع تھا اور تم رو رہی ہو اپ نے فرمایا ظالم یہ تو میرے دل کی اگ ہے جو انسو بن کر بھڑک اٹھی ہے ناظرین اس کے بعد عبید اللہ ابن زیاد نے اجلاس برخواست کرتے ہوئے کہا کہ ان اسیران نبی کو جامعہ مسجد کوفہ کے کمروں میں سے ایک کمرے میں قید رکھا جائے چنانچہ انہیں اس کمرے میں لے جا کر بند کر دیا گیا اور شہدائے کربلا کے سرہائی مبارکہ کو ایک کمرے میں رکھا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ عبید اللہ ابن زیاد نے اپنے ایک قاصد کے ذریعے ایک خط دے کر یزید کی طرف دمشق کروانا کر دیا یہ واقعہ محرم کی تیرویں یا چودویں تاریخ کو پیش ایا ابن زیاد نے سرہائے مقدسہ کو دمشق بھیجنے کے بارے میں لکھا کہ اگر حکم ہو تو وہاں بھیج دیتا ہوں اور دوسرا یہ کہ میرے پاس اہل بیت اسیر ہیں حکم ہو تو ان کو بھی بھیج دوں کوفہ سے دمشق کا فاصلہ سینکڑوں میل تھا محرم کی اخری تاریخوں میں یہ خط یزید کو ملا تو اس کے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد جوابی خط اسی قاصد کے ذریعے روانہ کیا گیا یزید نے لکھا کہ سرہ مبارکہ شہدائے کربلا اور اسیرہ نے اہل بیت کو میرے پاس بھیج دیا جائے پھر وہ قاصد یزید کا خط لے کر دمشق سے کوفہ لایا عبید اللہ ابن زیاد کو 16 دن کے بعد موصول ہوا اور پھر تین دن بعد اہل بیت نبوت کو کوفہ سے دمشق روانہ کر دیا گیا ناظرین جب عبید اللہ ابن زیاد کے پاس دمشق سے یزید کا پیغام تحریری طور پر پہنچ گیا کہ سرہائ شہداء اور اسیران اہل بیت کو اس کے پاس دارالامارت دمشق بھیجا جائے تو ابن زیاد نے ظہر بن قیس کی نگرانی میں شہدائے کربلا کے سرہائے مبارکہ ملک شام روانہ کر دیے اور اس کے ساتھ ابوبردہ بن عوف عزدی اور طارق بن زبیان اور تقریبا 50 ادمی روانہ کر دیے اس قافلے میں مہازر بن سالبہ اور شمر سجوشن جیسے لعین بھی شامل تھے ناظرین بعض مرخین کے نزدیک اس وقت کوفہ سے دمشق تک 23 منزلیں تھیں جبکہ کچھ مورخین نے 44 منزلیں بھی لکھی ہیں ان منازل کے تذکرے کا مطلب یہ نہیں کہ ان مقامات پر ضرور اہل بیت نے رات قیام کیا ہوگا بلکہ یہ منازل اور مقامات کوفہ سے دمشق کے سفر میں اتے ہیں اور ان راہوں اور منازل سے قافلہ اہل بیت کا گزر ہوا تھا ناظرین معتبر کتب سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ اہل بیت کا یہ قافلہ سیدھے راستے سے دمشق نہیں لے جایا گیا بلکہ بڑی پھیر کی گزرگاہوں اور دشوار منزلوں سے طویل راستہ طے کرتے ہوئے اسے اختیار کیا گیا جو 800 میل کے فاصلے تک ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ راستے میں اہل بیت اور سرائے مبارکہ کو دیکھ کر لوگ مشتعل نہ ہو جائیں اور مخالفت اور جنگ نہ ہو چنانچہ اس کے باوجود بھی بعض مقامات پر لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا تو تو بہت سے مقامات جن میں کنسیرین سیبور اور ہمس شامل ہیں وہاں شدید مزاحمت ہوئی اور ان مقامات پر یزیدی مسلمانوں سے جنگ کرتے ہوئے اور ان کی مخالفت سے بچتے بچاتے نامعلوم مقامات سے ہوتے ہوئے دمش کی طرف رواں دواں رہے اگے اگے یزیدی نواس رسول کا سر اقدس لیے جا رہے تھے اور پیچھے پیچھے پیچھے اسیرہ نے کربلا کا لوٹا ہوا قافلہ جا رہا تھا امام زین العابدین بالکل خاموش ہو چکے تھے بس مسلسل انسو برساتے جا رہے تھے یزید کے نمک ہار سپاہی جب بھی کوئی پڑاؤ اتا تو امام عالی مقام کے سر اقدس کو نیزے پر چڑھا کر پھراتے تھے ایک پڑاؤ پر ایک عیسائی راہب نے پوچھا یہ کس کا سر ہے یزیدیوں نے جواب دیا جواب دیا نوازہ رسول حسین ابن علی کا راہب نے کہا تم بہت برے لوگ ہو کیا تم اس سر کو مجھے ایک رات کے لیے دے سکتے ہو میں اس کے عوض تمہیں 10 ہزار اشرفیاں دینے کو تیار ہوں یزیدی لالچی تو تھے ہی لالچ دیا گیا ٹکڑا پھینکا گیا تو دنیا کی کتوں نے فورا قبول کر لیا اور سر اقدس راہب کے حوالے کر دیا عیسائی راہب نے سر پاک صاف اور معلوم میں لپیٹا زلفوں کو خوشبو لگائی اور گود میں لے کر ساری رات روتا رہا صبح ہوئی تو دل کی دنیا بدل چکی تھی محبت اہل بیت اپنا رنگ دکھا رہی تھی اس نے امام زین العابدین کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور یزیدیوں کو 10 ہزار اشرفیاں گن کر دے دی باقی مال گرجا میں رہنے دیا اور گرجا گھر کو چھوڑ کر تمام عمر خدمت اہل بیت میں گزار دی دوسرے پڑاؤ پر یزیدی ان اشرفیوں کو تقسیم کرنے لگے تو وہ مٹی کی ٹھیکریاں بن چکی تھیں اور ہر ٹھیکری کے ایک سمت میں لکھا تھا اور ہرگز اللہ کو ظالموں کے کاموں سے غافل نہ سمجھنا جنہوں نے ظلم کیا ہے اب وہ جانے جاتے ہیں کہ کس پلٹے پر پلٹا کھاتے ہیں ناظرین جب یہ قافلہ نجران پہنچا تو ایک یحیی نامی یہودی ملا اس نے سر حسین نیزے پر دیکھا تو پوچھا یہ کس کا سر ہے یزیدیوں نے کہا حسین ابن علی کا اس نے پوچھا کہاں سے لائے ہو انہوں نے کہا کہ کربلا میں ایسے ایسے خاندان کو قتل کر کے اب اس سر کو یزید کے دربار میں پیش کریں گے یا جانے سنا تو مشتعل ہو گیا اس نے کہا تمہیں اس فخر سے واقعہ بیان کرتے ہوئے شرم انی چاہیے تم انتہائی بے غیرت ہو اسلام لا کر بھی تم نے ال رسول کو شہید کر دیا تمہارا حشر انتہائی خوفناک ہوگا یہ سن کر یزیدی بھڑک گئے ایک نے تلوار نکال لی کہ اسے قتل کر دی پھر اس نے بھی تلوار نکال لی یزیدی فوج کا وہ سپاہی قتل ہو گیا پھر سب نے حملہ کر دیا یایا نے چار اور یزیدیوں کو قتل کیا اور پھر خود بھی قتل ہو گیا ناظرین پھر اس کے بعد موسی شہر ایا تو چند یزیدی سپاہی حاکم شہر کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ہم امیر کوفہ کے بیٹے ہوئے امیر شام کے پاس جا رہے ہیں کربلا میں یہ عظیم معرکہ سر کر کے ائے ہیں ہمیں رات یہیں گزارنی ہے ہمارے لیے خرد نوش اور رہائش کا انتظام کریں باقی لوگ پیچھے ارہے ہیں حاکم شہر نے جب یہ سنا تو لرض کر رہ گیا اور پھر اس نے شہر کے سرکردہ لوگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم ان لٹیروں کو شہر میں نہیں انے دیں گے چنانچہ شہر سے ایک فرسخ دور انہوں نے رات گزاری وہاں ایک پتھر پر سر حسین رکھا تھا وہ بتھر سرخ ہو گیا جیسے اسے خون میں ڈبو دیا گیا ہو لوگ اس پتھر کی زیارت کو دور دور سے ایا کرتے تھے اور پھر عبدالملک بن مروان نے اپنے دور اقتدار میں وہ پتھر وہاں سے اٹوا دیا جب دمشق صرف چار میل کے فاصلے پر رہ گیا تو اس مقام پر اہل بیت کو ٹھہرایا گیا اور یزید کو اطلاع دی کہ وہ دمشق میں داخل ہونے سے قبل تمام انتظامات مکمل کر لے تاکہ پھر دمشق میں داخل ہوں چنانچہ یزید کو اس کی اطلاع دی گئی تو اس نے ایک دن کا تعین کر کے اور تمام انتظامات مکمل کر کے دمشق گانے کا حکم دے دیا ابو نعیم اصفہانی نے ابن لہجہ بحمبل سے روایت کی ہے کہ جب یہ ابن زیاد کے ادمی اور سرائے مبارک اہل بیت الزام کے مختصر قافلے کو دمشق میں یزید کے پاس لے جا رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ پر حسب معمول رات کے وقت شراب پینے لگے تو اس وقت ایک ہاتھ نمودار ہوا جس میں لوہے کا ایک قلم تھا پھر اس نے خون سے یہ شعر لکھا بھلا وہ امت بھی قیامت کے روز ان کے جد امجد کی شفاعت کی امید رکھتی ہے جنہوں نے حسین کو شہید کیا ناظرین جب اسیرہ نے اہل بیت مقام جبلون پر پہنچے جو دمشق کے کچھ نزدیک تھا تو لشکر یزید نے ان کو یہاں ٹھہرا دیا اور یزید کوئی اطلا دی گئی تو اس نے اپنے دارالامارت کو سجانے اور ڈھول باجوں کا انتظام کرنے کا حکم دیا چنانچہ تعارف سلطنت دمشق کو سجایا گیا اور انواع و اقسام کی زبائش و ارائش سے مرسا کیا گیا عورتیں مرد لباس سے فاخرہ پہنے ہوئے تھے اور خوشی سے تبلے بجا رہے تھے یزید کے لیے بہترین زینت سے مرسہ تخت بچھایا گیا اور ارد گرد بہترین کرسیاں حمائدین کے لیے بچھائی گئی تھیں گویا یہ سب انتظام نواسہ رسول پر ظلم و ستم اور قتل کے بعد ظاہری فتح کی خوشی میں کیا گیا تھا ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا اس حال میں پھر یزید نے اپنے مال کی چھت پر چڑھ کر مقام جبراون کی طرف نگاہ کی جب اس نے نیزوں کی نوکوں پر شہداء کے سرہ مبارک دیکھے تو اس نے یہ شعر کہے جس کو علامہ سید محمود الوسی رحمت اللہ علیہ نے تفسیر روح المعانی میں بیان فرمایا ہے جب سواریاں ظاہر ہوئیں اور سرہ مبارک شہدائے کربلا مقام جیرون کے ٹیلوں پر نمودار ہوئے تو کوے نے کائیں کائیں کی میں نے اس سے کہا تو بول یا نہ بول میں نے رسول سے اپنے قرضے چکا لیے ہیں یہ خفیہ کلمات تھے جو یزید نے سرائے مبارکہ کو دیکھ کر کہے تھے تمام انتظامات مکمل ہونے کے بعد یزید نے مقام جیرون میں پیغام بھیج دیا کہ سرائے مبارکہ اور اسیرہ نے کربلا کو دار سلطنت میں لایا جائے حکم ملتے ہی سرائے مبارک اور اہل بیت کو دمشق میں داخل ہوتے ہی ان کو سیدھے دارال سلطنت میں لایا گیا امام علی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے سر مبارک کو ایک دشت میں اور دوسرے شہداء کے سرائے مبارکہ دوسرے تشت میں یزید کے سامنے پیش کیا گئے اور اہل بیت کو ایک کمرے میں ٹھہرا دیا گیا پھر یزید پھر یزید پلید نے امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے لب ہائے مبارک پر چھڑی رکھ کر کہا یہ ہے حسین ابن علی اس گستاخانہ حرکت کو دربار میں موجود ایک صحابی رسول ابو برسہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھ کر فرمایا اے یزید پلید تم چڑھی سے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لب مبارک کی بے ادبی کرتے ہو میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اور ان کے بھائی امام حسن کے لب اقدس کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں خدا تمہارے قاتل کو قتل کرے اور لعنت کرے اور جہنم کے ذلیل عذاب میں ڈالے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس کلام حق کو سن کر یزید نے انہیں اپنے دربار سے نکالنے کو کہا تو اس کے حواریوں نے انہیں کھینچ کر باہر نکال دیا یزید کے دربار میں یہودیوں کا ایک عالم بھی بیٹھا ہوا تھا جب اسے پتہ چلا کہ نواسہ رسول کا سر ہے تو اس نے کہا تم کیسے مسلمان ہو میں حضرت داؤد علیہ السلام کی سترویں پوش سے ہوں لیکن پھر بھی میری قوم میرا اس طرح احترام کرتی ہے جیسے میں ہی ان کا پیغمبر ہوں مگر تم نے تو اپنے رسول کی بیٹی کے بیٹے کا سر قلم کر دیا بتاؤ تو صحیح تم مسلمان کہلانے کے حقدار کیسے ہو ایک عیسائی بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا مجھے ان کے اسلام پر حیرت ہوتی ہے ہمارے گرجے میں حضرت عیسی علیہ السلام کے گھوڑے کا ایک سم ہے جسے ہم نے خوشبوؤں سے معطر کر کے شیشے میں سجایا ہوا ہے اور ہزاروں عیسائی ہما وقت اس کی زیارت کے لیے جمع ہوتے رہتے ہیں انہیں اس پیغمبر کی امت کہلانے کا کیا حق ہے جنہوں نے اس نواسے کو شہید کر دیا دیگر اراکین دربار چہ مگوئیاں کرنے لگے تو یزید مصلحت وقت کے تحت خاموش رہا یزید کے سامنے اسیران اہل بیت ائے تو اس نے امام زین العابدین کو مخاطب کر کے کہا لڑکے تیرا کیا نام ہے اپ نے فرمایا عابد ابن حسین یزید نے کہا تیرے باپ نے میرا حق سلب کرنے کی کوشش کی میرا رشتہ کاٹا میری حکومت چھیننے کی کوشش کی اس پر خدا نے اس سے جو سلوک کیا وہ تمہارے سامنے ہے جناب سجاد نے بجائے جواب دینے کے قران مجید کی ایت مبارکہ تلاوت کرنا شروع کر دی یزید نے قرانی جواب سنا تو اسے بڑا ناگوار گزرا اور سٹپٹا کر رہ گیا امام عالی مقام کا سر اس کے اگے رکھا ہوا تھا سیدہ زینب اور جناب سکینہ نے گردنیں اوپر اٹھا کر سر مبارک کو دیکھا اور پھر سیدہ زینب نے فرمایا اے حسین اے رسول خدا کے پیارے نواسے اے سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا کے لخت جگر اے دوش رسول کے سوار اپ یہیں تک پہنچی تھیں کہ یزید نے پوچھا یہ کون ہے جناب سجاد نے بتایا یہ میری پھوپھی جناب زینب بنت علی ہیں یزید نے کہا کیا حسین یہ نہ کہتا تھا کہ میں یزید سے بہتر ہوں اور میرا باپ اس کے باپ سے بہتر ہے جناب زینب نے فرمایا ہاں میرے بھائی کا یہی فرمان تھا اور یہ بالکل درست ہے اور میں بھی یہی کہتی ہوں کہ میرا بھائی اور میرا باپ تجھ سے اور تیرے باپ سے بہتر تھے یزید نے کہا تیرا نانا میرے دادا سے اور تیری ماں میری ماں سے ضرور افضل ہیں مگر تیرا باپ میرے باپ سے بہتر نہیں ان کا فیصلہ خدا کرے گا سیدہ زینب نے فرمایا خدا کے فیصلے سے پہلے دنیا کی انکھیں بھی فیصلہ کر رہی ہیں یزید نے اور بھی بڑھ چڑھ کر بہت سی باتیں کی اور پھر اپنے بڑوں کا نام لے کر شعر پڑھنے لگا پھر چھڑی امام عالی مقام کے لبوں پر لگا کر کہنے لگا تو نے اسی منہ سے میری خلافت کا انکار کیا تھا سیدہ زینب نے فرمایا یزید حسین تیری خلافت کو کیسے تسلیم کر لیتے جبکہ اب بھی تیری باتوں سے کفر کی محبت اور اسلام سے دشمنی کی بو ارہی ہے تو بدر کے مقتولوں کا انتقام نواسہ رسول سے لینے کا اقرار کر رہا ہے تیرے سینے میں خاندانی دعوت اور کینہ پروری کی اگ بھڑک رہی ہے یاد رکھ عنقریب وہ وقت انے والا ہے جب تجھے اس ظلم و ستم کی سزا بھگتنا پڑے گی میرے بھائی کا خون تیرے محلوں کی دیواروں اور تخت حکومت پر بجلی بن کر گرے گا اور پھر تیرے لیے اگ ہی اگ ہوگی مدینۃ العلم کی شہزادی کا جب یہ خطبہ سنا تو تمام تر باری سکتے میں اگئے ناظرین قافلہ اہل بیت کو دمشق میں چند دن رکھنے کے بعد یزید نے انہیں مدینہ منورہ روانہ کر دیا یزید نے اہل بیت کی رہائی کے احکام صادر کرنے سے قبل سیدنا امام زین العابدین کو بلایا اپنے دربار میں بٹھا کر امام زین العابدین کے استقبال کے لیے کھڑا ہو ہو گیا کہنے لگا اے ابن حسین امام زین العابدین جس چیز کی خواہش ہے کہو حاضر کی جائے گی سیدنا امام زین العابدین نے جواب میں فرمایا میں کوئی چیز طلب نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے کچھ چاہیے ہاں اگر مجھ سے کوئی بات کرنی چاہتے ہو تو میری پھوپھی جان سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہ سے کرو کیونکہ ہماری غم گسار مددگار اور سالار وہی ہیں یہ سن کر یزید نے فورا تمام درباریوں کو باہر چلے جانے کا حکم دیا اور پھر کہا میں ان کو بلوا لیتا ہوں پھر اہل بیت کی معذرات و طاہرات حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ احترام کے ساتھ دربار یزید میں لائی گئیں یزید نے سیدہ کی تعظیم و تکریم کرتے ہوئے کہا اپ چاہیں تو میرے مال میں ہی رہیں اور اگر یہاں رہنا پسند نا فرمائیں اور مدینہ جانا چاہتے ہیں تو میں وہاں بھیج دیتا ہوں اپ کو کلی اختیار ہے جیسا اپ کا ارادہ ہو میں وہی کرنے کو تیار ہوں پھر یزید کہنے لگا خدا ابن مرجانہ عبید اللہ پر لعنت کرے خدا کی قسم اگر میرا اور حسین کا سامنا ہو جاتا تو جو یہ چاہتے ہیں میں وہی کرتا اور ان کو کبھی قتل نہ ہونے دیتا خواہ مجھے اپنی اولاد ہی کیوں نہ موت کے منہ میں جھونکنی پڑتی جو کچھ ہونا تھا اب ہو گیا خدا کو یہی منظور تھا اب اپ فرمائیں اپ کیا چاہتے ہیں میں اسی طرح کروں گا ناظرین یزید کے یہ منافقانہ کلمات تھے اور وہ انہی کلمات کے پیچھے چپ کر حساب برابر کرنا چاہتا تھا یزید نے جب یہ باتیں کہیں تو سیدہ زینب نے ایک اپری اور رو پڑی اور فرمانے لگی اب ان باتوں سے ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے جن کی انکھوں کے سامنے کربلا کا قیامت خیز منظر ہے اے یزید اب تو میں چاہتی ہوں کہ مدینہ طیبہ میں نانا پاک کے روضہ اقدس پر حاضری دوں اور مدینہ منورہ روانہ ہونے سے پہلے یہاں سے کربلا جائیں اور پھر مدینہ منورہ جائیں اس کے بعد یزید نے اسیران اہل بیت کی رہائی کا حکم دیا اور حضرت نعمان بن بشیر کو حکم دیا کہ اپ کو مزید ادمی لیتا ہوں اپ اپنی نگرانی میں نہایت تعظیم و تکریم سے باحفاظت مدینہ منورہ پہنچائیں اس کے ساتھ ہی یزید نے سواریوں کا انتظام کیا اور ان پر شاندار محمل رکھوائے جب تمام انتظامات مکمل ہو گئے تو پھر صبح سویرے اہل بیت اطہار کے الوداع ہوتے وقت یزید نے کچھ مال و متاع پیش کیا تو سیدھا زینب نے فرمایا ہرگز نہیں خدا کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا میرا بھائی حسین قتل کیا جائے اور اس کے اہل بیت والے قتل ہوں اور اس کے عوض ہم مال و متاع حاصل کریں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا یزید کو یقین ہو گیا کہ یقینا یہ میرا مال قبول نہیں کریں گے سی اسنا میں حضرت نعمان بن بشیر کی نگرانی میں ان کے ساتھ 300 سوار تیار ہو گئے اور ادھر تمام اہل بیت اپنی سواریوں پر سوار ہو گئے تو شام سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو پڑے یزید الوداع کہنے کے لیے چند قدم ساتھ ساتھ چلا تو کچھ ا کے ایک قصائی بھیڑوں کو ذبح کرنے سے پہلے ان کو پانی پلا رہا تھا یہ دیکھ کر سیدہ زینب بیتاب ہو گئی اور یزید کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا دیکھ قصائی بھی بھیڑوں کو پانی پلانے کے بعد ذبح کرتا ہے اور میرے بھائی کو اتنا بھی نہ سمجھا گیا یزید لائن نے منافقانہ انداز میں پھر کہا خدا عبید اللہ ابن زیاد پر لعنت کرے جس نے یہ ظلم کیا ناظرین جب یہ قافلہ دمشق شہر سے باہر تک پہنچا تو جو عورتیں اور مرد اس منظر کو دیکھ رہے تھے ان کی انکھوں میں انسو ا گئے روایات میں اتا ہے کہ قافلہ اہل بیت کی روانگی کے وقت ہزاروں مرد اور عورتیں جمع تھے اور اس رخصتی اور بے بسی پر رو رہے تھے لوگ اپنے گھروں میں واپس چلے گئے اور یزید پلید بھی اپنے محل میں واپس اگیا قافلہ اہل بیت 300 افراد سمیت حضرت نعمان بن بشیر کی نگرانی میں منزل با منزل جا رہا تھا جب یہ قافلہ اہل بیت سرزمین عراق کی سرحد پر پہنچا جہاں سے دو راستے نکلتے ہیں ایک راستہ سیدھا مدینہ طیبہ اور دوسرا عراق کی طرف حضرت نعمان بن بشیر نے اگے بڑھ کر امام زین العابدین سے عرض کیا حضور اگر کربلا جانا ہے تو عراق کے راستے سے چلیں اور پھر وہاں سے مدینہ جیسے اور جس طرح اپ فرمائیں اسی طرح ہوگا سیدہ زینب نے فرمایا سیدھے کربلا چلو چنانچہ کربلا کا راستہ اختیار کیا گیا راستے میں جہاں کہیں جس منزل پر قیام ہوتا اس سے کافی فاصلے پر نعمان بن بشیر اپنے 300 افراد سواروں کے ساتھ ٹھہر جاتے اور ضرورت کی تمام چیزیں فراہم کر کے بھیج دیتی ہر چیز کا خیال رکھتے تاکہ ال رسول کے اس قافلے کو ذرا برابر تکلیف نہ ہونے پائے جب یہ قافلہ اہل بیت کربلا میں پہنچا تو اہل بیت اطہار اس مقام کو دیکھ کر رو پڑے اور اپنی سواریوں سے اتر پڑے سیدھے جہاں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے شہدائے کربلا مدفون تھے ان کی قبر اطہر سے جا کر لپٹ گئے اور سلام کرتے جاتے اور روتے جاتے اور قافلے کے افراد یہ کہنے لگے اے ابن رسول کی زبان سے وہ مصائب بیان کریں جن کا ہم کو کوفہ اور شام میں سامنا کرنا پڑا قریب کی بستی کے لوگ جو بنی استیہ کہلاتے تھے وہ بھی جمع ہو گئے اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک اور شہدائے کربلا پر انسو بہانے میں شامل ہو گئے اسی اسنا میں صحابی رسول حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھ بنی ہاشم کے کچھ لوگ بھی مدینہ منورہ سے کربلا میں سید الشہداء کی قبور کی حاضری کے لیے پہنچ گئے پھر وہ امام زین العابدین کے گلے مل کر روتے رہے اور سید الشہداء امام علی مقام کی قبر سے لپٹ کر روتے رہے تین دن تک اہل بیت نبوت نے یہاں قیام فرمایا تھا ناظرین امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور کربلا کے شہیدوں کی قبر اطہر سے اخری سلام اور گریا فرماتے ہوئے اہل بیت اطہار مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے مدینہ والوں کو جب معلوم ہوا کہ ال رسول کا قافلہ ارہا ہے تو وہ سب روتے ہوئے گھروں سے نکل ائے اور ہر طرف بے پناہ ہجوم ہی ہجوم تھا ال رسول کا یہ قافلہ روضہ مصطفی پر پہنچا تو قافلے کے سبھی افراد روضہ اطہر سے لپٹ گئے اور روتے ہوئے ہدیہ صلوۃ و سلام عرض کیا پیارے نانا جان ہم اپ کے پاس اپ کے نواسے حسین کی شہادت کی خبر سنانے ائے ہیں اے جد بزرگوار جو کچھ ہم پر مصائب گزرے ہیں اپ کی بارگاہ اقدس میں ان کی شکایت کرتے ہیں اللہ کی قسم ہم نے یزید سے بڑھ کر کوئی شکی القلب اور کوئی کافر و مشرک شریر نہیں دیکھا اور نہ ہی اس سے زیادہ کوئی درخت ہو جفاگار دیکھا ہے وہ اپنی چھڑی امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام کے دندان اقدس پر مارتا تھا الغرض روتے ہوئے اور اپنی زبانوں سے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے اہل بیت نبوت کے تمام افراد کی انکھوں سے انسوؤں کی لڑیاں جاری رہیں پھر سیدہ فاطمہ صغری امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ تعالی عنہ کی بڑی صاحبزادی جو مدینہ طیبہ میں موجود تھیں وہ بھی تشریف لا کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہ کے گلے لپٹی اور روتی رہیں حضرت امام محمد ابن حنفیہ اور حضرت عبداللہ ابن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف لائے اور سب کو اس حال میں دیکھ کر انتہائی رنجیدہ ہوئے یہ ایک عجیب منظر تھا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد مقدسہ اج سب کچھ اسلام کے نام پر قربان کر کے ان کے روضہ اطہر پر جما تھے پھر یہ ال رسول جنت البقیع میں سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ کی قبر اطہر پر حاضر ہوئے اور دیگر مزارات بقیہ پر فاتحہ پڑھنے اور سلام عرض کرنے کے بعد ال رسول اپنے گھر تشریف لائے سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے شوہر حضرت عبداللہ ابن جعفر نے بچوں کی شہادت کو صبر سے برداشت کرتے ہوئے فرمایا زینب کاش میں بھی حسین کے ساتھ کربلا میں ہوتا تو مجھے خوشی ہوتی کہ ان کے نام پر شہید ہو گیا ہوں لیکن پھر بھی میرے لیے یہ امر باعث تسکین ہے کہ اگر مجھ کو یہ سعادت نہیں مل سکی تو میرے بیٹوں کو مل چکی ہے