بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم پیارے دوستو اج ہم اپ کے لیے ایک ایسا واقعہ لے کر آئےہیں کہ جسے سن کر شاید اپ بھی اپنے انسو روک نہ پائیں
ایک رات ہمارے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے گھر ائے حضرت فاطمہ اور حضرت علی دونوں سو چکے تھے جبکہ حضرت حسن بھوک کی وجہ سے رو رہے تھے رونے کی اواز سن کر حضرت فاطمہ اٹھنے لگی تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بیٹی فاطمہ سے کہا کہ تم لیٹی رہو اور پھر خود حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک برتن لیا اور بیج انگن میں کھڑی ایک بکری کا دودھ نکال کر حضرت حسن کو اپنے ہاتھوں سے دودھ پلایا حضرت حسن نے پیٹ بھر کر دودھ پیا اور پھر خاموشی سے سو گئے حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ ایک بار ہم لوگ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک عورت دوڑتی ہوئی ائی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول حسن و حسین کا ہی کھو گئے ہیں بہت دیر سے نظر نہیں ارہے ہیں فاطمہ بہت پریشان ہیں یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سارے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جلدی اٹھو اور میرے بچوں کو تلاش کرو تمام صحابہ کرام مدینہ میں ہر طرف پھیل گئے حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا بہت دیر تلاش کرنے کے بعد بھی حسن حسین کہیں نظر نہ ائے پیارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بہت پریشان تھے اور بے چین ہو کر اپنے بچوں کو ڈھونڈ رہے تھے اچانک اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنگل کی طرف جانے والے ایک پہاڑ پر چڑھنے لگے کافی دیر اوپر چڑھنے کے بعد دور سے ہمیں دو بچوں کی جھلک نظر ائی ہم سمجھ گئے کہ یہ حسن اور حسین ہی ہے اسی لیے ہم نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر دی اور جلدی سے حسن و حسین کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حسن و حسین ایک دوسرے سے چمٹے کھڑے ہیں اور ان کے سامنے ایک کالا ناگ اپنی دم پر کھڑا فنکار رہا ہے اس کے منہ سے اگ نکل رہی تھی یہ ناگ اللہ تعالی نے بھیجا تھا تاکہ حسن حسین اگے جنگل میں نہ جا سکے کیونکہ اس جنگل میں بھیڑیا بہت تھے اور وہ حسن حسین کو نقصان پہنچا سکتے تھے اسی لیے اللہ نے اپنے ان جنت کے پھولوں کی حفاظت کے لیے ایک زہریلا ناگ بھیج دیا جو کہ ان دونوں کو اگے بڑھنے سے روک رہا تھا اور یہ بچے اس زہریلے ناگ کو دیکھ کر اتنا ڈر گئے کہ ایک دوسرے سے چمٹ کر رو رہے تھے جب اس ناگ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا تو مڑ کر جنگل کی طرف چلا گیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اگے بڑھ کر حسن و حسین کو گلے سے لگا لیا اور ان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا اے میرے بچو تم پر میرے ماں باپ قربان ہو تم میرے اللہ کے نزدیک کتنے عزت دار ہو اور پھر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت حسن کو دائے کندھے پر اور حضرت حسین کو بائے کندھے پر سوار کیا اور انہیں لے کر مدینہ کی طرف چل دیے حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں نے جب یہ منظر دیکھا تو حسن و حسین سے کہنے لگا کہ اے بچوں اج تمہاری سواری تو بہت اچھی ہے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواری کے ساتھ سوار بھی بہت اچھے ہیں ایک روز حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو اچانک حسن و حسین کے رونے کی اواز کانوں میں پڑی تو بے چین ہو اٹھے اور جلدی سے اپنی بیٹی فاطمہ کے گھر پہنچے اور جا کر دروازہ کھٹکھٹایا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر سے پوچھا کہ کون ہے تو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارا والد ہوں اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگی کہ ابا جان ابھی میں دروازہ نہیں کھول سکتی کہ ان کی میرے پاس اتنی بڑی چادر نہیں ہے کہ میں اسے اپنا جسم چھپا سکوں میری پرانی چادر پھٹ چکی ہے اور جو موجود ہے اسے اگر میں سر ڈھانپتی ہو تو پیر کھل جاتے ہیں اور اگر پیر ڈھانپتی ہو تو سر کھل جاتا ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جب بیٹی کی ایسی حالت سنی تو دل بھر ایا اور اپنی چادر دیوار کے اوپر سے گھر میں پھینکی اور کہا کہ اے بیٹی فاطمہ اس چادر کو اوڑھ لو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جلدی سے وہ چادر اوڑھی اور جا کر دروازہ کھولا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جیسے ہی اپنی بیٹی فاطمہ کا چہرہ دیکھا تو بہت غمگین ہو گئے کیونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سب سے خوبصورت بیٹی حضرت فاطمہ کا چہرہ اس وقت کمزوری کی وجہ سے پیلا پڑ چکا تھا انکھوں کا رنگ اترا اترا سا تھا اور چہرے پر ایک عجیب سی اداسی چھائی تھی ایسی حالت دیکھ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سے کہا کہ اے بیٹی تو نے یہ اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ اے میرے پیارے ابا جان اج کئی دن گزر چکے ہیں میں نے کچھ بھی نہیں کھایا بھوک سے میری ایسی حالت ہو چکی ہے کہ میں چارپائی سے اٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی بیٹی کی ایسی حالت دیکھ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی انکھوں میں انسو بھر ائے اور پھر اپنی بیٹی فاطمہ کو گلے سے لگا کر بہت دیر تک روتی رہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے میری پیاری بیٹی میرے بچے حسن و حسین کیوں رو رہے تھے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ اے میرے ابا جان وہ دو دنوں سے بھوکے ہیں گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں اسی بھوک سے پریشان ہو کر وہ دونوں رو رہے ہیں یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ سے کہا کہ اے میری بچی پریشان نہ ہو اور جاؤ حسن و حسین کو میرے پاس لے کر اؤ تو حضرت فاطمہ اپنے دونوں بچوں کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں لے ائی اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنا انگوٹھا حسن کے منہ میں رکھ دیا تو وہ بڑے مزے سے اسے چوسنے لگے یہ اللہ تعالی کی طرف سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے ایک ایسا معجزہ تھا کہ جس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس وقت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے انگوٹھے سے دودھ نکل رہا تھا کہ جسے پی کر حضرت حسن کا پیٹ بھر گیا اور وہ خاموش ہو گیا پھر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اگے بڑھ کر حضرت حسین کے منہ میں اپنا انگوٹھا رکھا اور وہ بھی بہت دیر تک اسے چوستے رہے تبھی ظہر کی اذان ہونے لگی اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد چلے گئے اس واقعے کو ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ تبھی حضرت فاطمہ گھر ا پہنچی اچانک بیٹی کو گھر اتا دیکھ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے بیٹی فاطمہ خیریت تو ہے کیسے انا ہوا تو حضرت فاطمہ نے اپنے دوپٹے کا ایک کونا کھولا اور اس میں بندھی ادھی روٹی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگی کہ ابا جان یہ ادھی روٹی میں اپ کے لیے تحفے میں لائی ہوں اپ اسے قبول فرما لیجئے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے فاطمہ کیا بات بنی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول ہم سارے گھر والے کئی دنوں سے بھوکے تھے میرے شوہر حضرت علی نے جا کر کچھ کام کیا اور تھوڑا سا اٹا لے کر ائے میں نے اس سے کچھ روٹیاں بنائی ایک روٹی حسن کو کھلائی اور دوسری حسین کو ایک روٹی میرے شوہر علی نے کھائی اور ایک روٹی غریب سائل کو پکڑا دی اخر میں ایک روٹی میرے حصے میں بھی ائی تو جب میں وہ روٹی کھانے بیٹھی تو خیال ایا کہ اے فاطمہ ہو سکتا ہے تم تو ارام سے اپنے گھر میں بیٹھی روٹی کھا رہی ہو اور تمہارے والد حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کئی دنوں سے بھوکے ہو تو اے ابا جان جیسے ہی میرے دل میں یہ خیال ایا تو میں اپنے حصے کی ادھی روٹی دوپٹے میں باندھ کر اپ کی خدمت میں لے کر ائی ہو اپ اسے قبول فرما لیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ کو محبت کی نظر سے دیکھا اور وہ روٹی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا کہ اے میری بچی قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضے میں میری جان ہے اج تین دن گزر گئے کہ میرے پیٹ میں خانہ کا ایک لقمہ بھی نہیں گیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے اور پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے تو حضرت عمر کا ڈر لوگوں میں بہت زیادہ تھا یہاں تک کہ بچے بھی حضرت عمر کو دیکھ کر بھاگ بھاگ جاتے تھے ایک بار حضرت حسن کچھ لڑکوں کے ساتھ گھر کے باہر کھیل رہے تھے کہ تبھی ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا گزر ہوا جب بچوں نے حضرت عمر کو دیکھا تو سب کھیل چھوڑ کر بھاگ گئے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ اکیلے بچے یہ دیکھ کر حضرت حسن کو بہت تیز غصہ ایا کہ حضرت عمر کی وجہ سے میرا سارا کھیل برباد ہو گیا تو انہوں نے غصے میں حضرت عمر سے کہا کہ کیا تم میرے نانا کے غلام نہیں ہو یہ سن کر حضرت عمر رونے لگی اور حضرت حسن کو اپنی گود میں بٹھاتے ہوئے کہا اے میرے بچے قیامت کے دن بھی اس بات کی گواہی دے دینا کہ میں تمہارے نانا کا غلام ہوں سبحان اللہ پیارے دوستو امید کرتا ہوں کہ اج کی یہ چھوٹی سی ویڈیو یہ واقعی اپ کو پسند ایا ہوگا اگر ویڈیو پسند ایا ہے تو ویڈیو کو لائک کیا کریں چینل پر نئے ہو تو چینل کو سبسکرائب کریں ہم ملتے ہیں اپ کو اگلی ویڈیو میں تب تک کے لیے السلام علیکم اللہ حافظ بسم اللہ