محترم ناظرین اج ہم اپ کو واقعہ سنانے والے ہیں ایک طوائف کا جب وہ طوائف خانہ کعبہ میں حج کرنے کے لیے گئی تو وہاں اس پر اللہ کا کون سا عذاب ایا کہ دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس واقعے کو مکمل جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیے گا
بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ واقعہ ہم اسی علاقے کے ایک ڈاکٹر کی زبانی سنیں گے کسی علاقے میں ایک طوائف رہا کرتی تھی جو کہ بہت ہی گنہگار تھی ہر مرد وہاں کا رہنے والا اس کے ساتھ رات گزارنے کے لیے اپنا گھر بار بھیج دیا کرتا تھا وہ طوائف کوئی عام طوائف نہیں تھی وہ لڑکیوں کے ساتھ بہت ظلم کیا کرتی تھی ان کو اغوا کر کے اپنے اڈے پر لاتی اور زبردستی یہ کام کروایا کرتی تھی پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ طوائف ایک مرتبہ بیمار ہو گئی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر اس کو ڈاکٹر کے پاس ایک اس کا 15 سالہ بیٹا جو کہ اس کو اپنی ماں سمجھتا تھا اس کو فورا ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر سے جھجک کر بات کر رہا تھا وہ ڈر رہا تھا کہ اگر اس نے طوائف کا بتا دیا تو شاید یہ ڈاکٹر اس کا علاج نہ کریں مگر وہ ڈاکٹر بہت ہی نیک تھا سب کچھ سمجھ چکا تھا اور اس کو کہنے لگا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ڈاکٹر کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے مریض کو ایک برابر دیکھے ہم ڈاکٹر سب مریضوں کا علاج کرتے ہیں کسی کو گنہگار یا اچھا ہونے کا سرٹیفکیٹ ہم نہیں دے سکتے اپ مریض ہو اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اگر یہ طوائف ہے تو مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں ان کا علاج کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا
ڈاکٹر نے بتایا کہ میں یہ سب باتیں اپنے سامنے کھڑے 15 سال کے لڑکے کو سمجھا رہا تھا جب وہ بک بک کر رہا تھا وہ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب یہ عورت میری ماں جیسی ہے مجھے بہت پیاری ہے اسے کچھ ہو گیا تو میں پوری دنیا میں بے سہارا ہو جاؤں گا میں نے اس لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا تم بے فکر ہو جاؤ مریض کو کچھ نہیں ہوگا تم آرام سے گھر جاؤ وہ لڑکا میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے گھر چلا گیا اج صبح ہی ہاسپٹل میں 15 سال کی ایک عورت کو لایا گیا تھا مجھے تھوڑی جانکاری کے حساب سے پتہ چلا کہ وہ طوائف تھی اور اج صبح بے ہوش ہو گئی تھی جب اس کو ہوش ایا تو خون کی الٹیاں کرنے لگی یہ لڑکا جس کا نام علی تھا یہی اس طوائف کو اپنے ساتھ لے کر ایا تھا جس نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ کس گلی سے تعلق رکھتے ہیں یہ عورت ایک طوائف ہے علی کو یہی ڈر تھا کہ جب مجھے پتہ چل جائے گا کہ وہ عورت ایک طوائف ہے تو میں اس کا علاج نہیں کروں گا میں نے اس کو حوصلہ دیا اس کو یقین دلایا کہ میں بہت کوشش کروں گا کہ مجھ سے جو کچھ ہو سکے اس کی جان بچانے کے لیے ضرور کروں گا میں نے اس کے سارے ٹیسٹ کروائے تھے مگر یہ بات سامنے ائی تھی کہ اس کو کینسر ہو چکا ہے اور وہ اپنی بیماری کے اخری سٹیج پر ہیں اس کی جان بچانا ناممکن تھا مجھے افسوس تھا مگر فی الحال میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا میں دوسرے مریضوں کو چیک کر رہا تھا کہ جب ایک نرس میرے پاس ائی اور کہنے لگی کہ ڈاکٹر صاحب اس عورت کی طبیعت بہت بگڑ چکی ہے ایک بار ا کر دیکھ لیں میں جلدی سے اٹھا اور اس کے وارڈ میں پہنچ گیا وہ بہت تکلیف میں تھی اور بار بار خون کی الٹیاں کر رہی تھی میں نے اس کو کہا کہ تم انجیکشن لگوا لو اس نے انجیکشن لگوایا اور اس کی انکھیں بند ہونے لگی ۔ اب وہ سو چکی تھی نرس جا چکی تھی میں بھی جانے لگا تو ایک دم اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر رک گیا اس کے چہرے میں خاص طرح کی کشش تھی میں وہیں پر کھڑا ہو کر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا اس کی انکھیں بند تھیں مگر اس کے چہرے کی بناوٹ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی انکھیں بہت بڑی بڑی ہوں گی اس کے نین نقش بہت ہی خوبصورت تھے چاند جیسا چہرہ نظر ارہا تھا وہ ایک خوبصورت عورت تھی
بہت سے لوگ اس کی قدردان ہوں گے اپنے کیریئر کے چڑھاؤ پر ہوگی مگر وہ کہاں جانتی تھی کہ یہ بیماری اسے اندر سے ختم کر رہی ہے اور وہ موت کی دہلیز پر کھڑی کر دی گئی تھی میری پرسنل لائف میں ایسا بہت کم ہوا تھا کہ کوئی چہرہ کوئی انسان میرے دماغ میں اس طرح بس جائے گا ۔میں رات بھر اس کے بارے میں سوچتا رہا جب ہاسپٹل پہنچا تو سب سے پہلے اس کی رپورٹ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ کچھ دن زندہ رہ پائے گی یا نہیں اس کے ارام میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا مجھے پتہ ہے کہ ایک طوائف کی زندگی بڑی مشکل سے گزرتی ہے میں یہ چاہتا تھا کہ اپنی زندگی کے اخری لمحات ارام سے گزارے ۔میں جب اس کے وارڈ میں پہنچا تو وہ جاگ رہی تھی اس کے چہرے پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ تھی میں بولا اج اپ فریش لگ رہی ہیں میری بات سن کر وہ ہنسی اور بولی میں مشکل حالات سے لڑنا جانتی ہوں میں مسکرایا اور وہ بھی کچھ بولنے لگی کہ ڈاکٹر مجھے عام عورت میت سمجھیے گا گھر کی پلی ہوئی نازک سی عورت اور کوٹھے پر رہنے والی عورت میں بڑا فرق ہوتا ہے ایک گاہک سے فارغ ہو کر دوسرے گاہک کے لیے تیار ہونے والی عورتوں میں بڑا ہی حوصلہ اور ہمت ہوتی ہے میں نے سر ہلا دیا تو وہ بولی اپ مجھے میری بیماری کے بارے میں بتا دو میں بالکل بھی ہمت نہیں ہاروں گی میں رونے پیٹنے نہیں بیٹھ جاؤں گی میں نے کچھ ادھورے کام چھوڑے ہوئے ہیں جو میں مرنے سے پہلے کرنا چاہتی ہوں میں بے خبر موت نہیں بننا چاہتی میں اپنے کام نپٹا کر مرنا چاہتی ہوں اس کی ہر بات کی سچائی تھی اس کی گواہی اس کی انکھیں دے رہی تھی میں بولا کہ تمہیں کینسر ہے اور تم کینسر کے اخری سٹیج پر ہو میری بات سن کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی یعنی کہ وہ اپنے وعدے کی سچی تھی وہ بولی میرے پاس کتنے دن ہیں میں بولا زندگی اور موت تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ مریض موت کو چھوڑ کر واپس ا جاتا ہے اور حتی کٹا انسان بیٹھے بٹھائے مر جاتا ہے اور رپورٹس تو یہی کہہ رہی ہیں کہ تمہارے پاس دن بہت کم ہیں مگر فی الحال چیز کا پتہ اللہ تعالی کے پاس ہے وہ مسکرا کر بولی کہ ڈاکٹر صاحب اپ کا بہت بہت شکریہ اپ نے مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی اصل میں میں مرنے سے پہلے حج پر جانا چاہتی ہوں اپ نے مجھے سب کچھ سچ سچ بتا دیا اس لیے میں حج پر جا کر اپ کے لیے بھی دعا کروں گی میں مسکرایا اور اپنے کمرے میں واپس اگیا مجھے اس کی ہمت پر حیرانگی تھی میں نے تو ایسے مرد بھی دیکھے تھے
جو موت کے بارے میں سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے تھے جو کئی کئی دن تک موت سے لڑتے رہتے ہیں ان کی جان اٹکتی رہتی ہے مگر وہ دنیا کی فکر میں اس طرح مگن ہو چکے ہوتے ہیں کہ جیسے اپنے جسم سے روح کو پرواز نہیں ہونے دیتے ایسے میں انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے اس نے تو بڑی جلدی اپنی موت کو قبول کر لیا تھا اس کا علاج چل رہا تھا کچھ دن کے بعد اسے ایک ادمی ملنے ایا اتفاق سے اسی وقت میں اس کا چیک اپ کر رہا تھا اس طوائف نے میری طرف دیکھا اور بولا کہ ڈاکٹر میرے جسم میں اب ہمت پیدا ہو گئی ہے میں حج جانے کے لیے تیار ہو چکی ہوں اب مجھے تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی بہت زیادہ دیر تک بیٹھی رہتی ہوں میں تھکتی بھی نہیں ہوں اب تو میں دس منٹ کی واک بھی کر لیتی ہوں مجھے لگتا ہے کہ میں اچھی ہو رہی ہوں اس کے چہرے پر بڑی معصومیت سے مسکراہٹ پھیل گئی ایک دفعہ تو میں اس کے چہرے کو دیکھ کر دھنگ رہ گیا بہت ہی پیاری مسکراہٹ تھی میں نے کہا کہ ابھی کچھ دن اور تمہارا علاج ہوگا پھر تم حج کرنے کے لیے جا سکتی ہو میرے پاس کھڑا ادمی ہنسنے لگا اس کی مسکراہٹ میں مکاریت تھی وہ بولا سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ڈاکٹر یہ طوائف ہے
اس نے اپنی زندگی میں بڑے گناہ کیے ہیں یہ بہت بری عورت ہے اس کو لگتا ہے کہ حج کر کے اپنے گناہ معاف کروا لے گی اور مرنے کے بعد سیدھا جنت میں جائے گی اپ اسے بتا دیں کہ ساری زندگی گناہ کرنے والے حج پر جا کر جنتی نہیں بن جاتے مجھے اس ادمی کی باتیں بہت عجیب سی لگی تھی میں بولا کہ اپ کون ہیں اس نے کہا جس کوٹھے میں یہ طوائف ہے میں وہیں پر کام کرتا ہوں اپ میرے کام کو نہیں سمجھ پائیں گے اس لیے مجھ سے سوال جواب مت کیجئے گا میں بولا کہ اپ کے کام کو میں نہیں سمجھ سکتا کہ اپ خدا کے کام کو سمجھ سکتے ہیں اپ اور میں جہنم کو اور جنت کو بانٹنے والے کون ہوتے ہیں ان سب کا فیصلہ خدا پر ہی چھوڑ دیجئے اس نے اپنے کندھے اچکائے اور بولا ٹھیک ہے ٹھیک ہے میں کچھ نہیں کہتا مگر میری بات یاد رکھیے اگر طوائف جنت میں جانے لگی تو اس عورت کا کیا ہوگا وہ عورت جس نے عمر بھر کی عبادت کی اللہ کے سارے احکام کو مانتی رہی اپنی زندگی گزارتی رہی خدا سے کبھی شکایت نہیں کی پھر وہ بولا ڈاکٹر جتنا پیسہ لگتا ہے لگا دیں ہمیں یہ ٹھیک ٹھاک چاہیےہمارے کوٹھے کی مالکن ہے اسے کچھ ہو گیا تو ہمارا بڑا ہی نقصان ہو جائے گا اتنا کہہ کر وہ ادمی وہاں سے چلا گیا جبکہ میں وہیں کھڑا ہو گیا تھا میں اس عورت کے اندر کی بات جاننا چاہتا تھا اس طوائف میں ایک عجیب سی کشش تھی میں اس کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اس لیے چیک اپ کرنے کے باوجود میں وہی کھڑا رہا تھا اس ادمی کے جانے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی میں تو گھبرا گیا اور بولا کیا ہوا رو کیوں رہی ہو اس نے کہا کہ میں جنت میں نہیں جاؤں گی مجھے معافی نہیں ملے گی میں بولا تم یہ سب کیوں کہہ رہی ہو وہ بولی وہ ادمی ہے نا اگر اسے لگتا ہے کہ میرے گناہ معاف نہیں ہو پائیں گے تو وہ ٹھیک کہتا ہے میں مسکرا کر بولا یہ رونے کی بات نہیں ہے کوئی انسان جنت یا جہنم کا فیصلہ نہیں کر سکتا اپنا دل چھوٹا مت کرو میری بات سن کر وہ خاموش ہو گئی اور کہنے لگی کہ یہ لوگ مجھے بہت گنہگار سمجھتے ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ میں حج کرنے کے لیے جاؤں اپ میرے جانے کا انتظام کر دیں بس یہی سمجھ لیجئے کہ ایک مرنے والی عورت کی اخری خواہش کو پوری کر رہے ہیں میں نے ہاں میں سر ہلا دیا میں بولا مجھ سے جو کچھ ہوگا میں ضرور کروں گا اتنا کہہ کر میں اپنے افس میں اگیا میں اپنے دراز میں پڑے ٹکٹ کی طرف دیکھا
مجھے بھی کچھ دنوں کے بعد حج کرنے کے لیے جانا تھا ایسے میں مجھے اس عورت کی یہ فرمائش پوری کرنی تھی اگر نہ کرتا اس کی فرمائش رد کر دیتا تو مجھے یہی ڈر تھا اگر میں اس کی بات کو ٹھکرا دوں تو میرے شاید اللہ تعالی حج کو منظور نہ کرے میں اس عورت کو حج پر ضرور لے کر جانا چاہتا تھا میں نے اس کی رپورٹ دیکھی تو اس کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی اس کے پاس بہت تھوڑے دن باقی تھے مجھے جو بھی کرنا تھا جلدی کرنا تھا میں نے اس طوائف کا خیال رکھنے کے لیے اس 15 سال لڑکے کو بھی ساتھ لے کر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا جو کہ اس کو اپنی ماں جیسی کہہ رہا تھا اس سارے کام میں مجھے 10 دن لگ گئے تھے اب اس کی انکھوں کے نیچے ہلکے بھی پڑنے شروع ہو گئے تھے بہت زیادہ کمزور ہو گئی تھی میں بولا کہ تمہاری حالت خراب ہوتی جا رہی ہے میں تمہیں حج پر کیسے لے کر جاؤں گا وہ کہنے لگی اگر میں 10 سال حج کرنے پر نہ گئی تو میں یوں ہی بھٹکتی رہوں گی اور بستر پر پڑی رہوں گی مجھے کبھی موت نہیں ائے گی مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے حج کا جانے پر جس طرح وہ تڑپ رہی تھی موت بھی پیچھے ہٹ جائے گی میں اس کی باتوں سے بہت ڈرا ہوا تھا میں نے دل میں سوچ لیا کہ کتنی اچھی عورت ہے اس کو ٹھیک نہ کہنے والے ضرور خود ہی خراب ہوں گے جب ہی تو یہ سب کچھ کر رہی ہے اس کے دل میں خدا کے در پر جانے کی کتنی تڑپ ہے میں نے ڈاکٹر کی ٹیم کو اپنے افس میں بلایا تھا میں نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ یہ اس عورت کی خواہش ہے ہمیں اس کو پورا کرنی چاہیے ہسپتال میں رکھ کر اس کا ٹریٹمنٹ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اس کو حج پر لے جائیں اور اس کی اخری خواہش کو پورا کر دیا جائے
ڈاکٹر نے میرا فیصلہ مان لیا میں نے ضروری کاروائی پوری کی میں نے جب یہ خبر اس طوائف کو سنائی تو وہ پھوٹ پھوڑ کر رونے لگی تھی کہنے لگی کہ اللہ نے میری حاضری قبول کر لی میں نے اس کی طرف دیکھا اور سوچا بہت ہی پہنچی ہوئی عورت ہے جو لوگ اس کے بارے میں غلط کرتے ہیں وہ خود ہی غلط ہیں کچھ ہی دنوں کے بعد ہمارے جانے کا ٹائم ہو گیا تھا میں نے اس کو لیا اور اس لڑکے کو لیا اور ہم سفر کے لیے نکل پڑے یہ سفر بہت ہی دینی سفر تھا وہ اور وہ لڑکا تسبیح کرتے جا رہے تھے ان کی زبان پر اللہ کا نام تھا وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے بہت گناہ کیے ہیں شاید مجھے خدا معاف کر دے میں نے ہاں میں سر ہلا دیا تھا مجھے تو اس طوائف کا کردار بالکل صاف لگ رہا تھا معافی کی یہی نشانی ہے کہ انسان اپنے گناہوں کا احساس کرنے لگتا ہے اللہ کے کرم سے ہمارا سفر پورا ہوا اور ہم سعودی عرب پہنچ گئے جب میری پہلی نظر خانہ کعبہ پر پڑی تو مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی جبکہ اس کی حالت عجیب ہونے لگی وہ گھبرا گئی اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا کہنے لگی کہ مجھے واپس لے جاؤ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے مجھے ہوٹل لے چلو مجھے اس طرح کی امید تو بالکل بھی نہیں تھی میں بولا کہ کیا ہوا تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا وہ بولی ہاں میری طبیعت ٹھیک ہے لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے مجھے یہاں سے لے چلو نہیں تو میری سانس بند ہو جائے گی میں نے اپنے مریض کا خیال کیا اسے ہوٹل پر کمرے میں چھوڑ کر باہر اگیا تھا اگلے مہینے میری شادی تھی میں نے وہاں جا کر اپنی خوشحالی کی زندگی کی بہت ساری دعائیں کی تھیں وہاں ایسی خوبصورتی تھی کہ میرا واپس لوٹ کر انے کو دل نہیں کر رہا تھا مگر مجبوری تھی رات کا وقت ہو چکا تھا میں ہوٹل واپس اگیا صبح ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں اس کو لے کر زیارت کرواؤں گا تبھی وہ میرے پاس ائی اور کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو میں نے بولا کہ ہاں اجاؤ تمہیں بھی زیارت کرواتا ہوں جیسے ہی خانہ کعبہ کے قریب پہنچنے والے تھے اس نے اپنی انکھیں بند کی اور علی سے بولی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خانہ کعبہ کے پاس لے چلو میں اس کا رویہ دیکھنا چاہتا تھا میں اس کی تڑپ دیکھنا چاہتا تھا جب انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو جائے تو وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرتا تھا اس نے طوائف کا ہاتھ پکڑ کر اسے خانہ کعبہ کے بالکل سامنے لا کر کھڑا کر دیا اور بولا کہ اب اپنی انکھیں کھول لیجئے جیسے ہی خانہ کعبہ کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ اپنی انکھیں کھول لیجئے خوشی سے اس نے انکھیں کھول لی اور خانہ کعبہ کو دیکھ کر اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی ایک دم چیخنے لگی پیچھے کو بھاگ رہی تھی یہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی دیوانوں کی طرح بھاگ رہی تھی اس کو اپنے دوپٹے کی کوئی فکر نہیں تھی اس کا دوپٹہ گر چکا تھا سب لوگ اس کی طرف دھیان دیے ہوئے تھے لوگ اس کو دیکھ رہے تھے اس کی طرف بڑھ رہے تھے اب یہاں سب کے سامنے اس کا تماشہ بننے ہی والا تھا اس لیے میں نے اگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو چلنے کا کہا
مگر وہ اپنے ہوش میں ہوتی تو میری بات سنتی اس نے میرا ہاتھ جھٹک دیا تھا وہ چیختی جا رہی تھی سب لوگ اس کے اس پاس جمع ہو رہے تھے ہر کسی کے چہرے پر حیرانگی تھی لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ اس عورت کو کیا ہوا ہے میں نے کہا بیمار ہو جاتی ہے اور اس کی حالت بگڑ جاتی ہے اس علی نے ہمت کی اور اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اسے سائیڈ پر لے گیا میں نے جلدی سے ٹیکسی کا انتظام کیا اور ہم لوگ اس کو ہوٹل میں واپس لے کر اگئے اس کی انکھوں میں ڈر ہی ڈر تھا وہ عجیب طرح سب کو دیکھ رہی تھی ہم سب کو دیکھ کر ڈر رہی تھی کمرے میں جا کر میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا تھا وہ بولی کہ میری انکھ کوٹھے میں کھلی تھی میری ماں ایک طوائف تھی اس نے عمر بر گناہ کیے تھے مگر جب بوڑھی ہو گئی تو اسے احساس ہوا کہ اسے ایک بچہ چاہیے جو کہ اسے ماں کہہ سکے میری ماں سوچ رہی تھی کوئی تو میرا اپنا ہو جو درد میں تکلیف میں میرے کام ائے میری ماں کو حمل ہو گیا اس نے مجھے نہ گرایا اور یوں کوٹھے میں ایک اور طوائف نے جنم لے لیا تھا اماں کو جب پتہ چلا کہ میرے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی ہے وہ بہت زیادہ خوش ہوئی کہنے لگی کہ میرے بڑھاپے کا سہارا اس دنیا میں اگیا ہے اماں نے بچپن میں مجھے ہر قسم کے ہنر سکھا دیے تھے مجھے اس نے سکھا دیا تھا کہ مردوں کا دل کیسے جیتے ہیں کیسے کسی سے زیادہ پیسے لیتے ہیں میں ہر چیز میں ماسٹر ہوتی جا رہی تھی مجھے کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ گناہ ہے یا کوئی غلط کام ہے اپنے اس پاس سارا ماحول ایسے ہی دیکھا تھا جب میں جوان ہوئی تو اماں کی عمر کی ساری عورتیں سبھی بوڑھی ہو چکی تھی سب کو مجھ پر بہت زیادہ بھروسہ تھا انہوں نے مجھے کوٹھے کی مالکن بنا دیا میرے اندر کسی طرح کا کوئی ڈر نہیں تھا پیسہ ہی پیسہ میرا مقصد تھا میں پیسوں کو چومتی تھی مگر جب سارے کوٹھے کی طوائفیں بوڑھی ہو گئی تو ہمارے حالات اچھے نہیں رہتے تھے کوئی ہماری طرف آنا بھی پسند نہیں کرتا تھا اب ہمیں ایسا لگتا تھا ہم بھوک سے مر جائیں گے اس لیے میں نے تمام کوٹھوں میں کام کرنے والے ادمیوں سے کہا کہ مجھے نئی لڑکیاں چاہیے کہیں سے بھی مجھے نئی لڑکیاں لا کر دو جتنی جلدی ہو سکے مجھے یہ کوٹھا لڑکیوں سے بھرا ہوا چاہیے میرے ادمی پورے جوش میں اگئے تھے وہ لڑکیوں کو میرے پاس لا رہے تھے میرے کوٹھے میں جتنی بھی لڑکیاں ائی تھیں ان میں سے صرف دو ایسی تھی جو اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے ائی تھی باقی سب یا تو اغوا کی گئی تھی یا پھر خرید لی گئی تھی میرے کوٹھے پر سبھی نئی لڑکیاں اتی تھیں بہت زیادہ روتی تھی وہ میرے سامنے ہاتھ جوڑتی تھی مجھ سے معافی مانگتی رہتی تھی واسطے دیتی تھی مگر میں کسی کی نہیں سنتی تھی وہی کرتی تھی جو میرے دل میں اتا تھا میں نے محسوس کیا کہ جتنی بھی زیادہ شریف لڑکیاں ہوتی اتنا ہی بڑھ کر ریٹ لگتا تھا میرے بہت سارے پولیس والوں کے ساتھ رابطے تھے اس لیے مجھے گرفتاری کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا میں نے اپنے ادمیوں سے کہہ دیا کہا پھر اور لڑکیاں لے کر اؤ جب تیز بارش ہو رہی تھی میرے دو ادمیوں نے 15 سال کی ایک لڑکی کو میرے سامنے لا کر رکھ دیا تھا وہ جان ہتھیلی پر رہ کر اس کو لائے تھے ہم سب اس لڑکی کو اٹھا کر لائے ہیں اب اپ اس کو سنبھال لیں وہ لڑکی سمجھ گئی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہونے والا ہے وہ بہت زیادہ ڈری سہمی رہتی تھی میں بولی کہ تمہارا نام کیا ہے وہ بولی میرا نام فاطمہ ہے میں مولوی بشیر کی بیٹی ہوں
اپ مجھے یہاں سے جانے کی اجازت دے دیجئے اگر رات پر گھر نہ گئی تو میرے ابا کی بددامی ہو جائے گی بہت لوگ ان پر تھو تھو کریں گے سب یہی کہیں گے کہ مولوی لوگوں کو تو اچھا سبق سکھاتا ہے مگر خود کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے کسی کو یہ نہیں پتہ ہوگا کہ مجھے گھر سے اٹھایا گیا ہے میں اس کی بات سن کر ہستی رہی اور بولی کہ مجھے تمہاری انکھوں میں حیا نظر ارہی ہے مجھے پتہ ہے کہ تمہارے ساتھ میں بہت سارے پیسے کماؤں گی تم میرے کام اؤ گی وہ بولی میرے نام کا تو کچھ خیال کرو میں بولی میں اج سے تمہارا نام بدل کر لیلی رکھتی ہوں اس نے رونا شروع کر دیا وہ بولی کہ تمہیں خدا کا واسطہ ہے میری انکھوں میں حیا ہے کیونکہ میں نے اپنی پوری زندگی عبادت میں گزاری ہے نیک باپ کی بیٹی ہوں میرے میرے ابا نے پوری زندگی ایسے ہی گزاری ہے تو میں کیسے ایسی جگہ پر دم توڑ دوں گی اس کی باتیں سن کر ہنس رہی تھی پھر اس کے منہ پر تھپڑ مار کر بولی کیا لگتا ہے کہ میں تمہیں یہاں سے جانے دوں گی کبھی سوچ نہ بھی بت ان سب سے بہت دور ہوں وہ لڑکی روتی رہی مگر میں نے اس لڑکی سے بڑا پیسہ کمایا تھا دو سال تک وہ میرے کام اتی رہی اخر اس کی ایک دن طبیعت خراب ہو گئی میں اس کے پاس گئی تو اس کی انکھیں بے جان ہو چکی تھی وہ روتی انکھوں سے بولی کہ اخر میں اپنے اللہ کے سامنے کیسے جاؤں گی میں اپنے اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گی میری زبان پر ہر وقت اللہ کا نام رہتا تھا جب سے یہاں ائی ہوں سب کچھ چھوٹ گیا ہے میں گنہگار عورتوں میں سب کچھ بھول چکی ہوں وہ لیلہ اپنا دم توڑ گئی تھی اس کے جانے کے بعد سوچا ایسی کون سی ہستی ہے جس کے عشق میں وہ لیلی پاگل تھی میں نے اللہ کے بارے میں جاننا شروع کر دیا مجھے ان سے محبت ہو گئی میں نے برائی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا مگر پھر خیال ایا اگر یہ سب کچھ چھوڑ دوں گی تو عیش کی زندگی کیسے گزاروں گی پھر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ میں اپنے بڑھاپے میں یہ سب کچھ چھوڑ کر اچھائی کے راستے پر چل پڑوں گی اور لوگوں کے ساتھ نیکیاں کروں گی گناہ کو چھوڑ دوں گی میں نے سن رکھا ہے کہ اللہ تعالی سے جب بھی معافی مانگے وہ معاف کر دیتا ہے اس لیے میں نے سوچا کہ میں تو حج کر کے اپنے سارے گناہ بخشوال ہوں گے ڈاکٹر صاحب سمجھ رہے ہو نا میری پلاننگ میں اپنی طرف سے اللہ کو دھوکہ دینا چاہتی تھی جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے خود کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے خود کو ذلیل کر دیا میں بڑھاپے کی عمر میں پہنچ ہی نہیں پائی مجھے پہلے ہی بیماری نے اپنے باہوں میں لے لیا
جب مجھے پتہ چلا کہ میری موت کا وقت قریب ہے تو میں نے سوچا کیوں نہ حج کر کے اپنے گناہ کی معافی مانگ لوں وہ ادمی جو ہاسپٹل میں ملنے کے لیے ایا تھا اس نے اپ سے ٹھیک کہا تھا میں خود بہت گنہگار عورت ہوں وہ میری زندگی کی ایک ایک پل کو اچھی طرح جانتا تھا وہ سچ ہی کہہ رہا تھا کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں میں نے اس کو تسلی دی بولا ٹھیک ہے سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن تم بتاؤ رو کیوں رہی ہو ڈاکٹر میرا رونا بنتا تھا میں اس امید پر یہاں ائی تھی کہ میرے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے اللہ سے معافی مانگ کر جنت کی حقدار بن جاؤں گی مگر جانتے ہو میرے ساتھ کیا ہوا جب خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر سب رو رہے تھے اپنا دل ہلکا کر رہے تھے اپنے عشق کا بیان کر رہے تھے مجھے وہاں کچھ بھی نظر نہیں ارہا تھا میرے سامنے کھڑی عورت سے میں نے پوچھا کہ خانہ کعبہ کہاں ہے تو وہ بولی تمہارے سامنے ہی تو ہے مجھے سب کچھ دکھائی دے رہا تھا بس خانہ کعبہ نظر نہیں ارہا تھا اس کا مطلب جانتے ہو کیا میں جو اپنے جنت اور جہنم کے چکر میں حج کرنے کے لیے نکلی تھی اللہ تو مجھ سے بہت ناراض ہے مجھ سے خفا ہے مجھے ہر جگہ لیلہ ہی لیلی دکھائی دے رہی تھی وہ مسکرا رہی تھی صرف اسی کی اواز سنائی دے رہی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ گناہ کی زندگی چننا گناہ پر مجبور کرنے والوں میں بہت فرق ہوتا ہے مجھے میری محبت مل گئی ہے تم بتاؤ تمہیں کیا ملا وہ تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی اس نے اپنا حال ڈاکٹر کے سامنے رکھا اور بولی دیکھو ڈاکٹر میرا ہاتھ تو خالی ہے مجھے تو کچھ نہیں ملا اس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی جلدی سے ایمبولینس کو بلایا گیا ہاسپٹل پہنچا دیا گیا پتہ چلا کہ وہ مر چکی ہے سب پریشان تھے اس کی حالت سے اس ڈاکٹر کو بہت زیادہ ڈر لگ رہا تھا اس نے کہا کہ مرنے کے بعد اس کا کیا ہوگا وہ یہی سوچ رہا تھا اس نے وہاں کے رہنے والوں میں اس کا جنازہ پڑھانے کی پرمیشن لینے کے لیے ان کے دفتر گیا مگر اس کو بھی ٹھکرا دیا گیا وہ حیران تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے اس کو گھر لوٹا دیا گیا اور اس کے کوٹھے پر اس کو ان کے حوالے کر دیا گیا وہ گھر اگیا اس بات کو پانچ سال گزر گئے ڈاکٹر نے کہا کہ میں جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو اس کے لیے ضرور دعا کرتا ہوں اس کی روح کو اللہ سکون عطا فرمائے اور میری اپ سب لوگوں سے اپیل یہی ہے کہ اپ سب بھی اس کے لیے دعا کریں نہ جانے اس کے ساتھ کیا ہوا ہوگا جو اس نے مرتے دم اللہ کا ڈر اپنے اندر بسا لیا تھا اس کی روح کو چھوڑ دیا جائے گا یا اسے کڑی سے کڑی سزا ملے گی استغفراللہ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمارے اس تمام گناہوں کو معاف کر کے ہمیں حج پر بلائے حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین اس ویڈیو کو دوسروں تک شیئر کر دیں