Saas Bahu Ki Kahani | Hindu Saas Aur Muslim Bahu | Surat Rehman

میں ایک مسلمان لڑکی تھی مگر میں نے اپنی پسند سے ایک ہندو لڑکے سے شادی کر لی تھی میری ساس ہر وقت بتوں کی پوجا کرتی رہتی تھی پھر وہ اتنی بیمار ہوئی کہ انہیں کینسر ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ چند دن میں فوت ہو جائے گی میں اپنی ساس سے چھپ کر قران مجید کی صورت رحمن پڑھتی اور پانی پر دم کر کے اپنی ساس کو پلا دیتی ایک ہفتے بعد میرے شوہر نے اپنی ماں کا ٹیسٹ کروایا تو اس کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی رپورٹ دیکھ کر وہ مجھے بالوں سے گھسیٹ کر اسپتال لے گیا اور پھر مجھے ۔۔۔

میرا نام فاطمہ ہے مجھے اج بھی وہ دن یاد ہے جب پہلی بار میری یونیورسٹی کے ایک ہندو لڑکے نے میرا راستہ روکا تھا ہم دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اس ہندو لڑکے کو میرا حجاب کرنا اور مردوں سے اپنے اپ کو چھپا کر رکھنا بہت اچھا لگتا تھا اپنے ارد گرد گھومتی بے پردہ لڑکیوں سے اسے کبھی کشش محسوس نہیں ہوتی تھی وہ ہر وقت مجھے دیکھتا رہتا تھا میرا پیچھا کرتا رہتا تھا یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ایک مدرسے میں نوکری کر لی وہاں جوان لڑکیوں کو میں دین کی تعلیم دینے لگی تھی جبکہ وہ ہندو لڑکا اپنے ذہانت اور بہترین تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے ایک اچھی جگہ ملازمت کرنے لگا تھا ایک روز میں مدرسے سے جا رہی تھی جب اس ہندو لڑکے نے میرا راستہ روکا تھا وہ بہت پریشان اور الجھا ہوا سا لگ رہا تھا مجھے اس پر حیرت ہوئی تھی کیونکہ میں اس سے نہیں جانتی تھی اور نہ ہی میں اسے پہچان پائی تھی میں نے یونی میں بھی ہمیشہ صرف اپنی تعلیم پر توجہ رکھی تھی اس لڑکے نے میرا راستہ روکتے ہوئے مجھ سے التجا کی تھی کہ میں ایک بار اس کی بات سن لوں اس کے پریشان لہجے پر بے ساختہ میں نے سر ہلا دیا تھا حالانکہ میں اپنی حدود جانتی تھی کہ مجھے غیر محرم مردوں سے بات چیت نہیں کرنی چاہیے مگر وہ جتنا پریشان لگ رہا تھا میں مدد کے خیال سے بات سننے کے لیے رکی تھی اب اس نے اپنی حالت کی جو وجہ مجھے بتائی تھی وہ مجھے بکھلانے پر مجبور کر گئی میں جو اسے پریشانی سے نکالنا چاہ رہی تھی اب میں منہ کھولے اسے دیکھنے لگی تھی جو مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا وہ مجھے بتا رہا تھا کہ میں یونیورسٹی میں پہلے روز سے تمہارے حجاب کی وجہ سے تم سے متاثر رہنے لگا تھا مجھے لگتا تھا کہ مجھے صرف تمہیں دیکھنا اچھا لگتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے جب ہم یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تو میں کتنے روز بے چین رہا تھا میں تمہیں دیکھنا چاہتا تھا مگر ایسا ممکن نہیں تھا میرا کہیں بھی دل نہیں لگ رہا تھا یہاں تک کہ میں پوجا کرنے میں بھی بار بار تنگ ہو رہا تھا میں دنگ سے اس لڑکے کی باتیں سن رہی تھی میں تو یہ تک نہیں جانتی تھی کہ وہ کون تھا اور کب سے مجھے جانتا تھا جو کہ وہ اپنی بکھری اور الجھی حالت کی وجہ سے مجھے کہہ رہا تھا اس نے اپنا حال بتا کر اچانک مجھ سے ایسا مطالبہ کیا جو مجھے حیران کر گیا تھا وہ بولالا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں میں نے گھبرا کر اسے دیکھا اور اپنی حیرت پر قابو پا کر سنجیدگی سے اسے کہا کہ ہم دونوں شادی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا مذہب الگ ہے میں ایک مسلمان لڑکی ہوں اور میرا نکاح صرف مسلمان مرد سے جائز ہے میری بات سن کر وہ بولا کہ میں تم سے نکاح کی خاطر مسلمان ہونے کو بھی تیار ہوں وہ مجھ سے ہر حال میں شادی کرنا چاہتا تھا وہ اپنی بے قرار حالت سے پریشان تھا مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر ترس ایا تھا میں نے انکار میں سر ہلا کر اسے سمجھایا کہ اگر وہ مجھ سے نکاح کرنے کے لیے مسلمان ہوگا تو اس کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس کا دل اسلام کو نہیں مانے گا کیونکہ وہ مجھے حاصل کرنے کے لیے اسلام قبول کر رہا ہے دل سے تو اسلام قبول نہیں کر رہا میری باتوں نے اسے پریشان کر دیا تھا میں اسے سمجھا بجھا کر معذرت کرتی وہاں سے چلی گئی مجھے افسوس تھا کہ میری وجہ سے ایک اچھا لڑکا اس حال کو پہنچ گیا تھا مگر اس میں یقینا میرا قصور نہیں تھا میں نے اس سے نہ کبھی بات کی تھی اور نہ ہی دوستی کی تھی لیکن شاید اللہ نے اس کے دل میں میرے حجاب کی عزت اور میرے اسلامی طور طریقے کے لیے کشش پیدا کر دی تھی اس نے وہ اپنے مذہب سے بھی دور ہو رہا تھا اس واقعے کو ایک ماں گزرا تو میں اس لڑکے کے بارے میں بھول گئی اور اپنی زندگی میں مگن ہو گئی میری رہائش بھی اسی مدرسے کے ساتھ ہی تھی کیونکہ میرے والدین کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہو چکا تھا میں نے چچا کے گھر رہ کر اپنی ابتدائی عمر گزاری تھی مگر جون ہی میں یونیورسٹی میں پہنچی تب میں نے اپنے لیے چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈی تھی کیونکہ میری چچی کا رویہ میرے ساتھ بہت برا تھا اس لیے میں اب ہمیشہ کے لیے ہوسٹل میں شفٹ ہو گئی تھی تاکہ میں کسی پر بوجھ نہ بنوں اب میری زندگی کا مقصد صرف دینی تعلیم دینا رہ گیا تھا مگر مگر میری زندگی میں اس ہندو لڑکے نے کچھ عرصے کے لیے ہلچل سی مچا دی تھی اس کی وجہ سے میں کئی روز تک پریشانی میں رہی میں نے اپنی زندگی بہت صاف اور سنبھل کر گزاری تھی میں نہیں چاہتی تھی کہ میں کبھی کوئی ایسی غلطی کروں جس سے اللہ تعالی ناراض ہو جائے لیکن ایک ماں کے بعد جب میں وہ بات بھولنے ہی والی تھی تبھی وہ لڑکا پھر سے میرے راستے میں انکھ کھڑا ہوا میں اسے دیکھ کر گھبرا گئی تھی اس نے پہلی بار کی طرح مجھ سے بات کرنے کی درخواست کی تھی اج اس کا لہجہ کافی بدلا ہوا تھا وہ مہذب اور سلجھے ہوئے لہجے میں درخواست کر رہا تھا وہ خود بھی پہلے کی نسبت کافی بدلا ہوا لگ رہا تھا میں نے پہلے تو مصروفیت کا بہانہ بنا کر انکار کرنے کی کوشش کی مگر وہ میری منت کرنے لگا بس ایک بار میں اس کی بات سن لوں اور میں سوچنے لگی کہ اگر وہ اس بار پھر سے شادی کے لیے ضد کرے گا تو میں اسے کچھ دینی تعلیم کی کتابیں دے کر اسے اسلام کا مطالعہ کرنے کی ہدایت دوں گی تاکہ وہ اسلام کو سمجھے اور پھر فیصلہ کرے کہ اسے مسلمان ہونا ہے یا نہیں ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ اس نے بات شروع کی اور اس کا پہلا جملہ سن کر ہی میرا دماغ چکرا گیا تھا وہ بول رہا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اس بار اس نے اسلام کو سمجھ کر اس کا مطالعہ کر کے اللہ تعالی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کی خاطر قبول کیا ہے اس کا اسلامی نام ابوبکر تھا میں حیران ہو کر اس لڑکے کو دیکھ رہی تھی تب وہ بولا کہ جب میں نے اسے اسلام کو سمجھ کر قبول کرنے کا کہا تھا اس نے تبھی فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اسلام کا مطالعہ کرے گا وہ مجھ سے ملاقات کے فوری بعد ایک مسجد میں گیا تھا اور ایک مولوی سے درخواست کر کے اس لام کو سمجھنے لگا ایک ماں اس نے اسلام کو سمجھا اور جب اس کا دل مکمل طور پر مسلمان ہونے کے لیے راضی ہوا تو اس نے اسلام قبول کر لیا وہ اسلام قبول کرنے کے فورا بعد ہی میرے پاس ایا تھا وہ کہنے لگا میں نے اسلام قبول کیا ہے میں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں اور اب میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ تم میری محسن ہو جس کی وجہ سے مجھے میرا حقیقی خدا ملا اور میری اخرت سنور گئی ہے اس کی بات نے میرے لب سی دیے تھے میں اس کی اس بات کے بعد شادی سے انکار نہیں کر پا رہی تھی وہ اسلام قبول کر چکا تھا اور ایک مسلمان سے میرا نکاح جائز تھا میرے چچا اور چچی میرے ساتھ بہت کم تعلق رکھتے تھے اس لیے اس لڑکے کے دوسری بار پوچھنے پر میں نے شادی کے لیے ہاں کہہ دی تھی پھر اس نے مجھے اپنے بارے میں سب بتا دیا اس کی فیملی میں اس کی ایک بس بوری ماں تھی اور اس نے اداسی سے بتایا کہ اس کی ماں کٹر ہندو ہے وہ کبھی اسلام قبول کرنے پر راضی نہیں ہوگی وہ اپنی ماں کی اخرت کو لے کر فکر مند تھا میں نے تب دل میں ٹھان لی تھی کہ میں اس کی ماں کو بھی مسلمان کر کے رہوں گی شادی کے بعد ابوبکر مجھے اپنے گھر لے گیا تھا میں شادی کے بعد رخصت ہو کر اپنے سسرال پہنچی تو میرے شوہر نے جھجک کر پہلے ہی بتا دیا کہ میرا اچھا استقبال نہیں ہونے والا ابھی میں یہ بات سمجھ نہیں پائی تھی کہ گھر میں قدم رکھتے ہی میری ساس کی نظر میرے شوہر اور مجھ پر پڑی مجھے دلہن کے روپ میں اپنے بیٹے کے پہلو میں کھڑا دیکھ کر وہ جھٹکے سے کھڑی ہوئی اور بیٹے سے لڑنے جھگڑنے لگی جب مجھ پر ان کی نظر پڑی تو وہ مجھ پر غصہ کرنے لگی لڑنے لگی کہ میں نے ان کے بیٹے پر جادو کر دیا ہے میں بہت بڑی جادوگرنی ہوں بہت مشکل سے میرے شوہر نے اپنی ماں کو چپ کروایا اور وہ وضاحت دینے لگا تھا اس گھر میں قدم رکھتے ہی میرا دم گھٹنے لگا تھا اس چھوٹے سے صحن میں جگہ جگہ بت لگائے گئے تھے اور عجیب سے رنگ بکھرے ہوئے تھے میں تو ایک مسلمان لڑکی تھی اور ظاہر ہے میرے لیے یہ سب دیکھنا اور برداشت کرنا نہایت مشکل تھا گھر میں ہر طرف گندگی بھی پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میرا شور پہلے ہی مجھے بتا چکا تھا کہ اس کی بوڑھی ماں اب کام نہیں کر سکتی اور وہ بھی اپنے مصروفیات میں سے جیسے تیسے وقت نکال کر ماں کو سنبھالتا اور ان کا کھانا پینا کرتا تھا میرا شوہر اپنی ماں کو سنبھالتے ہوئے ان کے کمرے میں لے گیا اور میں مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ گئی یہ سب میرے لیے کچھ نیا نہیں تھا میں جانتی تھی میرا شوہر بچپن سے ہندو تھا اور اس کی ماں کا مذہب بھی ہندو ہے ایک ہندو کے گھر مورتی اور پتھر کے بتوں کا ہونا کوئی تعجب خیز بات نہ تھی مجھے لگا تھا کہ میں یہ سب برداشت کر لوں گی مگر اب اس گھر میں ا کر مجھے پریشانی محسوس ہو رہی تھی میں ایک مذہبی لڑکی تھی میرے لیے ایسے ماحول میں رہنا اور عبادت کرنا نہایت مشکل ثابت ہونے والا تھا مگر اپنے شوہر کی خاطر میں یہ سب کرنے کو تیار تھی اندر اپنے اپنے کمرے میں بھی میری ساس اپنے بیٹے پر بری طرح چیخ رہی تھی میری ساس کے الفاظ مجھے تکلیف دے رہے تھے وہ بری طرح چلا کر اپنے بیٹے سے یہ کہہ رہی تھی کہ تم سے بہت بڑا پاپ ہو گیا ہے بھگوان کی ناراضگی میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں اب بھگوان کو کیا منہ دکھائیں گے یہ اس پاپی عورت نے تم پر جادو کیا ہے میری ساری نسلیں برباد ہو گئیں اب میں کیا کروں گی اب میرے ساتھ کو پریشانی تھی کہ ان کے گھر میں میں اپنا کلام قران پاک پڑھا کروں گی ان کی نظر میں بے برکتی پیدا ہو جائے گی دو مذہب کے لوگوں کا ایک گھر میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنا بالکل ناممکن سی بات ہوتی ہے اچانک میری ساس میرے شوہر سے کہنے لگی کہ تم تو بھگوان کو بہت مانتے تھے پھر کیسے تم بدل گئے ہو اپنی نسل کو چلانے کے لیے اس گنہگار عورت سے شادی کر لی ضرور اس نے تجھ پر جادو کیا ہوگا ہاں یہ جادوگرنی ہے کیونکہ مسلمان جادو کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے جادو کے زور سے اپنے مذہب سے ہٹا دیتے ہیں پھر ایسے لوگ اپنے مذہب سے ہٹ کر گناہ کمانے لگتے ہیں میں خاموش اپنی ساس کی باتیں سن رہی تھی اسلام جب کسی غیر مذہب کے دل میں گھر کر جائے تو ایسے ہی غیر مذہب کے لوگ اللہ کو پا لینے کے بعد اپنا گھر بار اور دوست دنیا سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں دراصل انہیں اللہ تعالی اپنے قریب کر لیتا ہے اور یہ بات صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جو اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں پر نہ دوسرے لوگ اسلام کو جادو ہی سمجھتے رہتے ہیں میری ساس بہت غصے میں تھی اور میرا شوہر ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اور انہیں روک رہا تھا کہ فاطمہ کو ایسا ویسا کچھ مت کہیے وہ میری بیوی ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں وہ اچھی لڑکی ہے میری ساس نے بہت باتیں کی اور اپنے بیٹے سے لڑتے ہوئے اسے شرم دلانے لگی کہ اس جادوگرنی نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا ہے تم اس کو اپنی بیوی کیسے کہہ سکتے ہو اس لڑکی نے تجھے کیا چیز کھلائی کہ تو اس کا دیوانہ ہو گیا ہے تو اس سے اتنی بڑی بھول کیسے ہو گئی کہ تو بھگوان کے سامنے اس گنہگار عورت کو لے ایا ہے یہ تو بہت بدقسمتی کا کام ہو گیا وہ اپنے پتھر کے خداؤں کو پکار پکار کر روتی جا رہی تھی میری ساس کی اواز میں پیدا ہونے والی لرزش اور کپکپاہٹ لے مجھے متوجہ کیا تھا میں اٹھ کر ان کے کمرے تک پہنچی اور فکر مندی سے اندر جھانکا تو سامنے کا منظر میرے اعصاب کو جھٹکا پہنچا گیا تھا سامنے میری روٹی ہوئی سات زمین پر گری پڑی تھی میں گھبرا گئی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو میری ساس اپنی زندگی کے اخری لمحات میں ہو ان کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اور میرا شوہر اپنی ماں کو سنبھال رہا تھا میں نے اپنے شوہر کی مدد سے ساز کو بستر پر سلایا اور میرے شوہر نے قریب پڑھی میں اس سے کچھ دوائیاں اٹھا کر اپنی ماں کو دی دوائیں کھانے کے بعد میرے ساتھ سو گئی تھی تب میں نے جھجک کر اپنے شوہر سے کہا کہ اسے اپنی ماں کو ہسپتال لے جانا چاہیے تھا کیونکہ اس کی حالت بہت خراب لگ رہی تھی اس پر میرے شوہر نے مجھے جو بتایا وہ میرے ہوش اڑا گیا تھا میں ہکا بکا سی اپنی ساس کو دیکھ رہی تھی میرا شوہر بتا رہا تھا کہ میری ساس کینسر کی اخری سٹیج پر ہے اور ڈاکٹر نے بھی اب اسے لاعلاج قرار دے دیا ہے اور اسی وجہ سے میرا شوہر بھی بے حد پریشان دکھائی دے رہا تھا مجھے ان دونوں پر بہت ترسایا تھا میں کینسر کا سن کر اپنی ساس کے علاج کے بارے میں سوچ چکی تھی کیونکہ میرے پاس ایک ایسا وظیفہ تھا جس سے کینسر جیسے موزی مرض کا بھی باسانی علاج کیا جا سکتا تھا مگر فی الحال یہ سب میں اپنے شوہر کو بھی نہیں بتا سکتی تھی ورنہ وہ یقین نہ کرتا اور شاید مجھے واقعی جادوگر نہیں سمجھ لیتا میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اپنے شوہر کے کمرے کی طرف رک گیا جو میرا بھی کمرہ تھا میں نے منہ ہاتھ دھو کر سوٹ کیس سے سادہ سا جوڑا نکال کر پہنا اور ایک بار پھر کمرے سے نکل کر گھر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہو گئی اور پھر میرا شوہر بھی اپنی ماں کے پرسکون ہوتے ہی میری مدد کرنے کے لیے چلا ایا تھا اس کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ اپنی ماں اور مجھے دونوں کو اپنا اپنا حق دے رہا تھا اس نے اپنی ماں کو میرے بارے میں غلط نہیں بولنے دیا تھا اور نہ ہی میرے سامنے ماں کو برا کہا تھا وہ یقینا ایک اچھا مرد تھا اس کی اسی خوبیوں کی وجہ سے میں نے اتنی مشکل زندگی کا چناؤ بھی اسانی سے کر لیا تھا ہم نے مل کر سارا گھر دھو کر چمکا دیا تھا اس نے میری اسانی کے لیے کھانا باہر سے منگوا لیا تھا اور گھر کو دھو کر ہم خود بھی نہا دھو کر تازہ دم ہو گئے تھے پھر میں نے اپنے کمرے میں موجود سب مورتیوں کو ہٹا کر وہ جگہ پاک کی اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد اگے کی زندگی کی کی اسانی کے لیے نوافل بھی ادا کیے اور پھر تھکی حارث سے بستر پر دراز ہو گئی صبح اذان کی اواز سنتے ہی میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور نماز ادا کر کے ہلکی اواز میں قران پاک کی تلاوت کی اور پھر کچن کا رخ کیا تھا مگر میری ساس وہاں پہلے سے موجود تھی مجھے دیکھتے ہی ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور وہ بولی کہ میں ان کے کچن کو ناپاک مت کروں وہ کہنے لگی تم باقی گھر میں جہاں مرضی جاؤ مگر کچن میں نہیں ا سکتی ہو میں اپنی ساس کی بات سے پریشان ہو گئی اب جب کہ میں جان چکی تھی کہ وہ بیمار تھی اس کے بعد ان کا یوں کچن میں اپنا کام خود کرنا مجھے فکر میں مبتلا کر رہا تھا مگر میں خاموشی سے نکل گئی مجھے لگا تھا کہ بات بس یہیں تک رہی تھی مگر اصل پریشانی مجھے تب ہوئی جب میری ساس ناشتہ کرتے ہی ہمارے کمرے میں داخل ہوئیں اور اگلے ہی لمحے ان کی غسیلی اواز سے پورا گھر گونج اٹھا تھا میں جو صحن میں بیٹھی تھی ان اوازوں پر گھبرا گئی تھی میرا شوہر بھی کام پر جانے کی تیاری کر رہا تھا وہ واش روم سے نکل کر اپنی ماں کے پاس پہنچا میری ساز کمرے میں رکھے اپنے بت ڈھونڈ رہی تھی اور اپنے بیٹے کو لعنطان کر رہی تھی جس نے ان کے پتھر کے بتوں کو میری خاطر چھپا دیا تھا میری ساس نے اس بات پر ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور بہت سارے نت نئے بت منگوا کر پورے گھر میں پھیلا دیے تھے میرے لیے عبادت کرنا مشکل ہو گیا تھا میرے شوہر نے اپنے گھر کی چھت پر بنے چھوٹے سے کمرے کو میرے لیے عبادت گاہ بنا دیا تھا وہ شرمندہ تھا مگر اپنی بیمار ماں سے ضد نہیں کرنا چاہتا تھا میں بھی خاموشی سے وہیں جا کر عبادت کرنے لگی اور نہایت رازداری سے میں اپنی ساس کی بیماری کے لیے اپنا وظیفہ بھی کر رہی تھی دن یوں ہی گزر رہے تھے میں خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہتی میری ساس کا جب بھی مجھ سے سامنا ہوتا تو وہ اپنی زبان سے تیر برساتی رہتی تھی اور لڑنے لگتی کہ میں نے ان کے گھر کا سکون برباد کر دیا ہے میں ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی تھی مگر کبھی کبھی میرا صبر جواب دینے لگ جاتا تھا مگر میں پھر بھی خاموش رہتی میری ساس کھل کر اپنے بتوں کی پوجا کرنا چاہتی تھی مگر بیماری کی وجہ سے ان کے لیے یہ سب کچھ کرنا مشکل ہو گیا تھا وہ اکثر رونے لگ جاتی کاش کہ میری ایسی بہو اتی جو پورے گھر میں پوجا کرتی اور میری ساس کو بھی سکون ملتا مگر جب سے میں ائی تھی گھر میں ایک الگ سی خاموشی رہنے لگی تھی میرا ہر وقت درود پاک کا ورد کرنا میری ساس کو الجھن میں ڈال دیتا تھا کہ میں زیر لبتا نہیں کیا پڑھتی رہتی ہوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری ساس کی طبیعت بحال ہونے لگی وہ خود بھی اپنے اندر تبدیلی محسوس کر رہی تھی مگر اس بات میں اس کو خوش کرنے کی بجائے مزید گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا تھا ان کو کسی جاننے والے نے اس بات کا وہم ڈال دیا تھا کہ وہ موت سے پہلے والا سکون حاصل کر رہی ہیں وہ مجھ سے لڑنے لگتی تھی کہ میں ان کی زندگی ختم کر رہی ہوں اور ان پر جادو کرتی رہتی ہوں ان کی تسلی کے لیے میرا شوہر ان کا معائنہ کروانے لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کے کچھ ٹیسٹ کیے اور کچھ دن بعد انے کا بتا کر بھیج دیا رپورٹس انے تک میری ساس بہت پریشان تھی کہ میں نے ان پر جادو کروایا ہے ایک ہفتے کے بعد میرا شوہر اج ٹیسٹ کا نتیجہ لے کر گھر لوٹا تو بے حد خوش تھا اور اتے ہی مجھ سے بولا کہ تم ہمارے لیے بہت خوش قسمت ثابت ہوئی ہو پھر اس نے اپنی ماں کو خوشی سے گلے لگا لیا میری ساس اس سب سے حیران تھی اور بیٹے سے اس کی خوشی کی وجہ دریافت کر رہی تھی میں ابھی سوالیہ نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور پہلی بار وہ اتنا کھل کر ہنس رہا تھا تب میرے شوہر نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہو چکی ہے اور رپورٹس میں کینسر بالکل ختم ہو گیا ہے پھر اس نے اطمینان سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ ماں اس سب کے پیچھے تمہاری بہو کا ہاتھ ہے یہ ہم دونوں کے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی ہے اس کا دین جھوٹا نہیں ہے میری ساس اپنی بیماری کے بالکل ہی ختم ہو جانے کا سن کر حیران رہ گئی تھی اسے تو یقین ہی نہیں ارہا تھا کہ موت کے قریب پہنچ کر انہیں زندگی مل گئی میں اطمینان سے مسکرا رہی تھی میرا اللہ پر یقین اور بھی بڑھ گیا تھا میری ساس نے حیرت بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا کہ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہو گئی ہیں وہ میرے مذہب کے بارے میں جاننا چاہتی تھی وہ سوچ رہی تھی کہ کوئی مذہب اتنا طاقتور کیسے ہو سکتا ہے کہ لاعلاج بیماری کا علاج کر دے اس روز میں نے اپنے شوہر اور ساس کو نہایت اعتماد سے بتایا کہ میں نے اپ لوگوں سے چھپ کر ایک وظیفہ کیا تھا اور اپنی ساس کو پانی دم کر کے دن میں تین بار پلاتی رہی تھی میری بات نے میرے شوہر کو بھی چونکا دیا تھا جب کہ میری ساس ایک دم چپ ہو گئی تھی میرا شور حیرت سے مجھے بولا اگر تم علاج کرنا چاہتی تھی تو چھپایا کیوں تھا میں نے اپنے شوہر کو بتایا کہ بے شک میرا یقین اپنے اللہ پر پورا ہے مگر وہ لوگ یقینا تب میری بات نہ سمجھ سکتے تھے اور میری ساس جان لیتی تو کبھی میرا دم کیا ہوا پانی نہ پیتی میرا شور خاموش ہو گیا میری ساس مجھ سے اس بابرکت کلام کے بارے میں بار بار سوال کرنے لگی اور تفصیل جاننے کی کوشش کرنے لگی میں نے اپنی ساس کو بتایا کہ مجھے ہر روز دن میں تین بار یعنی صبح دوپہر شام سورۃ رحمن کو سن کر یہ پڑھ کر پانی پر دم کرنا تھا اپنی ساس کی پابندی کی وجہ سے میں گھر میں کھل کر سرت رحمان کی تلاوت نہیں لگا سکتی تھی میں نے روزانہ خاموشی سے خود تلاوت کی اور پانی پر دم کر کے اپ کو پلاتی رہی ٹیسٹ سے پہلے یہ عمل سات دن تک بلا ناغہ کر لینے کے بعد اٹھویں روز روک دیا اور ٹیسٹ کا انتظار کرنے لگی میں نے بتایا کہ مجھے پوری امید تھی کہ میری ساس بالکل ٹھیک ہو جائے گی کیونکہ ہم مسلمانوں میں کینسر کے مریضوں کے لیے یہ سورۃ ازمودہ نسخہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے میری ساس پر بھی اس پاک ذات نے کرم نوازیں کر دی تھی اور انہیں شفا دے دی تھی مجھ سے ساری تفصیل جان لینے کے بعد میری ساس کے دل میں اچانک یہ خواہش جاگی کہ وہ ہمارے مذہب کو مزید پڑھے اور جانے ایسا مذہب جس کے کلام کی برکت سے مرد سے نجات حاصل ہو جائے میرے ساتھ جذباتی پن سے روتے ہوئے کہنے لگی کہ مجھے یہ زندگی تمہارے خدا نے دی ہے تو اب سے میرا خدا بھی وہی ہے میں اس ایک خدا کے اس احسان کے بدلے ساری عمر اس کا شکر ادا کر کے گزار دینا چاہتی ہوں میں اپنی باقی زندگی مسلمان ہو کر اس کے حکم کے مطابق ہی گزار دوں گی بس تو مجھے اپنے رب کے حضور سجدہ کرنا سکھا دو میری انکھوں سے خوشی کے انسو جھلک پڑے تھے اور میں نے اس بات پر اپنی ساس کو سینے سے لگا لیا تھا میرے شوہر بھی تشکر بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا تھا کیونکہ میں نے ایک ناممکن امر کو ممکن کر دکھایا تھا اج ہمارے گھر میں میری ساس میرا شوہر اور میں تینوں ہی پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور اس پاک کلام کی برکت سے ہمارا گھر جنت بن گیا ہے 

Leave a Comment