اپنے ماں باپ سے کیسے ملاقات ہوگی وہ منظر کیسا ہوگا جنت میں کن کن رشتہ داروں سے ملاقات ہوگی یہ جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے جان کر آپ حیران رہ جائیں گے
بسم اللہ الرحمن الرحیم ناظرین کسی بھی انسان کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ اور محبت کرنے والا رشتہ اس کے ماں باپ کا ہے اس کے بعد انسان کے سگے بہن بھائی اور پھر دوسرے رشتہ دار آتے ہیں اس دنیا میں قائم یہ رشتے کسی بھی انسان کے لیے اولین ترجیح ہوتے ہیں جبکہ کچھ رشتے تو ہماری زندگی کے لیے ایسے اہم اور لازم و ملزوم بھی ہو جاتے ہیں کہ ان کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن اور محال ہو جاتا ہے
محترم ناظرین جنت ایک ایسی شاندار اور بے مثال جگہ ہے جو اللہ عزوجل نے ایمان والوں کے لیے بنائی ہے اور اس نے ایسی نعمتیں رکھی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ،نہ کسی کان میں سنی اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال آیا جنت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ صرف سمجھانے کے لیے ہوتا ہے ورنہ دنیا کی اعلیٰ ترین چیز کا بھی جنت کی کسی نعمت سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں بھی ہمارے لیے اہم اور پاکیزہ رشتے کیا ہمارے ساتھ ہوں گے یعنی جنت میں یہ سوال اکثر ہمارے ذہنوں میں آتا ہے
اس دنیا میں سب سے عظیم رشتہ یعنی ہماری ماں کیا جنت میں بھی ہمارے ساتھ ہوگی یہ احادیث کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں احادیث میں ہے کہ جب کوئی رو ح الیین میں پہنچتی ہے تو وہاں پر موجود روحیں اس سے ملنے آتی ہیں اور دنیا میں اپنے رشتہ داروں کے بارے میں معلوم کرتی ہیں اور اس طرح سے جب کوئی انسان مرنے کے بعد الیین میں پہنچتا ہے اس کے رشتہ دار اس سے ایسے ملتے ہیں جیسے کسی دور دراز سے آنے والے مسافر سے ملاقات کی جاتی ہے اور دونوں آپس میں مل کر بہت خوش ہوتے ہیں
ارشاد باری تعالی ہے اے میرے بندو آج تم پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ تم غمگین ہوں گے میرے وہ بندے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے تھے اور فرمانبردار رہے تھے تم بھی اور تمہاری بیویاں بھی خوشی سے چمکتے چہروں کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔ ان کے آگے سونے کی پیالے اور گلاس گردش میں لائے جائیں گے اور اس جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی دلوں کو خواہش ہوگی اور جس میں آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی ان سے کہا جائے گا کہ اس جنت میں تم ہمیشہ رہو گے
محترم ناظرین ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جنتی مردوں کی بیویاں بھی جنت میں ان کے ساتھ ہی ہوں گی اور ایک ساتھ ہی جنت میں رہیں گے وہاں جنت میں انہیں ہر وہ چیز مہیا کی جائے گی جس کی وہ خواہش کریں گے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی مومن بندہ مرنے کے قریب ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا لے کر آتے ہیں اور روح سے کہتے ہیں کہ نکل جا تو اللہ سے رضامند ہے اور اللہ تجھ سے رضامند ہے اللہ تعالی کی جانب اس کے رزق کی جانب اور اپنے پروردگار کی جانب جو کہ غضبناک نہیں ہے پھر وہ روح اس طرح معطر حالت میں نکل جاتی ہے جس طرح سے عمدہ خوشبودار مشک اور فرشتے ہاتھ پر ا سے اٹھائے ہوئے آسمان کے دروازوں پر لے جاتے ہیں تو آسمان والے فرشتے کہتے ہیں کیا عمدہ خوشبو ہے جو کہ زمین سے آئی ہے پھر اس کو اہل ایمان کی ارواح کے پاس لاتے ہیں تو اروا ح خوش ہوتی ہیں اور یہ خوشی اس خوشی سے بھی زیادہ ہوتی ہے جو کسی بچھڑے ہوئے کی آمد سے انسان کو میسر آتی ہے پھر وہ پہلے سے موجود مومنین اس نئے آنے والے سے دریافت کرتے ہیں کہ فلاں آدمی نے کیا کیا اور فلاں آدمی کا کیا ہوا یعنی جس شخص کو دنیا میں چھوڑ کر گئے تھے اب وہ کسی طرح کے کاموں میں مشغول ہیں اور پھر انہی میں سے چند ارواح آپس میں ایک دوسرے سے کہتی ہیں کہ ابھی ٹھہر جاؤ اور اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ دنیا کے غم میں مبتلا تھا ۔وہ پوچھتی ہے کہ کیا وہ شخص ابھی تم لوگوں کے پاس نہیں پہنچا وہ تو کب کا مر چکا تھا اس پر وہ روحیں کہتی ہیں کہ پھر وہ تو جہنم میں گیا ہوگا
محترم ناظرین پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اعمال تمہارے ان رشتہ داروں اور خاندان والوں کے سامنے جو آخرت یعنی عالم برزخ میں ہے پیش کیے جاتے ہیں اگر نیک عمل ہو تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ آپ کا فضل اور رحمت ہے بس اپنی یہ نعمت اس پر پوری کیجئے اور اس پر اس کو موت دیجئے اس طرح ان پر گنہگار شخص کا عمل بھی پیش ہوتا ہے تو کہتے ہیں اے اللہ اس کے دل میں نیکی ڈال دے جو تیری رضا اور قرب کا سبب ہو جائے مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں مختلف رشتہ دار ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہیں گے اور ان میں سے بعض کو ایک ساتھ رکھا جائے گا
سورۃ طور کی آیت نمبر 21 میں اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی تو ان کی اولاد کو ہم انہی کے ساتھ شامل کر دیں گے اور ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے بے شک اللہ تعالی مومن کی انکھوں کو جھنڈا کرنے کے لیے اس کی اولاد کو ان کے اصل مقام بلند کر کے اس کے پاس اس کے درجے میں پہنچا دیں گے اگرچہ یہ اولاد اپنے اعمال کے اعتبار سے اس درجے تک نہ پہنچتی ہو
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی اولاد کو اس کی خواہش کے مطابق ان کے ساتھ ہی رکھا جائے گا جو لوگ جنت میں جائیں گے تو یقینا یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اس دنیا میں نیک اعمال کیے ہوں گے جبکہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے گناہ کیے ہوں گے لیکن اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر اس دنیا میں ہی اللہ سے معافی مانگ لی ہو اور سچے دل سے توبہ استغفار کر لیا ہو تو اللہ تعالی ان کو معاف فرما کر جنت میں داخل کرے گا جہاں اللہ عزوجل ان کی ہر خواہش پوری فرما دے گا اور یقینا اس کی خواہش میں سے ایک خواہش یہ بھی ہوگی کہ دنیا میں اس سے جو بھی گناہ سرزد ہو چکے ہوں یا کوئی گناہ والے اعمال اس نے کیے ہوں تو اس سے وہ تمام اعمال بھلا دیے جائیں کیونکہ جنت امن اور سکون کی جگہ ہوگی جہاں منفی خیالات اور غضب و غصے کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور ایک مومن اور جنتی کے لیے ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی جیسے کہ
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 25 میں ارشاد باری تعالی ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے جنت کے باغ میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جب انہیں ان میں سے کسی قسم کا میوہ کھانے کو دیا جائے تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے بتایا گیا تھا اور انہیں ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔
محترم ناظرین ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے اور ان میں سے کسی کو اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے ملنے کی خواہش ہوگی تو اس کا بستر اسے اڑا کر ان کے بستروں کے برابر پہنچا دے گا اور پھر دونوں تکیہ لگا کر دنیا میں گزرے ہوئے دنوں کے بارے میں باتیں کرنے لگیں گے ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے کہے گا کہ اے فلاں تمہیں یاد ہے کہ اللہ نے فلاں دن اور فلاں فلاں جگہ پر ہماری مغفرت فرمائی تھی اس طرح کی ہم نے اللہ سے دعا کی تھی اور اللہ نے ہمیں مغفرت کا پروانہ عطا فرما دیا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک کے بارے میں متعدد احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی شگفتہ مزاج تھے اور نرمی و محبت سے اور مسکرا کر بات کیا کرتے تھے تاہم کئی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار ہنس بھی دیتے مگر یہ اس وقت ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخرت کے حالات بیان فرما رہے ہوتے تھے امام اسکلانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ کہا گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف آخرت کے امور میں ہنسا کرتے تھے اگر کوئی معاملہ دنیا سے متعلق ہوتا تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف تبسم فرمایا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ کرام کو یہ آگاہ کیا کہ روز محشر جب کسی کو جہنم سے نکال کر جنت میں بھیجا جائے گا تو اس کی حالت کیا ہوگی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس کر واقعے کا احوال بیان کیا بخاری شریف اور مسلم شریف میں یہ متفق علیہ حدیث مبارک یوں بیان کی گئی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سب سے آخر میں جہنم سے کون نکالا جائے گا یا سب سے آخر میں کون جنت کے اندر داخل ہوگا یہ آدمی اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا جہنم سے باہر نکلے گا چنانچہ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا جا جنت میں داخل ہو جا وہ جنت میں داخل ہوگا تو ا سے گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے چنانچہ وہ واپس لوٹ کرعرض گزار ہوگا۔
اے رب وہ تو بھری ہوئی ہے بس اللہ تعالی اس سے فرمائے گا جا جنت میں چلا جا لہذا وہ جنت میں داخل ہوگا جنت میں جا کر پھر گمان گزرے گا کہ شاید یہ بھری ہوئی ہے پس وہ واپس لوٹ کر پھر عرض کرے گا اے رب میں نے تو وہ بھری ہوئی پائی ہے چنانچہ اللہ تعالی اس سے فرمائے گا جا اور جنت میں داخل ہو کیونکہ تیرے لیے جنت میں دنیا کے برابر بلکہ اس سے دس گنا زیادہ حصہ ہے یا فرمایا تیرے لیے 10 دنیاؤں کے برابر حصہ ہے وہ عرض کرے گا اے اللہ کیا مجھ سے مذاق کرتا ہے یا مجھ پر ہنستا ہے حالانکہ تو حقیقی مالک ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک نظر آنے لگے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے یہ اہل جنت کے سب سے کم درجے والے شخص کا حال ہے حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی سب سے آخر میں جنت میں داخل ہوگا وہ گرتا، بڑھتا اور گھسیٹتا ہوا دوزخ سے اس حال میں نکلے گا کہ دوزخ کی آگ اسے جلا رہی ہوگی پھر دوزخ سے نکل جائے گا تو پھر دوزخ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور دوزخ سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی اور اللہ تعالی نے مجھے وہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ اولین و آخرین میں سے کسی کو بھی وہ نعمت عطا نہیں فرمائی پھر اس کے لیے ایک درخت بلند کیا جائے گا وہ آدمی کہے گا کہ اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب کر دیجئے تاکہ میں اس کے سائے کو حاصل کر سکوں اور اس کے پھلوں سے پانی پیو اللہ تعالی فرمائیں گے اے ابن آدم اگر میں تجھے یہ دے دوں تو پھر اس کے علاوہ اور کچھ تو نہیں مانگے گا عرض کرنےلگا کہ نہیں اے میرے پروردگار اللہ تعالی اس سے اس کے علاوہ اور نہ مانگنے کا معاہدہ فرمائیں گے اور اللہ تعالی اس کا عذرقبول فرمائیں گے کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھ چکا ہوگا کہ جس پر اسے صبر نہ ہوگا۔
اللہ تعالی اسے اس درخت کے قریب کر دیں گے وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور اس کی پھلوں کے پانی سے پیاس بجھائے گا پھر اس کے لیے ایک اور درخت ظاہر کیا جائے گا جو پہلے درخت سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی عرض کرے گا اے میرے پروردگار مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجئے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پیوں اور اس کے بعد میں اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ فرمائیں گے۔
اے ابن آدم کہ تونے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو مجھ سے اور کوئی سوال نہیں کرے گا اور اب اگر تجھے اس درخت کے قریب پہنچا دیا تو پھر تو اور سوال کرے گا اللہ تعالی پھر اس سے اس بات کا وعدہ لیں گے کہ وہ اور کوئی سوال نہیں کرے گا تا ہم اللہ تعالی کے علم میں وہ معذور ہوگا کیونکہ وہ ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہ کر سکے گا۔
پھر اللہ تعالی اس کو درخت کے قریب کر دیں گے اور اس کے سایہ میں آرام کرے گا اور اس کا پانی پیے گا پھر اسے جنت کے دروازے پر ایک درخت دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہوگا وہ آدمی کہے گا اے میرے رب مجھے اس درخت کے قریب فرما دیجیے تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کروں اور پھر اس کا پانی پیوں اور اس کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا پھر اللہ تعالی اس آدمی سے فرمائیں گے اے ابن آدم کیا تو نے مجھ سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ تو اس کے بعد اور کوئی سوال نہیں کرے گاا ورکہے گا ہاں اے میرے پروردگار اب میں اس کے بعد اس کے علاوہ اور کوئی سوال نہیں کروں گا اللہ اسے معذور سمجھیں گے کیونکہ وہ جنت کی ایسی ایسی نعمتیں دیکھے گا کہ جس پر وہ صبر نہیں کر سکے گا پھر اللہ تعالی اسے اس درخت کے قریب کر دیں گے جب وہ اس درخت کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آواز یں سنے گا تو وہ پھر عرض کرے گا اے میرے رب مجھے اس میں داخل کر دے تو اللہ فرمائیں گے اے ابن آدم تیرے سوال کو کون سی چیز روک سکتی ہے کہ تو اس پر راضی ہے کہ تجھے دنیا اور دنیا کے برابر دے دیا جائے وہ کہے گا اے رب اے رب العالمین تو مجھ سے مذاق کرتا ہے یہ حدیث بیان کر کے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہنس پڑے اور لوگوں سے فرمایا کہ تم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا لوگوں نے کہا کہ آپ کس وجہ سے ہنسے
فرمایا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح ہنستے تھے فرمایا اللہ رب العالمین کے ہنسنے کی وجہ سے جب وہ آدمی کہے گا کہ آپ رب العالمین ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق فرما رہے ہیں تو اللہ فرمائیں گے کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا مگر جو چاہوں کرنے پر قادر ہوں ۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اس دنیا کی ازمائش میں کامیاب و کامران فرما کر جنت میں داخل فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے آمین ۔