70 Saal Kay Boodhay Baap Na Apni Baiti Sa Shadi Kar Li | Baap Baiti Ki Shadi Ka Waqia

ناظرین اج ہم اپ کو ایک سچا اور عبرت ناک واقعہ سنانے والے ہیں جو ایک معصوم بچی کے ساتھ پیش آیا اوراس واقعے کی گواہ ایک ماں ہے جب ایک بدبخت باپ نے اپنی ہی بیٹی سے شادی کر لی پھر اس باپ پر اللہ تعالی کا عذاب کیسے نازل ہوا دل تھام کر یہ واقعہ سنیے گا رونگٹے کھڑے کر دینے والا یہ واقعہ ہے

ناظرین ایک باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ کیسا رشتہ ہوتا ہے یہ سب جانتے ہیں باپ بیٹی کا محافظ ہوتا ہے پر ہوتے ہیں نا کچھ بد نصیب باپ جو اپنی بیٹی کی بھی عزت نہیں کرتے یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں بلکہ سچا واقعہ ہے ایک ماں اس واقعے کو سناتے ہوئے کہتی ہے کہ ملک شام میں ہمارا خاندان اباد تھا میرے ماں باپ نے میری اچھے گھر شادی کی کار ایکسیڈنٹ حادثے میں میرا شوہر دنیا سے چلا گیا میرے ماں باپ بھی مر چکے تھے میں بالکل بے سہارا تھی بھائیوں پر بوجھ تھی میری ایک بیٹی تھی میرے بھائیوں اور بھابیوں نے مل کر ایک شرابی ادمی سے پیسے لے کر میرا رشتہ طے کر دیا یعنی کہ مجھے بیچ ہی دیا میں صبر شکر کر کے اس کے ساتھ چل دی وہ میری عمر سے کافی بڑی عمر کا انسان تھا میں نے سوچا سکھ تو ملے گا میری بیٹی کی زندگی تو سنورے گی اس کا ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں ہم دونوں میاں بیوی اور ہماری اکلوتی بیٹی رہا کرتی تھی شروع شروع میں تو وہ میری بیٹی کو اپنی ہی بیٹی مانتا کیونکہ میری بیٹی نے پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو نہیں دیکھا تھا جب سے ہوش سنبھالا وہ اسی کو اپنا باپ کہنے لگی میں جب حمل سے تھی تب بہت عبادت کرتی تھی صابر اور شاکر بھی تھی اس لیے میری بیٹی میں بھی وہ سارے گن تھے وہ بھی میری طرح عبادت گزار تھی میری بیٹی نے کبھی گناہ کی طرف قدم نہیں اٹھائے تھے بلکہ وہ ایک فرمانبردار بیٹی تھی میرا شوہر اور میری بیٹی کا باپ کوئی اچھا انسان نہیں تھا وہ شرابی جواری اور زانی تھا وہ گھر جب بھی اتا نشے میں دھند ہوتا کبھی بیٹی کو مارتا کبھی میری دھلائی کر دیتا میری کم سن بیٹی صابر و شاکر تھی وہ بس اللہ پاک سے دعا کر تی کہ یا اللہ میرے باپ کو ہدایت دے دے وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی اور میں دوسروں کے گھروں میں برتن دھو کر اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پال رہی تھی کیونکہ میرا شوہر نہ تو میری نہ میری بیٹی کی ذمہ داری اٹھاتا تھا وہ کماتا ہی نہیں تھا میری بیٹی سارا دن گھر سنبھالتی اور میں باہر کے کام کرتی لیکن اس میں ایک بری بات یہ بھی تھی کہ جو کچھ بھی میں کما کر گھر لے جاتی تو وہ میرا شراب بھی شوہر مجھ سے چھین لیتا اور کہتا کہ اس پر میرا حق ہے تو جا اور کما کر لا یہی تیرا کام ہے میری بیٹی گھر پر کام کرتی رہتی وہ بیٹی کو گھور گھور کر دیکھتا رہتا وہ خود تو 70 سال کا بوڑھا تھا لیکن اپنی بیٹی پر گندی نظر رکھتا تھا

وہ بہت خوبصورت تھی لیکن باحیا اور پاکیزہ تھی نہ ہی وہ گھر سے باہر جاتی تھی اور نہ ہی دروازے پر کھڑے ہو کر کسی کو گھرتی تھی وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی اللہ کی نیک بندی تھی باپ اس کو ایسے دیکھتا جیسے اس کو کھا جائے گا جب اس کو باپ کی شیطانی نظروں سے خوف اتا تو اللہ سے سجدے میں گر کر دعا کرتی یا اللہ تو میری عزت کی حفاظت کرنا اور میں تجھے گواہ بناتی ہوں میں تو سارا دن گھر سے باہر رہتی اور لوگوں کی جھوٹے برتن صاف کرتی گھر ا کر تھک کر سو جاتی میرا شوہر پورا دن گھر سے باہر رہتا شراب پیتا جوا کھیلتا پھر گھر میں اتا تو بیٹی کو حکم دیتا کہ مجھے کھانا دے دو بیٹی سو رہی ہوتی تو وہ لات مار کر اپنا کام کرواتا جب کھا پی لیتا تو بیٹی سے پیر دبواتا وہ نیند سے بے حال ہو رہی ہوتی تھی پھر بھی اف نہ کرتی کیونکہ وہ سوچتی تھی کہ سامنے کوئی اور نہیں اس کا سگا باپ ہے باپ کے رتبے کی اس کو پہچان تھی تبھی سر جھکا کر خدمت کرتی لیکن وہ باپ نہیں ایک شیطانی سوچ والا انسان تھا ایک ایسا شخص تھا جس کو کسی رشتے کی تمیز نہیں تھی میں بھی بس اللہ تعالی سے کہتی تھی کہ میری معصوم بیٹی کی حفاظت فرمانا ایک بار کی بات ہے میں کام پر گئی تھی پیچھے سے میرا شوہر اپنے جیسے عیاش اور بگڑے ہوئے شرابی دوست کو لے کر ایا اور اتے ہی میری بیٹی کو اواز دی میری بیٹی اس دوست کے سامنے نہیں انا چاہتی تھی پر وہ باپ تھا اواز پر اواز دیے جا رہا تھا جب وہ نہیں ائی تو اٹھا اور چیخنے چلانے لگا اور اس کو گھسیٹتا ہوا اس کو مارتا ہوا باہر لے ایا اس کا دوست بھی شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا پھر باپ نے کہا کھانا دو ہمیں میری معصوم بیٹی کھانا پکانے لگی تو میرے شوہر کا دوست کہنے لگا تمہاری بیٹی تو بہت خوبصورت ہے اتنا حسین ہیرا کہاں چھپا کر رکھا تھا اس کو دیکھ کر مجھے خیال ایا کہ تم نے اسے پہلے کیوں نہیں دکھایا تو وہ کہنے لگا یہ کسی کے سامنے ہی نہیں اتی لیکن تو تو میرا دوست ہے اس لیے کھینچ کر لایا ہوں یہی تو بات ہے اسے دیکھ کر پہلی نظر میں میرے من میں خیال ایا

دیکھو تمہاری بیوی کی تو عمر ہو گئی ہے اور تم ایک ہٹے کٹے ادمی ہو اور دیکھنے میں بھی اچھے لگتے ہو جوانی کو باہر برباد کیوں کرتے ہو اگر سکون سے گھر میں رہنا چاہتے ہو تو اپنی بیٹی کو کیوں نہ اپنی بیوی بنا لو جب جوان بیوی ہوتی ہے تو ادمی کا دل گھر میں میں لگا رہ خوب عیش کرنا مزے کرنا اگر باہر جانا تو بس مجھ سے ملنا یا اپنے دوستوں سے مل کر گھر ا جانا اور گھر میں تمہاری جوان بیوی تمہاری خدمت کرنے کے لیے موجود ہوگی پر یہ تو میری بیٹی ہے اس سے شادی کیسے ہو سکتی ہے اور پھر میری بیوی وہ کیا کہے گی پر جیسی صحبت ہو ویسا ہی انسان کی سوچ ہو جاتی ہے شیطان کا ساتھی بھی شیطان ہی ہوتا ہے جب شیطان دوست نے اس کے دماغ میں یہ گندی سوچ ڈال دی تو میرا شوہر تو ویسے ہی بھٹکا ہوا تھا گمراہ تھا اس نے یہ نہ کہا کہ میں اس کا محرم ہوں اس کا باپ ہوں اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا وہ تو شراب کے نشے میں چور تھا اور ویسے سے بھی ہوش میں تو انسان ایسے کام نہیں کر سکتا اس کی نوجوان بیوی کے نام سے لال ٹپکنے لگی بولا بات تو ٹھیک کہتے ہو میں کیوں باہر اوارہ گردی کروں باہر رہ کر اپنی جوانی برباد کروں جبکہ خوبصورت پری گھر میں موجود ہے اور یہ محلے والے بھی کچھ نہیں کر سکیں گے وہ بہک گیا اور کہا بتاؤ کیسے کروں شادی تو اس نے کہا تمہاری بیوی تو گھر پر ہوتی نہیں بس میں قاضی لے اؤں گا اور تم اس قاضی سے کہنا کہ یتیم لڑکی ہے بے سہارا ہے کسی دوست کی تھی اور وہ مر گیا تو سہارا دینے کے لیے نکاح کر رہا ہوں تمہاری بیٹی کو ویسے بھی یہاں کوئی نہیں جانتا اس کے بعد وہ کھانا کھانے لگے لیکن میری بیٹی نے یہ سب سن لیا تھا تو تھر تھر کانپنے لگی اور جب میں گھر کام کر کے واپس ائی تو اس نے کہا ماں میرا باپ میرے ساتھ کچھ غلط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ کچھ غلط کرنے والا ہے مجھے بچا لو یہ کہہ کر ساری بات مجھے بتا دی میں ویسے ہی تھکی ہوئی تھی اور پھر مالکن نے مجھے بہت جھڑکا تھا سارے کام مجھ سے کروائے تھے میں چڑچڑی سی ہو گئی تھی اور ہم ماں باپ کا یہ اصول ہے کہ ہم بچوں کی بات سنتے ہی کب ہیں میں نے بھی اسے سمجھا دیا وہ شرابی ہے شراب پی کر ایا ہوگا اس لیے وہ بہکی بہکی باتیں کر رہا ہوگا تو فکر نہ کر وہ تیرا باپ ہے اتنا بھی نہیں گر سکتا اور یہ میری بھول تھی کہ میں نے کیسے اس شیطان کے پجاری پر یقین کیا

اگلے دن جب کام کرنے نکلی تو اس کا دوست قاضی کو سمجھا بجھا کر گھر لے ایا مولوی نے کہا کہ اس کی عمر بہت کم ہے شادی کیوں کر رہے ہو تم اسے بیٹی بنا کر بھی تو رکھ سکتے ہو اگر یہ تمہارے دوست کی بیٹی ہے اور یتیم بھی ہے اور اس کو اپنی بیٹی بنا لو باپ بن جاؤ شفقت لوٹاؤ لیکن میرے شوہر اور اس جانور دوست نے کہا مولوی اپنے کام سے کام رکھو نکاح پڑھاؤ اور جاؤ یہاں سے اور تمہیں ہم پیسے دے رہے ہیں نا اور پھر اس کے بعد اس کا باپ میری بیٹی کے پاس ایا اور بولا کہ چل تیری شادی ہے میرے ساتھ اس نے کہا ابا ایسا نہ کرو کچھ تو رحم کرو گناہ کبیرہ کر رہے ہو لیکن اس کا باپ اسے مارتا ہوا قاضی کے پاس لے گیا اور زمین ہل گئی اسمان کانپ گیا دیکھو درندگی ایک باپ نے اپنی ہی اولاد اپنی ہی بیٹی سے شادی کر لی اور وہاں کوئی روکنے والا نہیں تھا ظلم کا بازار گرم تھا ایک باپ اپنی ہی بیٹی کا شوہر بن گیا ماں نے بھی مظلوم بیٹی کی فریاد نہ سنی بیٹی دہائیاں دیتی رہی ابا نہ کرو باپ کہاں تھا شیطان تھا میرے انے سے پہلے قاضی نے نکاح پڑھا دیا تھا وہ بہت ہی غمزدہ تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس نکاح کو پڑھائے وہ شیطان اس کے بعد ہنستا ہوا میری بیٹی کا بازو پکڑا میری پری کو گھسیٹتا ہوا کمرے میں لے گیا اور تمام حدیں پار کر دی شاید میری بیٹی کی قسمت خراب تھی جب میں گھر میں داخل ہوئی تو میری بیٹی کی چلانے کی اوازیں ا رہی تھی میرے قدم وہیں جم گئے زبان بند تھی میں پتھر کی بنی کھڑی تھی میرا شوہر تھوڑی دیر کے بعد کمرے سے باہر ایا اس کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ تھی اس نے کہا ایک بات غور سے سن لو میری تمہاری بیٹی سے شادی ہو گئی ہے اور وہ میری بیٹی نہیں بلکہ میری بیوی ہے تمہیں اگر یہاں رہنا ہے تو شرافت سے رہو جس طرح کام کرتی ہو کام کرتی رہو اگر تم نے اس کے یا میرے معاملے میں بولا تو یاد رکھنا تمہیں طلاق دے دوں گا مجھے طلاق کا ڈر تو نہ تھا لیکن اس نے کہا طلاق کے علاوہ میں تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ تم کہاں گئی تمہیں زمین کھا گئی یا اسمان نگل گیا کہنے لگا میرے اور میری بیوی کے معاملے میں کچھ نہیں بولنا اس کے بعد وہ کمرے میں چلا گیا میری بیٹی کو اس نے دو دن تک میرے سامنے نہیں انے دیا وہ کس حال میں تھی مجھے نہیں پتہ اس ادمی نے اس سے شادی کرنے کے بعد اپنے حقوق استعمال کیے یہ حق تو اس کا تھا بھی نہیں کیونکہ وہ اس کا باپ تھا شوہر کیسے بن گیا اس کے بعد جب میں اس کے پاس جاتی بھی تھی تو وہ مجھے مارتا اور کہتا تو یہاں سے نکل جا ورنہ تجھے بھی مار دوں گا میں نہیں بتا سکتی کہ میں نے اپنی بیٹی کو اس جنگل سے نکالنے کی کتنی کوششیں کی میں تو کام پر بھی نہیں جانا چاہتی تھی لیکن وہ مجھے دھکے مار کر گھر سے نکال دیتا اور اس کے بعد دروازہ بند کر دیتا میں دروازہ بجاتی رہتی لیکن وہ مجھے گھر میں انے ہی نہیں دیتا تھا دو دن گزر گئی میری معصوم ننھی بیٹی وہ ظالم کی قید میں تھی اور پھر ایک دن جب میں لاچار بے بس ماں گھر میں داخل ہوئی تو مجھے اپنی بیٹی کے چلانے کی اواز ائی لیکن اب اس چلانے میں بہت کچھ تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اللہ تعالی کو پکار کر کہہ رہی ہو کہ اے رب کریم اے کائنات کے مالک تو تو دیکھ رہا ہے نا میری عزت کی محافظ نے میری عزت لوٹ لی جس کو تو نے میرے لیے میری عزت کی حفاظت کے لیے بنایا اس نے تو میری دنیا ہی اجاڑ دی یہی میری عزت کا لٹیرا نکلا میں نے تو اپنے سگے باپ کو دیکھا بھی نہیں تھا جب سے ہوش سنبھالا اسی کو باپ مانا اے رب کریم زلزلہ کیوں نہ ایا زمین کیوں نہ پھٹی اج تیری بندی لٹ گئی میں تجھ کو گواہ بنا کر اج اس بدبخت باپ کو بددعا دیتی ہوں کہ میرے باپ پر ایسا عذاب نازل کرنا کہ یہ تڑپ تڑپ کر مرے یہ تیرا تو نافرمان تھا ہی حرام کاری تو کرتا ہی تھا پر اج اپنی بیٹی سے شادی کر کے مسلمان ہونے کا حق بھی کھو دیا اے اللہ تو میرا ضامن ہے گواہ رہنا میرے گھر کے در و دیوار ہل رہے تھے میں سب سن رہی تھی مجھے تو جیسے کسی نے پتھر کا بنا دیا ہو پھر مجھے ہوش ایا میں چیختی سے ہی کمرے میں ائی پر تب تک میری لاڈلی میری جان دنیا سے چلی گئی تھی اس کے بعد کے گناہ نے اسے کھا لیا تھا میں نے نفرت سے اس شیطان کو دیکھا جو مجھے دیکھ رہا تھا منہ سے کچھ نہیں نکل رہا تھا اپنا کام دکھا چکا تھا درندگی نکال چکا تھا پر اب کیا کر سکتی تھی کچھ دیر کی لذت اور کچھ دیر کے مزے کے لیے اس نے تو سب برباد کر دیا میں اس کا گریبان پکڑ کر کہنے لگی ظالم انسان وحشی ادمی تو نے کیا کر دیا اس کو وہیں دھکا دے کر اپنی لاڈوں کے پاس ائی میں تڑپ گئی تھی کیونکہ میری جان اب دنیا میں نہیں تھی اور میرا شوہر نشے میں ڈوبا ہوا اپنی درندگی اپنی ہوس نکال چکا تھا میرا بھی دم نکل جاتا اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر باہر لائی اور اس پر چادر اڑائی کس دل سے میں نے اس کے کفن دفن کا انتظام کروایا یہ ایک ماں کا دل ہی جاتا ہے جب اس کو دفن کیا جا رہا تھا لوگ بتاتے ہیں کہ تیری بیٹی کا تو چاند سا چہرہ تھا اور جنت کے راستے جا رہی تھی وہاں کے لوگوں نے مجھے بتایا کہ اپ کی بیٹی بہت پاکیزہ تھی میرا دل کر رہا تھا کہ میں اس ادمی کا گلا دبا کر مار دوں میں واپس گھر ائی اور اج اس شرابی سے سارے رشتے ختم کرنا چاہتی تھی اور جیسے ہی اس کے کمرے میں ائی ایک عبرت ناک ہولناک منظر دیکھا وہ انسان نہیں تھا وہ کتے کی شکل کا ہو گیا تھا اوپر کے جسم کا حصہ کتے کا اور نیچے کا انسان کا تھا وہ مجھے دیکھنے لگا اور اب میں اس کی کیا مدد کرتی قدرت کا تو عذاب ا ہی چکا تھا اللہ پاک نے اسے کتا بنا دیا تھا کیونکہ میری بیٹی نے اپنے اللہ کو گواہ بنایا تو قدرت کیسے اس کی بات کو ٹھکراتی میری پاکیزہ باحیا بیٹی جنت میں چلی گئی اور اس کا باپ دنیا میں اب عذاب جیل رہا تھا اس کے نیچے کا حصہ اب مفلوج ہونا شروع ہو گیا وہ اپاہج ہو گیا تھا اس جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا تھا جس جگہ بیٹھا ہوا تھا جس جگہ میری بیٹی مری تھی جہاں پر اس نے اس کی عزت کا سودا کیا تھا اس دن سے وہ وہیں بیٹھا تھا ہل بھی نہیں پا رہا تھا نیچے کا حصہ پتھر کا بن گیا اور اوپر کا حصہ کتے کی شکل کا تھا پھر انصاف ہوا میری بیٹی کو انصاف مل گیا لیکن جس طرح سے وہ دنیا سے گئی یہ بات مجھے اب بھی برداشت نہیں ہوتی میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا اور میں دن گن رہی تھی کہ کس طرح میں بھی اس کے پاس چلی جاؤں ایک انسان نے ایک باپ نے میری بیٹی کی زندگی تباہ کر دی بے شک انسان اگر گناہ کرے تو اسے دنیا میں ہی اس کے گناہ کی سزا ضرور ملتی ہے لیکن انسان سمجھتا نہیں اللہ تعالی ہم سب کو ایسی درندگی سے بچائے اور پکا اور سچا مسلمان بنائے امین یا رب العالمین 

Leave a Comment